باب: مسلمان کافر کا وارث نہیں بنتا اور کافر مسلمان کا وارث نہیں بنتا
)
Muslim:
The Book of the Rules of Inheritance
(Chapter: A Muslim Does Not Inherite From A Disbeleever And A Disbeleever Deos Not Inherite From A Muslim)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1614.
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان کافر کا وارث نہیں بنتا، نہ کافر مسلمان کا وارث بنتا ہے۔‘‘
تشریح:
فوائدومسائل:
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ کافر مسلمان کا وارث نہیں بنتا۔ اسی طرح صحابہ اور فقہاء کی اکثریت کے نزدیک بھی مسلمان ، کافر کا وارث نہیں بن سکتا۔ البتہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ مسلمان، کافر کے مال کا وارث بن سکتا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عام کافر نہیں: البتہ اہل کبات کے بارے میں نکاح پر قیاس کرتے ہوئے یہ حکم دیا کہ وہ مسلمان کے وارث نہیں بنیں گے، البتہ مسلمان، اہل کتاب کے وارث بن سکتے ہیں۔ عروہ، سعید بن مسیب، ابراہیم نخعی اور اسحاق کا نقطۂ نظر بھی یہی ہے لیکن حدیث کے الفاظ واضح ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے قیاس کی کوئی گنجائش نہیں۔
فرائض فریضہ کی جمع ہے۔ فرض لغت میں مقدار ، اندازے اور مقرر کرنے کے معانی میں آتا ہے۔ الفرائض (ال کی تخصیص کے ساتھ ) سے مراد ورثے کے وہ حصے ہیں جن کی مقدار اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں مقرر فرمائی ہے۔ اللہ تعالی نے وراثت کی اہمیت کے پیش نظر قرآن مجید میں ورثے کی تقسیم کے احکامات کو بالتفصیل بیان کیا ہے، نماز جیسے امور میں بھی اصولی ہدایات دی گئی ہیں اور تفصیلات رسول الله ﷺکے عمل اور قول کے ذریعے سے واضح ہوتی ہیں ۔ اسلام کا نظام میراث ایک مکمل نظام ہے جس کا مقابلہ کیا اور دین یا معاشرے کا کوئی نظام میراث نہیں کر سکتا۔ یہ انتہائی دانائی مبنی نظام ہے، اقتصادی نمو میں مددگار ہے۔ خاندانوں میں جن افرادکو مالی ذ مہ داریوں کا امین بنایا گیا ہے، ان کے فرائض سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ تقسیم دولت کو یقینی بنانا ہے اور انصاف اور عدل کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔
اسلام نےنسبی اور ازدواجی تعلق کوورثےکی تقسیم کی بنیاد بنایا ہے۔ عورتوں کا حصہ ان کی ذمہ داری کے تناسب سے مقرر کیا ہے۔ عمر میں کمی بیشی کسی وارث کو اس کے حصے سے محروم نہیں کرتی۔ نہ کسی کے حصے میں کمی یا اضافے کا سبب ہے، جب غلامی قانونی طور پر جائز تھی تو غلامی سے آزادی عطا کرنے کے تعلق کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے لیکن نسب اور ازدواجی تعلق کی قیمت پرنہیں۔
یراث سے محروی کے نمایاں ترین اسباب دہ ہیں(1)قاتل چاہے کتنا قریبی رشتہ کیوں نہ رکھتا ہو مقتول کے ورثے سے محروم ہو گا۔ یہ اصول انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے ناگزیر ہے۔(2) دین میں فرق ۔ مسلمان غیر مسلم کا وارث ہوسکتا ہے نہ غیرمسلم
مسلمان کا وارث ہو سکتا ہے۔ اگر اللہ کے ساتھ ایمان اور بندگی کا رشتہ موجودنہیں تونسبی اور ازدواجی قرابت غیر متعلق ہو جاتی ہے۔ اس کے علا وہ غلامی محرومی کا ایک سبب ہے۔ بعض فقہاء نے حربی اور غیر حربی کے درمیان وراثت ممنوع قرار دی ہے۔ بعض نے لعان کومحرومی کے اسباب میں شمار کیا ہے۔ بعض اوقات اس کی صورت حال بھی وراثت سے محروی کا سبب بنتی ہے کہ کسی کا وارث بنا ہی اس کے لیے محرومی کا سبب بنتا ہو، مثلا ظاہری طور پر کوئی شخص کسی بیٹے کا باپ نہ ہو تو اس کا بھائی اس کا وارث بنے گا۔ اگر اس بھائی کو معلوم ہو کہ حقیقت میں اس شخص کا کوئی بیٹا بھی ہے جس کا کسی کو علم نہیں تو اس کی شہادت سے اس بیٹے کو مرنے والے کی ولد یت حاصل ہو جائے گی مگر اس صورت میں بھائی خودمحروم ہو جائے گا۔ اب نسب کے تحفظ کے لیے بیٹا ہونے کے بارے میں بھائی کی شہادت قبول کر لی جائے گی لیکن ایسے بیٹے کو وراثت میں حصہ نہیں ملے گا، البتہ شہادت دینے والےچچا کا فرض ہے کہ وہ ملنے والا سارا مال بھتیجے کو دے دے کیونکہ یہ بال اس کے لیے حلال نہیں۔
وارثوں کے رشتے بہت پیچیدہ ہوتے ہیں ۔ دوطرفہ اور ایک طرفہ رشتوں کے حوالے سے ہی عورت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
اس کے باوجود قرآن نے مقرر کردہ حصوں کے نظام کو انتہائی سادہ اور آسان رکھا ہے۔ وراثت کے حصے (الفرائض) پر مقرر کیےگئے ہیں۔
نصف (2/ 1)، ربع (4/ 1) من (8/ 1)، ثلثان ( دو تہائی 3 /2)، ثلث ( ایک تہائی ،یعنی 3/ 1 ) اور سدس (چھٹا حصہ،یعنی6/1) آدهاحقیقی بیٹی، پوتی ، سگی بہن، پدری بہن اور خاوند کو ملتا ہے جب ان کے ساتھ ایسے وارث موجود نہ ہوں جو ان کے لیے رکاوٹ بنتے ہیں۔ چوتھا حصہ قریب تر وارت کی موجودگی میں خاوند کو یا رکاوٹ بنے والے وارث کی عدم موجودگی میں بیوی بیولوں کو ملتاہے۔ دو تہائی ، رکاوٹ بنے والے وارث کی عدم موجودگی میں دو یا زیادہ حقیقی بیٹیوں یا پوتیوں یا حقیقی بہنوں یا پدری بہنوں کو ملتا ہے۔ تہائی اپنی یا بیٹے کی اولاد با دو یا دو سے زیادہ بھائیوں کو، بہنوں کی عدم موجودگی میں ماں کو، یا دو یا زیادہ مادری بھائیوں کو ملتا ہے۔ یہ کل ترکے کا ثلث ہے، کچھ وارثوں کا حصہ دینے کے بعد بقیہ کا تہائی (ثلث مابقی ) خاوند یا بیوی اور والدین کی موجودگی میں حقیقی ماں کو ملتا ہے، یا دادا اور بھائیوں کی موجودگی میں کسی اور حصہ دار کو اس صورت میں ملتا ہے جب اس کے لیے ہی حصہ دوسرے مقررہ حصے سے بہتر ہو۔ چھٹا حصہ (سدس) باپ، ماں، یا اپنی یا بیٹے کی اولاد کے ہوتے ہوئے دادے کو دادےکودادی دو دادیوں کو جب وہ اکٹھی ہوں اور بیٹی کی موجودگی میں پوتیوں کو اور حقیقی بہن کی موجودگی میں پدری بہن کویا اکیلی ہونے کی صورت میں مادری بھائی بہن کو مانتا ہے۔ یہ سب حصے قرآن نے مقرر کیے ہیں، البتہ دادیوں کے حصے کا تعین سنت سے ہوا ہے۔ یہ سب ورثاءاہل الفرائض کہلاتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے حصے فرض کر دیئے گئے ہیں۔ اہل فرائض کے حصے ادا کرنے کے بعد باقی کے وارث عصبات ہوتے ہیں ۔ ان کا بیان اگلی احادیث میں آئے گا۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان کافر کا وارث نہیں بنتا، نہ کافر مسلمان کا وارث بنتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل:
اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ کافر مسلمان کا وارث نہیں بنتا۔ اسی طرح صحابہ اور فقہاء کی اکثریت کے نزدیک بھی مسلمان ، کافر کا وارث نہیں بن سکتا۔ البتہ حضرت معاذ رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ مسلمان، کافر کے مال کا وارث بن سکتا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عام کافر نہیں: البتہ اہل کبات کے بارے میں نکاح پر قیاس کرتے ہوئے یہ حکم دیا کہ وہ مسلمان کے وارث نہیں بنیں گے، البتہ مسلمان، اہل کتاب کے وارث بن سکتے ہیں۔ عروہ، سعید بن مسیب، ابراہیم نخعی اور اسحاق کا نقطۂ نظر بھی یہی ہے لیکن حدیث کے الفاظ واضح ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے قیاس کی کوئی گنجائش نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان، کافر کا وارث نہیں ہو گا، اور کافر مسلمان کا وارث نہیں بنے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان اور کافر ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے۔ ائمہ اربعہ اور جمہور فقہائے امت کے نزدیک مسلمان کافر کا وارث نہیں بنے گا، لیکن حضرت معاذ بن جبل اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے نزدیک اگر کافر کا کافر وارث موجود نہ ہو اور وہ دارالاسلام میں رہتا ہو، تو پھر اس کا مال، بیت المال کی بجائے، اس کے قریبی مسلمان کو دے دیا جائے گا، لیکن یہ موقف صریح حدیث کے منافی ہے، اس لیے امت نے اس کو قبول نہیں کیا، تو اگر جلیل القدر صحابہ کا قول، صحیح حدیث کی موجودگی میں معتبر نہیں ہے، تو کسی امام کا قول کیسے معتبر ہو سکتا ہے، اس طرح کافر مسلمان کا وارث نہیں ہو سکتا، فقہائے امت کا اس پر اتفاق ہے، ہاں اتنی بات ہے کہ کافر اگر تقسیم ترکہ سے پہلے مسلمان ہو جائے، تو بعض صحابہ اور امام احمد کے نزدیک، وہ وارث ہو گا، لیکن ظاہرا ورثا کا ترکہ میں حق، میت کی موت سے ثابت ہو جاتا ہے، اس لیے جو مرتے وقت، وارث نہیں بنے گا، وہ بعد میں وارث نہیں بن سکے گا، اس لیے حدیث کا یہی تقاضا ہے کہ اس کو وارث نہ مانا جائے، امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی رحمہم اللہ کا یہی موقف ہے، اور امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Usama bin Zaid reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: A Muslim is not entitled to inherit from a non-Muslim, and a non-Muslim is not entitled to inherit from a Muslim.