کتاب: سیرابی کے عوض پیدوار میں حصہ داری اور مزارعت
(
باب: تنگ دست کو مہلت دینے ئاور خوشحال اور نادار (دونوں )سے تقاضے میں رعایت کی فضیلت
)
Muslim:
The Book of Musaqah
(Chapter: The virute of giving more time to one who is suffering difficulty, and letting those go who are suffering difficulty and those who are well off)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1563.
حماد بن زید نے ہمیں ایوب سے حدیث بیان کی، انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اور انہوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے روایت کی کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ایک قرض دار کو تلاش کیا تو وہ ان سے چھپ گیا، پھر (بعد میں) انہوں نے اسے پا لیا تو اس نے کہا: میں تنگ دست ہوں۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم؟ اس نے جواب دیا: اللہ کی قسم! انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپﷺ فرما رہے تھے: ’’جسے یہ بات اچھی لگے کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن کی سختیوں سے نجات دے تو وہ تنگ دست کو سہولت دے یا اسے معاف کر دے۔‘‘
تشریح:
فوائدومسائل:
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے مسند احمد میں حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے، وہ کہتے ہیں: (سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من نفس عن غريمه ، أو محا عنه كان في ظل العرش يوم القيامة) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جس نے اپنے قرض دار کو مہلت دی یا اس سے قرض معاف کر دیا، قیامت کے دن وہ عرش کے سائے میں ہو گا۔‘‘ (مسند احمد: 5/ 308)
یہ حقیقت میں کتاب البیوع ہی کا تسلسل ہے۔کتاب البیوع کے آخری حصے میں زمین کو بٹائی پر دینے کی مختلف جائز اور نا جائز یا مختلف فیہ صورتوں کا ذکر تھا مساقات (سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری)اور مزارعت کا معاملہ امام ابوحنیفہ اور زفرکے علاوہ تمام فقہاء کے ہاں جائز ہے یہی معاملہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح کے بعد خود یہود کے ساتھ کیا اس حوالے سے اما م ابو حنیفہ اور زفر کے نقط نظر کو ان کے اپنے اہم ترین شاگرد وں امام ابو یوسف اور امام محمد نے قبول نہیں کیایہ معاہدہ درختوں،ملحقہ کھیتوں ،مالکان اور نگہداشت کرنے والوں تمام کے مفادات کو محفوظ رکھنے کا ضامن ہے مساقات اور مزارعت کے لیے مخصوص باب کے بعد درخت لگانے اور زراعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اسی پر انسان کے رزق اور اس کی فلاح کا سب سے زیادہ انحصار ہے زمین پر محنت اور پیدا وار کے اشتراک کے انتہائی منصفانہ معاہدوں کی تمام صورتوں میں جنھیں اسلام نے رائج کیا ہے انصاف کے تمام تر تقاضے ملحوظ رکھنے کے باوجود نا گہانی مسئلہ یہ پید ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر متوقع قدرتی آفت پیداوار کو تباہ کر دے ۔ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے ایسے نقصان کے بعد حصے کا مطالبہ ساقط ہو جاتا ہے جب کسی قدرتی آفت کی بنا پر پھل حاصل ہی نہیں ہوا تو مطالبہ کس بنیاد پر؟اس کے ساتھ ہی تجارتی لین دین کی صورت میں جبکہ قبضہ اور ملکیت دوسرے فریق کو منتقل ہو چکی ہو اور ادائیگی باقی ہو تو کسی نقصان کی صورت میں مہلت اور اگر ممکن ہوتو تخفیف کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تفلیس (قرض ادا کرنے کی صلاحیت کے فقدان)کے حوالے سے طریقہ کا ر واضح کیا گیا ہے دوسری طرف جس کے پاس ادائیگی کی صلاحیت موجود ہو اس کی طرف سے لیت و لعل کو ظلم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
اب تک لین دین کے معاہدوں کا ذکر تھا اس کے بعد ان چیزوں کا بیان ہے جن کی تجارت ممنوع ہے وہ غصب کی ہوئی چیزیں یا ایسی خدمات یا اشیاء ہیں جو حرام ہیں ،مثلاً:ناپاک جانور،جیسے کتے وغیرہ کو پالنا یا نشہ آور اشیاء مثلا شراب وغیرہ کو استعمال کرنا۔ پھر ان اشیاء کے لین دین میں جو بالکل حلال ہیں ان صورتوں کا ذکر ہے جن میں سود شامل ہو جاتا ہے یہ ربالفضل ہے ۔ایک ہی جنس کا اسی جنس سے کمی پیشی کے ساتھ تبادلہ ،ملتی جلتی اشیاء کا ادھار تبادلہ ،مثلا سونے چاندی کا،گندم اور جَو کا لین دین جس میں ایک چیز ادھار ہو یاد رہے کہ ایسی اشیاء کی قیمتوں میں موسم کے ساتھ یا مطقاً وقت اور تجارتی حالات کی بنا پر بہت جلد فرق پڑتا ہے اگرچہ قیمت(سونے ،چاندی یا سکے یا کرنسی نوٹ وغیرہ)کے ساتھ اشیاء کے تبادلے میں ادھار لین دین کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ اگر اقتصادی معاملات انصاف کے ساتھ چلائے جائیں تو نقدی کی قیمت زیادہ عرصے تک مستحکم رہتی ہے ،دوسرا سبب یہ کہ نقدی کے عوض ادھار خریدو فروخت کے بغیر تجارتی معاملات چلنے ممکن نہیں تجارت کے جاری رہنے ہی سے انسانوں کے بنیادی اقتصادی مفادات حاصل بھی ہوتے ہے اور محفوظ رہتے ہیں ۔حیوانات کی بیع اجناس اور اشیاء کی بیع سے مختلف ہے بدوی معاشروں میں ان کا لین دین بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مویشی کو خود نقدی سے ملتی جلتی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ ان کے لین دین کو آسان بنانے کے لیے اس میں جن مراعات کی ضرورت تھی ،اسلام نے ان مراعات کا ت اہتمام کیا ہے پھر تجارتی لین دین کے معاہدوں میں رہن کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بیع سلم یا سلف کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے،پھر ذخیرہ اندوزی کی ممانعت بیان ہوئی ہے پھر شفعہ کے مسائل ہیں کہ لین دین اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن ایک چیز میں شراکت رکھنے والے کا پہلا حق ہے کہ وہ بازار کی قیمت پر اس چیز کا باقی حصہ خیرید سکے۔ آخر میں زمین یا جائیداد کے حوالے سے حسن سلوک،کسی کی زمین دبانے کی ممانعت اور اختلاف کی صورت میں مشترکہ راستے کی چوڑائی متعین کرنے کے حوالے سے شریعت کے حکم کا بیان ہے۔
حماد بن زید نے ہمیں ایوب سے حدیث بیان کی، انہوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے اور انہوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے روایت کی کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ایک قرض دار کو تلاش کیا تو وہ ان سے چھپ گیا، پھر (بعد میں) انہوں نے اسے پا لیا تو اس نے کہا: میں تنگ دست ہوں۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم؟ اس نے جواب دیا: اللہ کی قسم! انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپﷺ فرما رہے تھے: ’’جسے یہ بات اچھی لگے کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن کی سختیوں سے نجات دے تو وہ تنگ دست کو سہولت دے یا اسے معاف کر دے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل:
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے مسند احمد میں حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے، وہ کہتے ہیں: (سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: من نفس عن غريمه ، أو محا عنه كان في ظل العرش يوم القيامة) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جس نے اپنے قرض دار کو مہلت دی یا اس سے قرض معاف کر دیا، قیامت کے دن وہ عرش کے سائے میں ہو گا۔‘‘ (مسند احمد: 5/ 308)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن ابی قتادہ سے روایت ہے کہ ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ایک مقروض کو تلاش کیا، تو وہ ان سے چھپ گیا، پھر انہوں نے اسے پا لیا، تو اس نے کہا، میں تنگدست ہوں، ابو قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اللہ کی قسم، (واقعی تم تنگدست ہو؟) اس نے جواب دیا، اللہ کی قسم (میں واقعی تنگدست ہوں) انہوں نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے، ’’جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن کی تکالیف اور گھٹن سے نجات دے، تو وہ تنگدست کو سہولت و آسانی یا گنجائش دے یا اسے چھوڑ دے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abdullah bin Abu Qatida reported that Abu Qatadah (RA) (RA) demanded (the payment of his debt) from his debtor but he disappeared; later on he found him and he said: I am hard up financially, whereupon he said: (Do you state it) by God? He said: By God. Upon this he (Qatada) said: I heard Allah's Messenger (ﷺ) as saying: He who loves that Allah saves him from the torments of the Day of Resurrection should give respite to the insolvent or remit (his debt)