Muslim:
The Book of Oaths
(Chapter: Saying: "If Allah wills" when swearing oaths and at other times)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1654.
محمد (بن سیرین) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت سلیمان علیہ السلام کی ساٹھ بیویاں تھیں، انہوں نے کہا: (واللہ) آج رات میں ان سب کے پاس جاؤں گا تو ان میں سے ہر بیوی حاملہ ہو گی اور ہر بیوی (ایک شہسوار) بچے کو جنم دے گی، جو اللہ کی راہ میں لڑائی کرے گا۔ تو ایک کے سوا ان میں سے کوئی حاملہ نہ ہوئی اور اس نے بھی ادھورے (ناقص الخلقت) بچے کو جنم دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر وہ ان شاءاللہ کہتے تو ان میں سے ہر بیوی شہسوار بچے کو جنم دیتی جو اللہ کی راہ میں لڑائی کرتا۔‘‘
اَیمان یمین (دایاں ہاتھ)کی جمع ہے جب کوئی شخص دوسرے کے ساتھ معاہدہ کر کے قسم کھاتا تو دونوں اپنے دائیں ہاتھ ملاتے ،یہ معاہدہ پختہ ہو جانے کی ایک علامت تھی ایسا معاہدہ ہر صورت میں پورا کیا جاتا اس مناسبت سے قسم پر بھی جس کو پو را کرنا ضروری تھا ،یمین کے لفظ کا اطلاق ہونے لگا۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں فکر انگیز ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں وصیت اور ہبہ وغیرہ کے بعد جو اپنی اپنی جگہ مضبوط لازمی (Binding)عہد ہیں ،نذر اور اس کے بعد قسموں کے حوالے سے احادیث بیان کیں نذر بھی ایک پختہ عہد ہے جو انسان اللہ کے ساتھ کرتا ہے قسم بھی اس کا نام لے کر کسی عہد یا عزم کی پختگی کے لیے ہوتی ہے اللہ کے علاوہ کسی اور کی رضا کے لیے اللہ کی طرح اس کی بھی عظمت کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کی قسم کھانے سے انسان مکمل شرک کا مرتکب ہو جاتا ہے اس لیے اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اگر سابقہ عادت کی بنا پر بھول کر بھی کسی جھوٹے معبود کی قسم کھا لی تو انسان پر از سر نو کلمہ تو حید کا اقرار لازم ہے۔
کسی معاہدے کے علاوہ خود انسان اپنے اوپر قسم کے ذریعے جو بات لازم کر لیتا ہے اگر اس کے بارے میں بعد ازاں احساس ہوجائے کہ میری قسم غلط تھی یا وہ کسی دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث ہے تو اس صورت میں قسم کی خلاف ورزی کرنا ضروری ہے اس صورت میں کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے کچھ دوسرے معاملات بھی ،انسان خود اپنے اوپر لازم کر لیتا ہے قسم کے ساتھ ترتیب وار ذکر کیے گئے ہیں ان میں سے ایسی نذریں ہیں جو کفر کے زمانے میں مانی گئیں اگر وہ کام فی نفسہ نیکی کا ہے تو اب بھی اس کا کرنا ضروری ہے رسول اللہ ﷺ نے واضح فرمایا کہ ایمان لانے کے بعد پچھلی زندگی کے نیک اعمال پر بھی ثواب ملتا ہے اسی طرح غلامی کے حوالے سے آقا اور غلام دونوں پر کچھ لازمی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں امام مسلم نے ترتیب کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے بارے میں بھی احادیث بیان کی ہیں کچھ اجادیث کتاب العتق میں بیان کی گئی تھیں ، وہ یہاں دوبارہ بیان کی گئی ہیں مقصود اس بات کو واضح کرنا ہے کہ یہ لازمی ذمہ داریاں قسم ہی کی طرح پوری کرنی ضروری ہیں غلام کی ملکیت اور اس کے بارے میں انسان کے اختیار کے حوالے سے متعدد اہم امور کو بھی موضوع بنایا گیا ہے اسلام نے غلامی سے آزادی کو ہر طرح سے یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے انسانی حقوق کے تحفظ کا اہتمام کیا ہے مختلف فریقوں کے درمیان حقوق کے حوالے سے ایسا توازن قائم کرنا ایک مشکل کا م ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺکی رہنمائی کے بغیر کسی انسان کے لیے ایسا توازن قائم رکھنا ممکن نہیں۔
محمد (بن سیرین) نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت سلیمان علیہ السلام کی ساٹھ بیویاں تھیں، انہوں نے کہا: (واللہ) آج رات میں ان سب کے پاس جاؤں گا تو ان میں سے ہر بیوی حاملہ ہو گی اور ہر بیوی (ایک شہسوار) بچے کو جنم دے گی، جو اللہ کی راہ میں لڑائی کرے گا۔ تو ایک کے سوا ان میں سے کوئی حاملہ نہ ہوئی اور اس نے بھی ادھورے (ناقص الخلقت) بچے کو جنم دیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر وہ ان شاءاللہ کہتے تو ان میں سے ہر بیوی شہسوار بچے کو جنم دیتی جو اللہ کی راہ میں لڑائی کرتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی ساٹھ بیویاں تھیں، تو انہوں نے کہا، ’’آج رات میں سب کے ہاں جاؤں گا، اور ان میں سے ہر ایک کو حمل ٹھہرے گا، اور ان میں سے ہر ایک شاہسوار جوان جنے گی، جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا‘‘ تو ان میں سے صرف ایک کو حمل ٹھہرا اور ادھرنگ بچہ پیدا ہوا، یعنی ناقص الخلقت انسان پیدا ہوا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’اگر ان شاءاللہ کہہ لیتے تو ان میں سے ہر ایک شاہسوار جوان جنتی جو اللہ کی راہ میں جہاد کرتا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضرت سلیمان علیہ السلام کی بیویوں کی تعداد میں احادیث میں اختلاف ہے، آپﷺ کا اصل مقصود، ان کی کثرت بیان کرنا تھا، اس لیے روایت بالمعنی کی بنا پر راویوں نے کثرت پر دلالت کرنے والے مختلف اعداد بیان کر دئیے، چونکہ حدیث کا اصل مخرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں، اس لیے قطعیت اور یقین کے ساتھ تعداد متعین نہیں ہو سکتی۔ ہاں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ بیویوں کی تعداد آزاد اور لونڈیوں کو ملا کر نوے سے زائد اور سو سے کم تھی، بعض راویوں نے صرف آزاد بیویوں کا تذکرہ کیا، تو تعداد کم بیان کی اور بعض نے آزاد اور لونڈیوں کو ملایا، اور نوے سے زائد کو نظرانداز کر کے ان کی تعداد نوے بیان کر دی، اور بعض نے کمی کو پورا کرتے ہوئے سو (100) کر دیا اور ہر بیوی کے حاملہ ہونے کی خواہش اور آرزو کا اظہار کرتے وقت، فرشتہ کے یاد دلانے کے باوجود، ان کے مجاہد فی سبیل اللہ ہونے کی تمنا کی، ان شاءاللہ کہنا بھول گئے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا، وگرنہ اگر وہ ان شاءاللہ کہہ لیتے، تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق، اللہ کے ہاں ان کی یہ آرزو اور تمنا شرف قبولیت حاصل کر لیتی اور ہر بیوی جوان شہسوار جنتی، اور یہ بات آپ نے اللہ تعالیٰ کے بتانے کی بنا پر بتائی، وگرنہ یہ لازم نہیں ہے کہ جس آرزو اور خواہش کے ساتھ انسان ان شاءاللہ کہہ لے وہ آرزو و ضرور پوری ہو گی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ﴿سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّـهُ صَابِرًا﴾ کہا تھا، لیکن اس کے باوجود خضر علیہ السلام نے کہا، ﴿ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِع عَّلَيْهِ صَبْرًا﴾ یہ اس معاملہ کی حقیقت ہے، جس پر آپ صبر نہیں کر سکے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported that (Hadrat) Sulaiman had sixty wives. He (one day) said: I will visit each one of them every night, and every one of them will become pregnant and give birth to a male child who will be a horseman and fight in the cause of Allah. But (it so happened) that none of them became pregnant except one, but she gave birth to an incomplete child. Thereupon Allah's Messenger (ﷺ) said: Had he said Insha' Allah (if God so wills), then every one of them would have given birth to a child who would have been a horseman and fought in the cause of Allah