موضوعات
قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی
صحيح مسلم: كِتَابُ اللُّقَطَةِ (بَابُ اسْتِحْبَابِ خَلْطِ الْأَزْوَادِ إِذَا قَلَّتْ، وَالْمُؤَاسَاةِ فِيهَا)
حکم : صحیح
1729 . حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْدِيُّ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ الْيَمَامِيَّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ وَهُوَ ابْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ، فَأَصَابَنَا جَهْدٌ حَتَّى هَمَمْنَا أَنْ نَنْحَرَ بَعْضَ ظَهْرِنَا، فَأَمَرَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَمَعْنَا مَزَاوِدَنَا، فَبَسَطْنَا لَهُ نِطَعًا، فَاجْتَمَعَ زَادُ الْقَوْمِ عَلَى النِّطَعِ، قَالَ: فَتَطَاوَلْتُ لِأَحْزِرَهُ كَمْ هُوَ؟ فَحَزَرْتُهُ كَرَبْضَةِ الْعَنْزِ وَنَحْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً، قَالَ: فَأَكَلْنَا حَتَّى شَبِعْنَا جَمِيعًا، ثُمَّ حَشَوْنَا جُرُبَنَا، فَقَالَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَهَلْ مِنْ وَضُوءٍ؟» قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ بِإِدَاوَةٍ لَهُ فِيهَا نُطْفَةٌ، فَأَفْرَغَهَا فِي قَدَحٍ، فَتَوَضَّأْنَا كُلُّنَا نُدَغْفِقُهُ دَغْفَقَةً أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً، قَالَ: ثُمَّ جَاءَ بَعْدَ ذَلِكَ ثَمَانِيَةٌ، فَقَالُوا: هَلْ مِنْ طَهُورٍ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَرِغَ الْوَضُوءُ
صحیح مسلم:
کتاب: کسی کو ملنے والی ایسی چیز جس کے مالک کا پتہ نہ ہو
باب: اگر زاد راہ کم پڑ جائے تو اسے باہم ملا لینا اور اس کے ذریعےسے ایک دوسرے کی غمخواری کرنا مستحب ہے
)مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
1729. ایاس بن سلمہ نے ہمیں اپنے والد حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک غزوہ میں نکلے، (راستے میں) تنگی (زاد راہ کی کمی) کا شکار ہو گئے حتی کہ ہم نے ارادہ کر لیا کہ اپنی بعض سواریاں ذبح کر لیں۔ اس پر نبی ﷺ نے حکم دیا تو ہم نے اپنا زادراہ اکٹھا کر لیا۔ ہم نے اس کے لیے چمڑے کا دسترخوان بچھایا تو سب لوگوں کا زادراہ اس دسترخوان پر اکٹھا ہو گیا۔ کہا: میں نے نگاہ اٹھائی کہ اندازہ کر سکوں کہ وہ کتنا ہے؟ تو میں نے اندازہ لگایا کہ وہ ایک بکری کے بیٹھنے کی جگہ کے بقدر تھا اور ہم چودہ سو آدمی تھے۔ کہا: تو ہم نے کھایا حتی کہ ہم سب سیر ہو گئے، پھر ہم نے اپنے (خوراک کے) تھیلے (بھی) بھر لیے۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے پوچھا: ’’کیا وضو کے لیے پانی ہے؟‘‘ کہا: تو ایک آدمی اپنا ایک برتن لایا۔ اس میں تھوڑا سا پانی تھا، اس نے وہ ایک کھلے منہ والے پیالے میں انڈیلا تو ہم سب نے وضو کیا، ہم چودہ سو آدمی اسے کھلا استعمال کر رہے تھے۔ کہا: پھر اس کے بعد آٹھ افراد (اور) آئے، انہوں نے کہا: کیا وضو کے لیے پانی ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وضو کاپانی ختم ہو چکا۔‘‘