کتاب: جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہﷺ کے اختیار کردہ طریقے
(
باب: صلح حدیبیہ
)
Muslim:
The Book of Jihad and Expeditions
(Chapter: The truce of Al-Hudaybiyah)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1784.
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ قریش نے نبی ﷺ سے مصالحت کی، ان میں سہیل بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: ’’لکھو: بسم الله الرحمن الرحيم‘‘ سہیل کہنے لگے: جہاں تک بسم اللہ کا تعلق ہے تو ہم بسم الله الرحمن الرحيم کو نہیں جانتے، لیکن وہ لکھو جسے ہم جانتے ہیں: باسمك اللهم پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لکھو: محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے۔‘‘ وہ لوگ کہنے لگے: اگر ہم یقین جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کی پیروی کرتے، لیکن اپنا اور اپنے والد کا نام لکھو، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’لکھو: محمد بن عبداللہ ﷺ کی طرف سے۔‘‘ ان لوگوں نے نبی ﷺ پر شرط لگائی کہ آپ لوگوں میں سے (ہمارے پاس) آ جائے گا ہم اسے آپ لوگوں کو واپس نہ کریں گے اور ہم میں سے جو آپ کے پاس آیا آپ اسے ہم کو واپس کر دیں گے۔ (صحابہ نے) پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا ہم یہ لکھ دیں؟ فرمایا: ’’ہاں، ہم میں سے جو شخص ان کے پاس چلا گیا تو اسے اللہ نے ہم سے دور کر دیا اور ان میں سے جو ہمارے پاس آئے گا اللہ اس کے لیے کشادگی اور نکلنے کا راستہ پیدا فرما دے گا۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ قریش نے نبی ﷺ سے مصالحت کی، ان میں سہیل بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: ’’لکھو: بسم الله الرحمن الرحيم‘‘ سہیل کہنے لگے: جہاں تک بسم اللہ کا تعلق ہے تو ہم بسم الله الرحمن الرحيم کو نہیں جانتے، لیکن وہ لکھو جسے ہم جانتے ہیں: باسمك اللهم پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لکھو: محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے۔‘‘ وہ لوگ کہنے لگے: اگر ہم یقین جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ کی پیروی کرتے، لیکن اپنا اور اپنے والد کا نام لکھو، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’لکھو: محمد بن عبداللہ ﷺ کی طرف سے۔‘‘ ان لوگوں نے نبی ﷺ پر شرط لگائی کہ آپ لوگوں میں سے (ہمارے پاس) آ جائے گا ہم اسے آپ لوگوں کو واپس نہ کریں گے اور ہم میں سے جو آپ کے پاس آیا آپ اسے ہم کو واپس کر دیں گے۔ (صحابہ نے) پوچھا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا ہم یہ لکھ دیں؟ فرمایا: ’’ہاں، ہم میں سے جو شخص ان کے پاس چلا گیا تو اسے اللہ نے ہم سے دور کر دیا اور ان میں سے جو ہمارے پاس آئے گا اللہ اس کے لیے کشادگی اور نکلنے کا راستہ پیدا فرما دے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ قریش نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مصالحت کی، ان میں سہیل بن عمرو بھی تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا: ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھو،‘‘ سہیل نے کہا، رہا بسم اللہ تو ہم نہیں جانتے، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کیا ہے، لیکن وہ لکھ جو ہم جانتے ہیں، ’’باسمك اللهم‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لکھو، محمد رسول اللہ کی طرف سے۔‘‘ انہوں نے کہا، اگر ہم یقین کر لیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو آپ کی پیروی اختیار کر لیں، لیکن اپنا اور اپنے باپ کا نام لکھ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لکھ، محمد بن عبداللہ کی طرف سے۔‘‘ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ شرط بھی کی کہ تم میں سے جو ہمارے پاس آ جائے گا ہم اسے تمہیں نہیں لوٹائیں گے اور جو ہم میں سے تمہارے پاس آ جائے گا، تمہیں اسے ہماری طرف لوٹانا ہو گا، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم یہ شرط لکھ (مان) لیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم میں سے جو ان سے جا ملے تو اللہ اسے دور ہی رکھے اور ان میں سے جو ہمارے ساتھ آ ملے گا، اللہ تعالیٰ یقینا اس کے لیے کشادگی اور کوئی نکلنے کی راہ پیدا کر دے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے اجتماعی اور دینی مفادات کے حصول کی خاطر بظاہر دب کر صلح کی اور ان کی ہر شرط کو مان لیا، کیونکہ محمد بن عبداللہ لکھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا انکار لازم نہیں آتا تھا اور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کی جگہ بسمك اللهم لکھنے سے اللہ تعالیٰ کی الوہیت پھر بھی ثابت ہو رہی ہے، جو اصل مقصود ہے، اس طرح ان کا مطالبہ ماننے میں کوئی شرعی اور دینی خرابی نہیں تھی اور ان میں سے مسلمان ہونے والوں کو ان کے سپرد کرنا، بظاہر ان کو ظلم و ستم کے حوالہ کرنا تھا، لیکن اس کی حکمت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بتا دی کہ اللہ یقینا ان کے لیے کشادگی اور نکلنے کی صورت پیدا کرے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشن گوئی پوری ہوئی اور اس صلح کے نتیجہ میں کافر کثیر تعداد میں مسلمان ہوئے، کیونکہ ان کو مسلمانوں کے ساتھ ملنے جلنے کا موقع ملا، اسلامی تعلیمات سے وہ روشناس ہوئے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے اخلاق و کردار سے آگاہ ہوئے، ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور معجزات کو سننے کا موقع ملا اور اس کے نتیجہ میں فتح مکہ کا راستہ ہموار ہوا اور فتح مکہ کے دن تمام مشرکین مکہ مسلمان ہو گئے، باقی رہا یہ مسئلہ کہ جب آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ مٹا دو تو انہوں نے آپﷺ کی توقیر و تکریم کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ عرض کیا کہ میرے لیے یہ لفظ مٹانا ممکن نہیں، جیسا کہ آپ نے جب ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پوچھا، جب میں نے تمہیں نماز پڑھاتے رہنے کا حکم دیا تھا تو پھر تم پیچھے کیوں ہٹ گئے؟ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی، ابو قحافہ کے بیٹے کے لیے آپ کی موجودگی میں نماز پڑھانا ممکن نہیں ہے، اس لیے آپﷺ نے دوبارہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم نہیں دیا کہ نہیں تم ضرور اس کو مٹاؤ، وگرنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم الامر فوق الادب کے تحت آپ کے وجوبی حکم کا انکار نہ کر سکتے، یہی صورت حال واقعہ قرطاس میں پیش آئی، حضرت عمر اور دوسرے صحابہ نے، بیماری کی حالت میں آپ کو لکھوانے کی تکلیف دینا، آپ کی تعظیم و توقیر کے منافی سمجھا اور آپ نے دوبارہ اس پر اصرار نہ کیا، وگرنہ ان کے لیے آپ کے حکم کی مخالفت ممکن نہ تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It has been narrated on the authority of Anas that the Quraish made peace with the Prophet (ﷺ) . Among them was Suhail bin Amr. The Prophet (ﷺ) said to 'Ali (RA) : Write "In the name of Allah, most Gracious and most Merciful." Suhail said: As for "Bismillah," we do not know what is meant by "Bismillah-ir-Rahman-ir-Rahim" (In the name of Allah most Gracious and most Merciful). But write what we understand, i. e. Bi ismika allahumma (in thy name. O Allah). Then, the Prophet (ﷺ) said: Write: "From Muhammad, the Messenger of Allah." They said: If we knew that thou were the Messenger of Allah, we would follow you. Therefore, write your name and the name of your father. So the Holy Prophet (ﷺ) said: Write "From Muhammad bin 'Abdullah." They laid the condition on the Prophet (ﷺ) that anyone who joined them from the Muslims, the Makkahns would not return him, and anyone who joined you (the Muslims) from them, you would send him back to them. The Companions said: Messenger of Allah, should we write this? He said: Yes. One who goes away from us to join them-may Allah keep him away! and one who comes to join us from them (and is sent back) Allah will provide him relief and a way of escape.