Muslim:
The Book of the Rules of Inheritance
(Chapter: Inheritance Of The Kalalah)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1616.
سفیان بن عیینہ نے ہمیں محمد بن منکدر سے حدیث بیان کی: انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، انہوں نے کہا: میں بیمار ہوا تو رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ میری عیادت کرنے کے لیے پیدل چل کر تشریف لائے، مجھ پر غشی ہو گئی تو رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، پھر اپنے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا تو مجھے افاقہ ہو گیا، میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں اپنے مال کے بارے میں کیسے فیصلہ کروں؟ (اس کو ایسے ہی چھوڑ جاؤں یا وصیت کروں، وصیت کروں تو کتنے حصے میں؟ اس وقت حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کے والد زندہ تھے نہ اور کوئی بیٹا تھا۔) آپﷺ نے مجھے جواب نہ دیا حتی کہ وراثت کی آیت نازل ہوئی: ’’وہ آپ سے فتویٰ مانتے ہیں، کہہ دیجئے: اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔‘‘
فرائض فریضہ کی جمع ہے۔ فرض لغت میں مقدار ، اندازے اور مقرر کرنے کے معانی میں آتا ہے۔ الفرائض (ال کی تخصیص کے ساتھ ) سے مراد ورثے کے وہ حصے ہیں جن کی مقدار اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں مقرر فرمائی ہے۔ اللہ تعالی نے وراثت کی اہمیت کے پیش نظر قرآن مجید میں ورثے کی تقسیم کے احکامات کو بالتفصیل بیان کیا ہے، نماز جیسے امور میں بھی اصولی ہدایات دی گئی ہیں اور تفصیلات رسول الله ﷺکے عمل اور قول کے ذریعے سے واضح ہوتی ہیں ۔ اسلام کا نظام میراث ایک مکمل نظام ہے جس کا مقابلہ کیا اور دین یا معاشرے کا کوئی نظام میراث نہیں کر سکتا۔ یہ انتہائی دانائی مبنی نظام ہے، اقتصادی نمو میں مددگار ہے۔ خاندانوں میں جن افرادکو مالی ذ مہ داریوں کا امین بنایا گیا ہے، ان کے فرائض سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ تقسیم دولت کو یقینی بنانا ہے اور انصاف اور عدل کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔
اسلام نےنسبی اور ازدواجی تعلق کوورثےکی تقسیم کی بنیاد بنایا ہے۔ عورتوں کا حصہ ان کی ذمہ داری کے تناسب سے مقرر کیا ہے۔ عمر میں کمی بیشی کسی وارث کو اس کے حصے سے محروم نہیں کرتی۔ نہ کسی کے حصے میں کمی یا اضافے کا سبب ہے، جب غلامی قانونی طور پر جائز تھی تو غلامی سے آزادی عطا کرنے کے تعلق کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے لیکن نسب اور ازدواجی تعلق کی قیمت پرنہیں۔
یراث سے محروی کے نمایاں ترین اسباب دہ ہیں(1)قاتل چاہے کتنا قریبی رشتہ کیوں نہ رکھتا ہو مقتول کے ورثے سے محروم ہو گا۔ یہ اصول انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے ناگزیر ہے۔(2) دین میں فرق ۔ مسلمان غیر مسلم کا وارث ہوسکتا ہے نہ غیرمسلم
مسلمان کا وارث ہو سکتا ہے۔ اگر اللہ کے ساتھ ایمان اور بندگی کا رشتہ موجودنہیں تونسبی اور ازدواجی قرابت غیر متعلق ہو جاتی ہے۔ اس کے علا وہ غلامی محرومی کا ایک سبب ہے۔ بعض فقہاء نے حربی اور غیر حربی کے درمیان وراثت ممنوع قرار دی ہے۔ بعض نے لعان کومحرومی کے اسباب میں شمار کیا ہے۔ بعض اوقات اس کی صورت حال بھی وراثت سے محروی کا سبب بنتی ہے کہ کسی کا وارث بنا ہی اس کے لیے محرومی کا سبب بنتا ہو، مثلا ظاہری طور پر کوئی شخص کسی بیٹے کا باپ نہ ہو تو اس کا بھائی اس کا وارث بنے گا۔ اگر اس بھائی کو معلوم ہو کہ حقیقت میں اس شخص کا کوئی بیٹا بھی ہے جس کا کسی کو علم نہیں تو اس کی شہادت سے اس بیٹے کو مرنے والے کی ولد یت حاصل ہو جائے گی مگر اس صورت میں بھائی خودمحروم ہو جائے گا۔ اب نسب کے تحفظ کے لیے بیٹا ہونے کے بارے میں بھائی کی شہادت قبول کر لی جائے گی لیکن ایسے بیٹے کو وراثت میں حصہ نہیں ملے گا، البتہ شہادت دینے والےچچا کا فرض ہے کہ وہ ملنے والا سارا مال بھتیجے کو دے دے کیونکہ یہ بال اس کے لیے حلال نہیں۔
وارثوں کے رشتے بہت پیچیدہ ہوتے ہیں ۔ دوطرفہ اور ایک طرفہ رشتوں کے حوالے سے ہی عورت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
اس کے باوجود قرآن نے مقرر کردہ حصوں کے نظام کو انتہائی سادہ اور آسان رکھا ہے۔ وراثت کے حصے (الفرائض) پر مقرر کیےگئے ہیں۔
نصف (2/ 1)، ربع (4/ 1) من (8/ 1)، ثلثان ( دو تہائی 3 /2)، ثلث ( ایک تہائی ،یعنی 3/ 1 ) اور سدس (چھٹا حصہ،یعنی6/1) آدهاحقیقی بیٹی، پوتی ، سگی بہن، پدری بہن اور خاوند کو ملتا ہے جب ان کے ساتھ ایسے وارث موجود نہ ہوں جو ان کے لیے رکاوٹ بنتے ہیں۔ چوتھا حصہ قریب تر وارت کی موجودگی میں خاوند کو یا رکاوٹ بنے والے وارث کی عدم موجودگی میں بیوی بیولوں کو ملتاہے۔ دو تہائی ، رکاوٹ بنے والے وارث کی عدم موجودگی میں دو یا زیادہ حقیقی بیٹیوں یا پوتیوں یا حقیقی بہنوں یا پدری بہنوں کو ملتا ہے۔ تہائی اپنی یا بیٹے کی اولاد با دو یا دو سے زیادہ بھائیوں کو، بہنوں کی عدم موجودگی میں ماں کو، یا دو یا زیادہ مادری بھائیوں کو ملتا ہے۔ یہ کل ترکے کا ثلث ہے، کچھ وارثوں کا حصہ دینے کے بعد بقیہ کا تہائی (ثلث مابقی ) خاوند یا بیوی اور والدین کی موجودگی میں حقیقی ماں کو ملتا ہے، یا دادا اور بھائیوں کی موجودگی میں کسی اور حصہ دار کو اس صورت میں ملتا ہے جب اس کے لیے ہی حصہ دوسرے مقررہ حصے سے بہتر ہو۔ چھٹا حصہ (سدس) باپ، ماں، یا اپنی یا بیٹے کی اولاد کے ہوتے ہوئے دادے کو دادےکودادی دو دادیوں کو جب وہ اکٹھی ہوں اور بیٹی کی موجودگی میں پوتیوں کو اور حقیقی بہن کی موجودگی میں پدری بہن کویا اکیلی ہونے کی صورت میں مادری بھائی بہن کو مانتا ہے۔ یہ سب حصے قرآن نے مقرر کیے ہیں، البتہ دادیوں کے حصے کا تعین سنت سے ہوا ہے۔ یہ سب ورثاءاہل الفرائض کہلاتے ہیں ۔ کیونکہ ان کے حصے فرض کر دیئے گئے ہیں۔ اہل فرائض کے حصے ادا کرنے کے بعد باقی کے وارث عصبات ہوتے ہیں ۔ ان کا بیان اگلی احادیث میں آئے گا۔
سفیان بن عیینہ نے ہمیں محمد بن منکدر سے حدیث بیان کی: انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، انہوں نے کہا: میں بیمار ہوا تو رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ میری عیادت کرنے کے لیے پیدل چل کر تشریف لائے، مجھ پر غشی ہو گئی تو رسول اللہ ﷺ نے وضو کیا، پھر اپنے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا تو مجھے افاقہ ہو گیا، میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں اپنے مال کے بارے میں کیسے فیصلہ کروں؟ (اس کو ایسے ہی چھوڑ جاؤں یا وصیت کروں، وصیت کروں تو کتنے حصے میں؟ اس وقت حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ کے والد زندہ تھے نہ اور کوئی بیٹا تھا۔) آپﷺ نے مجھے جواب نہ دیا حتی کہ وراثت کی آیت نازل ہوئی: ’’وہ آپ سے فتویٰ مانتے ہیں، کہہ دیجئے: اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں بیمار پڑ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر پیدل چل کر میری بیمار پرسی کے لیے تشریف لائے، تو مجھ پر غشی طاری ہو گئی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر اپنے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا، تو مجھے ہوش آ گیا، میں نے کہا، اے اللہ کے رسول! میں اپنے مال کے بارے میں کیا فیصلہ کروں، کیسے تقسیم کروں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا، حتی کہ وراثت کی آیت اتری، ’’وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ فرمادیجئے، اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے بارے میں جواب دیتا ہے۔‘‘ (نساء، آیت نمبر 176)
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے ساتھیوں سے ہمدردی اور خیرخواہی اور آپﷺ کی سادگی و بے تکلفی کا پتہ چلتا ہے، کہ آپﷺ پیدل چل کر بیمار پرسی کے لیے چلے جاتے تھے، اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بے ہوش پر وضو کا پانی ڈالا جا سکتا ہے، اور آپﷺ کے وضوء کے پانی کی برکت سے ہوش میں آ جانے سے یہ استدلال کرنا کہ آثار صالحین سے برکت لینا درست ہے، صحیح نہیں ہے، کیونکہ دوسرے صالحین کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قیاس کرنا درست نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو صحابہ کرام عشرہ مبشرہ کے برکات کا اہتمام کرتے، مزید برآں احناف کے ہاں تو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات بھی پاک ہیں، تو کیا بزرگوں کے فضلات سے بھی برکت حاصل کی جائے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir bin 'Abdullah (RA) reported: I fell sick and there came to me on foot Allah's Messenger (ﷺ) and Abu Bakr (RA) for inquiring after my health. I fainted. He (the Holy Prophet) performed ablution and then sprinkled over me the water of his ablution. I felt some relief and said: Allah's Messenger, how should I decide about my property? He said nothing to me in response until this verse pertaining to the law of inheritance was revealed: "They ask you for a decision; say: Allah gives you a decision concerning the person who has neither parents nor children" (iv. 177).