کتاب: جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہﷺ کے اختیار کردہ طریقے
(
باب: اموال غنیمت کا بیان
)
Muslim:
The Book of Jihad and Expeditions
(Chapter: Spoils of War)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1748.
ابوعوانہ نے سماک سے، انہوں نے مصعب بن سعد سے اور انہوں نے اپنے والد (حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: میرے والد نے خمس میں سے کوئی چیز لی، اسے لے کر نبی ﷺ کے پاس آئے اور عرض کی: یہ مجھے ہبہ فرما دیں تو آپﷺ نے انکار کیا۔ کہا: اس پر اللہ عزوجل نے (یہ حکم) نازل فرمایا: ’’لوگ آپ سے اموالِ غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دیجئے: اموالِ غنیمت اللہ کے لیے اور رسول کے لیے ہیں۔‘‘
ابوعوانہ نے سماک سے، انہوں نے مصعب بن سعد سے اور انہوں نے اپنے والد (حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: میرے والد نے خمس میں سے کوئی چیز لی، اسے لے کر نبی ﷺ کے پاس آئے اور عرض کی: یہ مجھے ہبہ فرما دیں تو آپﷺ نے انکار کیا۔ کہا: اس پر اللہ عزوجل نے (یہ حکم) نازل فرمایا: ’’لوگ آپ سے اموالِ غنیمت کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہہ دیجئے: اموالِ غنیمت اللہ کے لیے اور رسول کے لیے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے، مصعب بیان کرتے ہیں کہ میرے باپ نے خمس میں سے ایک تلوار اٹھا لی اور اسے لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے اور عرض کیا، یہ مجھے ہبہ فرما دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا تو یہ آیت اتری: ’’آپ سے لوگ انفال کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ فرما دیں، انفال اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
(1) انفال: یہ نفل کی جمع ہے، جس کا معنی ہے، زائد یا اضافہ، لیکن یہاں کیا مراد ہے، اس میں علماء کا مندرجہ ذیل اختلاف ہے۔ (1) انفال سے مراد، غنیمتیں ہیں کہ اس میں تصرف کا حق اللہ نے رسول کو دیا ہے، اس مفہوم کی صورت میں یہ آیت منسوخ ہو گی کیونکہ بعد میں غنیمت کے چار حصے مجاہدین کے لیے مقرر کر دئیے گئے اور پانچواں حصہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے پر چھوڑ دیا گیا۔ حدیث نمبر (4556) (2) انفال سے مراد، خمس پانچواں حصہ ہے، پورا مال غنیمت مراد نہیں ہے، اس صورت میں یہ آیت منسوخ نہیں ہو گی۔ (3) انفال سے مراد فے ہے، یعنی وہ مال جو مسلمان کو کافروں سے بلا جنگ و جدال ملتا ہے، اس میں نبی جیسے چاہے تصرف کر سکتا ہے۔ (4) انفال سے مراد وہ عطیہ اور انعام ہے، جو امام کسی کو حسن کارکردگی پر عنایت فرماتا ہے۔ (5) انفال سے مراد وہ عطیہ اور انعام ہے، جو امام کسی دستہ کو بڑے لشکر سے جب الگ کسی مہم پر بھیجتا ہے تو اسے عام لشکر سے اضافی طور پر دیتا ہے۔ (2) حضرت سعد نے غنیمت میں سے ایک تلوار لی، اس کو خمس سے تعبیر اس لیے کیا کہ جنگ بدر کے بعد، جب غنیمت کی تقسیم کے سلسلہ میں اختلاف پیدا ہوا اور قرآن مجید میں اس کے بارے میں احکام نازل کیے گئے تو مجاہد کو عطیہ اور انعام میں دی گئی چیز کو خمس میں سے شمار کیا گیا تو چونکہ ابھی احکام نازل نہیں ہوئے، اس لیے آیت انفال کے ذریعہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اختیار دے دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تلوار حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو عنایت فرما دی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
A hadith has been narrated by Mus'ab bin Sa'd who heard it from his father as saying: My father took a sword from Khums and brought it to the Holy Prophet (ﷺ) and said: Grant it to me. He refused. At this Allah revealed (the Qur'anic verse): "They ask thee concerning the spoils of war. Say: The spoils of war are for Allah and the Apostle" (viii. 1).