کتاب: سیرابی کے عوض پیدوار میں حصہ داری اور مزارعت
(
باب: تنگ دست کو مہلت دینے ئاور خوشحال اور نادار (دونوں )سے تقاضے میں رعایت کی فضیلت
)
Muslim:
The Book of Musaqah
(Chapter: The virute of giving more time to one who is suffering difficulty, and letting those go who are suffering difficulty and those who are well off)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1561.
شقیق نے حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کا حساب لیا گیا تو اس کی کوئی نیکی نہ ملی، سوائے یہ کہ وہ لوگوں سے معاملات کرتا تھا اور وہ مالدار آدمی تھا۔ تو وہ اپنے خادموں کو حکم دیتا تھا کہ وہ تنگ دست سے در گزر کریں۔ کہا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہم اس کی نسبت اس کا زیادہ حق رکھتے ہیں، تم بھی اس سے درگزر کرو۔‘‘
یہ حقیقت میں کتاب البیوع ہی کا تسلسل ہے۔کتاب البیوع کے آخری حصے میں زمین کو بٹائی پر دینے کی مختلف جائز اور نا جائز یا مختلف فیہ صورتوں کا ذکر تھا مساقات (سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری)اور مزارعت کا معاملہ امام ابوحنیفہ اور زفرکے علاوہ تمام فقہاء کے ہاں جائز ہے یہی معاملہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح کے بعد خود یہود کے ساتھ کیا اس حوالے سے اما م ابو حنیفہ اور زفر کے نقط نظر کو ان کے اپنے اہم ترین شاگرد وں امام ابو یوسف اور امام محمد نے قبول نہیں کیایہ معاہدہ درختوں،ملحقہ کھیتوں ،مالکان اور نگہداشت کرنے والوں تمام کے مفادات کو محفوظ رکھنے کا ضامن ہے مساقات اور مزارعت کے لیے مخصوص باب کے بعد درخت لگانے اور زراعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اسی پر انسان کے رزق اور اس کی فلاح کا سب سے زیادہ انحصار ہے زمین پر محنت اور پیدا وار کے اشتراک کے انتہائی منصفانہ معاہدوں کی تمام صورتوں میں جنھیں اسلام نے رائج کیا ہے انصاف کے تمام تر تقاضے ملحوظ رکھنے کے باوجود نا گہانی مسئلہ یہ پید ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر متوقع قدرتی آفت پیداوار کو تباہ کر دے ۔ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے ایسے نقصان کے بعد حصے کا مطالبہ ساقط ہو جاتا ہے جب کسی قدرتی آفت کی بنا پر پھل حاصل ہی نہیں ہوا تو مطالبہ کس بنیاد پر؟اس کے ساتھ ہی تجارتی لین دین کی صورت میں جبکہ قبضہ اور ملکیت دوسرے فریق کو منتقل ہو چکی ہو اور ادائیگی باقی ہو تو کسی نقصان کی صورت میں مہلت اور اگر ممکن ہوتو تخفیف کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تفلیس (قرض ادا کرنے کی صلاحیت کے فقدان)کے حوالے سے طریقہ کا ر واضح کیا گیا ہے دوسری طرف جس کے پاس ادائیگی کی صلاحیت موجود ہو اس کی طرف سے لیت و لعل کو ظلم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
اب تک لین دین کے معاہدوں کا ذکر تھا اس کے بعد ان چیزوں کا بیان ہے جن کی تجارت ممنوع ہے وہ غصب کی ہوئی چیزیں یا ایسی خدمات یا اشیاء ہیں جو حرام ہیں ،مثلاً:ناپاک جانور،جیسے کتے وغیرہ کو پالنا یا نشہ آور اشیاء مثلا شراب وغیرہ کو استعمال کرنا۔ پھر ان اشیاء کے لین دین میں جو بالکل حلال ہیں ان صورتوں کا ذکر ہے جن میں سود شامل ہو جاتا ہے یہ ربالفضل ہے ۔ایک ہی جنس کا اسی جنس سے کمی پیشی کے ساتھ تبادلہ ،ملتی جلتی اشیاء کا ادھار تبادلہ ،مثلا سونے چاندی کا،گندم اور جَو کا لین دین جس میں ایک چیز ادھار ہو یاد رہے کہ ایسی اشیاء کی قیمتوں میں موسم کے ساتھ یا مطقاً وقت اور تجارتی حالات کی بنا پر بہت جلد فرق پڑتا ہے اگرچہ قیمت(سونے ،چاندی یا سکے یا کرنسی نوٹ وغیرہ)کے ساتھ اشیاء کے تبادلے میں ادھار لین دین کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ اگر اقتصادی معاملات انصاف کے ساتھ چلائے جائیں تو نقدی کی قیمت زیادہ عرصے تک مستحکم رہتی ہے ،دوسرا سبب یہ کہ نقدی کے عوض ادھار خریدو فروخت کے بغیر تجارتی معاملات چلنے ممکن نہیں تجارت کے جاری رہنے ہی سے انسانوں کے بنیادی اقتصادی مفادات حاصل بھی ہوتے ہے اور محفوظ رہتے ہیں ۔حیوانات کی بیع اجناس اور اشیاء کی بیع سے مختلف ہے بدوی معاشروں میں ان کا لین دین بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مویشی کو خود نقدی سے ملتی جلتی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ ان کے لین دین کو آسان بنانے کے لیے اس میں جن مراعات کی ضرورت تھی ،اسلام نے ان مراعات کا ت اہتمام کیا ہے پھر تجارتی لین دین کے معاہدوں میں رہن کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بیع سلم یا سلف کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے،پھر ذخیرہ اندوزی کی ممانعت بیان ہوئی ہے پھر شفعہ کے مسائل ہیں کہ لین دین اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن ایک چیز میں شراکت رکھنے والے کا پہلا حق ہے کہ وہ بازار کی قیمت پر اس چیز کا باقی حصہ خیرید سکے۔ آخر میں زمین یا جائیداد کے حوالے سے حسن سلوک،کسی کی زمین دبانے کی ممانعت اور اختلاف کی صورت میں مشترکہ راستے کی چوڑائی متعین کرنے کے حوالے سے شریعت کے حکم کا بیان ہے۔
شقیق نے حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کا حساب لیا گیا تو اس کی کوئی نیکی نہ ملی، سوائے یہ کہ وہ لوگوں سے معاملات کرتا تھا اور وہ مالدار آدمی تھا۔ تو وہ اپنے خادموں کو حکم دیتا تھا کہ وہ تنگ دست سے در گزر کریں۔ کہا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہم اس کی نسبت اس کا زیادہ حق رکھتے ہیں، تم بھی اس سے درگزر کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کا محاسبہ کیا گیا، تو اس کے پاس کوئی نیکی نہ پائی گئی، سوائے اس کے کہ وہ لوگوں کے ساتھ گھل مل کر رہتا تھا اور مالدار تھا، اور اپنے نوکروں کو یہ ہدایت دیتا تھا کہ وہ تنگدست سے درگزر کریں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ہم درگزر کرنے کے اس سے زیادہ حقدار ہیں، اس سے درگزر کرو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
لم يوجد له من الخير شئي: میں الخير سے مراد اعمال صالحہ ہیں، ایسے وہ ایمان دار تھا، کیونکہ ایمان کے بغیر معافی ممکن نہیں ہے اور نہ کوئی عمل اس کے بغیر نجات کا باعث بن سکتاہے، جیسا کے اگلی روایت میں آرہا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Mas'ud (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: A person from people who lived before you was called to account (by Allah at the Day of Judgment) and no good was found in his account except this that lie being a rich man had (financial) dealings with people and had commanded his servants to show leniency to the straitened ones. Upon this Allah, the Exalted and Majestic, said: We have more right to this, so overlook (his faults).