تشریح:
فوائد و مسائل:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مدینہ میں رہنے والے صحابہ مخابرہ (بٹائی) پر زمین دیتے تھے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سے منع نہیں فرمایا۔ پھر رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے اپنے پڑوسی سے سنی ہوئی ممانعت اجمالاً بیان کی تو ورع و تقویٰ کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ معاملہ چھوڑ دیا۔ لیکن اگلی روایات میں واضح ہو گا کہ اجل صحابہ سمجھتے تھے کہ حضرت رافع رضی اللہ عنہ نے یا تو پوری بات اچھی طرح نہیں سمجھی یا ادھوری بات سن کر بیان کی ہے۔ حقیقت یہ تھی کہ انہوں نے اکثر مواقع پر بٹائی کی جاہلی دور میں رائج صورتوں کے حوالے سے اجمالاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بیان کیا۔ جو صورتیں اسلام میں رائج ہوئیں وہ ممنوع نہ تھیں۔ جس موقع پر انہوں نے تفصیل بیان کی (حدیث: 3945، 3951، 3954) تو معمالہ واضح ہو گیا۔ جن صحابہ نے جواز کا فتویٰ دیا انہوں نے اسلام میں رائج کردہ صورتوں (نقد کے عوض کرائے پر دینا یا خرچ میں شامل ہو کر یا خیر کے طریقے پر پیداوار کا حصہ دار بننا وغیرہ) کے جواز کی بات کی۔ عدمِ جواز کی بات کرنے والوں نے جاہلی دور کی غیر منصفانہ صورتوں کو ناجائز قرار دیا۔