کتاب: سیرابی کے عوض پیدوار میں حصہ داری اور مزارعت
(
باب: شجر کاری اور کاشت کاری کی فضیلت
)
Muslim:
The Book of Musaqah
(Chapter: The Virtue of Planting and Cultivating)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1552.
عطاء نے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی بھی مسلمان (جو) درخت لگاتا ہے، اس میں سے جو بھی کھایا جائے وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے، اور اس میں سے جو چوری کیا جائے وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے اور جنگلی جانور اس میں سے جو کھا جائیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے اور جو پرندے کھا جائیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے اور کوئی اس میں (کسی طرح کی) کمی نہیں کرتا مگر وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔‘‘
یہ حقیقت میں کتاب البیوع ہی کا تسلسل ہے۔کتاب البیوع کے آخری حصے میں زمین کو بٹائی پر دینے کی مختلف جائز اور نا جائز یا مختلف فیہ صورتوں کا ذکر تھا مساقات (سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری)اور مزارعت کا معاملہ امام ابوحنیفہ اور زفرکے علاوہ تمام فقہاء کے ہاں جائز ہے یہی معاملہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح کے بعد خود یہود کے ساتھ کیا اس حوالے سے اما م ابو حنیفہ اور زفر کے نقط نظر کو ان کے اپنے اہم ترین شاگرد وں امام ابو یوسف اور امام محمد نے قبول نہیں کیایہ معاہدہ درختوں،ملحقہ کھیتوں ،مالکان اور نگہداشت کرنے والوں تمام کے مفادات کو محفوظ رکھنے کا ضامن ہے مساقات اور مزارعت کے لیے مخصوص باب کے بعد درخت لگانے اور زراعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اسی پر انسان کے رزق اور اس کی فلاح کا سب سے زیادہ انحصار ہے زمین پر محنت اور پیدا وار کے اشتراک کے انتہائی منصفانہ معاہدوں کی تمام صورتوں میں جنھیں اسلام نے رائج کیا ہے انصاف کے تمام تر تقاضے ملحوظ رکھنے کے باوجود نا گہانی مسئلہ یہ پید ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر متوقع قدرتی آفت پیداوار کو تباہ کر دے ۔ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے ایسے نقصان کے بعد حصے کا مطالبہ ساقط ہو جاتا ہے جب کسی قدرتی آفت کی بنا پر پھل حاصل ہی نہیں ہوا تو مطالبہ کس بنیاد پر؟اس کے ساتھ ہی تجارتی لین دین کی صورت میں جبکہ قبضہ اور ملکیت دوسرے فریق کو منتقل ہو چکی ہو اور ادائیگی باقی ہو تو کسی نقصان کی صورت میں مہلت اور اگر ممکن ہوتو تخفیف کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تفلیس (قرض ادا کرنے کی صلاحیت کے فقدان)کے حوالے سے طریقہ کا ر واضح کیا گیا ہے دوسری طرف جس کے پاس ادائیگی کی صلاحیت موجود ہو اس کی طرف سے لیت و لعل کو ظلم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
اب تک لین دین کے معاہدوں کا ذکر تھا اس کے بعد ان چیزوں کا بیان ہے جن کی تجارت ممنوع ہے وہ غصب کی ہوئی چیزیں یا ایسی خدمات یا اشیاء ہیں جو حرام ہیں ،مثلاً:ناپاک جانور،جیسے کتے وغیرہ کو پالنا یا نشہ آور اشیاء مثلا شراب وغیرہ کو استعمال کرنا۔ پھر ان اشیاء کے لین دین میں جو بالکل حلال ہیں ان صورتوں کا ذکر ہے جن میں سود شامل ہو جاتا ہے یہ ربالفضل ہے ۔ایک ہی جنس کا اسی جنس سے کمی پیشی کے ساتھ تبادلہ ،ملتی جلتی اشیاء کا ادھار تبادلہ ،مثلا سونے چاندی کا،گندم اور جَو کا لین دین جس میں ایک چیز ادھار ہو یاد رہے کہ ایسی اشیاء کی قیمتوں میں موسم کے ساتھ یا مطقاً وقت اور تجارتی حالات کی بنا پر بہت جلد فرق پڑتا ہے اگرچہ قیمت(سونے ،چاندی یا سکے یا کرنسی نوٹ وغیرہ)کے ساتھ اشیاء کے تبادلے میں ادھار لین دین کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ اگر اقتصادی معاملات انصاف کے ساتھ چلائے جائیں تو نقدی کی قیمت زیادہ عرصے تک مستحکم رہتی ہے ،دوسرا سبب یہ کہ نقدی کے عوض ادھار خریدو فروخت کے بغیر تجارتی معاملات چلنے ممکن نہیں تجارت کے جاری رہنے ہی سے انسانوں کے بنیادی اقتصادی مفادات حاصل بھی ہوتے ہے اور محفوظ رہتے ہیں ۔حیوانات کی بیع اجناس اور اشیاء کی بیع سے مختلف ہے بدوی معاشروں میں ان کا لین دین بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مویشی کو خود نقدی سے ملتی جلتی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ ان کے لین دین کو آسان بنانے کے لیے اس میں جن مراعات کی ضرورت تھی ،اسلام نے ان مراعات کا ت اہتمام کیا ہے پھر تجارتی لین دین کے معاہدوں میں رہن کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بیع سلم یا سلف کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے،پھر ذخیرہ اندوزی کی ممانعت بیان ہوئی ہے پھر شفعہ کے مسائل ہیں کہ لین دین اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن ایک چیز میں شراکت رکھنے والے کا پہلا حق ہے کہ وہ بازار کی قیمت پر اس چیز کا باقی حصہ خیرید سکے۔ آخر میں زمین یا جائیداد کے حوالے سے حسن سلوک،کسی کی زمین دبانے کی ممانعت اور اختلاف کی صورت میں مشترکہ راستے کی چوڑائی متعین کرنے کے حوالے سے شریعت کے حکم کا بیان ہے۔
عطاء نے حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی بھی مسلمان (جو) درخت لگاتا ہے، اس میں سے جو بھی کھایا جائے وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے، اور اس میں سے جو چوری کیا جائے وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے اور جنگلی جانور اس میں سے جو کھا جائیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے اور جو پرندے کھا جائیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے اور کوئی اس میں (کسی طرح کی) کمی نہیں کرتا مگر وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو مسلمان بھی کوئی پودا اُگاتا ہے، تو اس پھل دار درخت سے جو کچھ کھایا جاتا ہے، وہ اس کے لیے صدقہ بن جاتا ہے اور اس سے جو کچھ چوری کیا جاتا ہے، وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے، اور اس سے جو درندے کھاتے ہیں، وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے، اور جو پرندے کھائیں، وہ بھی صدقہ ہے، جو چیز یا فرد بھی اس میں کمی کرے گا، وہ اس کے لیے صدقہ ہی بنے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
لا يرزؤه:اس میں کمی نہیں کرے گا، اس سے نہیں لے گا۔
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر وہ کام یا عمل جو دوسروں کے لیے نفع اور خیر کا سبب یا باعث بنتا ہے، اور دوسرے لوگ اس سے، اس کی اجازت یا مرضی کے بغیر فائدہ اٹھاتےہیں، اور وہ ان کو برا بھلا نہیں کہتا، تو ان کا اس کے کام یا عمل سے فائدہ اٹھانا اس کے لیے اجرو ثواب کا باعث بنتا ہے، اگر کوئی انسان اپنے لیے پھل دار درخت لگاتا ہے، یا کھیتی باڑی کرتا ہے، تو اس کے درختوں اور اس کی کھیتی پر اس کی مرضی کے علی الرغم، انسان، حیوان، درندے، اور پرندے فائدہ اٹھاتےہیں، تو یہ اس کے لیے ثواب کا باعث ہے، اس لیے شجر کاری اور کاشتکاری باعث فضیلت ہے، بشرطیکہ ان کاموں میں مشغول اور مصروف ہو کر انسان اپنے دینی فرائض وواجبات سے غافل نہ ہو جائے یا ان کاموں میں دلچسپی حد سے نہ بڑھ جائے، جس کی بنا پر امور دین سے دلچسپی کم ہو جائے، اور تمام دنیوی مشاغل ومصروفیات کا یہی حکم ہے، کہ اگر ان میں لگ کر انسان اپنے دینی فرائض وواجبات سے غافل نہیں ہوتا، ان میں بقدر ضرورت دلچسپی لیتا ہے تو یہ مشغلہ اور مصروفیت اس کے لیے اجروثواب کا باعث ہے، اس بنا پر اس میں اختلاف ہے، کہ کون سا مشغلہ اور عمل انسان کے لیے سب سے بہتر اور افضل ہے، بعض کے نزدیک کمائی یا کسب کا سب سے بہتر ذریعہ زراعت کاشتکاری ہے، بعض کے نزدیک دستکاری صنعت وحرفت ہے، جس میں ہاتھ سے زیادہ محنت کی جاتی ہے، وگرنہ ہاتھ تو ہر جگہ ہی استعمال ہوتا ہے، بعض نے تجارت کو افضل قرار دیا ہے، آپﷺ سے سوال ہوا تھا کہ سب سے افضل کسب یا پاکیزہ ترین کسب کون سا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’انسان کا ہاتھ سے کام کرنا اور جائز طریقہ سے خریدوفروخت کرنا۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ افضلیت کا مداروانحصار، اس عمل کے نفع اور فائدہ سے ہے، جس کام میں بھی دوسروں کا نفع اور فائدہ زیادہ ہے، یا جس میں لوگوں کی ہمدردی اور خیر خواہی زیادہ ہے، وہی افضلیت کا باعث ہے، کیونکہ کوئی کام ایسا نہیں ہے جس سے لوگ بے نیاز اور مستغنی ہو سکیں، زراعت ہو یا تجارت، صنعت وحرفت ہو یا ملازمت، اس لیے مختلف احادیث میں ان کے نفع کا تناسب بدل سکتا ہے، اس اعتبار سے محل فضلیت بھی بدل جائے گا، غلہ کی کمی کے دنوں میں غلہ اگانا اور اس کے لیے آلات زراعت تیار کرنا، جنگ کے دنوں میں جنگی سازوسامان تیار کرنا، عام استعمال یا روزمرہ کے استعمال کی اشیاء کی کمی کے دنوں میں ان کی ترسیل اور فراہمی کا کاروبار کرنا، سب اپنے اپنے موقع پر افضل ہیں، اس طرح نظم ونسق میں بد انتظامی کو رد کرنے یا امن وامان قائم کرنے کے لیے یا تعلیمی معیار کو بلند اور اعلی وارفع کرنے کے لیے ان میں دلچسپی لینا افضل ہو گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: Never a Muslim plants a tree, but he has the reward of charity for him, for what is eaten out of that is charity; what is stolen out of that, what the beasts eat out of that, what the birds eat out of that is charity for him. (In short) none incurs a los! k to him but it becomes a charity on his part.