باب: مقررہ حصے والوں کو انم کے حصےے دو اور جو بچ جائے وہ سب سے قریبی رشتہ رکھنے والے مرد کے لیے ہے
)
Muslim:
The Book of the Rules of Inheritance
(Chapter: Give The Shares Of Inheritance To Those Who Are Entitled To Them, And Whatever Is Left Goes To The Closest Male Relative)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1615.
وہیب نے ہمیں ابن طاؤس سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مقررہ حصے حقداروں کو دو اور جو بچ جائے وہ سب سے قریبی رشتہ رکھنے والے مرد کے لیے ہیں۔‘‘
تشریح:
فوائدومسائل:
اہل فرائض، یعنی رشتوں کے حوالے سے جن کے حصے مقرر کر دیے گئے ہیں (خاوند، بیوی، ماں، بیٹیاں، بہنیں وغیرہ) ان کے بعد جو بچ جائے وہ سارا مردوں میں سے اس شخص کو ملے گا جو نسب کے اعتبار سے میت کے قریب تر ہو گا۔ قرب میں سب سے پہلی ترجیح بیٹوں کو ہے۔ پھر ان کی اولاد کی، پھر آگے ان کا اولاد کی، پھر باپ، پھر دادا اور بھائی کی، درجہ بدرجہ بھائی کی اولاد کی، اس کے چچاؤں (اعمام) کی، پھر ان کی اولاد کی۔ ان میں جس کا نسب ماں اور باپ دونوں کی طرف سے ملتا ہو گا۔ اس کو ترجیح حاصل ہو گی۔ ان کو عصبات کہا جاتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ عصبہ کےلیے مرد ہونے کی شرط اس کے لیے ہے جو خود عصبہ ہے۔ مثلاً بیٹا، لیکن عصبہ بالغیر، مثلاً بیٹے کے ساتھ بیٹی اور عصبہ مع الغیر جیسے بیٹی کے ساتھ بہن، ان کے لیے مرد ہونے کی شرط نہیں ہے۔ یہ دوسری نصوص کے تحت وارث بنتی ہیں۔ اور ان کے لیے عصبہ کا لفظ مجازاً استعمال ہوتا ہے۔
فرائض فریضہ کی جمع ہے۔ فرض لغت میں مقدار ، اندازے اور مقرر کرنے کے معانی میں آتا ہے۔ الفرائض (ال کی تخصیص کے ساتھ ) سے مراد ورثے کے وہ حصے ہیں جن کی مقدار اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں مقرر فرمائی ہے۔ اللہ تعالی نے وراثت کی اہمیت کے پیش نظر قرآن مجید میں ورثے کی تقسیم کے احکامات کو بالتفصیل بیان کیا ہے، نماز جیسے امور میں بھی اصولی ہدایات دی گئی ہیں اور تفصیلات رسول الله ﷺکے عمل اور قول کے ذریعے سے واضح ہوتی ہیں ۔ اسلام کا نظام میراث ایک مکمل نظام ہے جس کا مقابلہ کیا اور دین یا معاشرے کا کوئی نظام میراث نہیں کر سکتا۔ یہ انتہائی دانائی مبنی نظام ہے، اقتصادی نمو میں مددگار ہے۔ خاندانوں میں جن افرادکو مالی ذ مہ داریوں کا امین بنایا گیا ہے، ان کے فرائض سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ تقسیم دولت کو یقینی بنانا ہے اور انصاف اور عدل کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔
اسلام نےنسبی اور ازدواجی تعلق کوورثےکی تقسیم کی بنیاد بنایا ہے۔ عورتوں کا حصہ ان کی ذمہ داری کے تناسب سے مقرر کیا ہے۔ عمر میں کمی بیشی کسی وارث کو اس کے حصے سے محروم نہیں کرتی۔ نہ کسی کے حصے میں کمی یا اضافے کا سبب ہے، جب غلامی قانونی طور پر جائز تھی تو غلامی سے آزادی عطا کرنے کے تعلق کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے لیکن نسب اور ازدواجی تعلق کی قیمت پرنہیں۔
یراث سے محروی کے نمایاں ترین اسباب دہ ہیں(1)قاتل چاہے کتنا قریبی رشتہ کیوں نہ رکھتا ہو مقتول کے ورثے سے محروم ہو گا۔ یہ اصول انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے ناگزیر ہے۔(2) دین میں فرق ۔ مسلمان غیر مسلم کا وارث ہوسکتا ہے نہ غیرمسلم
مسلمان کا وارث ہو سکتا ہے۔ اگر اللہ کے ساتھ ایمان اور بندگی کا رشتہ موجودنہیں تونسبی اور ازدواجی قرابت غیر متعلق ہو جاتی ہے۔ اس کے علا وہ غلامی محرومی کا ایک سبب ہے۔ بعض فقہاء نے حربی اور غیر حربی کے درمیان وراثت ممنوع قرار دی ہے۔ بعض نے لعان کومحرومی کے اسباب میں شمار کیا ہے۔ بعض اوقات اس کی صورت حال بھی وراثت سے محروی کا سبب بنتی ہے کہ کسی کا وارث بنا ہی اس کے لیے محرومی کا سبب بنتا ہو، مثلا ظاہری طور پر کوئی شخص کسی بیٹے کا باپ نہ ہو تو اس کا بھائی اس کا وارث بنے گا۔ اگر اس بھائی کو معلوم ہو کہ حقیقت میں اس شخص کا کوئی بیٹا بھی ہے جس کا کسی کو علم نہیں تو اس کی شہادت سے اس بیٹے کو مرنے والے کی ولد یت حاصل ہو جائے گی مگر اس صورت میں بھائی خودمحروم ہو جائے گا۔ اب نسب کے تحفظ کے لیے بیٹا ہونے کے بارے میں بھائی کی شہادت قبول کر لی جائے گی لیکن ایسے بیٹے کو وراثت میں حصہ نہیں ملے گا، البتہ شہادت دینے والےچچا کا فرض ہے کہ وہ ملنے والا سارا مال بھتیجے کو دے دے کیونکہ یہ بال اس کے لیے حلال نہیں۔
وارثوں کے رشتے بہت پیچیدہ ہوتے ہیں ۔ دوطرفہ اور ایک طرفہ رشتوں کے حوالے سے ہی عورت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
اس کے باوجود قرآن نے مقرر کردہ حصوں کے نظام کو انتہائی سادہ اور آسان رکھا ہے۔ وراثت کے حصے (الفرائض) پر مقرر کیےگئے ہیں۔
نصف (2/ 1)، ربع (4/ 1) من (8/ 1)، ثلثان ( دو تہائی 3 /2)، ثلث ( ایک تہائی ،یعنی 3/ 1 ) اور سدس (چھٹا حصہ،یعنی6/1) آدهاحقیقی بیٹی، پوتی ، سگی بہن، پدری بہن اور خاوند کو ملتا ہے جب ان کے ساتھ ایسے وارث موجود نہ ہوں جو ان کے لیے رکاوٹ بنتے ہیں۔ چوتھا حصہ قریب تر وارت کی موجودگی میں خاوند کو یا رکاوٹ بنے والے وارث کی عدم موجودگی میں بیوی بیولوں کو ملتاہے۔ دو تہائی ، رکاوٹ بنے والے وارث کی عدم موجودگی میں دو یا زیادہ حقیقی بیٹیوں یا پوتیوں یا حقیقی بہنوں یا پدری بہنوں کو ملتا ہے۔ تہائی اپنی یا بیٹے کی اولاد با دو یا دو سے زیادہ بھائیوں کو، بہنوں کی عدم موجودگی میں ماں کو، یا دو یا زیادہ مادری بھائیوں کو ملتا ہے۔ یہ کل ترکے کا ثلث ہے، کچھ وارثوں کا حصہ دینے کے بعد بقیہ کا تہائی (ثلث مابقی ) خاوند یا بیوی اور والدین کی موجودگی میں حقیقی ماں کو ملتا ہے، یا دادا اور بھائیوں کی موجودگی میں کسی اور حصہ دار کو اس صورت میں ملتا ہے جب اس کے لیے ہی حصہ دوسرے مقررہ حصے سے بہتر ہو۔ چھٹا حصہ (سدس) باپ، ماں، یا اپنی یا بیٹے کی اولاد کے ہوتے ہوئے دادے کو دادےکودادی دو دادیوں کو جب وہ اکٹھی ہوں اور بیٹی کی موجودگی میں پوتیوں کو اور حقیقی بہن کی موجودگی میں پدری بہن کویا اکیلی ہونے کی صورت میں مادری بھائی بہن کو مانتا ہے۔ یہ سب حصے قرآن نے مقرر کیے ہیں، البتہ دادیوں کے حصے کا تعین سنت سے ہوا ہے۔ یہ سب ورثاءاہل الفرائض کہلاتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے حصے فرض کر دیئے گئے ہیں۔ اہل فرائض کے حصے ادا کرنے کے بعد باقی کے وارث عصبات ہوتے ہیں ۔ ان کا بیان اگلی احادیث میں آئے گا۔
وہیب نے ہمیں ابن طاؤس سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مقررہ حصے حقداروں کو دو اور جو بچ جائے وہ سب سے قریبی رشتہ رکھنے والے مرد کے لیے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل:
اہل فرائض، یعنی رشتوں کے حوالے سے جن کے حصے مقرر کر دیے گئے ہیں (خاوند، بیوی، ماں، بیٹیاں، بہنیں وغیرہ) ان کے بعد جو بچ جائے وہ سارا مردوں میں سے اس شخص کو ملے گا جو نسب کے اعتبار سے میت کے قریب تر ہو گا۔ قرب میں سب سے پہلی ترجیح بیٹوں کو ہے۔ پھر ان کی اولاد کی، پھر آگے ان کا اولاد کی، پھر باپ، پھر دادا اور بھائی کی، درجہ بدرجہ بھائی کی اولاد کی، اس کے چچاؤں (اعمام) کی، پھر ان کی اولاد کی۔ ان میں جس کا نسب ماں اور باپ دونوں کی طرف سے ملتا ہو گا۔ اس کو ترجیح حاصل ہو گی۔ ان کو عصبات کہا جاتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ عصبہ کےلیے مرد ہونے کی شرط اس کے لیے ہے جو خود عصبہ ہے۔ مثلاً بیٹا، لیکن عصبہ بالغیر، مثلاً بیٹے کے ساتھ بیٹی اور عصبہ مع الغیر جیسے بیٹی کے ساتھ بہن، ان کے لیے مرد ہونے کی شرط نہیں ہے۔ یہ دوسری نصوص کے تحت وارث بنتی ہیں۔ اور ان کے لیے عصبہ کا لفظ مجازاً استعمال ہوتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حصہ والوں کو ان کے حصے دے دو، پھر جو بچ جائے، وہ اس مرد کا حصہ ہے، جو میت کا سب سے زیادہ قریبی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
فرائض سے مراد، وہ حصے ہیں، جو قرآن مجید میں طے کر دئیے گئے ہیں، اور یہ چھ ہیں۔ (1) آدھا، (2) چوتھائی، (3) آٹھواں (4) دو تہائی (5) تہائی (6) چھٹا، اور اصحاب الفروض سے مراد، وہ افراد ہیں جن کو یہ حصے ملتے ہیں، اور یہ چار مرد (باپ، دادا، خاوند، اخیافی بھائی) اور آٹھ عورتیں (بیٹی، پوتی، حقیقی بہن، علاتی بہن، اخیافی بہن، بیوی، ماں اور دادی، نانی) ہیں، حقیقی بہن بھائی، شقیق کہلاتے ہیں، باپ میں شریک علاتی اور ماں شریک اخیافی کہلاتے ہیں، اور اگر اصحاب الفروض سے بچ جائے، تو وہ عصبات کو ملتا ہے، اور اس سے مراد، وہ مرد ہیں، جو میت کے رشتہ دار ہیں، لیکن ان کا حصہ مقرر نہیں ہے، یا وہ مرد رشتہ دار، جو میت کے باپ کے واسطہ سے رشتہ دار ہیں، جیسے میت کا بیٹا، پوتا، بھائی اور چچا وغیرہ۔ ان میں سے جو قریبی ہے، وہ دور والے کو محروم کر دے گا، اس لیے حدیث میں اولیٰ یا ادنیٰ کی قید لگائی ہے، اور رجل کے بعد ذکر اس لیے کہا تاکہ یہ نہ سمجھا جائے کہ رجل کبیر، (بڑا) کے معنی میں ہے اور صغیر (چھوٹا) کے مقابلہ میں ہے، بلکہ یہاں انثیٰ (مونث) کے مقابلہ میں ہے، مثلا ایک انسان فوت ہو جاتا ہے، اس کی صرف ایک بیٹی موجود ہے، اور اس کا ایک بھائی زندہ ہے اور ایک چچا، تو بیٹی کو ترکہ کا آدھا حصہ ملے گا، اور باقی آدھا بھائی کو ملے گا، چچا کو کچھ نہیں ملے گا، اور اگر بھائی نہ ہو، تو پھر باقی آدھا چچا کو ملے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn Abbas (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: Give the shares to those who are entitled to them, and what remains over goes to the nearest male heir.