Muslim:
The Book of Gifts
(Chapter: The 'Umra (Lifelong Gift))
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1626.
شعبہ نے ہمیں قتادہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے نضر بن انس سے، انہوں نے بشیر بن نہیک سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی، آپﷺ نے فرمایا: ’’عمریٰ درست ہے۔‘‘
وراثت میں شرعی استحقاق کی بنیادپربلاقیمت دولت اورچیزیں وغیرہ ملتی ہیں۔ ہبہ میں بغیرکسی شرعی استحقاق کےایسی چیزیں دی جاتی ہیں ۔ صدقہ میں بھی یہی ہوتاہے لیکن فرق یہ ہےکہ صدقہ کسی ضرورت مندکودیاجاتاہے۔ اس کےپیچھےترحم کاجذبہ ہوتاہےجبکہ ہدیہ اکرام اورعزت ومحبت کےاظہارکےلیے دیاجاتاہے ۔ اگرصحیح نیت سےاورصحیح صورت میں کسی کوکچھ ہبہ کیاجائےتویہ اجتماعی طورپرمعاشرےکی بہتری کاسبب ہے۔دوست احباب اورعزیزایک دوسرےکےقریب آتےہیں ،اس لیے اس سےایسی کوئی صورت پیدانہیں ہونی چاہیےکہ مثبت کےبجائےمنفی نتائج سامنےآئیں۔ آپ اپنی مرضی سےکسی کوعطیہ نہ کریں یاصدقےکامستحق نہ سمجھیں توکوئی بہت بڑی خرابی پیدانہیں ہوتی لیکن کسی کوچیزدےکرواپس لےلیں توبناہواتعلق بھی بگڑجاتاہے۔ کسی کوکچھ دینابہت اعلیٰ جذبات کامرہون منت ہوتاہے۔ دےکرلےلینااس کےبرعکس ہے۔یہ لالچ ،خودغرضی اورخودپسندی کےزمرےمیں آتاہے۔
امام مسلم نےصدقات واپس نہ لینےکی احادیث سےآغازکیاہے۔ ہبہ کی ہوئی چیزکی طرح صدقات کوواپس لینابھی انتہائی ناپسندیدہ کام ہے۔ رسول اللہﷺ نےاس کےلیے مثال بھی ایسی دی ہےجس سےاس کی انتہائی قباحت واضح ہوتی ہے۔ صدقےمیں اصل امقصوداللہ کوراضی کرناہے،واپسی یقینی طورپراس کی رضاسےمحرومی بلکہ ناراضی کاسبب ہے۔ نتائج کےاعتبارسے یہ انتہائی غلط کام ہے۔ رسول اللہﷺنےاخلاق عالیہ کےتقاضےپورےکرنےکےلیے صدقےمیں دی ہوئی چیزکوقیمتاواپس لینےسےبھی منع فرمایاہے۔
اگرکسی قریبی رشتہ دارخصوصااولادمیں سےبعض کودیاجائےاوربعض کومحروم رکھاجائےتواس سےبھی بےپناہ خرابیاں پیداہوتی ہیں۔ سب سےبڑی خرابی یہ ہےکہ سب بچےفطرتاوالدین سےایک جیسامحبت بھراتعلق رکھتےہیں، اس کےاظہارمیں وہ ایک دوسرےسےمختلف ہوں، لیکن جنہیں محروم کیاجائےگاوہ یہی سمجھیں گےکہ ان کےوالدین یاوالدان سےمحبت نہیں کرتے۔ اس سےوہ خودبھی منفی کیفیت کاشکارہوجائیں گےاوران میں والدین کےحوالےسےعدم محبت اورعدم خدمت کابھی جذبہ پیداہوگا۔ اگروالدین سمجھتےہیں کہ کسی بچےمیں اس حوالےسےکمی ہےتواسےمحروم کرنےسےاس خرابی میں اضافہ ہوگا۔ منصفانہ سلوک بچوں کی اصلاح کاسبب بنتاہےاوراگرایسانہ بھی ہوسکےتووالدین یادونوں میں سےایک جودےرہاہے،کم ازکم خوداللہ کےسامنےجوابدہی سےمحفوظ رہےگا۔
عمربھرکےلیے کسی کوچیزدیں تووہ اس خاندان کےلیے اپنی چیزکےمترادف ہوتی ہے۔ اس سےمحرومی اپنی چیزسےمحرومی کی طرح تلخ لگتی ہےاوراب تک جومثبت جذبات موجودتھےوہ منفی جذبات میں تبدیل ہوجاتےہیں۔ معاشرےکواس سےمحفوظ رکھنےکےلیے آپﷺ نےیہ ہدایت جاری فرمائی کہ عمربھرکےلیے کسی کودیں توان کےبچوں سےبھی واپس نہ لیں،واپسی سےبہترہےدیاہی نہ جائے،البتہ عاریتادینااس سےمختلف ہے۔ لینےوالاسمجھتاہےکہ یہ چیزاس کی نہیں ،وہ عارضی طورپراس سےاستفادہ کررہاہےتویہ دینےوالےکی نیکی ہے۔
كتاب الهبات میں ان تمام امورکےحوالےسےفرامین رسولﷺکوپیش کیاگیاہے۔
تمہید باب
عُمریٰ، عمر سے ماخوذ ہے۔ جو چیز کسی کو عمر بھر کے لیے دے دی جائے وہ "عُمریٰ" کہلاتی ہے۔ اس طرح دینے کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں: (ا) "یہ چیز (مثلا گھر) عمر بھر کے لیے تمہاری اور تمہاری اولاد کی ہے۔" یہ اسی کی اور اس کے وارثوں کی ہو جاتی ہے جسے دی گئی، اس کی واپسی ممنوع ہے۔ (ب) "یہ ساری عمر کے لیے تمہاری ہے۔" اس باب میں ذکر کی گئی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کا حکم بھی پہلی صورت کی طرح ہے۔ یہ ہمیشہ کے لیے اس شخص اور اس کے وارثوں کی ہے جسے دی گئی۔ کسی شرط کے بغیر جو چیز دی جائے وہ مطلق ہبہ یا عطیہ کی طرح ہے۔ اس کو بھی واپس نہیں لیا جا سکتا۔ اگرچہ امام مالک کا نقطہ نظر یہ ہے کہ عمریٰ کی کوئی صورت ہو اس میں منفعت، مثلا گھر ہے تو اس میں رہائش کی منفعت دوسرے کو منتقل کی جاتی ہے، اس کا رقبہ نہیں۔ (ج) تیسری صورت یہ ہے کہ دینے والا واضح طور پر یہ شرط لگائے کہ جسے دی جا رہی ہے اس کی وفات کے بعد اس کی ملکیت دوبارہ دینے والے کے پاس آ جائے گی۔ اس کی حیثیت عاریتا دی ہوئی چیز کی طرح ہے جو اپنی شرائط کے مطابق واپس ہو جاتی ہے۔ امام زہری، امام مالک اور دوسرے بہت سے اہل علم کا فتویٰ اسی کے مطابق ہے۔ امام احمد کہتے ہیں: اس شرط کے ساتھ شرے سے عمریٰ کا عقد ہی صحیح نہیں، جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور فقہائے کوفہ یہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی دی ہوئی چیز اس شخص کی حتمی ملکیت میں آ جاتی ہے جسے دی گئی ہے۔ اس شخص کے بعد اس میں بھی میراث جاری ہو جاتی ہے۔ ان کے نزدیک اصل معاہدہ عطا کر دینے کا ہے۔اس میں جو شرط لگائی گئی ہے وہ باطل ہے، جس طرح "حق ولاء" غلام کو آزاد کرنے والے کا ہے اور اس پر عائد کی گئیں شرائط باطل ہیں۔ لیکن یہ قیاس درست نہیں کیونکہ غلام کو آزاد کرنے والا اس کی پوری قیمت ادا کرنے کے بعد اور اس کا پوری طرح مالک بن کر اسے آزاد کرتا ہے جبکہ ایک وقت تک استعمال کے لیے دی گئی چیز دوسرے کی ملکیت نہیں بن جاتی۔ غیر مشروط عمریٰ کے معاملے میں دونوں امکان موجود ہیں کہ دینے والے نے ہمیشہ کے لیے دی ہو اور یہ کہ جس کو دی ہے، اس کی زندگی تک کے لیے دی ہو۔ شریعت نے دونوں میں سے دوسرے مفہوم کی نفی کر دی اور بتا دیا کہ جو چیز شرط کے بغیر دی جائے گی، اسے مستقل عطیہ سمجھا جائے گا۔ موقت عمریٰ میں تو مفہوم ہی صرف یہی پایا جاتا ہے کہ خاص وقت تک اس کی منفعت دوسرے کو دی جارہی ہے۔ اس سے ملکیت کا حق حاصل ہی نہیں ہو سکتا۔
شعبہ نے ہمیں قتادہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے نضر بن انس سے، انہوں نے بشیر بن نہیک سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے روایت کی، آپﷺ نے فرمایا: ’’عمریٰ درست ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمری صحیح ہے، نافذ ہو گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir bin'Abdullah (RA) reported Allah's Apostle (ﷺ) as saying: Life grant is the heritage of one upon whom it is conferred.