باب: جس شخص نے ایک (مشتر کہ )غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا
)
Muslim:
The Book of Oaths
(Chapter: One who frees his share in a slave)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1668.
اسماعیل بن علیہ نے ایوب سے، انہوں نے ابوقلابہ سے، انہوں نے ابومہلب سے اور انہوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ ایک آدمی نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلام آزاد کیے اور اس کے پاس ان کے سوا اور کوئی مال نہ تھا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں بلوایا اور تین گروپوں میں تقسیم کیا، پھر ان کے درمیان قرعہ ڈالا، اس کے بعد دو کو آزاد کر دیا اور چار کو غلام ہی برقرار رکھا اور آپﷺ نے اسے سرزنش کی۔
اَیمان یمین (دایاں ہاتھ)کی جمع ہے جب کوئی شخص دوسرے کے ساتھ معاہدہ کر کے قسم کھاتا تو دونوں اپنے دائیں ہاتھ ملاتے ،یہ معاہدہ پختہ ہو جانے کی ایک علامت تھی ایسا معاہدہ ہر صورت میں پورا کیا جاتا اس مناسبت سے قسم پر بھی جس کو پو را کرنا ضروری تھا ،یمین کے لفظ کا اطلاق ہونے لگا۔
امام مسلم نے اپنی صحیح میں فکر انگیز ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں وصیت اور ہبہ وغیرہ کے بعد جو اپنی اپنی جگہ مضبوط لازمی (Binding)عہد ہیں ،نذر اور اس کے بعد قسموں کے حوالے سے احادیث بیان کیں نذر بھی ایک پختہ عہد ہے جو انسان اللہ کے ساتھ کرتا ہے قسم بھی اس کا نام لے کر کسی عہد یا عزم کی پختگی کے لیے ہوتی ہے اللہ کے علاوہ کسی اور کی رضا کے لیے اللہ کی طرح اس کی بھی عظمت کا اعتقاد رکھتے ہوئے اس کی قسم کھانے سے انسان مکمل شرک کا مرتکب ہو جاتا ہے اس لیے اسلام سے خارج ہو جاتا ہے اگر سابقہ عادت کی بنا پر بھول کر بھی کسی جھوٹے معبود کی قسم کھا لی تو انسان پر از سر نو کلمہ تو حید کا اقرار لازم ہے۔
کسی معاہدے کے علاوہ خود انسان اپنے اوپر قسم کے ذریعے جو بات لازم کر لیتا ہے اگر اس کے بارے میں بعد ازاں احساس ہوجائے کہ میری قسم غلط تھی یا وہ کسی دوسرے کے لیے تکلیف کا باعث ہے تو اس صورت میں قسم کی خلاف ورزی کرنا ضروری ہے اس صورت میں کفارہ ادا کرنا پڑتا ہے کچھ دوسرے معاملات بھی ،انسان خود اپنے اوپر لازم کر لیتا ہے قسم کے ساتھ ترتیب وار ذکر کیے گئے ہیں ان میں سے ایسی نذریں ہیں جو کفر کے زمانے میں مانی گئیں اگر وہ کام فی نفسہ نیکی کا ہے تو اب بھی اس کا کرنا ضروری ہے رسول اللہ ﷺ نے واضح فرمایا کہ ایمان لانے کے بعد پچھلی زندگی کے نیک اعمال پر بھی ثواب ملتا ہے اسی طرح غلامی کے حوالے سے آقا اور غلام دونوں پر کچھ لازمی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں امام مسلم نے ترتیب کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کے بارے میں بھی احادیث بیان کی ہیں کچھ اجادیث کتاب العتق میں بیان کی گئی تھیں ، وہ یہاں دوبارہ بیان کی گئی ہیں مقصود اس بات کو واضح کرنا ہے کہ یہ لازمی ذمہ داریاں قسم ہی کی طرح پوری کرنی ضروری ہیں غلام کی ملکیت اور اس کے بارے میں انسان کے اختیار کے حوالے سے متعدد اہم امور کو بھی موضوع بنایا گیا ہے اسلام نے غلامی سے آزادی کو ہر طرح سے یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ ہر قسم کے انسانی حقوق کے تحفظ کا اہتمام کیا ہے مختلف فریقوں کے درمیان حقوق کے حوالے سے ایسا توازن قائم کرنا ایک مشکل کا م ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺکی رہنمائی کے بغیر کسی انسان کے لیے ایسا توازن قائم رکھنا ممکن نہیں۔
اسماعیل بن علیہ نے ایوب سے، انہوں نے ابوقلابہ سے، انہوں نے ابومہلب سے اور انہوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہ ایک آدمی نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلام آزاد کیے اور اس کے پاس ان کے سوا اور کوئی مال نہ تھا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں بلوایا اور تین گروپوں میں تقسیم کیا، پھر ان کے درمیان قرعہ ڈالا، اس کے بعد دو کو آزاد کر دیا اور چار کو غلام ہی برقرار رکھا اور آپﷺ نے اسے سرزنش کی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
امام صاحب اپنے تین اساتذہ کی سند سے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلام آزاد کر دئیے، اس کے پاس ان کے سوا کوئی اور مال نہ تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غلاموں کو منگوایا، اور انہیں تین حصوں میں تقسیم کیا، پھر ان کے درمیان قرعہ اندازی کی، اس طرح دو آزاد کر دئیے، اور چار کو غلام قرار دیا، اور مرنے والے کے بارے میں شدید الفاظ استعمال کیے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
قَالَ لَهُ قَولاً شَدِيداً: آپﷺ نے مرنے والے کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے، جس کی تفصیل سنن نسائی کی رو سے یہ ہے، میں نے ارادہ کیا، کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھوں، اور سنن ابی داؤد میں ہے، اگر میں اس کی قبر بنانے سے پہلے معلوم کر لیتا، تو اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہ دیتا، چونکہ اس نے مرض الموت کے وقت وصیت کی تھی، اور وصیت صرف تہائی مال کے بارے میں ہو سکتی ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ غلاموں کو تین حصوں میں تقسیم کیا، چونکہ یہاں چھ غلاموں میں سے کسی کو بھی آزادی کے لیے وجہ ترجیح حاصل نہیں تھا۔ سب کا حق برابر تھا، اس لیے قرعہ اندازی کے سوا کوئی صورت نہ تھی، جس کی روشنی میں ان میں سے دو کو آزاد کیا جا سکتا، اس لیے جمہور فقہاء ایسے مواقع پر جبکہ سب کا حق برابر، کسی کو وجہ ترجیح حاصل نہ ہو، تو قرعہ اندازی سے فیصلہ کرنے کے قائل ہیں، ائمہ حجاز امام مالک، امام شافعی اور احمد کا یہی نظریہ ہے، اس حدیث کی بناء پر امام اسحاق، داؤد، ابن جریر، حضرت ابان بن عثمان اور عمر بن عبدالعزیز کا نظریہ بھی یہی تھا، احناف نے اس صحیح حدیث کو رد کرنے کے لیے مختلف حیلے بہانے کیے ہیں، جن کا جواب خود علامہ سعیدی نے بھی دیا ہے، کیونکہ قرعہ اندازی سے فیصلہ کرنا دوسری صحیح احادیث سے بھی ثابت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات کو سفر میں ساتھ لے جانے کے لیے قرعہ اندازی کرتے تھے، صف اول میں بیک وقت پہنچنے والوں کو قرعہ اندازی کرنے کی اجازت دی، علامہ سعیدی نے آخر میں لکھا ہے، ہماری رائے میں امام ابو حنیفہ تک یہ حدیث نہیں پہنچی ہو گی اور ان کا اپنا موقف یہ ہے کہ جب کسی مسئلہ میں صحیح حدیث مل جائے، تو وہی میرا مذہب ہے، (معلوم نہیں، احناف کو اس صریح قول کی موجودگی میں صحیح احادیث کی معنوی تحریف کرتے یا عجیب و غریب تاویل کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے) بہرحال کوئی شخص کچھ بھی کہے، میں یہی کہوں گا، کہ صحیح وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، اور اس مسئلہ میں قرعہ اندازی کے ذریعہ غلاموں میں سے دو غلاموں کو آزاد کرنا ہی صحیح طریقہ ہے۔‘‘ (شرح صحیح مسلم، ج 4، ص 617)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Imran bin Husain reported that a person who had no other property emancipated six slaves of his at the time of his death. Allah's Messenger (ﷺ) called for them and divided them into three sections, cast lots amongst them, and set two free and kept four in slavery; and he (the Holy Prophet) spoke severely of him.