کتاب: کسی کو ملنے والی ایسی چیز جس کے مالک کا پتہ نہ ہو
(
باب: مہمان نوازی کا بیان
)
Muslim:
The Book of Lost Property
(Chapter: It is recommended to spend surplus wealth)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1727.
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ ہمیں کسی (اہم کام کے لیے) روانہ کرتے ہیں، ہم کچھ لوگوں کے ہاں اترتے ہیں تو وہ ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے، آپﷺ کی رائے کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا: ’’اگر تم کسی قوم کے ہاں اترو اور وہ تمہارے لیے ایسی چیز کا حکم دیں جو مہمان کے لائق ہے تو قبول کر لو اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے مہمان کا اتنا حق لے لو جو ان (کی استطاعت کے مطابق ان) کے لائق ہو۔‘‘
لُقَظَہ سے مراد وہ چیز،سواری کا جانور وغیرہ ہے جو گر جائے ا غفلت کی بنا پر کہیں رہ جائے یا سواری ہے تو کہیں چلی جائے ، کام کی جو چیزیں دریا، سمندر وغیرہ نے کناروں پر لا پھینکتے ہیں ،یا کوئی قیمتی چیز جو کسی پرندے کےآشیانے میں مل جائے اس کی چونچ یا پنجے وغیرہ سے گر جائے، سب اسی میں شامل ہے۔
پچھلے ابواب میں مالی حقوق کے حوالے سے پیدا ہونے والے جھگڑوں کے بارے میں احکام تھے اس حصے میں ان چیزوں کا ذکر ہے جن کا کوئی دعوے دار موجودنہیں ،لیکن ان پر کسی نا معلوم انسان کا حق ہے۔
اس حصے کی حدیث میں وضاحت ہے کہ کون سی چیزیں سنبھالی جا سکتی ہے اور کون سی چیزیں سنبھالنے کی اجازت نہیں سنبھالنے والے پر فرض عائد ہوتا ہے کہ اس کے اصل مالک کو تلاش کرنے کے لیے سال بھر اس کی تشہیر کرے ،پھر وہ اس چیز کو خرچ کر سکتا ہے مگر اس کی حیثیت امانت کی ہو گی۔ اصل مالک کے آنے اور معقول طریقے پر اس کا حقِ ملکیت ثابت ہو جانے کی صورت میں وہی اصل حقدار ہوگاوہ چیز یا اس کی قیمت اس کو ادا کر دینی ضروری ہوگی آخری حصے میں کسی انسان کے اس حق کی وضاحت ہے جو کسی دوسرے کے مال میں ہو سکتا ہے،مثلا:مہمان کا حق،اور تنگی کی صورت میں جو کسی کے پاس موجود ہے اس پر باقی لوگوں کا حق۔
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ ہمیں کسی (اہم کام کے لیے) روانہ کرتے ہیں، ہم کچھ لوگوں کے ہاں اترتے ہیں تو وہ ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے، آپﷺ کی رائے کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا: ’’اگر تم کسی قوم کے ہاں اترو اور وہ تمہارے لیے ایسی چیز کا حکم دیں جو مہمان کے لائق ہے تو قبول کر لو اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے مہمان کا اتنا حق لے لو جو ان (کی استطاعت کے مطابق ان) کے لائق ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ ہمیں بھیجتے ہیں اور ہم ایسے لوگوں میں جا کر ٹھہرتے ہیں، جو ہماری مہمان نوازی نہیں کرتے تو آپﷺ کا کیا خیال ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: ’’اگر تم کسی قوم میں ٹھہرو اور وہ تمہارے لیے وہ چیز مہیا کریں جو مہمان کو ملنی چاہیے تو اس کو قبول کر لو، اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے مہمان کا مناسب حق، جو انہیں دینا چاہیے تھا چھین لو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر اسلامی حکومت کوئی دستہ یا پارٹی کہیں بھیجتی ہے تو اس علاقہ کے لوگوں کو ان کی مہمان نوازی کرنی چاہیے، لیکن امام احمد نے اس سے یہ استدلال کیا ہے کہ جس علاقہ میں مہمان کو قیمتاً کھانا نہ مل سکتا ہو، کیونکہ وہاں کوئی ہوٹل نہیں ہے تو وہاں لوگوں پر مہمان نوازی فرض ہے اور امام لیث کے نزدیک ہر جگہ کے لوگوں پر فرض ہے، لیکن جمہور کے نزدیک مہمان نوازی سنت مؤکدہ ہے، فرض نہیں ہے، اس لیے اس کو جبراً وصول نہیں کیا جا سکتا، الا یہ کہ مہمان لاچار ہو اور بھوک ستا رہی ہو، صحیح بات تو یہ ہے اس کا تعلق، اسلامی حکومت کے کارندوں سے تھا کیونکہ وقت وسائل اتنے عام نہیں تھے، حکومت ہر جگہ ان کے لیے کھانے اور رہائش کا انتظام کر سکتی، لیکن اب حکومت اس کا انتظام کرتی ہے، انہیں اس کے لیے رقم مہیا کرتی ہے، اس لیے اب جائز نہیں، وگرنہ ایک دو مہمان کسی سے اپنا حق زبردستی وصول کرنے کی استطاعت کہاں رکھتے ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Uqba bin Amir reported: We said to Allah's Messenger (ﷺ) : You send us out and we come to the people who do not give us hospitality, so what is your opinion? Thereupon Allah's Messenger (ﷺ) said: If you come to the people who order for you what is befitting a guest, accept it; but if they do not, take from them what befits them to give to a guest.