Muslim:
The Book of Oaths
(Chapter: An oath is judged on the intention of the one who asks for it to be sworn.)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1653.
یحییٰ بن یحییٰ اور عمرو الناقد نے ہمیں حدیث بیان کی ۔۔ یحییٰ نے کہا: ہمیں ہشیم بن بشیر نے عبداللہ بن ابی صالح سے خبر دی اور عمرو نے کہا: ہمیں ہشیم بن بشیر نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عبداللہ بن ابی صالح نے خبر دی ۔۔ انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہاری قسم اسی بات پر ہو گی جس پر تمہارا ساتھی (قسم لینے والا) تمہاری تصدیق کرے گا۔‘‘ اور عمرو نے کہا: ’’جس کی تصدیق تمہارا ساتھی کرے گا۔‘‘
اَیمان یمین (دایاں ہاتھ)کی جمع ہے جب کوئی شخص دوسرے کے ساتھ معاہدہ کر کے قسم کھاتا تو دونوں اپنے دائیں ہاتھ ملاتے ،یہ معاہدہ پختہ ہو جانے کی ایک علامت تھی ایسا معاہدہ ہر صورت میں پورا کیا جاتا اس مناسبت سے قسم پر بھی جس کو پو را کرنا ضروری تھا ،یمین کے لفظ کا اطلاق ہونے لگا۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں فکر انگیز ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں وصیت اور ہبہ وغیرہ کے بعد جو اپنی اپنی جگہ مضبوط لازمی (Binding)عہد ہیں ،نذر اور اس کے بعد قسموں کے حوالے سے احادیث بیان کیں نذر بھی ایک پختہ عہد ہے جو انسان اللہ کے ساتھ کرتا ہے قسم بھی اس کا نام لے کر کسی عہد یا عزم کی پختگی کے لیے ہوتی ہے اللہ کے علاوہ کسی اور کی رضا کے لیے اللہ کی طرح اس کی بھی عظمت کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کی قسم کھانے سے انسان مکمل شرک کا مرتکب ہو جاتا ہے اس لیے اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اگر سابقہ عادت کی بنا پر بھول کر بھی کسی جھوٹے معبود کی قسم کھا لی تو انسان پر از سر نو کلمہ تو حید کا اقرار لازم ہے۔
کسی معاہدے کے علاوہ خود انسان اپنے اوپر قسم کے ذریعے جو بات لازم کر لیتا ہے اگر اس کے بارے میں بعد ازاں احساس ہوجائے کہ میری قسم غلط تھی یا وہ کسی دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث ہے تو اس صورت میں قسم کی خلاف ورزی کرنا ضروری ہے اس صورت میں کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے کچھ دوسرے معاملات بھی ،انسان خود اپنے اوپر لازم کر لیتا ہے قسم کے ساتھ ترتیب وار ذکر کیے گئے ہیں ان میں سے ایسی نذریں ہیں جو کفر کے زمانے میں مانی گئیں اگر وہ کام فی نفسہ نیکی کا ہے تو اب بھی اس کا کرنا ضروری ہے رسول اللہ ﷺ نے واضح فرمایا کہ ایمان لانے کے بعد پچھلی زندگی کے نیک اعمال پر بھی ثواب ملتا ہے اسی طرح غلامی کے حوالے سے آقا اور غلام دونوں پر کچھ لازمی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں امام مسلم نے ترتیب کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے بارے میں بھی احادیث بیان کی ہیں کچھ اجادیث کتاب العتق میں بیان کی گئی تھیں ، وہ یہاں دوبارہ بیان کی گئی ہیں مقصود اس بات کو واضح کرنا ہے کہ یہ لازمی ذمہ داریاں قسم ہی کی طرح پوری کرنی ضروری ہیں غلام کی ملکیت اور اس کے بارے میں انسان کے اختیار کے حوالے سے متعدد اہم امور کو بھی موضوع بنایا گیا ہے اسلام نے غلامی سے آزادی کو ہر طرح سے یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے انسانی حقوق کے تحفظ کا اہتمام کیا ہے مختلف فریقوں کے درمیان حقوق کے حوالے سے ایسا توازن قائم کرنا ایک مشکل کا م ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺکی رہنمائی کے بغیر کسی انسان کے لیے ایسا توازن قائم رکھنا ممکن نہیں۔
یحییٰ بن یحییٰ اور عمرو الناقد نے ہمیں حدیث بیان کی ۔۔ یحییٰ نے کہا: ہمیں ہشیم بن بشیر نے عبداللہ بن ابی صالح سے خبر دی اور عمرو نے کہا: ہمیں ہشیم بن بشیر نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں عبداللہ بن ابی صالح نے خبر دی ۔۔ انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہاری قسم اسی بات پر ہو گی جس پر تمہارا ساتھی (قسم لینے والا) تمہاری تصدیق کرے گا۔‘‘ اور عمرو نے کہا: ’’جس کی تصدیق تمہارا ساتھی کرے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہاری قسم میں اس نیت و ارادہ کا اعتبار ہے، جس معنی و مفہوم پر تمہارا ساتھی (قسم لینے والا) تصدیق کرے۔‘‘ عمرو کی حدیث میں عليه کی جگہ به کا لفظ ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: Your oath should be about something regarding which your companion will believe you. 'Amr said: By which your companion will believe you.