کتاب: سیرابی کے عوض پیدوار میں حصہ داری اور مزارعت
(
باب: کتے کی قیمت ‘کاہن کا نذرانہ اور زانیہ کا معاوضہ حرام ہے اور بلّے کی بیع (بھی )ممنوع ہے
)
Muslim:
The Book of Musaqah
(Chapter: The prohibition of the price of a dog, the fee of a fortuneteller and the payment of a prostitute, and the prohibition of selling cats)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1568.
محمد بن یوسف سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے سائب بن یزید سے سنا، وہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپﷺ فرما رہے تھے: ’’بدترین کمائی زانیہ کی اجرت، کتے کی قیمت اور پچھنے لگانے والے کی کمائی ہے۔‘‘
تشریح:
فوائدومسائل:
جاہلی دور میں پچھنے لگانے والا، انسانی جسم سے جو خون نکالتا، اسے بھی بطورِ اجرت لے لیتا اور خون بیچ دیتا۔ خریدنے والے اسے بطور غذا اور کئی دوسرے غلط مقاصد کے لیے استعمال کرتے۔ پچھنے لگانے والوں کی یہ کمائی سراسر حرام تھی۔ خون، خصوصاً انسانی خون کی تجارت ممنوع ہے۔ صحیح البخاری اور مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ منقول ہیں ’’نهى عن ثمن الدم‘‘ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خون کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے۔) (صحیح البخاری، حدیث: 2288، و مسند احمد: 4/ 309) انسانی خون کی تجارت کی اجازت سے انسانی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جس طرح انسانی اعضاء کی تجارت سے لاحق ہیں۔ بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگوائے اور لگانے والے کو کچھ عنایت فرمایا۔ (صحیح البخاری، حدیث: 2013) یہ مزدوری یا کام کی اجرت تھی۔ اس نے خون لے جا کر فروخت نہ کیا تھا نہ اس کی اجازت تھی۔
یہ حقیقت میں کتاب البیوع ہی کا تسلسل ہے۔کتاب البیوع کے آخری حصے میں زمین کو بٹائی پر دینے کی مختلف جائز اور نا جائز یا مختلف فیہ صورتوں کا ذکر تھا مساقات (سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری)اور مزارعت کا معاملہ امام ابوحنیفہ اور زفرکے علاوہ تمام فقہاء کے ہاں جائز ہے یہی معاملہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح کے بعد خود یہود کے ساتھ کیا اس حوالے سے اما م ابو حنیفہ اور زفر کے نقط نظر کو ان کے اپنے اہم ترین شاگرد وں امام ابو یوسف اور امام محمد نے قبول نہیں کیایہ معاہدہ درختوں،ملحقہ کھیتوں ،مالکان اور نگہداشت کرنے والوں تمام کے مفادات کو محفوظ رکھنے کا ضامن ہے مساقات اور مزارعت کے لیے مخصوص باب کے بعد درخت لگانے اور زراعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اسی پر انسان کے رزق اور اس کی فلاح کا سب سے زیادہ انحصار ہے زمین پر محنت اور پیدا وار کے اشتراک کے انتہائی منصفانہ معاہدوں کی تمام صورتوں میں جنھیں اسلام نے رائج کیا ہے انصاف کے تمام تر تقاضے ملحوظ رکھنے کے باوجود نا گہانی مسئلہ یہ پید ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر متوقع قدرتی آفت پیداوار کو تباہ کر دے ۔ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے ایسے نقصان کے بعد حصے کا مطالبہ ساقط ہو جاتا ہے جب کسی قدرتی آفت کی بنا پر پھل حاصل ہی نہیں ہوا تو مطالبہ کس بنیاد پر؟اس کے ساتھ ہی تجارتی لین دین کی صورت میں جبکہ قبضہ اور ملکیت دوسرے فریق کو منتقل ہو چکی ہو اور ادائیگی باقی ہو تو کسی نقصان کی صورت میں مہلت اور اگر ممکن ہوتو تخفیف کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تفلیس (قرض ادا کرنے کی صلاحیت کے فقدان)کے حوالے سے طریقہ کا ر واضح کیا گیا ہے دوسری طرف جس کے پاس ادائیگی کی صلاحیت موجود ہو اس کی طرف سے لیت و لعل کو ظلم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
اب تک لین دین کے معاہدوں کا ذکر تھا اس کے بعد ان چیزوں کا بیان ہے جن کی تجارت ممنوع ہے وہ غصب کی ہوئی چیزیں یا ایسی خدمات یا اشیاء ہیں جو حرام ہیں ،مثلاً:ناپاک جانور،جیسے کتے وغیرہ کو پالنا یا نشہ آور اشیاء مثلا شراب وغیرہ کو استعمال کرنا۔ پھر ان اشیاء کے لین دین میں جو بالکل حلال ہیں ان صورتوں کا ذکر ہے جن میں سود شامل ہو جاتا ہے یہ ربالفضل ہے ۔ایک ہی جنس کا اسی جنس سے کمی پیشی کے ساتھ تبادلہ ،ملتی جلتی اشیاء کا ادھار تبادلہ ،مثلا سونے چاندی کا،گندم اور جَو کا لین دین جس میں ایک چیز ادھار ہو یاد رہے کہ ایسی اشیاء کی قیمتوں میں موسم کے ساتھ یا مطقاً وقت اور تجارتی حالات کی بنا پر بہت جلد فرق پڑتا ہے اگرچہ قیمت(سونے ،چاندی یا سکے یا کرنسی نوٹ وغیرہ)کے ساتھ اشیاء کے تبادلے میں ادھار لین دین کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ اگر اقتصادی معاملات انصاف کے ساتھ چلائے جائیں تو نقدی کی قیمت زیادہ عرصے تک مستحکم رہتی ہے ،دوسرا سبب یہ کہ نقدی کے عوض ادھار خریدو فروخت کے بغیر تجارتی معاملات چلنے ممکن نہیں تجارت کے جاری رہنے ہی سے انسانوں کے بنیادی اقتصادی مفادات حاصل بھی ہوتے ہے اور محفوظ رہتے ہیں ۔حیوانات کی بیع اجناس اور اشیاء کی بیع سے مختلف ہے بدوی معاشروں میں ان کا لین دین بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مویشی کو خود نقدی سے ملتی جلتی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ ان کے لین دین کو آسان بنانے کے لیے اس میں جن مراعات کی ضرورت تھی ،اسلام نے ان مراعات کا ت اہتمام کیا ہے پھر تجارتی لین دین کے معاہدوں میں رہن کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بیع سلم یا سلف کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے،پھر ذخیرہ اندوزی کی ممانعت بیان ہوئی ہے پھر شفعہ کے مسائل ہیں کہ لین دین اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن ایک چیز میں شراکت رکھنے والے کا پہلا حق ہے کہ وہ بازار کی قیمت پر اس چیز کا باقی حصہ خیرید سکے۔ آخر میں زمین یا جائیداد کے حوالے سے حسن سلوک،کسی کی زمین دبانے کی ممانعت اور اختلاف کی صورت میں مشترکہ راستے کی چوڑائی متعین کرنے کے حوالے سے شریعت کے حکم کا بیان ہے۔
محمد بن یوسف سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے سائب بن یزید سے سنا، وہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سنا، آپﷺ فرما رہے تھے: ’’بدترین کمائی زانیہ کی اجرت، کتے کی قیمت اور پچھنے لگانے والے کی کمائی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل:
جاہلی دور میں پچھنے لگانے والا، انسانی جسم سے جو خون نکالتا، اسے بھی بطورِ اجرت لے لیتا اور خون بیچ دیتا۔ خریدنے والے اسے بطور غذا اور کئی دوسرے غلط مقاصد کے لیے استعمال کرتے۔ پچھنے لگانے والوں کی یہ کمائی سراسر حرام تھی۔ خون، خصوصاً انسانی خون کی تجارت ممنوع ہے۔ صحیح البخاری اور مسند احمد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ الفاظ منقول ہیں ’’نهى عن ثمن الدم‘‘ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خون کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے۔) (صحیح البخاری، حدیث: 2288، و مسند احمد: 4/ 309) انسانی خون کی تجارت کی اجازت سے انسانی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جس طرح انسانی اعضاء کی تجارت سے لاحق ہیں۔ بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگوائے اور لگانے والے کو کچھ عنایت فرمایا۔ (صحیح البخاری، حدیث: 2013) یہ مزدوری یا کام کی اجرت تھی۔ اس نے خون لے جا کر فروخت نہ کیا تھا نہ اس کی اجازت تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بدترین کمائی فاحشہ کی اجرت، کتے کی قیمت اور سینگی لگانے والے کی اجرت ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ سینگی لگانے کی اجرت لینا اور اس کو پیشہ بنانا، پسندیدہ کام نہیں ہے، اگلی حدیث میں اس کو خبیث سے تعبیر کیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے، کسی شریف اور باوقار کو یہ پیشہ اختیار نہیں کرنا چاہیے، بعض حضرات نے اس حدیث کی بناء پر، اس کو حرام قرار دیا ہے، لیکن آگے اس سلسلہ میں ایک مستقل باب آ رہا ہے، اس کی احادیث سے ثابت ہوتا ہے، اس کی اجرت لینا حرام نہیں ہے، جمہور علماء، جن میں ائمہ اربعہ بھی داخل ہیں، انہیں احادیث کی بنا پر اس کے جواز کے قائل ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Rafi bin Khadij (RA) reported: I heard Allah's Apostle (ﷺ) as saying: The worst earning is the earning of a prostitute, the price of a dog and the earning of a cupper.