باب: اولاد میں سے کسی کو تحفہ دینے میں فوقیت دینا نا پسندیدہ ہے
)
Muslim:
The Book of Gifts
(Chapter: It Is Disliked To Favor Some Of One's Children Over Others In Gift-Giving)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1623.
امام مالک نے ابن شہاب سے اور انہوں نے حمید بن عبدالرحمان اور محمد بن نعمان بن بشیر سے روایت کی، وہ دونوں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ انہوں نے کہا: ان کے والد انہیں لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: میں نے اپنے اس بیٹے کو غلام تحفے میں دیا ہے جو میرا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم نے اپنے سب بچوں کو اس جیسا تحفہ دیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے واپس لو۔‘‘
تشریح:
فوائدومسائل:
(1) حضرت نعمان رضی اللہ تعالی عنہ کے والد حضرت بشیر بن سعد انصاری خزرجی رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ بدر میں شریک ہوئے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ خلافت میں خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی کمان میں عین التمر کی لڑائی میں شہادت پائی۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے حضرت بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کو غلام واپس لینے کا حکم دیا تاکہ اس حوالے سے جو غلط کام کیا تھا، اس کا ازالہ ہو جائے۔
وراثت میں شرعی استحقاق کی بنیادپربلاقیمت دولت اورچیزیں وغیرہ ملتی ہیں۔ ہبہ میں بغیرکسی شرعی استحقاق کےایسی چیزیں دی جاتی ہیں ۔ صدقہ میں بھی یہی ہوتاہے لیکن فرق یہ ہےکہ صدقہ کسی ضرورت مندکودیاجاتاہے۔ اس کےپیچھےترحم کاجذبہ ہوتاہےجبکہ ہدیہ اکرام اورعزت ومحبت کےاظہارکےلیے دیاجاتاہے ۔ اگرصحیح نیت سےاورصحیح صورت میں کسی کوکچھ ہبہ کیاجائےتویہ اجتماعی طورپرمعاشرےکی بہتری کاسبب ہے۔دوست احباب اورعزیزایک دوسرےکےقریب آتےہیں ،اس لیے اس سےایسی کوئی صورت پیدانہیں ہونی چاہیےکہ مثبت کےبجائےمنفی نتائج سامنےآئیں۔ آپ اپنی مرضی سےکسی کوعطیہ نہ کریں یاصدقےکامستحق نہ سمجھیں توکوئی بہت بڑی خرابی پیدانہیں ہوتی لیکن کسی کوچیزدےکرواپس لےلیں توبناہواتعلق بھی بگڑجاتاہے۔ کسی کوکچھ دینابہت اعلیٰ جذبات کامرہون منت ہوتاہے۔ دےکرلےلینااس کےبرعکس ہے۔یہ لالچ ،خودغرضی اورخودپسندی کےزمرےمیں آتاہے۔
امام مسلم نےصدقات واپس نہ لینےکی احادیث سےآغازکیاہے۔ ہبہ کی ہوئی چیزکی طرح صدقات کوواپس لینابھی انتہائی ناپسندیدہ کام ہے۔ رسول اللہﷺ نےاس کےلیے مثال بھی ایسی دی ہےجس سےاس کی انتہائی قباحت واضح ہوتی ہے۔ صدقےمیں اصل امقصوداللہ کوراضی کرناہے،واپسی یقینی طورپراس کی رضاسےمحرومی بلکہ ناراضی کاسبب ہے۔ نتائج کےاعتبارسے یہ انتہائی غلط کام ہے۔ رسول اللہﷺنےاخلاق عالیہ کےتقاضےپورےکرنےکےلیے صدقےمیں دی ہوئی چیزکوقیمتاواپس لینےسےبھی منع فرمایاہے۔
اگرکسی قریبی رشتہ دارخصوصااولادمیں سےبعض کودیاجائےاوربعض کومحروم رکھاجائےتواس سےبھی بےپناہ خرابیاں پیداہوتی ہیں۔ سب سےبڑی خرابی یہ ہےکہ سب بچےفطرتاوالدین سےایک جیسامحبت بھراتعلق رکھتےہیں، اس کےاظہارمیں وہ ایک دوسرےسےمختلف ہوں، لیکن جنہیں محروم کیاجائےگاوہ یہی سمجھیں گےکہ ان کےوالدین یاوالدان سےمحبت نہیں کرتے۔ اس سےوہ خودبھی منفی کیفیت کاشکارہوجائیں گےاوران میں والدین کےحوالےسےعدم محبت اورعدم خدمت کابھی جذبہ پیداہوگا۔ اگروالدین سمجھتےہیں کہ کسی بچےمیں اس حوالےسےکمی ہےتواسےمحروم کرنےسےاس خرابی میں اضافہ ہوگا۔ منصفانہ سلوک بچوں کی اصلاح کاسبب بنتاہےاوراگرایسانہ بھی ہوسکےتووالدین یادونوں میں سےایک جودےرہاہے،کم ازکم خوداللہ کےسامنےجوابدہی سےمحفوظ رہےگا۔
عمربھرکےلیے کسی کوچیزدیں تووہ اس خاندان کےلیے اپنی چیزکےمترادف ہوتی ہے۔ اس سےمحرومی اپنی چیزسےمحرومی کی طرح تلخ لگتی ہےاوراب تک جومثبت جذبات موجودتھےوہ منفی جذبات میں تبدیل ہوجاتےہیں۔ معاشرےکواس سےمحفوظ رکھنےکےلیے آپﷺ نےیہ ہدایت جاری فرمائی کہ عمربھرکےلیے کسی کودیں توان کےبچوں سےبھی واپس نہ لیں،واپسی سےبہترہےدیاہی نہ جائے،البتہ عاریتادینااس سےمختلف ہے۔ لینےوالاسمجھتاہےکہ یہ چیزاس کی نہیں ،وہ عارضی طورپراس سےاستفادہ کررہاہےتویہ دینےوالےکی نیکی ہے۔
كتاب الهبات میں ان تمام امورکےحوالےسےفرامین رسولﷺکوپیش کیاگیاہے۔
امام مالک نے ابن شہاب سے اور انہوں نے حمید بن عبدالرحمان اور محمد بن نعمان بن بشیر سے روایت کی، وہ دونوں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ انہوں نے کہا: ان کے والد انہیں لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: میں نے اپنے اس بیٹے کو غلام تحفے میں دیا ہے جو میرا تھا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم نے اپنے سب بچوں کو اس جیسا تحفہ دیا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے واپس لو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائدومسائل:
(1) حضرت نعمان رضی اللہ تعالی عنہ کے والد حضرت بشیر بن سعد انصاری خزرجی رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جنگ بدر میں شریک ہوئے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ خلافت میں خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کی کمان میں عین التمر کی لڑائی میں شہادت پائی۔ (2) رسول اللہ ﷺ نے حضرت بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کو غلام واپس لینے کا حکم دیا تاکہ اس حوالے سے جو غلط کام کیا تھا، اس کا ازالہ ہو جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرا باپ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا، اور عرض کیا، میں نے اپنے اس بچہ کو اپنا غلام ہبہ کر دیا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تو نے اپنی تمام اولاد کو اسی قسم کا عطیہ دیا ہے؟‘‘ تو اس نے کہا، نہیں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس (غلام) کو واپس لو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضرت نعمان رضی اللہ عنہ جب پیدا ہوئے، تو ان کی والدہ عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے یہ مطالبہ کیا کہ میرے اس بچے کو کوئی عطیہ دو، وگرنہ میں اس کی پرورش و پرداخت نہیں کرتی، تو ان کے والد بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیوی کو راضی کرنے کے لیے ایک بہترین باغ، اپنے بیٹے کو ہبہ کر دیا، پھر بعد میں واپس لے لیا، پھر ٹال مٹول سے کام لیتے رہے، جب بیوی کا اصرار بڑھا، تو انہوں نے ایک غلام دینے کا اظہار کیا، تو بیوی نے پہلے واقعہ کے پیش نظر یہ کہا کہ اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بناؤ تاکہ پھر واپس نہ لے سکو، اس لیے وہ اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، بعض راویوں نے، گواہی کے واقعہ کو باغ کے ہبہ کے ساتھ ہی بیان کر دیا ہے، جو وہم ہے، کیونکہ اگر پہلے وہ مسئلہ سن چکے تھے، تو وہ دوبارہ یہ کام نہ کرتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Nu'man bin Bashir reported that his father brought him to Allah's Messenger (ﷺ) and said: I have donated this slave of mine to my son. Allah's Messenger (ﷺ) said: Have you donated to every one of your sons (a slave) like this? He said: No. Thereupon Allah's Messenger (may peace he upon him) said: Then take him back.