کتاب: سیرابی کے عوض پیدوار میں حصہ داری اور مزارعت
(
باب: مالدار کا ٹال مٹول کرنا حرام ہے ‘ِحوالہ (مقروض کی طرف سے اپنے ذمے قرض کو دوسرے کے ذمے )کرنا درست ہے جب (قرض )کسی (مالدار شخص )کے حوالے کیا جائے تو اسے قبول کرنا مستحب ہے
)
Muslim:
The Book of Musaqah
(Chapter: The prohibition of a rich man delaying repayment. The validity of Hawalah (Transferal of Debts) and it is recommended to accept transferal of a debt if it is transferred to a rich man)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1565.
وکیع اور یحییٰ بن سعید نے ابن جریج سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے بچ جانے والے پانی کو فروخت کرنے سے منع فرمایا۔
تشریح:
فوائد و مسائل:
جب بارش کا پانی جمع ہو جائے یا پیچھے سے بہتا ہوا آئے تو اپنے کھیتوں اور جانوروں کو پلانے کے بعد اسے روک لینا اور فروحت کرنا ممنوع ہے۔ البتہ اگر اپنے زمین میں کنواں کھودا ہے یا ٹیوب ویل لگایا ہے اور خرچ کیا ہے تو وہ اس میں شامل نہیں۔ بعض علماء اسے فروخت کرنے بھی ممنوع قرار دیتے ہیں وہ پانی بیچنے کو کسی صورت جائز نہیں سمجھتے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: نیل الأطار للشوکاني)
یہ حقیقت میں کتاب البیوع ہی کا تسلسل ہے۔کتاب البیوع کے آخری حصے میں زمین کو بٹائی پر دینے کی مختلف جائز اور نا جائز یا مختلف فیہ صورتوں کا ذکر تھا مساقات (سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری)اور مزارعت کا معاملہ امام ابوحنیفہ اور زفرکے علاوہ تمام فقہاء کے ہاں جائز ہے یہی معاملہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح کے بعد خود یہود کے ساتھ کیا اس حوالے سے اما م ابو حنیفہ اور زفر کے نقط نظر کو ان کے اپنے اہم ترین شاگرد وں امام ابو یوسف اور امام محمد نے قبول نہیں کیایہ معاہدہ درختوں،ملحقہ کھیتوں ،مالکان اور نگہداشت کرنے والوں تمام کے مفادات کو محفوظ رکھنے کا ضامن ہے مساقات اور مزارعت کے لیے مخصوص باب کے بعد درخت لگانے اور زراعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اسی پر انسان کے رزق اور اس کی فلاح کا سب سے زیادہ انحصار ہے زمین پر محنت اور پیدا وار کے اشتراک کے انتہائی منصفانہ معاہدوں کی تمام صورتوں میں جنھیں اسلام نے رائج کیا ہے انصاف کے تمام تر تقاضے ملحوظ رکھنے کے باوجود نا گہانی مسئلہ یہ پید ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر متوقع قدرتی آفت پیداوار کو تباہ کر دے ۔ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے ایسے نقصان کے بعد حصے کا مطالبہ ساقط ہو جاتا ہے جب کسی قدرتی آفت کی بنا پر پھل حاصل ہی نہیں ہوا تو مطالبہ کس بنیاد پر؟اس کے ساتھ ہی تجارتی لین دین کی صورت میں جبکہ قبضہ اور ملکیت دوسرے فریق کو منتقل ہو چکی ہو اور ادائیگی باقی ہو تو کسی نقصان کی صورت میں مہلت اور اگر ممکن ہوتو تخفیف کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تفلیس (قرض ادا کرنے کی صلاحیت کے فقدان)کے حوالے سے طریقہ کا ر واضح کیا گیا ہے دوسری طرف جس کے پاس ادائیگی کی صلاحیت موجود ہو اس کی طرف سے لیت و لعل کو ظلم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
اب تک لین دین کے معاہدوں کا ذکر تھا اس کے بعد ان چیزوں کا بیان ہے جن کی تجارت ممنوع ہے وہ غصب کی ہوئی چیزیں یا ایسی خدمات یا اشیاء ہیں جو حرام ہیں ،مثلاً:ناپاک جانور،جیسے کتے وغیرہ کو پالنا یا نشہ آور اشیاء مثلا شراب وغیرہ کو استعمال کرنا۔ پھر ان اشیاء کے لین دین میں جو بالکل حلال ہیں ان صورتوں کا ذکر ہے جن میں سود شامل ہو جاتا ہے یہ ربالفضل ہے ۔ایک ہی جنس کا اسی جنس سے کمی پیشی کے ساتھ تبادلہ ،ملتی جلتی اشیاء کا ادھار تبادلہ ،مثلا سونے چاندی کا،گندم اور جَو کا لین دین جس میں ایک چیز ادھار ہو یاد رہے کہ ایسی اشیاء کی قیمتوں میں موسم کے ساتھ یا مطقاً وقت اور تجارتی حالات کی بنا پر بہت جلد فرق پڑتا ہے اگرچہ قیمت(سونے ،چاندی یا سکے یا کرنسی نوٹ وغیرہ)کے ساتھ اشیاء کے تبادلے میں ادھار لین دین کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ اگر اقتصادی معاملات انصاف کے ساتھ چلائے جائیں تو نقدی کی قیمت زیادہ عرصے تک مستحکم رہتی ہے ،دوسرا سبب یہ کہ نقدی کے عوض ادھار خریدو فروخت کے بغیر تجارتی معاملات چلنے ممکن نہیں تجارت کے جاری رہنے ہی سے انسانوں کے بنیادی اقتصادی مفادات حاصل بھی ہوتے ہے اور محفوظ رہتے ہیں ۔حیوانات کی بیع اجناس اور اشیاء کی بیع سے مختلف ہے بدوی معاشروں میں ان کا لین دین بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مویشی کو خود نقدی سے ملتی جلتی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ ان کے لین دین کو آسان بنانے کے لیے اس میں جن مراعات کی ضرورت تھی ،اسلام نے ان مراعات کا ت اہتمام کیا ہے پھر تجارتی لین دین کے معاہدوں میں رہن کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بیع سلم یا سلف کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے،پھر ذخیرہ اندوزی کی ممانعت بیان ہوئی ہے پھر شفعہ کے مسائل ہیں کہ لین دین اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن ایک چیز میں شراکت رکھنے والے کا پہلا حق ہے کہ وہ بازار کی قیمت پر اس چیز کا باقی حصہ خیرید سکے۔ آخر میں زمین یا جائیداد کے حوالے سے حسن سلوک،کسی کی زمین دبانے کی ممانعت اور اختلاف کی صورت میں مشترکہ راستے کی چوڑائی متعین کرنے کے حوالے سے شریعت کے حکم کا بیان ہے۔
وکیع اور یحییٰ بن سعید نے ابن جریج سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے بچ جانے والے پانی کو فروخت کرنے سے منع فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد و مسائل:
جب بارش کا پانی جمع ہو جائے یا پیچھے سے بہتا ہوا آئے تو اپنے کھیتوں اور جانوروں کو پلانے کے بعد اسے روک لینا اور فروحت کرنا ممنوع ہے۔ البتہ اگر اپنے زمین میں کنواں کھودا ہے یا ٹیوب ویل لگایا ہے اور خرچ کیا ہے تو وہ اس میں شامل نہیں۔ بعض علماء اسے فروخت کرنے بھی ممنوع قرار دیتے ہیں وہ پانی بیچنے کو کسی صورت جائز نہیں سمجھتے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: نیل الأطار للشوکاني)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت سے زائد پانی کو فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے بظاہر یہ ثابت ہوتا ہے کہ پانی فروخت کرنا جائز نہیں ہے، جیسا کہ حافظ ابن حزم اور امام شوکانی کا رجحان معلوم ہوتا ہے، لیکن جمہور امت کے نزدیک دوسری احادیث کی روشنی میں پانی پر ملکیت ثابت ہے، اس لیے اس کی خریدوفروخت بھی جائزہے، اور جس پانی کو فروخت کرنے سے منع کیا گیا ہے، وہ، وہ پانی ہے جو ان نہروں یا چشموں کا ہے، جس پر کسی کی ملکیت نہیں ہے،اگر کوئی وہاں سے اپنے برتن میں بھر لایا ہے، تو وہ بیچ سکتا ہے، امام شوکانی نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے،جس میں ہے، نهي عن بيع الماء، آپﷺ نے پانی فروخت کرنے سے منع فرمایا، اس میں فضل (لذائد) کی قید نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir bin 'Abdullah (, Allah be pleased with him) reported that Allah's Messenger (ﷺ) forbade the sale of excess water.