Muslim:
The Book of Gifts
(Chapter: The 'Umra (Lifelong Gift))
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1625.
امام مالک نے ابن شہاب سے، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمان سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس آدمی کو عمر بھر کے لیے دی جانے والی چیز اس کے اور اس کی اولاد کے لیے دی گئی تو وہ اسی کی ہے جسے دی گئی، وہ اس شخص کو واپس نہیں ملے گی جس نے دی تھی، کیونکہ اس نے ایسا عطیہ دیا ہے جس میں وراثت جاری ہو گئی ہے۔‘‘
وراثت میں شرعی استحقاق کی بنیادپربلاقیمت دولت اورچیزیں وغیرہ ملتی ہیں۔ ہبہ میں بغیرکسی شرعی استحقاق کےایسی چیزیں دی جاتی ہیں ۔ صدقہ میں بھی یہی ہوتاہے لیکن فرق یہ ہےکہ صدقہ کسی ضرورت مندکودیاجاتاہے۔ اس کےپیچھےترحم کاجذبہ ہوتاہےجبکہ ہدیہ اکرام اورعزت ومحبت کےاظہارکےلیے دیاجاتاہے ۔ اگرصحیح نیت سےاورصحیح صورت میں کسی کوکچھ ہبہ کیاجائےتویہ اجتماعی طورپرمعاشرےکی بہتری کاسبب ہے۔دوست احباب اورعزیزایک دوسرےکےقریب آتےہیں ،اس لیے اس سےایسی کوئی صورت پیدانہیں ہونی چاہیےکہ مثبت کےبجائےمنفی نتائج سامنےآئیں۔ آپ اپنی مرضی سےکسی کوعطیہ نہ کریں یاصدقےکامستحق نہ سمجھیں توکوئی بہت بڑی خرابی پیدانہیں ہوتی لیکن کسی کوچیزدےکرواپس لےلیں توبناہواتعلق بھی بگڑجاتاہے۔ کسی کوکچھ دینابہت اعلیٰ جذبات کامرہون منت ہوتاہے۔ دےکرلےلینااس کےبرعکس ہے۔یہ لالچ ،خودغرضی اورخودپسندی کےزمرےمیں آتاہے۔
امام مسلم نےصدقات واپس نہ لینےکی احادیث سےآغازکیاہے۔ ہبہ کی ہوئی چیزکی طرح صدقات کوواپس لینابھی انتہائی ناپسندیدہ کام ہے۔ رسول اللہﷺ نےاس کےلیے مثال بھی ایسی دی ہےجس سےاس کی انتہائی قباحت واضح ہوتی ہے۔ صدقےمیں اصل امقصوداللہ کوراضی کرناہے،واپسی یقینی طورپراس کی رضاسےمحرومی بلکہ ناراضی کاسبب ہے۔ نتائج کےاعتبارسے یہ انتہائی غلط کام ہے۔ رسول اللہﷺنےاخلاق عالیہ کےتقاضےپورےکرنےکےلیے صدقےمیں دی ہوئی چیزکوقیمتاواپس لینےسےبھی منع فرمایاہے۔
اگرکسی قریبی رشتہ دارخصوصااولادمیں سےبعض کودیاجائےاوربعض کومحروم رکھاجائےتواس سےبھی بےپناہ خرابیاں پیداہوتی ہیں۔ سب سےبڑی خرابی یہ ہےکہ سب بچےفطرتاوالدین سےایک جیسامحبت بھراتعلق رکھتےہیں، اس کےاظہارمیں وہ ایک دوسرےسےمختلف ہوں، لیکن جنہیں محروم کیاجائےگاوہ یہی سمجھیں گےکہ ان کےوالدین یاوالدان سےمحبت نہیں کرتے۔ اس سےوہ خودبھی منفی کیفیت کاشکارہوجائیں گےاوران میں والدین کےحوالےسےعدم محبت اورعدم خدمت کابھی جذبہ پیداہوگا۔ اگروالدین سمجھتےہیں کہ کسی بچےمیں اس حوالےسےکمی ہےتواسےمحروم کرنےسےاس خرابی میں اضافہ ہوگا۔ منصفانہ سلوک بچوں کی اصلاح کاسبب بنتاہےاوراگرایسانہ بھی ہوسکےتووالدین یادونوں میں سےایک جودےرہاہے،کم ازکم خوداللہ کےسامنےجوابدہی سےمحفوظ رہےگا۔
عمربھرکےلیے کسی کوچیزدیں تووہ اس خاندان کےلیے اپنی چیزکےمترادف ہوتی ہے۔ اس سےمحرومی اپنی چیزسےمحرومی کی طرح تلخ لگتی ہےاوراب تک جومثبت جذبات موجودتھےوہ منفی جذبات میں تبدیل ہوجاتےہیں۔ معاشرےکواس سےمحفوظ رکھنےکےلیے آپﷺ نےیہ ہدایت جاری فرمائی کہ عمربھرکےلیے کسی کودیں توان کےبچوں سےبھی واپس نہ لیں،واپسی سےبہترہےدیاہی نہ جائے،البتہ عاریتادینااس سےمختلف ہے۔ لینےوالاسمجھتاہےکہ یہ چیزاس کی نہیں ،وہ عارضی طورپراس سےاستفادہ کررہاہےتویہ دینےوالےکی نیکی ہے۔
كتاب الهبات میں ان تمام امورکےحوالےسےفرامین رسولﷺکوپیش کیاگیاہے۔
تمہید باب
عُمریٰ، عمر سے ماخوذ ہے۔ جو چیز کسی کو عمر بھر کے لیے دے دی جائے وہ "عُمریٰ" کہلاتی ہے۔ اس طرح دینے کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں: (ا) "یہ چیز (مثلا گھر) عمر بھر کے لیے تمہاری اور تمہاری اولاد کی ہے۔" یہ اسی کی اور اس کے وارثوں کی ہو جاتی ہے جسے دی گئی، اس کی واپسی ممنوع ہے۔ (ب) "یہ ساری عمر کے لیے تمہاری ہے۔" اس باب میں ذکر کی گئی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کا حکم بھی پہلی صورت کی طرح ہے۔ یہ ہمیشہ کے لیے اس شخص اور اس کے وارثوں کی ہے جسے دی گئی۔ کسی شرط کے بغیر جو چیز دی جائے وہ مطلق ہبہ یا عطیہ کی طرح ہے۔ اس کو بھی واپس نہیں لیا جا سکتا۔ اگرچہ امام مالک کا نقطہ نظر یہ ہے کہ عمریٰ کی کوئی صورت ہو اس میں منفعت، مثلا گھر ہے تو اس میں رہائش کی منفعت دوسرے کو منتقل کی جاتی ہے، اس کا رقبہ نہیں۔ (ج) تیسری صورت یہ ہے کہ دینے والا واضح طور پر یہ شرط لگائے کہ جسے دی جا رہی ہے اس کی وفات کے بعد اس کی ملکیت دوبارہ دینے والے کے پاس آ جائے گی۔ اس کی حیثیت عاریتا دی ہوئی چیز کی طرح ہے جو اپنی شرائط کے مطابق واپس ہو جاتی ہے۔ امام زہری، امام مالک اور دوسرے بہت سے اہل علم کا فتویٰ اسی کے مطابق ہے۔ امام احمد کہتے ہیں: اس شرط کے ساتھ شرے سے عمریٰ کا عقد ہی صحیح نہیں، جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور فقہائے کوفہ یہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی دی ہوئی چیز اس شخص کی حتمی ملکیت میں آ جاتی ہے جسے دی گئی ہے۔ اس شخص کے بعد اس میں بھی میراث جاری ہو جاتی ہے۔ ان کے نزدیک اصل معاہدہ عطا کر دینے کا ہے۔اس میں جو شرط لگائی گئی ہے وہ باطل ہے، جس طرح "حق ولاء" غلام کو آزاد کرنے والے کا ہے اور اس پر عائد کی گئیں شرائط باطل ہیں۔ لیکن یہ قیاس درست نہیں کیونکہ غلام کو آزاد کرنے والا اس کی پوری قیمت ادا کرنے کے بعد اور اس کا پوری طرح مالک بن کر اسے آزاد کرتا ہے جبکہ ایک وقت تک استعمال کے لیے دی گئی چیز دوسرے کی ملکیت نہیں بن جاتی۔ غیر مشروط عمریٰ کے معاملے میں دونوں امکان موجود ہیں کہ دینے والے نے ہمیشہ کے لیے دی ہو اور یہ کہ جس کو دی ہے، اس کی زندگی تک کے لیے دی ہو۔ شریعت نے دونوں میں سے دوسرے مفہوم کی نفی کر دی اور بتا دیا کہ جو چیز شرط کے بغیر دی جائے گی، اسے مستقل عطیہ سمجھا جائے گا۔ موقت عمریٰ میں تو مفہوم ہی صرف یہی پایا جاتا ہے کہ خاص وقت تک اس کی منفعت دوسرے کو دی جارہی ہے۔ اس سے ملکیت کا حق حاصل ہی نہیں ہو سکتا۔
امام مالک نے ابن شہاب سے، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمان سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس آدمی کو عمر بھر کے لیے دی جانے والی چیز اس کے اور اس کی اولاد کے لیے دی گئی تو وہ اسی کی ہے جسے دی گئی، وہ اس شخص کو واپس نہیں ملے گی جس نے دی تھی، کیونکہ اس نے ایسا عطیہ دیا ہے جس میں وراثت جاری ہو گئی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص کو اور اس کی اولاد کو کوئی چیز زندگی بھر کے لیے دی گئی تو وہ اس کی ہے جس کو دی گئی ہے، دینے والے کی طرف واپس نہیں لوٹے گی، کیونکہ اس نے ایسا عطیہ دیا ہے، جس میں وراثت جاری ہو چکی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
عُمريٰ: کسی کو کوئی چیز زندگی بھر کے لیے دینا کہ جب تک تم زندہ رہو، یہ چیز تمہاری ہے۔
فوائد ومسائل
عُمري کی تین صورتیں ہیں۔ (1) دینے والا کہتا ہے، (هي لك ولعقبك)، یہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا ہے، یعنی تیری زندگی کے بعد تیرے وارثوں کا ہے، تو اس صورت میں جمہور کے نزدیک یہ چیز یا مکان ہمیشہ کے لیے جس کو دیا گیا ہے، اس کا ہو گا، اور اس کے بعد اس کی اولاد کا، اور اگر اس کی نسل ختم ہو جائے، تو یہ بیت المال کو ملے گا، لیکن امام مالک اور امام لیث کے نزدیک یہ انسان اور اس کی اولاد، اس چیز سے فائدہ اٹھا سکتی ہے، اگر گھر ہے تو رہائش اختیار کر سکتی ہے، ان کی ملکیت میں نہیں آئے گا، اس لیے اگر اس کے ورثاء ختم ہو جائیں، تو یہ دینے والے کے ورثاء کو مل جائے گا، لیکن یہ موقف اس صریح حدیث کے منافی ہے۔ (2) گھر دینے والا یہ کہتا ہے، میں یہ گھر تمہیں تمہاری زندگی تک دیتا ہوں، تمہاری موت کے بعد مجھے واپس مل جائے گا، امام مالک کے نزدیک، جس کو دیا گیا ہے، اس کو زندگی تک اس کے پاس رہے گا، اس کے مرنے کے بعد، دینے والے کو اگر زندہ ہو، وگرنہ اس کے وارثوں کو واپس مل جائے گا، امام زہری، امام داؤد وغیرھما کا موقف بھی یہی ہے، امام احمد اور امام شافعی کا ایک قول بھی یہی ہے، اور بقول حافظ ابن حجر بعض شوافع نے اس قول کو ترجیح دی ہے، لیکن اکثر شوافع اس کو قبول نہیں کرتے، شاہ ولی اللہ بھی اس کو عاریتاً ہی قرار دیتے ہیں، لیکن جمہور کے نزدیک اس کا حکم بھی پہلی صورت والا ہے، اور یہ شرط ساقط ہو گی، امام ابو حنیفہ، امام شافعی کا قول جدید اور امام احمد کا راجح قول یہی ہے، لیکن بقول صاحب تیسیر العلام حافظ ابن تیمیہ نے، (المسلمون علي شروطهم) کے تحت، اس شرط کو صحیح قرار دیا ہے۔ (3) بغیر کسی قید یا شرط کے کہتا ہے، کہ یہ گھر عمر بھر کے لیے تیرا ہے، امام ابو حنیفہ، امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک اس کا حکم پہلی صورت والا ہے، یہ ھبہ ہو گا، عاریتاً نہیں ہو گا، امام مالک، امام لیث کے نزدیک یہ عاریۃ ہے، دینے والے یا اس کے وارثوں کی طرف لوٹ آئے گا، امام شافعی کا ایک قول یہی ہے، اور امام شافعی کا قول قدیم یہ ہے کہ یہ صورت درست نہیں ہے۔ (فتح الباري، ج 5، ص 294، مکتبة دارالسلام)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir bin 'Abdullah (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: Whoever a person is gifted a life grant, then it is for him (belongs to him and to his posterity, for it belongs to him who has been gven it). It would not return to him who gave it for he conferred it as a gift (it becomes the property of the donee and as such) rules of inheritance will apply to it.