کتاب: سیرابی کے عوض پیدوار میں حصہ داری اور مزارعت
(
باب: ظلم کرنے اور زمین وغیرہ کو غصب کرنے کی حرمت
)
Muslim:
The Book of Musaqah
(Chapter: The prohibition of wrongdoing, seizing land unlawfully etc)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1612.
حرب بن شداد نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں یحییٰ بن ابی کثیر نے محمد بن ابراہیم سے حدیث بیان کی، انہیں ابوسلمہ نے حدیث بیان کی کہ ان کے اور ان کی قوم کے درمیان ایک زمین کے بارے میں جھگڑا تھا، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا: ابوسلمہ! زمین سے کنارہ کش ہو جاؤ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’جس نے ایک بالشت برابر زمین پر بھی ظلم سے قبضہ کیا، اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔‘‘
یہ حقیقت میں کتاب البیوع ہی کا تسلسل ہے۔کتاب البیوع کے آخری حصے میں زمین کو بٹائی پر دینے کی مختلف جائز اور نا جائز یا مختلف فیہ صورتوں کا ذکر تھا مساقات (سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری)اور مزارعت کا معاملہ امام ابوحنیفہ اور زفرکے علاوہ تمام فقہاء کے ہاں جائز ہے یہی معاملہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی فتح کے بعد خود یہود کے ساتھ کیا اس حوالے سے اما م ابو حنیفہ اور زفر کے نقط نظر کو ان کے اپنے اہم ترین شاگرد وں امام ابو یوسف اور امام محمد نے قبول نہیں کیایہ معاہدہ درختوں،ملحقہ کھیتوں ،مالکان اور نگہداشت کرنے والوں تمام کے مفادات کو محفوظ رکھنے کا ضامن ہے مساقات اور مزارعت کے لیے مخصوص باب کے بعد درخت لگانے اور زراعت کی فضیلت بیان کی گئی ہے اسی پر انسان کے رزق اور اس کی فلاح کا سب سے زیادہ انحصار ہے زمین پر محنت اور پیدا وار کے اشتراک کے انتہائی منصفانہ معاہدوں کی تمام صورتوں میں جنھیں اسلام نے رائج کیا ہے انصاف کے تمام تر تقاضے ملحوظ رکھنے کے باوجود نا گہانی مسئلہ یہ پید ہو سکتا ہے کہ کوئی غیر متوقع قدرتی آفت پیداوار کو تباہ کر دے ۔ اس کے لیے رسول اللہ ﷺ کا واضح حکم ہے ایسے نقصان کے بعد حصے کا مطالبہ ساقط ہو جاتا ہے جب کسی قدرتی آفت کی بنا پر پھل حاصل ہی نہیں ہوا تو مطالبہ کس بنیاد پر؟اس کے ساتھ ہی تجارتی لین دین کی صورت میں جبکہ قبضہ اور ملکیت دوسرے فریق کو منتقل ہو چکی ہو اور ادائیگی باقی ہو تو کسی نقصان کی صورت میں مہلت اور اگر ممکن ہوتو تخفیف کی تلقین کی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی تفلیس (قرض ادا کرنے کی صلاحیت کے فقدان)کے حوالے سے طریقہ کا ر واضح کیا گیا ہے دوسری طرف جس کے پاس ادائیگی کی صلاحیت موجود ہو اس کی طرف سے لیت و لعل کو ظلم قرار دیا گیا ہے اور اس کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
اب تک لین دین کے معاہدوں کا ذکر تھا اس کے بعد ان چیزوں کا بیان ہے جن کی تجارت ممنوع ہے وہ غصب کی ہوئی چیزیں یا ایسی خدمات یا اشیاء ہیں جو حرام ہیں ،مثلاً:ناپاک جانور،جیسے کتے وغیرہ کو پالنا یا نشہ آور اشیاء مثلا شراب وغیرہ کو استعمال کرنا۔ پھر ان اشیاء کے لین دین میں جو بالکل حلال ہیں ان صورتوں کا ذکر ہے جن میں سود شامل ہو جاتا ہے یہ ربالفضل ہے ۔ایک ہی جنس کا اسی جنس سے کمی پیشی کے ساتھ تبادلہ ،ملتی جلتی اشیاء کا ادھار تبادلہ ،مثلا سونے چاندی کا،گندم اور جَو کا لین دین جس میں ایک چیز ادھار ہو یاد رہے کہ ایسی اشیاء کی قیمتوں میں موسم کے ساتھ یا مطقاً وقت اور تجارتی حالات کی بنا پر بہت جلد فرق پڑتا ہے اگرچہ قیمت(سونے ،چاندی یا سکے یا کرنسی نوٹ وغیرہ)کے ساتھ اشیاء کے تبادلے میں ادھار لین دین کی اجازت دی گئی ہے کیونکہ اگر اقتصادی معاملات انصاف کے ساتھ چلائے جائیں تو نقدی کی قیمت زیادہ عرصے تک مستحکم رہتی ہے ،دوسرا سبب یہ کہ نقدی کے عوض ادھار خریدو فروخت کے بغیر تجارتی معاملات چلنے ممکن نہیں تجارت کے جاری رہنے ہی سے انسانوں کے بنیادی اقتصادی مفادات حاصل بھی ہوتے ہے اور محفوظ رہتے ہیں ۔حیوانات کی بیع اجناس اور اشیاء کی بیع سے مختلف ہے بدوی معاشروں میں ان کا لین دین بہت زیادہ ہوتا ہے بلکہ کسی نہ کسی مویشی کو خود نقدی سے ملتی جلتی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔ ان کے لین دین کو آسان بنانے کے لیے اس میں جن مراعات کی ضرورت تھی ،اسلام نے ان مراعات کا ت اہتمام کیا ہے پھر تجارتی لین دین کے معاہدوں میں رہن کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے بعد بیع سلم یا سلف کے مسائل کو واضح کیا گیا ہے،پھر ذخیرہ اندوزی کی ممانعت بیان ہوئی ہے پھر شفعہ کے مسائل ہیں کہ لین دین اپنی جگہ درست ہو سکتا ہے لیکن ایک چیز میں شراکت رکھنے والے کا پہلا حق ہے کہ وہ بازار کی قیمت پر اس چیز کا باقی حصہ خیرید سکے۔ آخر میں زمین یا جائیداد کے حوالے سے حسن سلوک،کسی کی زمین دبانے کی ممانعت اور اختلاف کی صورت میں مشترکہ راستے کی چوڑائی متعین کرنے کے حوالے سے شریعت کے حکم کا بیان ہے۔
حرب بن شداد نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں یحییٰ بن ابی کثیر نے محمد بن ابراہیم سے حدیث بیان کی، انہیں ابوسلمہ نے حدیث بیان کی کہ ان کے اور ان کی قوم کے درمیان ایک زمین کے بارے میں جھگڑا تھا، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا تو انہوں نے کہا: ابوسلمہ! زمین سے کنارہ کش ہو جاؤ، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ’’جس نے ایک بالشت برابر زمین پر بھی ظلم سے قبضہ کیا، اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو سلمہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے اور ان کی قوم کے درمیان زمین کے بارے میں جھگڑا تھا۔ تو وہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کا تذکرہ ان سے کیا، تو انہوں نے فرمایا: اے ابو سلمہ، اس زمین سے کنارہ کش ہو جا کیونکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’جس نے ایک بالشت برابر زمین دبا لی، اسے ساتوں زمینوں کا طوق ڈالا جائے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Muhammad bin Ibrahim said that Abu Salama reported to him that there was between him and his people dispute over a piece of land, and he came to 'A'isha and mentioned that to her, whereupon she said: Abu Salama, abstain from getting this land, for Allah's Messenger (ﷺ) said: He who usurps even a span of land would be made to wear around his neck seven earths.