Muslim:
The Book of Legal Punishments
(Chapter: Number of lashes in the case of ta'zeer)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1708.
حضرت ابوبردہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’حدوداللہ میں سے کسی حد کے علاوہ کسی کو دس سے زیادہ کوڑے نہ مارے جائیں۔‘‘
حدکالغوی معنی وہ آخری کنارہ ہےجہاں کوئی چیز،مثلا:گھرختم ہوجاتاہے۔ حدمنطق میں کسی چیزکی ایسی تعریف کوکہتےہیں جس کےذریعےسےوہ ممیزہوجاتی ہے،یعنی دوسری چیزیں اس سےالگ اوروہ ان سےممتاز ہوجاتی ہے۔ شرعی حدسےمرادکسی گناہ یاجرم کی اللہ کی طرف سےنازل کردہ سزاہےجس کامقصدجرم کےآگےبندباندھا، حدفاصل قائم کرناہےتاکہ وہ معاشرےمیں سرایت نہ کرسکے۔
جن جرائم میں حدکانفاذہوتاہےان میں سےمندرجہ ذیل پرسب کااتفاق ہے،ارتداد،محاربت ،زنا،قذف،چوری اورشراب نوشی۔ جن میں اختلاف ہےوہ گیارہ ہیں :ان میں سےاہم عاریتالی ہوئی چیزکاانکار،شراب کےعلاوہ اورنشہ آورچیزکی قلیل (غیرنشہ آور)مقدارکااستعمال ،عمل قوم لوط،اورجانوروں کےساتھ بدفعلی اورجادوہیں۔
مختلف حدودکاتعین جرائم کےارتکاب کےمناسبت سےمختلف اوقات میں ہوا۔ تدریج بھی ملحوظ رہی۔ زناکےحوالےسےپہلےسورہ نساءکی یہ آیت نازل ہوئی،(وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِنْكُمْ فَإِنْ شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّى يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا)’’اورتمہاری عورتوں میں سےجوکوئی بدکاری کرےتوان پراپنےچارمردوں کی گواہی لاؤ،اگروہ گواہی دیں توان کوگھروں میں بندرکھویہاں تک کہ موت ان کی مہلت پوری کردےیااللہ تعالیٰ ان کےلیے کوئی راہ نکالے۔‘‘(النساء4/15) پھرسورہ نورکی آیت نازل ہوئی(الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِي دِينِ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ)’’زناکرنےوالی عورت اورزناکرنےوالےمردمیں سےہرایک (جن شادی نہیں ہوئی،تخصیص رسول اللہﷺ نےفرمائی)کوسوکوڑےمارو،اگرتم اللہ اوریوم آخرت پرایمان رکھتےہوتوتمہیں اللہ کاحکم لاگوکرنےمیں نرمی یاترس نہ آن لےاوران دونوں کی سزاکامومنوں کی ایک جماعت مشاہدہ کرے۔ ‘‘النور24/2)
حضرت عبادہ بن صامت(کی حدیث4414۔4417)کےمطابق رسول اللہﷺ نےاس کی وضاحت فرمائی کہ کنوارےمردعورت کوسوسوکوڑےلگائےجائیں گےاورجلاوطن کیاجائےگاجبکہ شادی شدہ کوکوڑےلگائےجائیں گےاوررجم کیاجائےگا۔ رسول اللہﷺ نےاس حکم کےمطابق فیصلہ بھی صادرفرمایا۔(حدیث 4435)البتہ اس حدیث میں عورت کی سزاکےبارےمیں یہ وضاحت نہیں کہ اسےکوڑےمارنےکاحکم بھی دیا۔ پھرجمہورعلماءکےنقطہ نظرکےمطابق شادی شدہ کورجم سےپہلےکوڑےمارنےکاحکم ماعزبن مالک اسلمیکےواقعےمیں رسول اللہﷺ کےقول وعمل کےذریعےسےمنسوخ ہوگیااورشادی شدہ کےلیے صرف رجم کی سزاباقی رہی۔ حضرت علیرسول اللہﷺکےاسی فیصلےپرقائم رہے(بخاری:6812)امام احمد،اسحاق،داؤداورابن منذرشادی شدہ کےحوالےسےکوڑوں اوراس کےبعدرجم کی سزاکےقائل ہیں۔ جمہورکےموقف کواس بات سےبھی تقویت ملتی ہےکہ حضرت ماعزقبیلہ غامداورقبیلہ جہینہ کی عورتوں کی سزاکےحوالےسےمختلف سندوں سےروایات موجودہیں ،لیکن کسی ایک میں بھی رجم کےساتھ کوڑوں کی سزاکی طرف کوئی اشارہ موجودنہیں بلکہ سزاکےحوالےسےاس طرح کےالفاظ ہیں جن سےیہی پتہ چلتاہےکہ صرف رجم کی سزاکاحکم دیاگیاہے،مثلاماعزکےحوالےسےآپﷺنےفرمایا(اذهبوابه فارجموه )’’اسےلےجاؤاوررجم کردو۔‘‘(حدیث :4420)(فامربه فرجم)’’چنانچہ اس کےبارےمیں حکم دیاتواسےرجم کردیاگیا۔ ‘‘ ( حدیث : 4431) جہینہ والی عورت کےبارےمیں بھی حدیث کےالفاظ یہی ہیں (امربهانبى اللهﷺفشكت عليهاثيابها،ثم امربهافرجمت ،ثم صلى عليها)’’نبی ﷺنےاس کےمتعلق حکم دیاتواس کےکپڑےکس کےباندھ دیےگئے،پھراس کےبارےمیں حکم دیاتواسےرجم کردیاگیا،پھرآپ نےاس کی نمازجنازہ پڑھائی۔ (حدیث :4433)اپنےنوکرکےساتھ بدکاری کرنےوالی عورت کےبارےمیں بھی رسول اللہﷺ کےالفاظ اس طرح ہیں(اُغْدُ ، يَا أُنَيْسُ إلَى امْرَأَةِ هَذَا فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا)’’انیس صبح اس کی بیوی کےپاس جانا،اگروہ اعتراف کرلےتواسےرجم کردینا۔ ‘‘حدیث :4435)
اس پوری حدیث میں رسول اللہ ﷺسےجوالفاظ منقول ہیں ان سےبہت سےمعاملات واضح ہوتےہیں ،آپﷺ نےفرمایا:(وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، المِائَةُ وَالخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَيَا أُنَيْسُ اغْدُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا فَسَلْهَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا» فَاعْتَرَفَتْ فَرَجَمَهَا )’’اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں میری جان ہے!میں تمہارےدرمیان اللہ کی کتاب کےمطابق فیصلہ کروں گا۔ لونڈی اوربکریاں(جواس نےخودہی سزاکےفدیےکےطورپردےدی تھیں)واپس ہوں گی اورتمہارےبیٹےپرسوکوڑےاورایک سال کی جلاوطنی ہے،انیس !کل صبح (اس دوسرےآدمی)کی عورت کی طرف جانا،اگروہ اعتراف کرلےتواسےرجم کردینا۔ ‘‘(حدیث:4435)
ان الفاظ سےواضح ہوتاہےکہ (الف)رسول اللہﷺنےاس موقع پرجوفیصلہ سنایاوہ کتاب اللہ کافیصلہ تھا۔(ب)حدودکی سزامیں فدیےکاکوئی تصورموجودنہیں۔ (ج)غیرشادی شدہ زانی مردکوسوکوڑےلگیں گےاوراس کےبعدایک سال کےلیے جلاوطن کردیاجائےگا۔ (د)زناکی مرتکب شادی شدہ عورت کورجم کیاجائےگا۔ ماعزکی حدیث سےواضح ہوتاہےکہ شادی شدہ زانی مردکوبھی رجم ہی کیاجائےگا۔
امام شافعی اورجمہورعلماءاس کےقائل ہیں کہ غیرشادی شدہ عورت کوبھی کوڑوں اورجلاوطنی کی سزادی جائےگی۔ امام مالک اوراوزاعی کامسلک یہ ہےکہ اس حدیث میں غیرشادی شدہ مردکوکوڑوں کےساتھ جلاوطنی کی سزادی گئی ہے۔ رسول اللہﷺ نےزناکی مرتکب کسی غیرشادی شدہ عورت کوجلاوطنی کی سزانہیں دی،اس لیےباکرہ عورت کونہیں دی جائےگی۔ حضرت علی سےبھی ایک قول اس کےمطابق مروی ہے۔ اس نقطہ نظرکی حکمت واضح کرتےہوئےیہ بھی کہاجاتاہےکہ عورت کی جلاوطنی اس کوتباہ کردینےکےمرادف ہے۔ امام ابوحنیفہ اورامام محمدکےنزدیک جلاوطنی سرےسےحدکاحصہ ہی نہیں، وہ حدسےالگ ایک تعزیرہے۔ امام وقت چاہےتواس پرعمل کرےاورچاہےتونہ کرے۔ (المغنی لابن قدامۃ:1/123)
زناکی حدرسول اللہﷺ نےیہودپرجاری فرمائی۔ وہ اس حدکےبجائےاپنی خودساختہ سزاپرعمل کرتےتھے۔ اس سزاکودیکھ کررسول اللہﷺ نےان سےپوچھا’’کیاتورات میں یہی سزامقررکی گئی ہے؟‘‘پہلےتوانہوں نےغلط بیانی اورسخن سازی کی ۔ بعدمیں جب یہودیہ معاملہ رسول اللہﷺ کےپاس لےکرآئےتوآپ نےحضرت عبداللہ بن سلامکی مددسےتورات میں سےآیت رجم دکھادی بلکہ ان کےعالم سےیہ اعتراف بھی کروالیاکہ ان کےہاں رائج سزاخودساختہ ہے۔ اس کےبعدآپ نےرجم پرعمل کروایا۔ اس حوالےسےبعض اہل علم کےہاں اس بات پربھی بحث ہوئی کہ آپﷺ نےتورات کی سزاپرعمل کروایاتھایاقرآن کی سزاپر؟یہ بحث غیرضروری ہے،کیونکہ آپ نےجس سزاپرعمل کروایاوہ تورات میں بھی موجودہےاوروہی قرآ ن مجیدمیں بھی موجودہے۔ آپﷺ نےتورات کاحوالہ دےکریہودکےسامنےیہ بات ثابت کی کہ اللہ کادین بنیادی طورپرایک ہے،قرآن اصل دین لےکرآیاہے،چونکہ انہوں نےتحریف کرکےاسےتبدیل کیاہےاوروہ احکام بھی جن کووہ اپنی عادت کےمطابق ابھی تک تورات سےخارج نہیں کرسکے، ان کےبجائےبھی خودساختہ احکام رائج کررکھےہیں۔ آپ کااقدام اللہ کےحکم (قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ)’’کہہ دیجیے!اےاہل کتاب !آؤایک ایسی بات کی طرف جوہمارےاورتمہارےدرمیان برابرہے،یہ کہ ہم اللہ کےسواکسی کی عبادت نہ کریں اورنہ اس کےساتھ کسی چیزکوشریک کریں اورہم میں سےکوئی کسی کواللہ کےسوارب نہ بنائے۔‘‘(آل عمٰران 3/64)
امام مسلمنےزناکی حدکےبعدشراب کی حدکےبارےمیں احادیث پیش کیں۔ احادیث کےذریعےسےیہ بھی واضح کیاکہ حدودکانفاذاگرچہ پورےمعاشرےکی صحت،سلامتی اورامن کےلیے ضروری ہے،اس کاسب سےزیادہ فائدہ اس شخص کوہےجس پرحدنافذکی جاتی ہے۔ وہ گناہوں سےپاک ہوجاتاہے۔ خوداعتراف کرکےحدکوقبول کرنےوالےکی توبہ عظیم ترین توبہ ہے۔ رسول اللہﷺ ایسےلوگوں پرحددرجہ شفقت فرماتےتھے۔ آخرمیں ان اتفاقیہ نقصانات کاتذکرہ کیاگیاہےکہ جولوگ بظاہران کاسبب کہلائےجاسکتےہیں ان پرنہ کوئی حدہے،نہ ان کےازالےکی کوئی صورت ۔وہ حادثات کی طرح ہیں اورانہی کےحکم میں آتےہیں۔
حضرت ابوبردہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’حدوداللہ میں سے کسی حد کے علاوہ کسی کو دس سے زیادہ کوڑے نہ مارے جائیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو بردہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، ’’کوئی انسان، اللہ کی حدود میں سے کسی حد کے سوا دس سے زائد کوڑے نہ مارے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تعزیر کی صورت میں دس سے زائد کوڑے نہیں لگائے جا سکتے، امام اسحاق اور لیث کا یہی خیال ہے اور امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے۔ امام ابو حنیفہ، مالک، شافعی اور احمد کے ایک قول کے مطابق، اس سے زائد کوڑے تعزیر کی صورت میں لگائے جا سکتے ہیں، لیکن زائد کی مقدار میں اختلاف ہے۔ (1) امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک، 39 سے زائد کوڑے، آزاد ہو یا غلام نہیں مارے جا سکتے، امام شافعی اور امام احمد کا ایک قول یہی ہے، امام شافعی کے نزدیک غلام کو انیس (19) سے زائد کوڑے نہیں مارے جا سکتے، ابن ابی لیلیٰ اور ابو یوسف کے نزدیک چونکہ کم از کم حد اَسی (80) کوڑے ہیں، اس لیے تعزیر سے اس سے زائد کوڑے نہیں مارے جا سکتے، المغنی، ج 12، ص 524۔ فتح الباری، ج 12، ص 220۔ اور امام کا ایک قول بقول ابن قدامہ یہ ہے، ہر جرم میں اس کی جنس کی حد کا لحاظ ہے، مثلا اگر تعزیر وطی کے جرم پر ہے تو سو کوڑوں سے کم ہو گی تاکہ حد زنا سے کم رہے، اگر زنا کے سوا الزام تراشی ہو تو تعزیر اَسی (80) سے کم کوڑے ہو گی اور امام مالک کے نزدیک تعزیر کا اختیار امام کو ہے یا اس کے مقرر کردہ قاضی کو، اس لیے وہ جرم کی شدت و ضعف کے اعتبار سے جتنی چاہے سزا دے سکتا ہے، حد سے بھی زیادہ تعزیر جاری کر سکتا ہے، ابو ثور اور ابو یوسف کا ایک قول بھی یہی ہے اور ان ائمہ نے جن آثار صحابہ رضی اللہ عنہم سے استدلال کیا ہے، ان میں در حقیقت کسی ایسے کام کا ارتکاب کیا گیا ہے، جس پر حد لگتی ہے، لیکن وہ بینہ یا اقرار سے ثابت نہیں ہو سکا یا مرتکب ناواقف اور جاہل تھا، لیکن قرائن اور آثار سے وہ بات ثابت ہو جاتی تھی، جو بعض وجوہ کی بناء پر ثابت نہیں ہو سکی اور حافظ ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کے نزدیک، اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی معصیت اور نافرمانی پر تو دس کوڑے لگائے جا سکتے ہیں، لیکن شخصی اور انسانی قوانین کے توڑنے پر، دس سے زائد کوڑے نہیں لگائے جا سکتے، مثلا کوئی انسان، باپ یا استاد کی نافرمانی کرتا ہے تو وہ تادیب و سرزنش کے لیے، دس سے زائد کوڑے نہیں لگا سکتا یا بقول حافظ ابن حجر، چھوٹے گناہ پر دس سے زائد کوڑے نہیں لگائے جا سکتے اور بڑے گناہ پر اسے دس سے زائد کوڑے لگائے جا سکتے ہیں۔ (فتح الباری، ج 12، ص 220) کیونکہ، حد کا اطلاق اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور معصیت پر بھی ہوتا ہے، جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا ۔۔﴾(سورة البقرة: 229) ’’یہ اللہ کی حدود ہیں، ان کو نہ توڑو۔"یعنی اللہ کا حکم ہے، اس کی نافرمانی نہ کرو۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Burda Ansari reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: None should be given more than ten lashes, but in case of any Hadd out of the Hudud of Allah.