کتاب: سیرابی کے عوض پیدوار میں حصہ داری اور مزارعت
(
باب: حلال (مال )حاصل کرنا اور شبہات سےبچنا
)
Muslim:
The Book of Musaqah
(Chapter: Taking that which is lawful and leaving that which is unclear)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1599.
عبداللہ بن نمیر ہمدانی نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں زکریا نے شعبی سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، (شعبی نے) کہا: میں نے ان سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، ۔۔ اور حضرت نعمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی دونوں انگلیوں سے اپنے دونوں کانوں کی طرف اشارہ کیا ۔۔ آپﷺ فرما رہے تھے: ’’بلاشبہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان شبہات ہیں لوگوں کی بڑی تعداد ان کو نہیں جانتی، جو شبہات سے بچا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو شبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں پڑ گیا، جیسے چرواہا (جو) چراگاہ کے اردگرد (بکریاں) چراتا ہے، قریب ہے وہ اس (چراگاہ) میں چرنے لگیں، دیکھو! ہر بادشاہ کی چراگاہ ہے۔ دھیان رکھو! اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ اشیاء ہیں۔ سنو! جسم میں ایک ٹکڑا ہے، اگر ٹھیک رہا تو سارا جسم ٹھیک رہا اور اگر وہ بگڑ گیا تو سارا جسم بگڑ گیا۔ سنو! وہ دل ہے۔‘‘ (سوچ اور نیت سے ہر عمل کی درستی ہے یا خرابی۔)
یہ حقیقت میں کتاب البیوع ہی کا تسلسل ہے۔کتاب البیوع کے آخری حصے میں زمین کو بٹائی پر دینے کی مختلف جائز اور نا جائز یا مختلف فیہ صورتوں کا ذکر تھا مساقات (سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری)اور مزارعت کا معاملہ امام ابوحنیفہ اور زفرکے علاوہ تمام فقہاء کے ہاں جائز ہے یہی معاملہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح کے بعد خود یہود کے ساتھ کیا اس حوالے سے اما م ابو حنیفہ اور زفر کے نقط نظر کو ان کے اپنے اہم ترین شاگرد وں امام ابو یوسف اور امام محمد نے قبول نہیں کیایہ معاہدہ درختوں،ملحقہ کھیتوں ،مالکان اور نگہداشت کرنے والوں تمام کے مفادات کو محفوظ رکھنے کا ضامن ہے مساقات اور مزارعت کے لیے مخصوص باب کے بعد درخت لگانے اور زراعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اسی پر انسان کے رزق اور اس کی فلاح کا سب سے زیادہ انحصار ہے زمین پر محنت اور پیدا وار کے اشتراک کے انتہائی منصفانہ معاہدوں کی تمام صورتوں میں جنھیں اسلام نے رائج کیا ہے انصاف کے تمام تر تقاضے ملحوظ رکھنے کے باوجود نا گہانی مسئلہ یہ پید ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر متوقع قدرتی آفت پیداوار کو تباہ کر دے ۔ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے ایسے نقصان کے بعد حصے کا مطالبہ ساقط ہو جاتا ہے جب کسی قدرتی آفت کی بنا پر پھل حاصل ہی نہیں ہوا تو مطالبہ کس بنیاد پر؟اس کے ساتھ ہی تجارتی لین دین کی صورت میں جبکہ قبضہ اور ملکیت دوسرے فریق کو منتقل ہو چکی ہو اور ادائیگی باقی ہو تو کسی نقصان کی صورت میں مہلت اور اگر ممکن ہوتو تخفیف کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تفلیس (قرض ادا کرنے کی صلاحیت کے فقدان)کے حوالے سے طریقہ کا ر واضح کیا گیا ہے دوسری طرف جس کے پاس ادائیگی کی صلاحیت موجود ہو اس کی طرف سے لیت و لعل کو ظلم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
اب تک لین دین کے معاہدوں کا ذکر تھا اس کے بعد ان چیزوں کا بیان ہے جن کی تجارت ممنوع ہے وہ غصب کی ہوئی چیزیں یا ایسی خدمات یا اشیاء ہیں جو حرام ہیں ،مثلاً:ناپاک جانور،جیسے کتے وغیرہ کو پالنا یا نشہ آور اشیاء مثلا شراب وغیرہ کو استعمال کرنا۔ پھر ان اشیاء کے لین دین میں جو بالکل حلال ہیں ان صورتوں کا ذکر ہے جن میں سود شامل ہو جاتا ہے یہ ربالفضل ہے ۔ایک ہی جنس کا اسی جنس سے کمی پیشی کے ساتھ تبادلہ ،ملتی جلتی اشیاء کا ادھار تبادلہ ،مثلا سونے چاندی کا،گندم اور جَو کا لین دین جس میں ایک چیز ادھار ہو یاد رہے کہ ایسی اشیاء کی قیمتوں میں موسم کے ساتھ یا مطقاً وقت اور تجارتی حالات کی بنا پر بہت جلد فرق پڑتا ہے اگرچہ قیمت(سونے ،چاندی یا سکے یا کرنسی نوٹ وغیرہ)کے ساتھ اشیاء کے تبادلے میں ادھار لین دین کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ اگر اقتصادی معاملات انصاف کے ساتھ چلائے جائیں تو نقدی کی قیمت زیادہ عرصے تک مستحکم رہتی ہے ،دوسرا سبب یہ کہ نقدی کے عوض ادھار خریدو فروخت کے بغیر تجارتی معاملات چلنے ممکن نہیں تجارت کے جاری رہنے ہی سے انسانوں کے بنیادی اقتصادی مفادات حاصل بھی ہوتے ہے اور محفوظ رہتے ہیں ۔حیوانات کی بیع اجناس اور اشیاء کی بیع سے مختلف ہے بدوی معاشروں میں ان کا لین دین بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مویشی کو خود نقدی سے ملتی جلتی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ ان کے لین دین کو آسان بنانے کے لیے اس میں جن مراعات کی ضرورت تھی ،اسلام نے ان مراعات کا ت اہتمام کیا ہے پھر تجارتی لین دین کے معاہدوں میں رہن کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بیع سلم یا سلف کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے،پھر ذخیرہ اندوزی کی ممانعت بیان ہوئی ہے پھر شفعہ کے مسائل ہیں کہ لین دین اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن ایک چیز میں شراکت رکھنے والے کا پہلا حق ہے کہ وہ بازار کی قیمت پر اس چیز کا باقی حصہ خیرید سکے۔ آخر میں زمین یا جائیداد کے حوالے سے حسن سلوک،کسی کی زمین دبانے کی ممانعت اور اختلاف کی صورت میں مشترکہ راستے کی چوڑائی متعین کرنے کے حوالے سے شریعت کے حکم کا بیان ہے۔
عبداللہ بن نمیر ہمدانی نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں زکریا نے شعبی سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، (شعبی نے) کہا: میں نے ان سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، ۔۔ اور حضرت نعمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی دونوں انگلیوں سے اپنے دونوں کانوں کی طرف اشارہ کیا ۔۔ آپﷺ فرما رہے تھے: ’’بلاشبہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان شبہات ہیں لوگوں کی بڑی تعداد ان کو نہیں جانتی، جو شبہات سے بچا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو شبہات میں پڑ گیا وہ حرام میں پڑ گیا، جیسے چرواہا (جو) چراگاہ کے اردگرد (بکریاں) چراتا ہے، قریب ہے وہ اس (چراگاہ) میں چرنے لگیں، دیکھو! ہر بادشاہ کی چراگاہ ہے۔ دھیان رکھو! اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ اشیاء ہیں۔ سنو! جسم میں ایک ٹکڑا ہے، اگر ٹھیک رہا تو سارا جسم ٹھیک رہا اور اگر وہ بگڑ گیا تو سارا جسم بگڑ گیا۔ سنو! وہ دل ہے۔‘‘ (سوچ اور نیت سے ہر عمل کی درستی ہے یا خرابی۔)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی دو انگلیاں اپنے دونوں کانوں کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’حلال واضح ہے، اور حرام واضح ہے، اور ان کے درمیان کچھ شبہ والی چیزیں ہیں، جن کو بہت لوگ نہیں (یعنی ان کے حکم کو) جانتے (کہ حلال ہیں یا حرام) تو جو انسان مشتبہ یا شبہ والی چیزوں سے بچ گیا، اس نے دپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا، اور جو شبہ والی چیزوں میں پڑ گیا، وہ حرام میں مبتلا ہو گا، اس چرواہے کی طرح جو چراگاہ کے آس پاس جانور چراتا ہے، قریب ہے وہ اس میں ڈال لے یا اس میں گھس جائے، خبردار ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے، خبردار، اللہ تعالیٰ کی چراگاہ، اس کی زمین میں، اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور سنو، بدن انسانی میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہو گیا، تو سارا بدن ٹھیک ہو گیا، سنور گیا، اور جب وہ بگڑ گیا، تو پورا جسم بگڑ گیا، سنو! وہ ٹکڑا دل ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) أَهوَي بِاِصبَعَيهِ إِلي أُذنيه: اپنی دو انگلیاں اپنے دونوں کانوں کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا کہ میں نے پورے اہتمام اور توجہ سے سنا ہے، اس لیے پورے وثوق اور اعتماد سے بیان کرتا ہوں۔ (2) إِسْتَبْرَا لِدِيْنِهِ وِ عرضِهِ: اس نے اپنے دین کو شرعی مذمت سے اور اپنی عزت کو لوگوں کی طعن و تشنیع سے محفوظ کر لیا، اس کے دین اور عزت پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکے گا، نہ ان پر کوئی حرف آئے گا۔ (3) حمي: چراگاہ، جس میں کسی انسان کو اپنے مویشی چرانے کی اجازت نہیں ہوتی، یعنی ممنوعہ علاقہ، کہ اگر اس کے اندر کوئی گھس جائے تو حکومت کی طرف سے وہ سزا کا حقدار ٹھہرتا ہے، اس لیے محتاط لوگ اس علاقہ کے قریب ہی نہیں جاتے، اس طرح اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء ممنوعہ علاقہ ہیں، جو ان کا ارتکاب کرے گا، وہ سزا کا سزاوار ہو گا، اور جو مشتبہ اشیاء سے احتراز نہیں کرے گا، اور ان میں گرفتار ہونے سے اپنے آپ کو نہیں بچائے گا، وہ چراگاہ کے آس پاس چرانے والے کی طرف، محرمات کا بھی مرتکب ہو گا، اس لیے جس طرح محتاط لوگ چراگاہ کے پاس اپنے جانور نہیں چراتے کہ کہیں وہ بھاگ کر چراگاہ میں نہ گھس جائیں، محتاط اور پرہیزگار لوگ گناہوں میں گرفتار کرنے والی چیزوں سے دور رہتے ہیں اور انسان کی پرہیزگاری اور احتیاط کا دارومدار، اس کے دل کی اصلاح و درستگی پر ہے، کیونکہ تمام جسم پر اس کی حکمرانی ہے، باقی تمام اعضاء و جوارح اس کے حکم کے پابند ہیں، عزم و حوصلہ اور جراءت و ہمت کا محل اور مرکز بھی دل ہے، اگر وہی عزم و حوصلہ اور جراءت و ہمت سے محرم ہو تو کوئی کام نہیں ہو سکتا، اگر دل کے جذبات و احساسات درست ہوں گے، تو اعضاء صحیح کام کریں گے، لیکن اگر اس کے جذبات و احساسات ہی میں بگاڑ اور فساد پیدا ہو جائے، تو اعضاء، خود بخود غلط راستہ پر چلیں گے۔
فوائد ومسائل
نظری و فکری اور عملی و اخلاقی اعتبار سے یہ حدیث، دین میں بہت اہمیت اور عظمت کی حامل ہے، جس پر انسان کی سیرت و کردار کی استواری کا انحصار ہے، اس لیے بعض علماء نے اس کو دین کا ایک تہائی حصہ قرار دیا ہے، اور باقی دو حصے، (إِنَّمَا الأَعْمَالً بِالنِّيَّات) ’’عملوں کا مدار نیتوں پر ہے۔‘‘ (مِنْ حُسنِ الإِسلَام المَرءِ تَركه مَالَا يَعْنِيه) ’’انسان کے اسلام کی خوبی اور حسن غیر متعلقہ یا غیر مطلوب اشیاء سے پرہیز کرنا ہے۔‘‘ اور اس اہمیت و عظمت کا سبب یہ ہے کہ اس میں ایک مسلمان کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ تمام معاملات میں جائز اور حلال اشیاء کو قبول اور اختیار کرے، جس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ وہ ان تمام معاملات سے بچے، جن کی حلت و حرمت کے بارے میں شک و شبہ ہو۔ یا ان کی حلت و حرمت واضح نہ ہو، اور اس لیے دل کی اصلاح و درستگی ضروری ہے، اگر اس میں خشیت الٰہی اور فکر آخرت موجود ہے، تو ہر کام آسان ہے، اگر دل اللہ کے خوف اور آخرت کی جواب دہی سے خالی ہے، تو جسم کے اعمال و احوال بھی صحیح نہیں ہوں گے۔ (2) الحَلَالُ بَيِّنٌ، وَالحَرَامُ بَيِّنٌ،یعنی حلال کا حکم بھی واضح ہے، اور حرام کا حکم بھی واضح ہے، جو حلال ہے اس کو کرو اور جو حرام ہے اس کو چھوڑ دو، جن کی حلت و حرمت کی صراحت موجود ہے، ان کا معاملہ بالکل صاف ہے، عمل میں کوئی شک و تردد نہیں ہے، جیسا کہ سنن ابی داؤد کی روایت ہے، ما احل فهو حلال،جس کو شریعت نے حلال کر دیا، حلال اور ما حرم فهو حرام، جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا وہ حرام ہیں، لیکن حلال بین اور حرام بین کے درمیان دو چیزیں ہیں۔ (1) جن کی حلت و حرمت میں اشتباہ ہے، کیونکہ دلائل میں تعارض ہے، یا دلائل کے فہم میں یا ان کے درمیان ترجیح و تطبیق دینے میں علماء کا اختلاف ہے، اس لیے ان کی حلت و حرمت کا قابل اطمینان فیصلہ نہیں ہو سکتا، عوام شک و شبہ میں پڑ جاتے ہیں، یا ایک چیز ایک اعتبار و حیثیت سے قابل قبول ہے، اور دوسری حیثیت و جہت سے قابل ترک ہے، یا ایک چیز ہمارے نظریہ کے مطابق درست ہے، لیکن بعد میں کوئی ایسی چیز سامنے آ گئی جس سے حرمت ثابت ہوئی ہے جیسا کہ حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ کی بیوی کا واقعہ ہے کہ نکاح کے بعد ایک عورت نے بتایا، میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، یا عبد بن زمعہ اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا ایک بچے کے بارے میں جھگڑا ہے، کہ آپ نے اس کا زمعہ سے نسب بھی ثابت کیا، لیکن حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کا حکم بھی دیا، اس طرح بعض دفعہ ایک کام بالکل جائز ہے، لیکن دوسروں کے لیے شبہ کا باعث بنتا ہے، اور فظنہ تہمت ہونے کی بنا پر، اس سے بچنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ آپ نے پاس سے گزرنے والوں کو فرمایا تھا، هذه صفية، یہ میری بیوی صفیہ ہے، اس طرح اس قسم کے معاملات میں جب تک قابل اطمینان بات سامنے نہ آئے، ان امور سے پرہیز کرنا چاہیے اور اگر قابل اطمینان بات سامنے آ جائے، تو پھر اس پر عمل کرنا چاہیے، اس لیے آپ نے فرمایا، مشتبہ امور کو بہت لوگ نہیں جانتے، یہ نہیں فرمایا، کوئی بھی نہیں جانتا۔ (2) وہ چیزیں جن کے بارے میں شریعت خاموش ہے، جن کو سنن ابی داود کی روایت میں ما سبكت عنه فهو معفو، جن سے شریعت خاموش ہے، قابل مواخذہ نہیں ہیں، اس لیے ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ جہاں کسی دلیل یا قرینہ کی بنا پر، کسی چیز کی حرمت کا شبہ پیدا ہوتا ہو، اس سے بچنا چاہیے، لیکن بغیر کسی بنیاد کے محض وسوسہ کے پیچھے نہیں لگنا چاہیے، جس کو کہتے ہیں، اليقين لا يزول بالشك،یقینی چیز کو محض شبہ اور شک کی بنیاد پر ترک نہیں کیا جا سکتا کہ ایک آدمی وضو کر کے کھڑا ہوا ہے، پھر ہوا نکلنے کی آواز نہیں سنتا اور نہ ہی بدبو محسوس کرتا ہے، محض وسوسہ پیدا ہوتا ہے تو اس پر نماز نہیں توڑی جائے گی، کیونکہ بے وضوء ہونے کا کوئی قرینہ یا دلیل نہیں ہے، یا ایک مسلمان کے گھر سے گوشت آتا ہے، تو انسان اس شبہ میں پڑ جائے کہ شاید انہوں نے بسم اللہ نہ پڑھی ہو، ہاں، اگر دلیل یا قرینہ موجود ہو، تو پھر یہ وسوسہ نہیں ہو گا کہ اس کو نظر انداز کر دیا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Nu'man bin Bashir (RA) reported: I heard Allah's Messenger (may peace be upon himn) as having said this (and Nu'man) pointed towards his ears with his fingers): What is lawful is evident and what is unlawful is evident, and in between them are the things doubtful which many people do not know. So he who guards against doubtful things keeps his religion and honour blameless, and he who indulges in doubtful things indulges in fact in unlawful things, just as a shepherd who pastures his animals round a preserve will soon pasture them in it. Beware, every king has a preserve, and the things God his declaced unlawful are His preserves. Beware, in the body there is a piece of flesh; if it is sound, the whole body is sound and if it is corrupt the whole body is corrupt, and hearken it is the heart.