کتاب: سیرابی کے عوض پیدوار میں حصہ داری اور مزارعت
(
باب: ایک جاندار کی اسی جنس کے جانور کے عوض کمی بیشی کےساتھ بیع جائز ہے
)
Muslim:
The Book of Musaqah
(Chapter: The permissibility of selling animals for animals of the same kind and of different quality)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1602.
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک غلام آیا، اس نے ہجرت پر نبی ﷺ کے ساتھ بیعت کی جبکہ آپﷺ کو پتہ نہیں چلا کہ وہ غلام ہے۔ اس کا آقا اسے لینے کے لیے آیا تو نبی ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’یہ مجھے فروخت کر دو۔‘‘ چنانچہ آپﷺ نے دو سیاہ غلاموں کے عوض اسے خرید لیا، پھر اس کے بعد آپﷺ کسی سے بیعت نہ لیتے تھے یہاں تک کہ (پہلے) پوچھ لیتے: ’’کیا وہ غلام ہے؟‘‘
تشریح:
فوائد و مسائل:
(1) غلاموں کی بیع پر ہر جاندار کی بیع کو قیاس کیا جائے گا۔ (2) آپﷺ نے جب ایک بار ہدرت کی بیعت کر لی تو اگرچہ یہ بیعت کے لیے آنے والے کی حیثیت کے بارے میں لا علمی کی بنا پر ہوئی تھی لیکن آپﷺ نے اس کی مکمل پاسداری فرمائی۔ (3) قاضی عیاض کا خیال ہے کہ غالباً اس غلام کا مالک مسلمان تھا۔ اگر کافر ہوتا تو غلام کی واپسی یا اس کو خریدنا ضروری نہ تھا کیونکہ طائف کے محاصرے کے موقع پر اہل طائف کے جو غلام نکل آئے تھے۔ آپﷺ نے انھیں ان کے پہلے مالکوں کو واپس کیا، نہ ان کو خریدا۔ بیعت کے بعد وہ مسلمان اور آزاد کردہ قرار پائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اہل طائف کفر اور جنگ پر ڈٹ گئے تو آپﷺ نے باقاعدہ یہ اعلان کرایا کہ جو غلام آ کر اسلام قبول کر لیں گے، وہ آزاد کر دیے جائیں گے۔ جنگ کرنے والے کافروں کے بارے میں یہی اصول ہے۔ اہل ذمہ کے بارے میں نہیں۔
یہ حقیقت میں کتاب البیوع ہی کا تسلسل ہے۔کتاب البیوع کے آخری حصے میں زمین کو بٹائی پر دینے کی مختلف جائز اور نا جائز یا مختلف فیہ صورتوں کا ذکر تھا مساقات (سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری)اور مزارعت کا معاملہ امام ابوحنیفہ اور زفرکے علاوہ تمام فقہاء کے ہاں جائز ہے یہی معاملہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح کے بعد خود یہود کے ساتھ کیا اس حوالے سے اما م ابو حنیفہ اور زفر کے نقط نظر کو ان کے اپنے اہم ترین شاگرد وں امام ابو یوسف اور امام محمد نے قبول نہیں کیایہ معاہدہ درختوں،ملحقہ کھیتوں ،مالکان اور نگہداشت کرنے والوں تمام کے مفادات کو محفوظ رکھنے کا ضامن ہے مساقات اور مزارعت کے لیے مخصوص باب کے بعد درخت لگانے اور زراعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اسی پر انسان کے رزق اور اس کی فلاح کا سب سے زیادہ انحصار ہے زمین پر محنت اور پیدا وار کے اشتراک کے انتہائی منصفانہ معاہدوں کی تمام صورتوں میں جنھیں اسلام نے رائج کیا ہے انصاف کے تمام تر تقاضے ملحوظ رکھنے کے باوجود نا گہانی مسئلہ یہ پید ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر متوقع قدرتی آفت پیداوار کو تباہ کر دے ۔ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے ایسے نقصان کے بعد حصے کا مطالبہ ساقط ہو جاتا ہے جب کسی قدرتی آفت کی بنا پر پھل حاصل ہی نہیں ہوا تو مطالبہ کس بنیاد پر؟اس کے ساتھ ہی تجارتی لین دین کی صورت میں جبکہ قبضہ اور ملکیت دوسرے فریق کو منتقل ہو چکی ہو اور ادائیگی باقی ہو تو کسی نقصان کی صورت میں مہلت اور اگر ممکن ہوتو تخفیف کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تفلیس (قرض ادا کرنے کی صلاحیت کے فقدان)کے حوالے سے طریقہ کا ر واضح کیا گیا ہے دوسری طرف جس کے پاس ادائیگی کی صلاحیت موجود ہو اس کی طرف سے لیت و لعل کو ظلم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
اب تک لین دین کے معاہدوں کا ذکر تھا اس کے بعد ان چیزوں کا بیان ہے جن کی تجارت ممنوع ہے وہ غصب کی ہوئی چیزیں یا ایسی خدمات یا اشیاء ہیں جو حرام ہیں ،مثلاً:ناپاک جانور،جیسے کتے وغیرہ کو پالنا یا نشہ آور اشیاء مثلا شراب وغیرہ کو استعمال کرنا۔ پھر ان اشیاء کے لین دین میں جو بالکل حلال ہیں ان صورتوں کا ذکر ہے جن میں سود شامل ہو جاتا ہے یہ ربالفضل ہے ۔ایک ہی جنس کا اسی جنس سے کمی پیشی کے ساتھ تبادلہ ،ملتی جلتی اشیاء کا ادھار تبادلہ ،مثلا سونے چاندی کا،گندم اور جَو کا لین دین جس میں ایک چیز ادھار ہو یاد رہے کہ ایسی اشیاء کی قیمتوں میں موسم کے ساتھ یا مطقاً وقت اور تجارتی حالات کی بنا پر بہت جلد فرق پڑتا ہے اگرچہ قیمت(سونے ،چاندی یا سکے یا کرنسی نوٹ وغیرہ)کے ساتھ اشیاء کے تبادلے میں ادھار لین دین کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ اگر اقتصادی معاملات انصاف کے ساتھ چلائے جائیں تو نقدی کی قیمت زیادہ عرصے تک مستحکم رہتی ہے ،دوسرا سبب یہ کہ نقدی کے عوض ادھار خریدو فروخت کے بغیر تجارتی معاملات چلنے ممکن نہیں تجارت کے جاری رہنے ہی سے انسانوں کے بنیادی اقتصادی مفادات حاصل بھی ہوتے ہے اور محفوظ رہتے ہیں ۔حیوانات کی بیع اجناس اور اشیاء کی بیع سے مختلف ہے بدوی معاشروں میں ان کا لین دین بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مویشی کو خود نقدی سے ملتی جلتی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ ان کے لین دین کو آسان بنانے کے لیے اس میں جن مراعات کی ضرورت تھی ،اسلام نے ان مراعات کا ت اہتمام کیا ہے پھر تجارتی لین دین کے معاہدوں میں رہن کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بیع سلم یا سلف کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے،پھر ذخیرہ اندوزی کی ممانعت بیان ہوئی ہے پھر شفعہ کے مسائل ہیں کہ لین دین اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن ایک چیز میں شراکت رکھنے والے کا پہلا حق ہے کہ وہ بازار کی قیمت پر اس چیز کا باقی حصہ خیرید سکے۔ آخر میں زمین یا جائیداد کے حوالے سے حسن سلوک،کسی کی زمین دبانے کی ممانعت اور اختلاف کی صورت میں مشترکہ راستے کی چوڑائی متعین کرنے کے حوالے سے شریعت کے حکم کا بیان ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک غلام آیا، اس نے ہجرت پر نبی ﷺ کے ساتھ بیعت کی جبکہ آپﷺ کو پتہ نہیں چلا کہ وہ غلام ہے۔ اس کا آقا اسے لینے کے لیے آیا تو نبی ﷺ نے اس سے فرمایا: ’’یہ مجھے فروخت کر دو۔‘‘ چنانچہ آپﷺ نے دو سیاہ غلاموں کے عوض اسے خرید لیا، پھر اس کے بعد آپﷺ کسی سے بیعت نہ لیتے تھے یہاں تک کہ (پہلے) پوچھ لیتے: ’’کیا وہ غلام ہے؟‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد و مسائل:
(1) غلاموں کی بیع پر ہر جاندار کی بیع کو قیاس کیا جائے گا۔ (2) آپﷺ نے جب ایک بار ہدرت کی بیعت کر لی تو اگرچہ یہ بیعت کے لیے آنے والے کی حیثیت کے بارے میں لا علمی کی بنا پر ہوئی تھی لیکن آپﷺ نے اس کی مکمل پاسداری فرمائی۔ (3) قاضی عیاض کا خیال ہے کہ غالباً اس غلام کا مالک مسلمان تھا۔ اگر کافر ہوتا تو غلام کی واپسی یا اس کو خریدنا ضروری نہ تھا کیونکہ طائف کے محاصرے کے موقع پر اہل طائف کے جو غلام نکل آئے تھے۔ آپﷺ نے انھیں ان کے پہلے مالکوں کو واپس کیا، نہ ان کو خریدا۔ بیعت کے بعد وہ مسلمان اور آزاد کردہ قرار پائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب اہل طائف کفر اور جنگ پر ڈٹ گئے تو آپﷺ نے باقاعدہ یہ اعلان کرایا کہ جو غلام آ کر اسلام قبول کر لیں گے، وہ آزاد کر دیے جائیں گے۔ جنگ کرنے والے کافروں کے بارے میں یہی اصول ہے۔ اہل ذمہ کے بارے میں نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک غلام آیا، اور اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کی اور آپﷺ کو یہ محسوس نہ ہوا کہ یہ غلام ہے، تو اس کا آقا اسے لینے کے لیے آ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا: ’’اسے مجھے فروخت کر دو،‘‘ اور آپﷺ نے اسے دو سیاہ غلاموں کے عوض خرید لیا، پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی سے بیعت نہیں لی، حتی کہ آپﷺ اس سے پوچھ لیتے ’’کیا وہ غلام ہے؟‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ، غیب کا علم نہیں رکھتے تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام کی ہجرت پر بیعت قبول فرما لی، حالانکہ غلام، مالک کی اجازت کے بغیر ہجرت نہیں کر سکتا، لیکن چونکہ آپﷺ نے بیعت قبول فرما لی تھی، اس لیے آپﷺ نے اس کو اس کے آقا کی طرف لوٹانا مناسب خیال نہ کیا، اور اخلاق کریمہ کی بنا پر، اس کے مالک سے اسے دو غلاموں کے عوض خرید لیا، حیوانات کی نقد بہ نقد کمی و بیشی کے ساتھ بیع بالاتفاق جائز ہے، اور ادھار کی صورت میں ائمہ حجاز (مالک، شافعی، احمد) اور جمہور کے نزدیک جائز ہے، کیونکہ آپﷺ نے ایک غزوہ کی تیاری کے لیے، ایک اونٹ، دو اونٹ کے عوض ادھار لیا تھا، لیکن ائمہ احناف کے نزدیک حیوان کے عوض ادھار بیع جائز نہیں ہے، اور جس حدیث سے انہوں نے استدلال کیا ہے، اس کا معنی ہے کہ دونوں طرف ادھار ہو، تو پھر جائز نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir (RA) reported: There came a slave and pledg- ed allegiance to Allah's Apostle (ﷺ) on migration; he (the Holy Prophet) did not know that he was a slave. Then there came his master and demanded him back, whereupon Allah's Apostle (ﷺ) said: Sell him to me. And he bought him for two black slaves, and he did not afterwards take allegiance from anyone until he had asked him whether he was a slave (or a free man)