Muslim:
The Book of Judicial Decisions
(Chapter: So the judgement of the judge does not change what happened)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1713.
ابومعاویہ نے ہمیں ہشام بن عروہ سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل کے ہر پہلو کو بیان کرنے کے لحاظ سے دوسرے کی نسبت زیادہ ذہین و فطین (ثابت) ہو اور میں جس طرح اس سے سنوں اسی طرح اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، تو جس کو میں اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دوں وہ اسے نہ لے، میں اس صورت میں اس کے لیے آگ کا ٹکرا کاٹ کر دے رہا ہوں گا۔‘‘
اَقْضِيَہ،قضا کی جمع ہے۔ جب کسی حق کے بارے میں دو آدمیوں یا دو فریقوں کے درمیان اختلاف ہو تو شریعت کے حکم کے مطابق اصل حقدار کا تعین کر کے اس کے حق میں فیصلہ میں کرنا’’قضا‘‘ہے ۔فیصلہ کرنے والا قاضی کہلاتا ہے ان فیصلوں کا نفاذ حکومت کی طاقت سے ہوتا ہے کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے فیصلوں کا نفاذ ہے ان کے بالمقابل فتویٰ کسی معاملے میں شریعت کا حکم واضح کرنے کا نام ہے اس کے پیچھے قوت نافذ نہیں ہوتی لیکن عموماً رائے اس کی حامی ہوتی ہے اس لیے فتووں کا اپنا وزن بھی ہوتا ہے اور فیصلہ کرنے والوں کے لیے رہنمائی بھی ۔فتویٰ ان امور میں بھی حاصل کیا جاتا ہے جو انسان نے رضا کا رانہ طور پر خود اپنے آپ پر نافذ کرنے ہوتے ہیں۔
اس حصے میں فیصلہ کرنے کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ نے جو رہنمائی فرمائی ہے اس کو واضح کیا گیا ہے آج کل اسے Peocedural laws کہتے ہیں سب سے پہلے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ حل طلب قضیے کے حوالے سے ثبوت اور گواہی پیش کرنا مدعی کی ذمہ داری ہے جبکہ قسم مدعا علیہ پر آتی ہے اگر ثبوت اور گواہی کو اچھی طرح کھنگالنے اور دوسرے فریق کا موقف سننے کے بعدحق و انصاف پر مبنی فیصلہ ممکن ہے تو فبہا اور اگر ممکن نہیں ،مدعی اپنی بات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے تو مدعا علیہ پر قسم ہو گی اور اس کے مطابق فیصلہ ہو گا بعض اوقات نا کافی گواہی کی صورت میں مدعی سے بھی قسم کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور اس کی روشنی میں فیصلہ دیا جاتا ہے فیصلہ صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ۔غلط فیصلہ فافذ بھی ہو جائے تو حق پھر بھی اسی کا رہتا ہے جو اصل حق دار تھاغلط فیصلے سے فائدہ اٹھانے والے حتمی فیصلے کے دن اس کی سزا پائیں گے اور حق اسی کو ملے جس کا تھا گھریلو ا اور خاندانی معاملات میں بھی فیصلہ کیا جا سکتا اور بعض اوقات دوسرے فریق کی موجودگی کے بغیر اصل معاملے کے حوالے سے شریعت کا حکم واضح کر دیا جاتا ہے ایسے فیصلوں پر عمل کا معاملہ انسان کے ضمیر پر منحصر ہوتا ہے بعض فیصلوں میں فریق صرف ایک ہی ہوتا ہے اور عمل درآمد بھی وہ خود ہی کرتا ہے ۔بطور مثال کثرت سے سوالات کرنے،قیل و قال میں مشغول ہونے اور جن حقوق کا مطالبہ نہیں کیا گیا،ان کی ادائیگی کے معاملات ہیں ان میں فیصلہ ایک ہی فریق کو سنایا گیا ہے جسے اسی فریق ہی نے نا فذ کرنا ہے آخری حصے میں فیصلہ کرنے والوں کے لیے رہنمائی ہے کہ وہ فیصلے کس طرح کریں گے اور یہ کہ فیصلوں کے حوالے سے ان کی ذمہ داری کیا ہے۔
ابومعاویہ نے ہمیں ہشام بن عروہ سے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے اور انہوں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو، ہو سکتا ہے تم میں سے کوئی اپنی دلیل کے ہر پہلو کو بیان کرنے کے لحاظ سے دوسرے کی نسبت زیادہ ذہین و فطین (ثابت) ہو اور میں جس طرح اس سے سنوں اسی طرح اس کے حق میں فیصلہ کر دوں، تو جس کو میں اس کے بھائی کے حق میں سے کچھ دوں وہ اسے نہ لے، میں اس صورت میں اس کے لیے آگ کا ٹکرا کاٹ کر دے رہا ہوں گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میرے پاس جھگڑا لاتے ہو اور ہو سکتا ہے تم میں سے بعض، دوسرے کے مقابلہ میں اپنی دلیل بہتر انداز یا فطانت سے پیش کرے تو میں اس کے حق میں، اس سے سننے کے مطابق فیصلہ کر دوں تو جس کو میں نے اس کے بھائی کے حق میں سے کوئی چیز دلوا دی، وہ اس کو نہ لے، کیونکہ میں اس کو اس چیز کی صورت میں آگ کا ایک ٹکڑا دے رہا ہوں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) أَلحَنَ بِحُجَّتِهِ: وہ اپنی دلیل کو بہتر طور پر سمجھتا ہو اور زیادہ مؤثر انداز سے پیش کرتا ہو۔ (2) قطَعْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيْهِ: میں اس کے بھائی کے حق میں سے اس کو کچھ دلوا دوں یا دے دوں۔
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، قاضی یا حاکم کا فیصلہ ظاہر کے مطابق ہوتا ہے، یعنی وہ ظاہری طور پر شاہدوں سے جو کچھ سنتا ہے، اس کے مطابق فیصلہ کر دیتا ہے اور اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ شاہد جھوٹ بول رہے ہیں، اس لیے جس مدعی نے اپنا دعویٰ جھوٹے شاہدوں سے ثابت کیا ہے، اس کو چونکہ معلوم ہے کہ میں نے جھوٹے گواہ پیش کیے ہیں اور معاملہ کی اصل حقیقت وہ نہیں ہے جو میں نے گواہوں کے ذریعہ ثابت کی ہے، اس لیے اس کو فیصلہ کو اپنے حق میں استعمال نہیں کرنا چاہیے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ اصل حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتا، (حالانکہ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل حقیقت سے آگاہ کر سکتا تھا) تاکہ امت کے سامنے یہ حقیقت واضح رہے کہ عدالت میں جھوٹے گواہ قائم کر کے فیصلہ نافذ العمل ہو گا، لیکن آخرت میں یہ انسان مجرم ٹھہرے گا اور سزا کا مستحق ہو گا، جمہور علماء کا نظریہ اس حدیث کے مطابق ہے، یعنی امام مالک، شافعی، احمد، اوزاعی، اسحاق، ابو ثور، داود اور ابن الحسن رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے، لیکن امام ابو حنیفہ کے نزدیک اگر حاکم نے، عقد، فسخ عقد یا طلاق کا فیصلہ، جھوٹے گواہوں کی گواہی کی بنیاد پر کر دیا تو اس کا فیصلہ ظاہرا اور باطنا (حقیقت واقعہ) دونوں اعتبار سے نافذ العمل ہو گا، مثلا دو گواہوں کو انہوں نے ایکا کر کے، ایک انسان کے بارے میں یہ گواہی دی کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور قاضی نے گواہی مان کر میاں بیوی میں جدائی ڈال دی تو گواہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ہم نے جھوٹ بولا ہے، عدت کے گزرنے کے بعد اس سے شادی کر سکتا ہے یا عورت نے جھوٹے گواہ تیار کر کے جھوٹی گواہی دلوائی کہ فلاں مرد نے میرے ساتھ شادی کی ہے اور مجھے آباد نہیں کرتا اور قاضی نے اس نکاح کو تسلیم کر لیا تو وہ عورت اس مرد کے لیے حلال ہو گی؟ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس نے اس سے نکاح نہیں کیا تھا تو جھوٹ سے حقیقت تو تبدیل نہیں ہو گی، اس لیے ظاہری اعتبار سے تو یہ فیصلہ نافذ العمل ہو گا، لیکن باطن کے اعتبار سے درست نہیں ہے، اس لیے وہ عورت حقیقت کے اعتبار سے اس کے لیے جائز نہیں ہے، وہ حقیقت کے اعتبار سے زانی ہیں، اگرچہ ظاہر کے اعتبار سے میاں بیوی ہیں اور احناف کا اس کو انشاء قرار دینا، یعنی گویا کہ قاضی نے نکاح کر دیا ہے، درست نہیں ہے، کیونکہ قاضی نے جھوٹی گواہی پر جھوٹے نکاح کو تسلیم کیا ہے، نیا نکاح نہیں کیا، شریعت کا اصل مقصود یہ ہے کہ ایک مسلمان ناجائز حربے استعمال نہ کرے، کیونکہ جب ناجائز حربہ اس کو گناہ اور جرم سے بچا نہیں سکتا اور اس کی اخروی زندگی کی تباہی کا باعث ہے تو اس کو استعمال کیوں کیا جائے اور عجیب بات ہے، احناف خود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ جھوٹے گواہ قائم کرنا، ایک حرام کام ہے اور وہ اس سے بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے، (تکملہ، ج 2، ص 572) تو پھر یہ باطنا کیسے جاری ہوا، باطنا تب ہی جاری ہو سکتا تھا، جب وہ قاضی کے فیصلہ کی بناء پر آخرت کی سزا سے بچ سکتا ہے جو کہ احناف کے نزدیک بھی ممکن نہیں ہے، اس لیے امام ابو یوسف اور امام محمد کا فتویٰ جمہور کے مطابق ہے اور بعض ائمہ احناف اس کے مطابق فتویٰ دیتے تھے۔ (تکملہ، ج 2، ص 571)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Umm Salamah reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: You bring to me, for (judgment) your disputes, some of you perhaps being more eloquent in their plea than others, so I give judgment on their behalf according to what I hear from them. (Bear in mind, in my judgment) if I slice off anything for him from the right of his brother, he should not accept that, for I sliced off for him a portion from the Hell.