تشریح:
فوائدومسائل:
یہاں اس موقع پر حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے اس صورت کی تفصیل بیان کی ہے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ پیداوار کے ایک حصے کے علاوہ غلے کی ایک متعین مقدار بھی زمین لینے والے کو دینی پڑتی تھی۔ یہ واضح طور پر سود کی بھی ایک صورت تھی کہ پیداوار جتنی بھی ہو کم یا زیادہ، زمین کا مالک اپنے حصے کے علاوہ غلے کی متعین مقدار بھی وصول کرے۔ اس وقت رائج بٹائی کے طریقوں میں اس طرح کی بہت سی غیر منصفانہ شرائط موجود تھیں۔ ابتدا میں لوگوں کے لیے وضاحت سے اس بات کا علم رکھنا کہ کس طرح کی شرائط ممنوع ہیں، آسان نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مخدوش صورتوں پر بٹائی سے منع فرما دیا، بلکہ کہا کہ اس سے یہ بہتر ہے کہ خود زراعت کرو، یا احسان کرتے ہوئے کسی مسلمان بھائی کو فائدہ پہنچاؤ۔ یہ دونوں سادہ اور منفعت بخش طریقے تھے۔ دوسرے طریقے کی منفعت حقیقی اور بہت زیادہ تھی۔ یہ بھی اختیار دیا کہ غلط طریقے سے دینے کی بجائے بہتر ہے کہ کاشت ہی نہ کرو زمین کو خالی چھوڑ دو۔ جب پرانے غیر منصفانہ طریقوں کا خاتمہ ہو گیا تو آپ نے اور دیگر صحابہ نے منصفانہ طریقے اختیار کیے۔ اگلی احادیث، مثلا: (حدیث: 3949) میں بھی وہ تفصیلات بیان ہوئیں ہیں جو جاہلی دور میں انصار کے ہاں بٹائی میں رائج تھیں۔ ان سے پتہ چلتا ہے کہ ممانعت کن باتوں کی بنا پر تھی۔