Muslim:
The Book of Judicial Decisions
(Chapter: The case of Hind)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1714.
علی بن مسہر نے ہمیں ہشام بن عروہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت ابوسفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ رضی اللہ تعالی عنہا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں (بیعت کے لیے) حاضر ہوئیں تو عرض کی: اللہ کے رسول! ابوسفیان بخیل آدمی ہے، وہ مجھے اتنا خرچ نہیں دیتا جو مجھے اور میرے بچوں کو کافی ہو جائے، سوائے اس کے جو میں اس کے مال میں سے اس کی لاعلمی میں لے لوں، تو کیا اس میں مجھ پر کوئی گناہ ہو گا؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’معروف طریقے سے ان کے مال میں سے (بس) اتنا لے لیا کرو جو تمہیں اور تمہارے بچوں کو کافی ہو۔‘‘
تشریح:
فائدہ:
معروف طریقے سے مراد یہ ہے کہ جس طرح معاشرے میں رہن سہن کا عام طریقہ ہے اسی کے مطابق خرچ کرنے کے لیے لے لو، اس سے زیادہ نہیں۔
اَقْضِيَہ،قضا کی جمع ہے۔ جب کسی حق کے بارے میں دو آدمیوں یا دو فریقوں کے درمیان اختلاف ہو تو شریعت کے حکم کے مطابق اصل حقدار کا تعین کر کے اس کے حق میں فیصلہ میں کرنا’’قضا‘‘ہے ۔فیصلہ کرنے والا قاضی کہلاتا ہے ان فیصلوں کا نفاذ حکومت کی طاقت سے ہوتا ہے کسی بھی حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے فیصلوں کا نفاذ ہے ان کے بالمقابل فتویٰ کسی معاملے میں شریعت کا حکم واضح کرنے کا نام ہے اس کے پیچھے قوت نافذ نہیں ہوتی لیکن عموماً رائے اس کی حامی ہوتی ہے اس لیے فتووں کا اپنا وزن بھی ہوتا ہے اور فیصلہ کرنے والوں کے لیے رہنمائی بھی ۔فتویٰ ان امور میں بھی حاصل کیا جاتا ہے جو انسان نے رضا کا رانہ طور پر خود اپنے آپ پر نافذ کرنے ہوتے ہیں۔
اس حصے میں فیصلہ کرنے کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ نے جو رہنمائی فرمائی ہے اس کو واضح کیا گیا ہے آج کل اسے Peocedural laws کہتے ہیں سب سے پہلے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ حل طلب قضیے کے حوالے سے ثبوت اور گواہی پیش کرنا مدعی کی ذمہ داری ہے جبکہ قسم مدعا علیہ پر آتی ہے اگر ثبوت اور گواہی کو اچھی طرح کھنگالنے اور دوسرے فریق کا موقف سننے کے بعدحق و انصاف پر مبنی فیصلہ ممکن ہے تو فبہا اور اگر ممکن نہیں ،مدعی اپنی بات ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے تو مدعا علیہ پر قسم ہو گی اور اس کے مطابق فیصلہ ہو گا بعض اوقات نا کافی گواہی کی صورت میں مدعی سے بھی قسم کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور اس کی روشنی میں فیصلہ دیا جاتا ہے فیصلہ صحیح بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ۔غلط فیصلہ فافذ بھی ہو جائے تو حق پھر بھی اسی کا رہتا ہے جو اصل حق دار تھاغلط فیصلے سے فائدہ اٹھانے والے حتمی فیصلے کے دن اس کی سزا پائیں گے اور حق اسی کو ملے جس کا تھا گھریلو ا اور خاندانی معاملات میں بھی فیصلہ کیا جا سکتا اور بعض اوقات دوسرے فریق کی موجودگی کے بغیر اصل معاملے کے حوالے سے شریعت کا حکم واضح کر دیا جاتا ہے ایسے فیصلوں پر عمل کا معاملہ انسان کے ضمیر پر منحصر ہوتا ہے بعض فیصلوں میں فریق صرف ایک ہی ہوتا ہے اور عمل درآمد بھی وہ خود ہی کرتا ہے ۔بطور مثال کثرت سے سوالات کرنے،قیل و قال میں مشغول ہونے اور جن حقوق کا مطالبہ نہیں کیا گیا،ان کی ادائیگی کے معاملات ہیں ان میں فیصلہ ایک ہی فریق کو سنایا گیا ہے جسے اسی فریق ہی نے نا فذ کرنا ہے آخری حصے میں فیصلہ کرنے والوں کے لیے رہنمائی ہے کہ وہ فیصلے کس طرح کریں گے اور یہ کہ فیصلوں کے حوالے سے ان کی ذمہ داری کیا ہے۔
علی بن مسہر نے ہمیں ہشام بن عروہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت ابوسفیان کی بیوی ہند بنت عتبہ رضی اللہ تعالی عنہا رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں (بیعت کے لیے) حاضر ہوئیں تو عرض کی: اللہ کے رسول! ابوسفیان بخیل آدمی ہے، وہ مجھے اتنا خرچ نہیں دیتا جو مجھے اور میرے بچوں کو کافی ہو جائے، سوائے اس کے جو میں اس کے مال میں سے اس کی لاعلمی میں لے لوں، تو کیا اس میں مجھ پر کوئی گناہ ہو گا؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’معروف طریقے سے ان کے مال میں سے (بس) اتنا لے لیا کرو جو تمہیں اور تمہارے بچوں کو کافی ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
معروف طریقے سے مراد یہ ہے کہ جس طرح معاشرے میں رہن سہن کا عام طریقہ ہے اسی کے مطابق خرچ کرنے کے لیے لے لو، اس سے زیادہ نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہا کی بیوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہنے لگی، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ابوسفیان لالچی اور حریص آدمی ہے،مجھے اتنا خرچہ نہیں دیتا جو مجھے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو، الا یہ کہ میں اسے بتائے یا اس کے علم میں لائے بغیر اس کے مال سے کچھ لے لوں، کیا اس صورت میں مجھ پر گناہ ہو گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تو اس کے مال سے عرف و دستور کے مطابق اتنا لے سکتی ہے جو تجھے اور تیرے بچوں کے لیے کافی ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مفتی فریق مخالف کی بات سننے کا پابند نہیں ہے، وہ مسئلہ کا جواب بتا دے گا، جب حضرت ہند رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا میں اپنے خاوند کے مال سے جو پورا خرچہ نہیں دیتا ہے، اس قدر لے سکتی ہوں، جو میرے اور میرے بچوں کے لیے کافی ہو تو آپﷺ نے حضرت سفیان کو بلائے بغیر، یہ جواب دیا کہ اس وقت کے عرف اور رواج کے مطابق تمہیں جس قدر خرچہ کی ضرورت ہو، تم لے سکتی ہو اور اس مسئلہ کی روشنی میں علماء نے یہ بحث کی ہے کہ قرض خواہ نے مقروض سے اپنا قرضہ لینا ہے لیکن وہ دیتا نہیں ہے اور اس کے ہاتھ میں مقروض کا کچھ مال آ جاتا ہے تو کیا وہ اس سے اپنا حق کاٹ سکتا ہے؟ امام ابن قدامہ نے اس کی مندرجہ ذیل تفصیل بیان کی۔ (1) اگر مقروض، قرض کا اقرار کرتا ہے اور دینے کے لیے تیار بھی ہے تو ایسی صورت میں قرض خواہ کو بالاتفاق قبضہ میں آنے والے مال سے اپنا حق، اس کی اجازت کے بغیر وصول کرنا جائز نہیں ہے، اگر اپنا حق کاٹ لیا ہے تو اس کو واپس کرنا ہو گا، اگرچہ قبضہ میں آنے والا مال اس کے قرضہ کی جنس سے ہو۔ (2) اگر مقروض کو قرضہ کی ادائیگی کے سلسلہ میں کوئی رکاوٹ ہو، مثلا وہ تنگدست اور محتاج ہے یا مہلت چاہتا ہو تو پھر بھی بالاتفاق اس کی اجازت کے بغیر، مقبوضہ مال سے اپنا حق وصول کرنا جائز نہیں ہے۔ (3) اگر مقروض بلاوجہ یا بلا ضرورت قرضہ ادا نہیں کرتا اور قرض خواہ عدالت کے ذریعہ اپنا حق وصول کر سکتا ہے تو پھر بھی اپنے عہد پر، اپنا حق وصول کرنا جائز نہیں ہے۔ (4) اگر مقروض، قرضہ سے انکار کرتا ہے اور قرض خواہ کے پاس بینہ نہیں ہے اور عدالت کے ذریعہ اپنا حق وصول نہیں کر سکتا تو اس میں ائمہ کا اختلاف ہے، امام شافعی کا نظریہ ہے قبضہ میں آنے والے مال سے، وہ قرضہ کی جنس سے ہو یا نہ ہو، اپنا حق وصول کر سکتا ہے، امام مالک کا ایک قول یہی ہے، امام احمد کا مشہور قول یہ ہے، وہ مقبوضہ مال سے اپنا حق وصول نہیں کر سکتا، اس کو وہ مال دینا ہو گا اور اپنے قرضہ کا مطالبہ کرنا ہو گا، امام مالک کا دوسرا قول یہی ہے، امام ابو حنیفہ کا قول یہ ہے کہ اگر مقبوضہ مال، قرضہ کی جنس سے ہے تو پھر جائز ہے، وگرنہ جائز نہیں ہے، امام مالک کا تیسرا قول یہی ہے۔ (المغني کتاب الدعاوي والبینات، ج 14، ص 339، 340) احناف متاخرین کا فتویٰ امام شافعی کے موقف کے مطابق ہے۔ (تکملہ ج 2 ص 580)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
A'isha reported: Hind, the daughter of 'Utba, wife of Abu Sufyan (RA) , came to Allah's Messenger (ﷺ) and said: Abu Sufyan (RA) is a miserly person. He does not give adequate maintenance for me and my children, but (I am constrained) to take from his wealth (some part of it) without his knowledge. Is there any sin for me? Thereupon Allah's Messenger (ﷺ) said: Take from his property what is customary which may suffice you and your children.