باب: آخرت میں مؤمن اپنے رب سبحانہ وتعالی کا دیدار کریں گے
)
Muslim:
The Book of Faith
(Chapter: Affirming that the believers will see their Lord, Glorious is he and most high, in the hereafter)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
182.
یعقوب بن ابراہیمؒ نے حدیث بیان کی، کہا: میرے والد نے ہمیں ابن شہاب زہریؒ سے حدیث سنائی، انہوں نے عطاء بن یزید لیثیؒ سے روایت کی کہ ابو ہریرہؓ نے انہیں بتایا: کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی، کہ اللہ کے رسول! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمہیں پورے چاند کی رات کو چاند دیکھنے میں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ’’جب بادل حائل نہ ہوں تو کیا سورج دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کی: نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اسے (اللہ) اسی طرح دیکھو گے، اللہ تعالیٰ قیامت کےدن تمام لوگوں کو جمع کرے گا، پھر فرمائے گا: جو شخص جس چیز کی عبادت کرتا تھا، اسی کے پیچھے چلا جائے، چنانچہ جوسورج کی پوجا کرتا تھا وہ سورج کے پیچھے چلا جائے گا، جو چاند کی پرستش کرتا تھا وہ اس کے پیچھے چلا جائے گا، اور جو طاغوتوں (شیطانوں، بتوں وغیرہ) کی پوجا کرتا تھا وہ طاغوتوں کے پیچھے چلا جائے گا، اور صرف یہ امت اپنے منافقوں سمیت باقی رہ جائے گی۔ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے پاس اپنی اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچان سکتے ہوں گے، پھر فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے: ہم تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، ہم اسی جگہ ٹھہرے رہیں گے یہاں تک کہ ہمارا رب ہمارے پاس آ جائے۔ جب ہمارا رب آئے گا، ہم اسے پہچان لیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جس میں وہ اس کو پہچانتے ہوں گے اور فرمائے گا: میں تمہارا پروردگار ہوں۔ وہ کہیں گے، تو (ہی) ہمارا رب ہے اور اس کے ساتھ ہو جائیں گے۔ پھر (پل) صراط جہنم کے درمیانی حصے پر رکھ دیا جائے گا، تو میں اور میری امت سب سے پہلے ہوں گے جو اس سے گزریں گے۔ اس دن رسولوں کے سوا کوئی بول نہ سکے گا۔ اور رسولوں کی پکار (بھی) اس دن یہی ہو گی: اے اللہ! سلامت رکھ، سلامت رکھ۔ اور دوزخ میں سعدان کے کانٹوں کی طرح مڑے ہوئے سروں والے آنکڑے ہوں گے، کیا تم نے سعدان دیکھا ہے؟‘‘ صحابہ نے جواب دیا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ (آنکڑے) سعدان کے کانٹوں کی طرح کے ہوں گے، لیکن وہ کتنے بڑے ہوں گے؟ اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ وہ لوگ کو ان کے اعمال کی بناد پر اچک لیں گے۔ ان میں سے بعض ہلاک کیے جانے والے ہوں گے، یعنی اپنے عمل کیوجہ سے۔ اور ان میں کچھ ایسے ہونگے جنہیں نجات دییے جانے تک بدلہ چکانا ہو گا، یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا اور ارادہ فرمائے گا، کہ اپنی رحمت سے جن دوزخیوں کو چاہتا ہے آگ سے نکالے، تو وہ فرشتوں کو حکم دے گا: کہ ان لوگوں میں سے جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے "لا إله إلا اللہ" کہنے والوں میں سے جن پر اللہ تعالیٰ رحمت کرنا چاہے گا، انہیں آگ سے نکال لیں۔ فرشتے ان کو آگ میں پہچان لیں گے۔ وہ ا نہیں سجدوں کے نشان سے پہچانیں گے، آگ سجدے کے نشانات کے سوا، آدم کے بیٹے (کی ہر چیز) کو کھا جائے گی۔ (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے آگ پر سجدے کے نشانات کو کھانا حرام کر دیا ہے، چنانچہ وہ اس حال میں آگ سے نکالے جائیں گے، کہ جل کر کوئلہ بن گئے ہوں گے، ان پر آبِ حیات ڈالا جائے گا، تو وہ اس کے ذریعے سے اس طرح اُگ آئیں گے، جیسے سیلاب کی لائی ہوئی مٹی میں گھاس کا بیج پھوٹ کر اُگ آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا۔ بس ایک شخص باقی ہو گا، جس نے آگ کی طرف منہ کیا ہو ا ہو گا، یہی آدمی، تمام اہل جنت میں سے، جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہو گا۔ وہ عرض کرے گا: میرے رب! میرا چہرہ آگ سے پھیر دے، کیونکہ اس کی بدبو نے میری سانسوں میں زہر بھر دیا ہے اور اس کی تپش نے مجھے جلا ڈالا ہے۔ چنانچہ جب تک اللہ کو منظور ہو گا، وہ اللہ کو پکارتا رہے گا، پھر اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا: کیا ایسا ہو گا، کہ اگر میں تمہارے ساتھ یہ (حسن سلوک) کر دوں، تو تم کچھ اور مانگنا شروع کر دو گے؟ وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ وہ اپنے رب عز وجل کو جو عہد و پیمان وہ (لینا) چاہے گا، دے گا، تو اللہ اس کا چہرہ دوزخ سے پھیر دے گا۔ جب وہ جنت کی طرف رخ کرے گا اور اسے دیکھا گا، تو جتنی دیر اللہ چاہے گا کہ وہ چپ رہے (اتنی دیر) چپ رہے گا، پھر کہے گا: میرے رب! مجھے جنت کے دروازے تک آگے کر دے۔ اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: کیا تم نے عہد و پیمان نہیں دیے تھے، کہ جو کچھ میں نے تمہیں عطاکر دیا ہے اس کےسوا مجھ سے کچھ اور نہیں مانگو گے؟ تجھ پر ا فسوس ہے! آدم کے بیٹے! تم کس قدر عہد شکن ہو! وہ کہے گا: اے میرے رب! اور اللہ سے دعا کرتا رہے گا حتی کہ اللہ اس سے کہے گا: کیا ایسا ہو گا کہ اگر میں نے تمہیں یہ عطا کر دیا، تو اس کے بعد تو اور کچھ مانگنا شروع کر دے گا؟ وہ کہے گا: تیری عزت کی قسم! (اور کچھ) نہیں (مانگوں گا۔) وہ اپنے رب کو جواللہ چاہے گا، عہد و پیمان دے گا، اس پر اللہ اسے جنت کے دروازے تک آگے کر دے گا۔ پھرجب وہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہو گا، تو جنت اس کے سامنے کھل جائے گی۔ اس میں جو خیر اور سرور ہے وہ اس کو (اپنی آنکھوں سے) دیکھے گا۔ تو جب تک اللہ کو منظور ہو گا وہ خاموش رہے گا، پھر کہے گا: میرے رب! مجھے جنت میں داخل کر دے، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: کیا تو نے پختہ عہد و پیمان نہ کیے تھے، کہ جو کچھ تجھے دے دیا گیا ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں مانگے گا؟ ابن آدم! تجھ پر افسوس! تو کتنا بڑا وعدہ شکن ہے۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! میں تیری مخلوق کا سب سے زیادہ بد نصیب شخص نہ بنوں، وہ اللہ تعالیٰ کو پکارتا رہے گا حتی کہ اللہ عزوجل اس پر ہنسے گا اور جب اللہ تعالیٰ ہنسے گا (تو) فرمائے گا: جنت میں داخل ہو جا۔ جب وہ اس میں داخل ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تمنا کر! تو وہ اپنے رب سے مانگے گا اور تمنا کرے گا، یہاں تک کہ اللہ اسے یاد دلائے گا، فلاں چیز (مانگ) فلاں چیز (مانگ) حتی کہ جب اس کی تمام آرزوئیں ختم ہو جائیں گی، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ سب کچھ تیرا ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور بھی۔‘‘ عطاء بن یزیدؒ نے کہا کہ ابو سعید خدریؓ بھی ابو ہریرہؓ کے ساتھ موجود تھے، انہوں نے ان کی کسی بات کی تردید نہ کی لیکن جب ابو ہریرہؓ نے یہ بیان کیا: کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی سے فرمائے گا: ’’یہ سب کچھ تیرا ہوا اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور بھی‘‘ تو ابوسعیدؓ فرمانے لگے: ابو ہریرہ! اس کے ساتھ اس سے دس گنا (اور بھی)، ابو ہریرہؓ نے کہا: مجھے تو آپ ﷺ کا یہی فرمان یاد ہے: ’’یہ سب کچھ تیرا ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور بھی۔‘‘ ابو سعیدؓ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کر آپ کا یہ فرمان یاد رکھا ہے: ’’یہ سب تیرا ہوا اور اس سے دس گنا اور بھی۔‘‘ ابو ہریرہؓ نے کہا: یہ جنت میں داخل ہونے والا سب سے آخری شخص ہو گا۔
امام مسلم نےصحیح مسلم کاآغازکتاب الایمان سےکیاہے۔عہدنبویﷺمیں جب قرآن نازل ہوااوررسول اللہﷺ نےایمان،اسلام اوراحسان کی تعلیم دی تواس وقت ان اصطلاحات کےمفہوم کےبارےمیں کسی کےدل میں کوئی تشنگی موجودنہ تھی۔لیکن آپﷺ کی رحلت کےبعدکچھ لوگوں نےایمان اوراسلام کےاسی مفہوم پراکتفانہ کیاجوصحابہ نےبراہ راست رسول اللہﷺ سےسمجھااوردوسروں کوسمجھایاتھا، انہوں نےاپنی اغراض یااپنےاپنےفہم کےمطابق ان دونوں کےنئےنئےمفہوم نکالنےشروع کردیے۔
سب سےپہلاگروہ جس نےایمان اورکفرکامفہوم اپنی مرضی سےنکالا،خوارج تھے۔ یہ گنوارلوگ تھے۔ قرآن اوراسلام کےبنیادی اصولوں کی تعبیربھی اپنی مرضی سےکرتےتھے۔ قبل ازاسلام کےڈاکوؤں کی طرح لوگوں کوقتل کرتےاوران کامال لوٹتے۔ مسلمانوں کےخلاف ان تمام جرائم کےجوازکےلیے انہوں نےیہ عقیدہ نکالاکہ گناہ کبیرہ کامرتکب کافرمطلق ہے۔ ان کےنزدیک ایمان محض عمل کانام تھا۔ صحیح مسلم کی حدیث:473(191)میں ان کےاس عقیدےکاذکرہے۔
حضرت عمرکےدورمیں جب اسلامی فتوحات کادائرہ وسیع ہواتوعراق،فارس،شام اورمصروغیرہ کےعلاقےاسلامی قلمرومیں داخل ہوئےاوریہاں کےباشندےبڑی تعدادمیں مسلمان ہوئے۔ یہاں کےلوگوں کےدینی افکارپرعلوم عقلیہ کی چھاپ نمایاں تھی۔ اسلام میں داخل ہونےکےبعداپنےاپنےافکارکےحوالےسےان کےمتعددفرقےسامنےآئے۔ ان لوگوں نےایمان اوراسلام کےحوالےسےفلسفیانہ اورمنطقی سوالات علمائےاسلام کےسامنےپیش کرنے کرنے شروع کر دیے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کا مقصد تو فہم اور حصول علم تھا جبکہ کچھ لوگ خوارج کی طرح فتنہ انگیزی کے لیے ان سوالوں کو زیر بحث لاتے تھے۔ ان بہت سے سوالات میں ایک سوال یہ بھی تھا کہ تقدیر سے مراد کیا ہے اور کیا اس کو مانا بھی ایمان کا حصہ ہے یا نہیں ۔ علمائے اسلام کو بہر طور ان سوالوں کے جواب دینے تھے۔ ہر ایک نے اپنے ذخیرہ علم اور اپنے فہم کے مطابق جواب دینے کی کوشش کی۔
اس دور کے مباحث کے حوالے سے فقہائے محدثین کے سامنے ایمان کے بارے میں جو سوالات پیش ہوئے وہ اس طرح تھے:
٭ ایمان کیا ہے؟ محض علم ،محض دل کی تصدیق ،محض اقرار ،عمل با ان میں سے بعض کا یا ان سب کا مجموعہ؟
٭ اسی طرح یہ بھی سوال اٹھا کہ ایمان رکھنے والے سب برابر ہیں یا کسی کا ایمان زیادہ اور کسی کا حکم ہے؟
٭ کیا ایک عام امتی کا ایمان صدیق اکبر یا عمر فاروق یا علی بن ابی طالب کے ایمان کے برابر ہوسکتا ہے؟
٭ کیا ایک امتی کا ایمان انبیاء اور ملائکہ کے ایمان کے برابر ہو سکتا ہے؟ کیا ایمان اور چیز ہے اور عمل چیزے دیگر؟
٭ کیا ایمان ہمیشہ ایک جتنا رہتا ہے یا کم و بیش ہوسکتا ہے؟
٭ کن باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے؟ ان میں تقدیر بھی شامل ہے یا نہیں؟
٭ یہ سوال بھی شدت سے زیر بحث رہا کہ کبائر کا مرتکب مسلمان ہے، یا دائرہ اسلام سے بالکل خارج ہے، یا پھر کہیں درمیان میں ہے؟
معبد جہنی ،جہم بن صفوان اور اس دور کے فرقہ قدریہ سے تعلق رکھنے والے ابوحسن صالحی کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ایمان محض دل کی معرفت یا دل میں جان لینے کا نام ہے اورکفر الجهل بالرب تعالی ’’ الله تبارک وتعالی کو نہ جانے کا نام ہے۔‘‘ اس جواب سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ فرعون مومن تھا کیونکہ جس طرح حضرت موسیٰ نے فرمایا، اسے علم تھا کہ اللہ ہی آسمانوں وزمین کا رب ہے۔ ارشاد الہی ہے:
(قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا أَنزَلَ هَـٰؤُلَاءِ إِلَّا رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ بَصَائِرَ)
’’ تو نے جان لیا ہے کہ ان چیزوں کو نشانیاں بنا کر آسمانوں اور زمین کے رب کے سوا کسی نے نہیں
اتارا ۔ بني اسراءيل 17:102)
اہل کتاب کے بارے میں قرآن کہتا ہے :
(يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَهُمْ)
’’وہ رسول اللہﷺ کوپہچانتےہیں جس طرح اپنی اولادکوپہچانتےہیں۔ ‘‘(البقرہ 146:2)
اس نقطہ نظرکےمطابق یہ سب بھی مومن ہوئے۔ ابلیس بھی جواللہ تبارک وتعالیٰ کےبارےمیں بےعلم نہیں، مومن قرارپایا۔ نعوذبالله من ذلك.
اس بنیادی سوال کے حوالے سے فرقہ کرامیہ کا جواب یہ تھا کہ ایمان محض زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے۔ اس صورت میں منافق بھی کامل ایمان رکھنے والے مومن قرار پاتے ہیں۔ کرامیہ ان کو مومن ہی سمجھتے تھے، البتہ یہ کہتے تھے کہ اللہ تعالی نے ان کے لیے جس عذاب کی خبر دی ہے اسے وہ ضرور بھگتیں گے۔
ابومنصور ماتریدی اور امام ابو حنیفہ کا نقطہ نظر یہ تھا کہ ایمان محض دل کی تصدیق کا نام ہے۔ ان کے بالمقابل
علمائے احناف میں سے ایک بڑی تعداد کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ایمان دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کو کہتے ہیں۔
زیادہ تر ائمہ کرام، مثلا: امام مالک، شافعی، احمد بن حنبل، اوزاعی، اسحاق بن راہویہ اور باقی تمام ائمہ حدیث کے علاوہ ظاہریہ اورمتکلمین میں سے اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ايمان تصديق بالجنان،واقرارباللسان وعمل بالاركان’’ایمان دل کی تصدیق،زبان کےاقراراور(اس تصدیق واقرارکےمطابق باقی)اعضاءکےاعمال سےثابت ہوتاہے۔‘‘یادرہےکہ محدثین دل کی تصدیق کودل کاعمل اورزبان کےاقرارکوزبان کاعمل سمجھتےہیں۔ (شرح العقيده الطحاوية ،قوله:والايمان هوالاقرارباللسان....ص:332)
قدریہ،جہمیہ اورکرامیہ تواہل سنت والجماعت سےخارج تھے۔ ان کاردیقیناضروری تھااوراچھی طرح کیابھی گیا۔ لیکن امام ابوحنیفہ اوران کےمؤیدین کےلیے،جوغیرنہیں،خوداساطین اہل سنت والجماعت میں سےتھے،فرامین رسول اللہﷺ کےذریعےسےاصل حقائق کی وضاحت انتہائی ضروری تھی۔
ایمان کےبارےمیں مذکورہ بالابنیادی سوالات کےجواب میں امام ابوحنیفہسےیہ باتیں منقول ہیں:
(الف)(العمل غيرالايمان والايمان غيرالعمل))
’’عمل ایمان سےجداہےاورایمان عمل سےالگ ہے۔ ‘‘
(ب)المومنون مستوؤن فى الايمان والتوحيد،متفاضلون فى الاعمال)
’’مومنین ایمان اورتوحیدمیں برابرہیں اوراعمال میں کم وبیش۔ ‘‘
(ج)الايمان لايزيدولاينقص
’’ایمان نہ گھٹتاہےنہ بڑھتاہے۔ ‘‘
(د)ايماني كايمان جبرئيل
’’میراایمان جبریل کےایمان کےمانندہے۔‘‘
(و)ايمان اهل السماوات والارض وايمان الاولين والاخرين والانبياءواحد
’’آسمانوں اورزمین والوں کاایمان اوراگلوں پچھلوں اورانبیاءکاایمان ایک (برابر)ہے۔ ‘‘(شرح الفقه الأكبربحواله إيضاح الأدلة ،ص:301-308)
امام بخاری،امام مسلم اوردیگرائمہ حدیث کےسامنےچونکہ پوراذخیرہ حدیث تھا،اس لیے انہیں معلوم تھاکہ یہ باتیں نہ صرف کتاب وسنت سےٹکراتی ہیں، بلکہ بعض صورتوں میں جن جن الفاظ کےساتھ قرآن نےیارسول اللہﷺ نےان امورکوبیان فرمایاہےبعینہ انہی الفاظ کواستعمال کرتےہوئےبالکل متضادباتیں کہہ دی گئی ہیں،اورایک بڑےحلقےمیں ان کوقبول بھی کیاجارہاہے۔اس کاصحیح مداوایہی تھاکہ جولوگ بھی قرآن اورحدیث رسول اللہﷺ سےمتضادباتیں کہہ رہےتھے،ان کےسامنےرسالت مآب ﷺ کےتمام متعلقہ فرامین من عن پیش کردیئےجائیں۔
کتاب الایمان میں امام مسلم سب سےپہلےحدیث جبریل لائےہیں۔ اس میں رسول اللہﷺ نےحضرت جبریل کےپیش کردہ سوالوں کوجواب دیتےہوئےایمان،اسلام اوراحسان کامفہوم واضح کیاہے۔امام مسلمنےاس کےساتھ ہی اس مفہوم کی دوسری احادیث بھی بیان کردی ہیں۔ ان احادیث 93۔103۔(8۔12)سےپتہ چلتاہےکہ ان تینوں (ایمان،اسلام،اوراحسان)میں ابتدائی مرتبہ اسلام کاہے،اس سےاونچامقام ایمان کاہےاورسب سےاونچااحسان کا۔ اوریہ کہ اللہ، اس کےرسول،ملائکہ ،قیامت ،جنت اوردوزخ کےساتھ ساتھ تقدیرالہیٰ پربھی ایمان لاناضروری ہے۔ اسی طرح ان احادیث سےیہ بات بھی واضح ہوجاتی ہےکہ گناہ کبیرہ کامرتکب ابدی جہنمی نہیں ہوتا۔
اس کےبعدامام مسلم ایسی احادیث لائےہیں جن میں یہ مذکورہ ہےکہ وہ ایمان جوانسان کوجنت میں لےجاتاہےشرک سےپاک عبادات ،زکاۃ کی ادائیگی ،صلہ رحمی اوراللہ کےحرام وحلال کےاحکامات کی پابندی پرمشتمل ہے۔ (دیکھیے،احادیث :104۔114(13۔16)
پھروہ وفدعبدالقیس سےمتعلقہ روایات اوران کےہم معنی احادیث لائےہیں ۔ رسول اللہﷺنےوفدکےلوگوں کوحکم دیاکہ وہ اکیلےاللہ پرایمان لائیں،پھرسمجھانےکےلیے خودہی سوال کیاکہ کیاتم جانتےہوکہ اکیلےاللہ پرایمان کیاہے۔ پھرخودہی وضاحت فرمائی کہ ایمان اللہ کی وحدانیت اورمحمدﷺ کی رسالت کی گواہی ،اقامت صلاۃ،زکاۃ کی ادائیگی روزےرکھنےاوراللہ کی حرام کردہ اشیاءسےدوررہنےکانام ہے۔ (دیکھیے،احادیث :115۔123(17۔19)
ان احادیث سے تین باتیں واضح ہو جاتی ہیں:
1۔ گواہی (شہادت) دل کی تصدیق کی ہوتی ہے۔
2۔ ایمان حق دل کی تصدیق کا نام نہیں نہ دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار تک معامل ختم ہو جاتا ہے بلکہ باقی اعضاء و جوارح کے اعمال کے ذریعے سے بھی اسی حقیقت کی تصدیق ضروری ہے جس کی زبان سے گواہی دی گئی۔
3۔ ایمان اور اسلام کے الفاظ جب دونوں ملا کر ایک ساتھ بولے جائیں تو دونوں سے الگ الگ مفہوم مراد لیا جاتاہے۔ جب ان میں سے صرف ایک بولا جائے تو اس کے معنی میں بعض اوقات دوسرا بھی شامل ہوتا ہے اور بعض اوقات دونوں ایک دوسرے کے قائم مقام کے طور پر بولے جاتے ہیں۔ اس سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ایمان محض تصدیق و اقرار کا نام نہیں بلکہ اس میں دیگر اعضاء کے اعمال بھی شامل ہونے ضروری ہیں، ورنہ یہ اسلام کے قائم مقام کے طور پر نہ بولا جا سکتا۔
اس کے بعد امام مسلم مانعین زکاة کے حوالے سے وہ احادیث لائے ہیں جن میں حضرت عمر اور حضرت ابو بکر ؓ کے الگ الگ موقف کا ذکر ہے۔ حضرت عمر کا خیال تھا کہ جس نے لا إله إلا الله کہہ دیا وہ مومن ہے اس لیے بقول رسول اللہ ﷺجان اور مال کے تحفظ کا حق دار ہے، اس سے جنگ نہیں کی جاسکتی۔ لا إله إلا الله کہنے سے اقرار اور اغلبا تصدیق کا تو پتہ چل جاتا ہے لیکن حضرت ابو بکر صدیق کا موقف اس سے مختلف تھا۔ انھوں نے فرمان رسول اللہ ﷺکے اگلےحصہ طرف توجہ دلائی۔ آپ نےفرمایاتھا: ((الاّبحقه)) الایہ کہ اسی کاحق ہو‘‘یعنی لا إله إلا الله كاحق یہ ہےکہ باقی اعضاءاسکےمطابق عمل کرتےہوں۔ جب زکاۃ کاوقت آجائے تو لا الہ کا تقاضا ہے کہ زکاة ادا کی جائے۔ اگر کوئی اس سے انکار کرتا ہے تو اس کے لیے جان و مال کا تحفظ باقی نہ رہے گا۔ آپ نے زور دے کر یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی زکاة کے مال کی ایک رسی دینے سے بھی انکار کرے گا تو اس کے خلاف جہاد ہوگا۔ اس بات سے حضرت عمر نے بھی اتفاق کیا اور تسلیم کیا کہ وہی ہے جو حضرت ابوبکر صدیق کہہ رہے ہیں۔ دیکھیے،احادیث :124۔131(20۔23)
ان کےبعدوہ احادیث لائی گئیں جن کےالفاظ میں اجمال کےساتھ اس بات پرزوردیاگیاکہ جس نے لا إله إلا الله کہاوہ یقیناجنت میں داخل ہوگا۔ (دیکھیے،احادیث:136۔151(26۔36) ان احادیث کےذریعےسےیہ بات واضح ہوتی ہےکہ اجمال کےموقع پرمحض لا إله إلا الله کہنےکی بات کی گئی لیکن اس میں لا إله إلا الله کےتقاضوں پرعمل کرناشامل ہے۔ پھریہ روایت پیش کی گئی کہ ایمان کاذائقہ محض وہی شخص چکھتاہےجواللہ کےرب ہونےاورمحمدﷺکےرسول ہونےکےساتھ ساتھ اسلام کےدین ہونےپربھی راضی ہو۔ ظاہرہےجواستطاعت کےباوجوداحکام اسلام پرعمل نہیں کرتاوہ دل سےاسلام کےدین ہونےپرراضی ہی نہیں ہے۔ یہ انتہائی لطیف نکات ہیں جوامام مسلم نےمحض احادیث مبارکہ کی ترتیب کےذریعےسےواضح فرمائےہیں۔
پھر امام مسلم نے بالترتیب ایمان کے شعبوں اور ان میں سے افضل اور ادنی شعبوں کے متعلق احادیث پیش کیں۔
ان کے بعد وہ احادیث ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ایمان کی حلاوت سے وہی آشنا ہوتا ہے جو اللہ ، اس کے رسول اور اہل ایمان سے محبت کرتا ہے۔ ان کے بعد وہ احادیث ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ اہل و عیال، اولا و، مال اور خود اپنی ذات سے بڑھ کر محبت نہ ہو تو ایمان موجود نہیں۔ ظاہر ہے محبت تصدیق اور اقرار کے علاوہ دل کا ایک اور عمل ہے۔ (دیکھیے ، أحاديث: 152- 169(44) اس کے بغیر بھی ایمان کی نفی ہو جاتی ہے۔ گویا تصدیق بالقلب کے علاوہ قلب ہی کے دوسرے اعمال ، مثل : محبت اور احترام بھی ضروری ہیں۔
امام مسلم احادیث 177- 180(50) میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی روایات لائے ہیں ۔ تفصیلی روایت میں رسول اللہﷺ کے الفاظ اس طرح ہیں: جس نے ان (منکرات کے خلاف ہاتھوں سے جہاد کیا وہ مومن ہے۔ جس نے زبان کے ساتھ جہاد کیا وہ مومن ہے اور جس نے دل کے ساتھ جہاد کیا وہ مومن ہے۔ اس سے نیچے ایک رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ۔‘‘ ان الفاظ سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح بعض لوگوں نے کہا ہے محض دل کی تصدیق اور زبان کا اقرار ایمان نہیں، بلکہ دیگر اعضاء، زبان اور خود دل کے دیگر اعمال بھی ضروری ہیں۔ تصدیق کے علاوہ دل کے دوسرے اعمال میں منکرات سے نفرت اوریہ عزم کہ جب ہاتھ اور زبان سے ان منکرات کے خلاف جہاد کی استطاعت ملے گی تو یہ جہاد کروں گا ، شامل ہیں ۔ دل کے مزید اعمال، مثلا : الحب في الله والبغض في الله کے بارے میں بھی احادیث پیش نظررہنی چاہییں ۔ ان احادیث سے جہمیہ کے نقطہ نظر کی تردید بھی ہوتی ہے کہ دل کی تصدیق کے سوا دل کے دوسرے اعمال ایمان نہیں ۔ ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ہاتھ سے جہاد کرنے والے کا ایمان زیادہ ہے کیونکہ اس میں باقی اعضاء بھی زیادہ سے زیادہ شریک ہوتے ہیں۔ زبان سے جہاد کرنے والے کا اس سے کم، اس میں زبان کے ساتھ دل شریک ہوتا ہے۔ اور محض دل میں برا برسمجھنے والے کا ایمان سب سے کم ہے، کیونکہ باقی اعضا شامل نہیں ہوتے ۔ اس کے اپنے سرے سے ایمان ہی موجود ہیں۔
ان کے بعد امام مسلم نے وہ احادیث ذکر کی ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ کن لوگوں کا ایمان کن کن اعمال کی بنا پرافضل ہے اور کن لوگوں کا ایمان کم مرتبہ ہے، نیز ایمان کو یمن کی طرف نسبت دی گئی ہے اور اس کا سبب ان کے دلوں کی رقت کو قرار دیا گیا۔ اور کفر کی نسبت ان اونٹ چرانے والوں کی طرف کی گئی جو شدت پسند اور تندخو تھے۔ (دیکھیے ، أحاديث : 181-51193-53) ان احادیث سے امر بالمعروف والی احادیث کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے کہ دل کی تصدیق کے علاوہ دل ہی سے متعلق دیگر ایسے اعمال ہیں جو ایمان کا حصہ ہیں۔ اسی طرح عدم تصدیق کے ساتھ دل ہی کےبعض دیگر عمل ہیں جو کفر کو سنگین تر بنا دیتے ہیں ۔ ایسے اعمال میں سنگ دلی ، شدت پسندی وغیرہ شامل ہیں۔
قرآن مجید نے ایمان اور اس میں اضافے کو دل ہی کی کیفیت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ فرمان الہی ہے:
﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ﴾
’’مومن وہی ہیں کہ جب اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت
کی جائیں تو یہ آیتیں ان کا ایمان زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں ۔‘‘ الأنفال 8:2)
احادیث کی ترتیب سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ منکرات سے شدید نفرت، دل کی نرمی، اللہ کے ذکر پر دلوں میں خشیت ، سب ایمان میں شامل ہیں، یہ محض دل کی تصدیق کا نام نہیں ۔ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آیات الہی کی سماعت سے ایمان، جو مذکورہ بالا تمام باتوں کا مجموعہ ہے، زیادہ ہو جاتا ہے۔ جو حضرات نفس ایمان میں اضافے کے قائل نہیں بلکہ نزول قرآن کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ آیتوں پر ایمان لانے کو ایمان کا اضافہ قرار دیتے ہیں، ان کو اس آیت کے معنی قرار دینا پڑیں گے کہ جب پہلی دفعہ کوئی آیت ان کے سامنے تلاوت کی جاتی ہے تو ان کا ایمان زیادہ ہو جاتا ہے۔ دوسری یا تیسری بارانہی آیات کو سن کر ایمان میں اضافہ نہیں ہوتا۔ اور آیت مبارکہ میں جس طرح تلاوت آیات سے پہلے ذکر الہی کا بیان ہے اسے بھی وہ پہلی بار اللہ کے ذکر پرمحمول کریں گے۔قرآن کےالفاظ ﴿ إِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ﴾ اور﴿ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ﴾ ‘‘جب اللہ کاذکرکیاجاتاہے اورجب اس کی آیتیں ان کےسامنےتلاوت کی جائیں‘‘سےایسےمفہوم کی گنجائش بھی نہیں نکلتی۔
اس کے بعد احادیث : 2012- 209(57) کے ذریعے یہ وضاحت کی گئی ہے کہ گناہوں کے ارتکاب سے ایمان میں کی واقع ہوتی ہے، نیز گناہ کبیرہ کے ارتکاب کے وقت ایمان انسان کے دل سے نکل جاتا ہے، بعد میں واپس آجاتا ہے۔ ان احادیث کو اگر ہر گناہ کے ساتھ دل پر ایک کالا نکتہ آ جانے اور گناہوں کی کثرت سے دل کے مکمل سیاہ ہو جانے والی احادیث کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ برے اعمال کے ارتکاب سے دل کے اندر موجودنور ایمان کم ہوتا ہوتا بالآخر رخصت ہو جاتا ہے، اسی طرح اچھے عمل کرنے سے نور ایمان میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ یہ اقوال کہ میرا ایمان جبریل کےایمان کی طرح ہےیااولین،آخرین ،اہل دنیا،اہل سماءاورانبیاءسب کاایمان برابرہے،مذکورہ احادیث سےبالکل متضادہیں۔
ان کےبعدکی احادیث میں بعض ایسےاعمال کاتذکرہ ہےجن کورسول اللہﷺ نےکفرقراردیاہے۔ ان کےبعدوہ احادیث ہیں جن میں رسول اللہﷺ نےایمان کوعمل قراردیاہے۔ آپﷺ سےپوچھاگیا(اي الاعمال افضل)افضل ترین عمل کون ساہے؟فرمایا:الايمان بالله عزوجل...الخ-"اللہ عزوجل پرایمان لانا...‘‘(دیکھیے،احادیث:248۔251(83۔85)یہ قول کہ الايمان غير،والعمل غيران فرامین رسول ﷺ سےبالکل متضادہے۔
پھر ان احادیث کو لایا گیا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان کی طرح کفر میں بھی کمی اور زیادتی ہوتی ہے، مثل : تارک صلاة یا باہم قتال کر نے والوں کا کفر قطعی اور حتمی کفر سے کم تر ہے۔ ان احادیث کے بعد کبائر کے درجات کے حوالے سے احادیث مبارکہ کو لایا گیا، پھر وہ احادیث ہیں جن میں کبر اور شرک کو ایمان سے متضاد قرار دیا گیا اور شرک نہ کرنے کو جنت میں داخلے کی شرط اور شرک کرنے کو جہنم میں داخلے کا حتمی سبب قرار دیا گیا۔ کبراور شرک دونوں دل اوراعضاء کے عمل ہی کی صورتیں ہیں محض دل کی عدم تصدیق کی نہیں۔
پھر وہ احادیث بیان ہوئیں جن میں ذکر ہے کہ ایمان میں درجہ بدرجہ اضافہ ہوتا ہے، کم ترین ایمان یہ ہے کہ کوئی تخص اچانک موت کو سامنے دیکھ کر اسلام سے عداوت اور عناد کے فورا بعد غور و فکر کے بغیر، یکدم لا إله إلا الله کا اقرار کر لے۔ یہ سب سے نچلا درجہ ہے۔ جب ایساواقعہ پیش آیا تو موقع پر موجود صحابی کا ظن غالب یہ تھا کہ ایسے شخص کی زبان پر اقرار تھا لیکن اس کے پیچھے جان بچانے کا ارادہ تھا، تصدیق کا کوئی جز موجود نہ تھا۔ لیکن رسول اللہ ﷺنے زور دے کر فرمایا کہ اس نے جو لا إله إلا الله کہہ دیا تھا تو یہ دلیل ہے کہ ایمان کا یہ جز موجود تھا۔ آپ نے فرمایا: قیامت کے دن جب لا إله إلا الله تمھارے سامنے کھڑا ہو جائے گا تو کیا کرو گے؟ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تم جو یہ سمجھے کہ اس کے دل میں جان بچانے کے قصد کے علاوہ کچھ نہیں تھا تو تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا ؟ دیکھیے ، أحاديث: 279۔274(95۔97) ان کے ساتھ اس حدیث کو ملا کر دیکھیں جس میں حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی بستی سے اذان کی آواز آئے تو اس پر حملہ نہ کرو۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگرض اقرار یاعمل سامنے آجائے تو اسے ایمان سمجھا جائے جب تک اس کی دلیل موجود نہ ہو جو کفر پر دلالت کرے۔
پھر وہ احادیث ہیں جن میں ہی فرمایا گیا ہے کہ جس نے کافر ہو جانے کی جھوٹی قسم کھائی وہ اسی طرح (کافر) ہے جس طرح اس نے کہا۔ ایسے شخص کی یہ قسم کہ وہ کافر ہے، تب جھوئی ہوگی جب اس کے دل میں کسی نہ کسی درجے کا ایمان موجود ہو، اور اس قسم کی بنا پر اس کے دل میں کفر کا غصہ بھی موجود ہے۔ ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی انسان کے دل میں اسلام اور کفر دونوں کی متضاد کیفیتیں بھی موجود ہوسکتی ہیں۔ چونکہ مذکورہ بالا کبائر کے مرتکب لوگوں کے ہاں کچھ اعمال صالحہ بھی موجود ہو سکتے ہیں جو کسی حد تک ان کے دل کی تصدیق اور زبان کے اقرار کی تصدیق کرتے ہیں،اس لیے ان کو اسلام سے قطعی طور پر خارج قرار نہیں دیا گیا لیکن ان کے دلوں میں ایمان کی کمی کی وجہ سے ایسی کیفیت بھی موجود ہے جس کے سبب سے وہ کفر یہ اعمال کا ارتکاب کرتے جارہے ہیں ۔ یہ انتہائی باریک نکات ہیں جو امام مسلم نے احادیث کے انتخاب اور ان کی ترتیب سے اجاگر کیے ہیں۔
اسی طرح ایساشخص جو خودکشی کر لے اس کی سزا ابدی جہنم ہے جوقطعی کفر یا شرکت کی سزا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے یہ بھی اعلان کر ایا کہ نفس مسلمہ یا مومن انسان کے علاوہ کوئی جنت میں نہ جائے گا لیکن یہ بھی ہوا کہ ایک شخص نے ہجرت کے بعد مشکلات بھری زندگی سے تنگ آ کر ہاتھوں کی رگیں کاٹ کر خودکشی کرلی، الله تعالی نے ہاتھوں کے علاوہ اس کے باقی وجود کو خوش دیا۔ ہاتھ ویسے رہے تو رسول اللہ اﷺ نے اس کے ہاتھوں کے لیے بھی بخشش کی دعا فرمادی۔
اس حدیث سے اور اس سے پہلے والی احادیث سے پتہ چلا کہ بہت سے ایسے گناہ ہیں جن کا ارتکاب اس وقت ہوتا ہے جب ایمان یا تو بہت کم ہو جاتا ہے یا بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ ختم ہو جانے کی صورت میں ان کی سزا جہنم بلکہ ابدی جہنم ہے لیکن اگر وہی گناہ کسی ایسے شخص سے ہو جائے جس کے دل سے ایمان قطعی طور پر رخصت نہیں ہوا تھا تو ایمان کی کم از کم مقدار بڑے گناہوں کی مغفرت کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ (دیکھیے ، احادیث : 300-308 (109-112)
آگے چل کر وسوسوں کی بات ہے۔ احادیث :340-342 (132-3) میں دل میں آنے والے ایسے وساوس کی کیفیت کو، جو زبان پر نہیں لائے جاسکتے صریح ایمان یامحض ایمان قرار دیا گیا ہے۔ جس کی بناپر انسان کو اللہ کا خوف لاحق ہوتاہے اور ان وساوس سے کراہت ہوتی ہے ایسے برے وسوسے دل میں موجود ہوتے ہیں جو زبان پر نہیں لائے جا سکتے۔لیکن ان کے ہوتے ہوئے اس وقت دل میں جو ایمان موجود ہے جس کی بنا پر اسے صریح، خالص اور ملاوٹ سے پاک ایمان قرار دیا گیا ہے۔
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایمان کے ساتھ دل میں ایسی باتیں آسکتی ہیں جنھیں ایک مومن کے لیے زبان پر لا نا ممکن نہیں۔ یہ وساوس ہیں، لیکن جب تک یہ شک بن کر دل میں جاگزیں نہ ہو جائیں ان پر مؤاخذہ نہیں۔ جاگزیں ہوجائیں تو مؤاخذہ ہے کیونکہ اب یہ دل کا عمل بن چکا ہے۔ اسی طرح نیکی کا ارادہ دل کا عمل ہے جس پر جزا ملتی ہے۔ برائی کا ارادہ بھی دل ہی کا عمل ہے لیکن اللہ نے اپنی خصوصی رحمت سے اس کو معاف فرما دیا ہے۔ اگر اس ارادے پر دوسرے اعضاء عمل کر کے اس کی تصدیق کرتے ہیں تو پھر ایک برائی کی جاتی ہے۔
وسوسوں کی وجہ سے اہل ایمان کے دلوں کے اندر بر پا جنگ میں، اہل ایمان کی ایمان پر ثابت قدمی ، ان کے ایمان
کے خالی ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ یہ بھی دل ہی کا عمل ہے۔
احادیث 343-352 (134) میں شیطان کے اٹھائے جانے والے ایسے سوال کا تذکرہ ہے جس کا مقصد شکوک وشبہات پیدا کرنا اور ایمان و یقین کی پوری عمارت کو منہدم کرنا ہے۔ سوالوں کے سلسلے میں جب سوال سامنے آتا ہے کہ اگر ہر چیز کو اللہ نے پیدا کیا ہے تو پھر خود اللہ کوکس نے پیدا کیا ؟ یہ بد ترین وسوسہ ہے۔ اس کا علاج یہ بتایا گیا کہ اس مرحلے پر مومن کو چاہیے کہ فورأ رک جائے اور شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور آمنت بالله کہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے یہ تاکید کی گئی کہ وجود باری تعالی کے لیے عقل اور حِس کی واضح دلالت موجود ہے لیکن شیطان دل میں ڈالے گئے اس سوال کے ذریعے سے انسان کو ان اشیاء کے بارے میں محض عقل کو استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس مرحلے پر ضروری ہے کہ انسان اپنی فطرت کی طرف رجوع کرے، اس اولین میثاق کو دہرائے جو ہر روح سے لیا گیا اور اس میثاق کے ساتھ اپنی وابستگی کو مضبوط کرے۔
اس کے بعد امام مسلم نے بڑے لطیف پیرائے میں اپنی ترتیب کو آگے بڑھایا۔ حدیث : 357۔362(137۔141) تک عہد اور حلف کی اہمیت کی احادیث بیان فرمائیں اور متعلقہ مسائل کی وضاحت کی ۔ اس کے بعد 362-366 (142) تک بڑی ذمہ دار ہوں ، مثلا : حکمرانوں کے عہد اور حلف کے بارے میں احادیث ذکر کیں، پھر اس عہد یا میثاق اول کے موضوع پر احادیث لائے جسے قرآن نے ’’الأمانة‘‘ کہا ہے۔
حدیث: 367( 143 ) میں پہلے یہ الفاظ ہیں کہ سب سے پہلے ’’الأمانة‘‘ انسانی دلوں کے اندرونی حصے میں نازل ہوئی، پھر قرآن نازل ہوا اور اہل ایمان نے قرآن اور سنت سے علم حاصل کیا، ان الفاظ میں بہت سے نکات قابل غور ہیں ۔ الأمانة وہی ہے جس کے بارے میں قرآن نے کہا:
﴿إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا﴾
’’ہم نے دکھائی امانت آسانوں کو زمین کو اور پہاڑوں کو تو ان سب نے انکار کر دیا کہ اسے اٹھائیں اور اس سےڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھا لیا یہ بڑاہی ظالم اور نادان ہے۔‘‘الاحزاب33۔72)
محدثین نے امانت کے معنی ایمان کیے ہیں۔ ایمان کو ایک امانت ہی کے طور پر انسان کے سپرد کیا گیا تھا، اس کی حفاظت ضروری تھی ، قرآن مجید نے یہ بات یوں بیان کی:
﴿وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِن بَنِي آدَمَ مِن ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَىٰ شَهِدْنَا أَن تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَـٰذَا غَافِلِينَ ﴿١٧٢﴾ أَوْ تَقُولُوا إِنَّمَا أَشْرَكَ آبَاؤُنَا مِن قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّن بَعْدِهِمْ أَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُونَ ﴿١٧٣﴾ وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾
’’ اور جب تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی اولاد کو نکالا اور یہ( پوچھ کر) انھیں خود ان پر گواہ بنایا کیا میں تمہارا رب نہیں؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں! ہم گواہ ہیں، (یہ اس لیے کیا کہ) کہیں قیامت کے دن تم یہ نہ کہو کہ ہمیں تو اس بات (اکیلے اللہ کی ربوبیت )کی خبر ہی تھی یا ایسا کہو کہ شرک تو ہمارے آباء واجداد نے کیا، ہم تو بعد میں ان کی اولاد تھے (جو انھوں نے سکھایا سیکھ گئے ۔) تو ہمیں کیوں ہلاک کرتے ہو اس کام پر جسے (دوسرے) غلط کاروں نے کیا؟ اور اس طرح ہم کھولتے ہیں آیتوں کو شاید وہ لوگ (حق کی طرف) لوٹ آ ئیں‘‘ الأعراف 7:172۔174)
یہی عہد وہ فطری ایمان ہے جس پر انسان کی ولادت ہوتی ہے۔ قرآن اسے ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
﴿فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَتَ اللَّـهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّـهِ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾
’’ پس تو ایک طرف کا ہو کر اپنا چہرہ دین کے لیے سیدھا رکھو، اللہ کی اس فطرت کے مطابق جس پر اس نے سب لوگوں کو پیدا کیا، اللہ کی پیدائش کو کسی طرح بدلنا (جائز )نہیں ۔ یہی سیدھا دین ہے، اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔“ الروم 30:30)
صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کل مولود ولد على الفطرة ‘‘(صحیح البخاري، حدیث: 1385، وصحیح مسلم، حدیث:6755 (2658) مسلم کی ایک اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں
((وإني خلقت عبادي حنفاءکلهم و إنهم أتتهم الشياطين فاجتالتهم عن دينهم ))
’’ میں نے اپنے تمام بندے دین حنیف کے پیرو کار پیدا کیے (پھر ) ان کے پاس شیاطین آئے اور انھیں ان کےدین سے پھیر دیا۔ صحیح مسلم، حدیث:7207(2865)
اِنَّ اللهَ تَعَالیٰ يَقُولُ لأَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ : لَوْ أَنَّ لَكَ مَا فِي الأَرْضِ مِنْ شَيْءٍ ، أَكُنْتَ تَفْتَدِي بِهِ ؟ فَيَقُولُ : نَعَمْ . فَيَقُول فقدسالتك ماهوأَهْوَنَ مِنْ ذَلِكَ وَأَنْتَ فِي صُلْبِ آدَمَ : أَنْ لا تُشْرِكَ بِي شَيْئًا ، فَأَبَيْتَ إِلا الشرك
’’اللہ تعالیٰ دوزخیوں میں سےسب سےہلکےعذاب والےسےکہےگا:زمین میں جوکچھ بھی ہےاگروہ تیری ملکیت ہوتوکیاتواسےاس(عذاب)کےبدلےفدیےمیں دےدےگا؟وہ کہےگا:جی ہاں۔ وہ (اللہ)کہےگا:میں نےتو،جب توآدم کی پشت میں تھا،تجھ سےوہ مانگاتھاجواس سےبہت کم تھا، یہ کہ تو(کسی کو)میراشریک نہ ٹھہراناپرتونےشریک ٹھہرانےکےسواہرچیزسے انکارکیا۔‘‘صحيح البخارى ،حديث:3334وصحيح مسلم،حديث:2805،7083)
یہی وہ عہدہےجس پراللہ تعالیٰ انسان کوپیداکرتاہے۔ اگرماں باپ اوردیگرعوامل انسان کواس سےمنحرف نہ کردیں تودل سےاس کی تصدیق ہوتی ہے،پھرزبان گواہی دےکراورباقی اعضاءبھی اپنےعمل سےاس کی تصدیق کرتےہیں۔
اس کےبعدباب الإسراءبرسول الله إلى السماوات وفرض الصلوات میں امام مسلم حدیث: 412۔417(162۔164)تک وہ احادیث لائےہیں جن میں دوبارہ رسول اللہﷺ کاشق صدرہونےکاتذکرہ ہے۔
پہلاواقعہ ابتدائےطفولیت کاہےجب آپ بنوسعدمیں تھے۔ اس کوان الفاظ میں بیان کیاگیاہے:
((فاستخرج القلب،فاستخرج منه علقه،فقال:هذاحظ الشيطان منك،ثم غسله فى طست من ذهب بماءزمزم ،ثم لامه ،ثم اعاده فى مكانه))
’’جبریل نےآپ کےدل کوباہرنکالا،اس میں سےایک لوتھڑاالگ کیااورکہایہ (دل کےاندر)وہ حصہ تھاجس کےذریعےسےشیطان اثراندازہوسکتاتھا، پھراسے(دل کو)سونےکےطشت میں زمزم کےپانی سےدھویا، پھراسےجوڑااوراس کی جگہ پرواپس رکھ دیا۔ ‘‘
((ففرج صدري،ثم غسله من ماءزمزم ،ثم جاءبطست من ذهب ممتليءحكمة وايمانا،فافرغهافى صدري ،ثم اطبقه ثم اخذبيدي ،فعرج بى الى السماء))
’’جبریل نے میرا سینہ چاک کیا، پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا، پھر سونے کا ایک طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا تو اسے میرے سینے میں خالی کر دیا، پھر سینے کو بند کیا پھر میرا ہاتھ پکڑا اور معراج پر لے گئے ۔‘‘
پہلے شق صدر کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ میثاق اولین کو برائی کی کوئی قوت چھیڑ ہی نہ سکے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ واضح طور پر ہمیشہ اسی میثاق پر قائم رہے۔ اور دوسرے شق صدر کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے قلب مبارک میں حکمت و ایمان میں مزید اضافہ کیا جائے تا کہ آپ اپنے عظیم ترین سفر اور اس کے مشاہدات کے لیے تیار ہو جائیں۔ یہ حدیث حقیقت ایمان میں زیادتی کے بارے میں نص صریح ہے۔ آپ ﷺ کا قلب مطہر پہلے ہی ایمان سے معمور تھا۔ اس مرحلے میں اس میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔ ان دونوں حدیثوں سے، کہنے والے کی اس بات کی مکمل تردید ہو جاتی ہے کہ إيماني إيماني الأنبیاء ”میرا ایمان انبیاء کے ایمان کی طرح ہے۔ ان فقروں کے حامی متکلمین نے ان فقروں کی تائید کے لیے جو کچھ کہا ہے اس حدیث کو سامنے رکھیں تو ان میں سے کسی بات میں کوئی وزن باقی نہیں رہتا۔
البتہ محد ثین کی بھر پورمہم کے نتیجے میں، بعض اہل علم نے ان باتوں کی از سر نو تعمیر اور وضاحت کرنے کی کوششیں کیں۔ شیخ ملاعلی قاری نے امام ابوحنیفہ کے بعد ان کے ایسے شارحین کے وضاحتی بیان جمع کر کے کامیابی سے حضرت الامام کے اقوال کی ایسی تعبیر کر دی ہے جو کتاب وسنت پرمبنی ائمہ محدثین اور جمہور امت کے نقطہ نظر کے قریب تر ہے۔
ایمان کے حوالے سے امام مسلم نے احادیث کی جمع وترتیب کے ذریعے سے جوحقائق واضح کیے، یہ ان کا ایک اجمالی جائزہ ہے، اس جائزے کا مقصد یہ ہے کہ قارئین کے سامنے ایمان کے بنیادی حقائق کا ایک مختصر نقشہ موجود رہے اور امام مسلم نے اپنے حسن ترتیب سے جو نکات واضح کرنے کی کوشش کی ان کے سمجھنے میں مشکل پیش نہ آئے۔
یعقوب بن ابراہیمؒ نے حدیث بیان کی، کہا: میرے والد نے ہمیں ابن شہاب زہریؒ سے حدیث سنائی، انہوں نے عطاء بن یزید لیثیؒ سے روایت کی کہ ابو ہریرہؓ نے انہیں بتایا: کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی، کہ اللہ کے رسول! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تمہیں پورے چاند کی رات کو چاند دیکھنے میں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا: نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ’’جب بادل حائل نہ ہوں تو کیا سورج دیکھنے میں تمہیں کوئی دقت محسوس ہوتی ہے؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کی: نہیں، اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم اسے (اللہ) اسی طرح دیکھو گے، اللہ تعالیٰ قیامت کےدن تمام لوگوں کو جمع کرے گا، پھر فرمائے گا: جو شخص جس چیز کی عبادت کرتا تھا، اسی کے پیچھے چلا جائے، چنانچہ جوسورج کی پوجا کرتا تھا وہ سورج کے پیچھے چلا جائے گا، جو چاند کی پرستش کرتا تھا وہ اس کے پیچھے چلا جائے گا، اور جو طاغوتوں (شیطانوں، بتوں وغیرہ) کی پوجا کرتا تھا وہ طاغوتوں کے پیچھے چلا جائے گا، اور صرف یہ امت اپنے منافقوں سمیت باقی رہ جائے گی۔ اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ ان کے پاس اپنی اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچان سکتے ہوں گے، پھر فرمائے گا: میں تمہارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے: ہم تجھ سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں، ہم اسی جگہ ٹھہرے رہیں گے یہاں تک کہ ہمارا رب ہمارے پاس آ جائے۔ جب ہمارا رب آئے گا، ہم اسے پہچان لیں گے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جس میں وہ اس کو پہچانتے ہوں گے اور فرمائے گا: میں تمہارا پروردگار ہوں۔ وہ کہیں گے، تو (ہی) ہمارا رب ہے اور اس کے ساتھ ہو جائیں گے۔ پھر (پل) صراط جہنم کے درمیانی حصے پر رکھ دیا جائے گا، تو میں اور میری امت سب سے پہلے ہوں گے جو اس سے گزریں گے۔ اس دن رسولوں کے سوا کوئی بول نہ سکے گا۔ اور رسولوں کی پکار (بھی) اس دن یہی ہو گی: اے اللہ! سلامت رکھ، سلامت رکھ۔ اور دوزخ میں سعدان کے کانٹوں کی طرح مڑے ہوئے سروں والے آنکڑے ہوں گے، کیا تم نے سعدان دیکھا ہے؟‘‘ صحابہ نے جواب دیا: جی ہاں، اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ (آنکڑے) سعدان کے کانٹوں کی طرح کے ہوں گے، لیکن وہ کتنے بڑے ہوں گے؟ اس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ وہ لوگ کو ان کے اعمال کی بناد پر اچک لیں گے۔ ان میں سے بعض ہلاک کیے جانے والے ہوں گے، یعنی اپنے عمل کیوجہ سے۔ اور ان میں کچھ ایسے ہونگے جنہیں نجات دییے جانے تک بدلہ چکانا ہو گا، یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا اور ارادہ فرمائے گا، کہ اپنی رحمت سے جن دوزخیوں کو چاہتا ہے آگ سے نکالے، تو وہ فرشتوں کو حکم دے گا: کہ ان لوگوں میں سے جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے "لا إله إلا اللہ" کہنے والوں میں سے جن پر اللہ تعالیٰ رحمت کرنا چاہے گا، انہیں آگ سے نکال لیں۔ فرشتے ان کو آگ میں پہچان لیں گے۔ وہ ا نہیں سجدوں کے نشان سے پہچانیں گے، آگ سجدے کے نشانات کے سوا، آدم کے بیٹے (کی ہر چیز) کو کھا جائے گی۔ (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے آگ پر سجدے کے نشانات کو کھانا حرام کر دیا ہے، چنانچہ وہ اس حال میں آگ سے نکالے جائیں گے، کہ جل کر کوئلہ بن گئے ہوں گے، ان پر آبِ حیات ڈالا جائے گا، تو وہ اس کے ذریعے سے اس طرح اُگ آئیں گے، جیسے سیلاب کی لائی ہوئی مٹی میں گھاس کا بیج پھوٹ کر اُگ آتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا۔ بس ایک شخص باقی ہو گا، جس نے آگ کی طرف منہ کیا ہو ا ہو گا، یہی آدمی، تمام اہل جنت میں سے، جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہو گا۔ وہ عرض کرے گا: میرے رب! میرا چہرہ آگ سے پھیر دے، کیونکہ اس کی بدبو نے میری سانسوں میں زہر بھر دیا ہے اور اس کی تپش نے مجھے جلا ڈالا ہے۔ چنانچہ جب تک اللہ کو منظور ہو گا، وہ اللہ کو پکارتا رہے گا، پھر اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا: کیا ایسا ہو گا، کہ اگر میں تمہارے ساتھ یہ (حسن سلوک) کر دوں، تو تم کچھ اور مانگنا شروع کر دو گے؟ وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ وہ اپنے رب عز وجل کو جو عہد و پیمان وہ (لینا) چاہے گا، دے گا، تو اللہ اس کا چہرہ دوزخ سے پھیر دے گا۔ جب وہ جنت کی طرف رخ کرے گا اور اسے دیکھا گا، تو جتنی دیر اللہ چاہے گا کہ وہ چپ رہے (اتنی دیر) چپ رہے گا، پھر کہے گا: میرے رب! مجھے جنت کے دروازے تک آگے کر دے۔ اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: کیا تم نے عہد و پیمان نہیں دیے تھے، کہ جو کچھ میں نے تمہیں عطاکر دیا ہے اس کےسوا مجھ سے کچھ اور نہیں مانگو گے؟ تجھ پر ا فسوس ہے! آدم کے بیٹے! تم کس قدر عہد شکن ہو! وہ کہے گا: اے میرے رب! اور اللہ سے دعا کرتا رہے گا حتی کہ اللہ اس سے کہے گا: کیا ایسا ہو گا کہ اگر میں نے تمہیں یہ عطا کر دیا، تو اس کے بعد تو اور کچھ مانگنا شروع کر دے گا؟ وہ کہے گا: تیری عزت کی قسم! (اور کچھ) نہیں (مانگوں گا۔) وہ اپنے رب کو جواللہ چاہے گا، عہد و پیمان دے گا، اس پر اللہ اسے جنت کے دروازے تک آگے کر دے گا۔ پھرجب وہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہو گا، تو جنت اس کے سامنے کھل جائے گی۔ اس میں جو خیر اور سرور ہے وہ اس کو (اپنی آنکھوں سے) دیکھے گا۔ تو جب تک اللہ کو منظور ہو گا وہ خاموش رہے گا، پھر کہے گا: میرے رب! مجھے جنت میں داخل کر دے، تو اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: کیا تو نے پختہ عہد و پیمان نہ کیے تھے، کہ جو کچھ تجھے دے دیا گیا ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں مانگے گا؟ ابن آدم! تجھ پر افسوس! تو کتنا بڑا وعدہ شکن ہے۔ وہ کہے گا: اے میرے رب! میں تیری مخلوق کا سب سے زیادہ بد نصیب شخص نہ بنوں، وہ اللہ تعالیٰ کو پکارتا رہے گا حتی کہ اللہ عزوجل اس پر ہنسے گا اور جب اللہ تعالیٰ ہنسے گا (تو) فرمائے گا: جنت میں داخل ہو جا۔ جب وہ اس میں داخل ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تمنا کر! تو وہ اپنے رب سے مانگے گا اور تمنا کرے گا، یہاں تک کہ اللہ اسے یاد دلائے گا، فلاں چیز (مانگ) فلاں چیز (مانگ) حتی کہ جب اس کی تمام آرزوئیں ختم ہو جائیں گی، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ سب کچھ تیرا ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور بھی۔‘‘ عطاء بن یزیدؒ نے کہا کہ ابو سعید خدریؓ بھی ابو ہریرہؓ کے ساتھ موجود تھے، انہوں نے ان کی کسی بات کی تردید نہ کی لیکن جب ابو ہریرہؓ نے یہ بیان کیا: کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی سے فرمائے گا: ’’یہ سب کچھ تیرا ہوا اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور بھی‘‘ تو ابوسعیدؓ فرمانے لگے: ابو ہریرہ! اس کے ساتھ اس سے دس گنا (اور بھی)، ابو ہریرہؓ نے کہا: مجھے تو آپ ﷺ کا یہی فرمان یاد ہے: ’’یہ سب کچھ تیرا ہے اور اس کے ساتھ اتنا ہی اور بھی۔‘‘ ابو سعیدؓ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سن کر آپ کا یہ فرمان یاد رکھا ہے: ’’یہ سب تیرا ہوا اور اس سے دس گنا اور بھی۔‘‘ ابو ہریرہؓ نے کہا: یہ جنت میں داخل ہونے والا سب سے آخری شخص ہو گا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھ پائیں گے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’چودھویں کا چاند دیکھنے میں (اژدحام کی وجہ سے) ایک دوسرے کو تکلیف پہنچاتے ہو؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں اے اللہ کے رسولؐ! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا سورج جب اس کے ورے بادل حائل نہ ہوں، دیکھنے میں ایک دوسرے کو تکلیف پہنچاتے ہو؟ صحابہؓ نے عرض کیا: نہیں اے اللہ کے رسولؐ! آپ نے فرمایا: ’’تم اللہ کو بھی اسی طرح (بغیر تکلیف و دشواری کے) دیکھو گے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کو تمام لوگوں کو جمع کرے گا، پھر فرمائے گا: جو کسی کی بندگی کرتا تھا اسی کے ساتھ ہو جائے۔ پھر جو شخص سورج کی پوجا کرتا تھا وہ سورج کے پیچھے چلا جائے گا، جو چاند کی پرستش کرتا تھا اسی کے ساتھ ہو جائے گا، اور جو طاغوتوں (غیر اللہ) کی پوجا کرتا تھا وہ طاغوتوں کے ساتھ ہو جائے گا، اور یہ امت رہ جائے گی، اس میں منافق بھی ہوں گے، تو ان کے پاس اللہ تبارک و تعالیٰ ایسی صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچانتے نہیں ہوں گے اور فرمائے گا: میں تمھارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے: ہم تجھ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں، ہم اس جگہ ٹھہریں گے، یہاں تک کہ ہمارے پاس ہمارا رب آ جائے۔ جب ہمارا رب آ جائے گا، ہم اسے پہچان لیں گے۔ تو اللہ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جس میں وہ اس کو پہچان لیں گے اور فرمائے گا: میں تمھارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے: تو ہی ہمارا رب ہے اور اس کے ساتھ ہو جائیں گے۔ پھر جہنم کی پشت پر پلِ صراط رکھا جائے گا، تو میں اور میری امت سب سے پہلے اس سے گزریں گے، اور رسولوں کے سوا اس دن کسی کو یارائے گفتگو نہ ہو گا۔ اور رسولوں کی پکار اس دن یہی ہو گی، اے اللہ! بچا! بچا! اور دوزخ میں سعدان نامی جھاڑی کے کانٹوں کی طرح لوہے کے مڑے ہوئے سروں والے آنکڑے ( کنڈے) ہوں گے (جن پر گوشت بھونا جاتا ہے)۔ کیا تم نے سعدان جھاڑی کو دیکھا ہے؟ صحابہؓ نے جواب دیا: جی ہاں! اے اللہ کے رسولؐ! آپ نے فرمایا: وہ آنکڑے (سلاخیں) سعدان کے کانٹوں جیسے ہوں گے، لیکن ان کی جسامت اور بڑائی کی مقدار کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور وہ لوگوں کو ان کے بد اعمال کی بنا پر اچک لیں گے (ان میں پھنسنے والے اپنے عملوں کے سبب ہلاک ہوں گے) ان میں مومن ہوں گے جو اپنے عملوں کے سبب بچ جائیں گے، اور ان میں سے بعض بدلہ دیے جائیں گے حتیٰ کہ نجات دیے جائیں گے۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے فیصلہ سے فارغ ہو جائے گا، اور اپنی رحمت سے دوزخیوں کو آگ سے نکالنا چاہے گا جن کے بارے میں اس کا ارادہ ہو گا، تو وہ فرشتوں کو حکم دے گا: کہ وہ ان لوگوں کو آگ سے نکال دیں جو اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتے تھے۔ ان میں سے جن کو وہ اپنی رحمت سے نوازنا چاہے گا، ان میں سے جو "لا إله إلا اللہ" کہتے تھے اور فرشتے ان کو آگ میں پہچان لیں گے، وہ انھیں سجدوں کے نشان سے پہچانیں گے۔ آگ ابنِ آدم سے سجدوں کے نشان کے سوا ہر چیز کو ہڑپ کر جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے آگ پر سجدے کے نشان کو جلانا حرام ٹھہرایا ہے۔ وہ آگ سے اس حال میں نکالے جائیں گے کہ وہ جل چکے ہوں گے۔ ان پر آبِ حیات ڈالا جائے گا۔ وہ اس سے یوں پھلیں پھولیں گے جس طرح قدرتی دانہ سیلاب کے ڈیلٹا (پانی کے بہاؤ کے ساتھ آنے والی مٹی اور خس و خاشاک) میں اگتا ہے۔ (یعنی بہت جلد ترو تازہ ہو کر اٹھ کھڑے ہوں گے) پھر جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے سے فارغ ہو جائے گا، اور ایک شخص باقی رہ جائے گا جس کا چہرہ آگ کی طرف ہوگا، اور یہی آدمی جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہو گا۔ وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! میرا چہرہ آگ سے پھیر دے، کیونکہ اس کی بدبو نے مجھ میں زہر بھر دیا ہے، یا میری شکل و صورت بدل دی ہے، اور اس کی تپش نے مجھے جلا ڈالا ہے۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا، وہ پکارتا رہے گا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کہیں ایسا تو نہیں کہ اگر میں تیرے ساتھ ایسا کردوں (تیرا سوال پورا کردوں) تو اور سوال کر دے؟ وہ عرض کرے گا: میں تجھ سے اور سوال نہیں کروں گا، اور اللہ جو عہد وپیمان چاہے گا، دے دے گا۔ تو اللہ اس کا چہرہ دوزخ سے پھیر دے گا۔ پھر جب وہ جنت کی طرف متوجہ ہوگا اور اسے دیکھے گا، جب تک اللہ چاہے گا وہ خاموش رہے گا، پھر کہے گا: اے میرے رب! مجھے جنت کے دروازے تک آگے کردے! اللہ تعالی فرمائے گا: کیا تو نے اپنے عہد وپیمان نہیں دیے تھے، کہ جو کچھ میں نے تمھیں دیا ہے اس کے سوا سوال نہیں کرے گا۔ تو تباہ ہو! اے آدم کے بیٹے! تو کس قدر بے وفا ہے! وہ کہے گا: اے میرے رب! اور اللہ سے دعا کرے گا حتیٰ کہ اللہ اسے فرمائے گا: کہیں ایسا تو نہیں اگر میں تیرا یہ سوال پورا کردوں، تو تو اور مانگنا شروع کر دے؟ وہ کہے گا: تیری عزت کی قسم! اور نہیں مانگوں گا، اور اپنے رب کو اللہ جو عہد وپیمان چاہے گا دے دے گا۔ پھر اللہ اسے جنت کے دروازے تک آگے کر دے گا۔ جب وہ جنت کے دروازے پر کھڑا ہوگا، جنت اس کے لیے کھل جائے گی اور وہ اس کی خیرات اور فرحت و مسرت انگیز چیزوں کو دیکھے گا، تو جب تک اللہ کو خاموشی منظور ہو گی خاموش رہے گا، پھر کہے گا: اے میرے رب! مجھے جنت میں داخل کردے! تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا: کیا تو نے اپنے پختہ عہد وپیمان نہیں دیے تھے، کہ جو کچھ تجھے دیا گیا ہے اس کے سوا نہیں مانگے گا۔ تجھ پر افسوس ہے، اے ابنِ آدم! تو کس قدر دغا باز ہے! وہ کہے گا: اے میرے رب! میں تیری مخلوق میں سب سے بد نصیب نہ بنوں۔ آپؐ نے فرمایا: وہ اللہ عز و جل سے فریاد کرتا رہے گا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ہنسے گا اور جب اللہ تعالیٰ ہنس پڑے گا، تو فرمائے گا جنت میں داخل ہو جا! جب وہ اس میں داخل ہو جائے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تمنا کر! تو وہ اپنے رب سے سوال کرے گا اور تمنا کرے گا حتیٰ کہ اللہ اسے یاد دلائے گا، فلاں فلاں چیز کی تمنا کر! یہاں تک کہ جب اس کی تمام آرزوئیں ختم ہوجائیں گی، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: یہ سب کچھ تجھے دیا اور اتنا مزید اور۔
عطاء بن یزیدؒ بیان کرتے ہیں ابو سعیدؓ بھی ابو ہریرہؓ کے ساتھ موجود تھے، اس کی حدیث کی کسی چیز کی تردید نہیں کر رہے تھے، حتیٰ کہ جب ابو ہریرہؓ نے بیان کیا: ’’کہ اللہ تعالیٰ اس آدمی سے فرمائے گا: یہ سب کچھ تجھے دیا اور اتنا اور بھی دیا‘‘ تو ابو سعیدؓ نے کہا: ’’اس کے ساتھ اس سے دس گنا زائد‘‘ اے ابو ہریرہ! ابو ہریرہؓ نے کہا: مجھے تو یہی یاد ہے: ’’تیرے لیے یہ سب کچھ ہے اور اتنا مزید اور۔‘‘ ابو سعیدؓ نے کہا: میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں مجھے رسول اللہ ﷺ کا یہ قول یاد ہے: ’’تجھے یہ سب کچھ حاصل ہےاور اس سے دس گنا زائد۔‘‘ ابو ہریرہ ؓ نے کہا: اور یہ آدمی جنت میں داخل ہونے والا آخری فرد ہو گا۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1) تُضَارُّونَ: ایک دوسرے کو تکلیف پہنچانا، باب مفاعلہ سے ہے، جو ضر (تکلیف پہنچانا یا نقصان پہنچانا) سے ماخوذ ہے۔ اگر ضَرَّ، يَضُرُّ ضَرًّا سے مانیں تو معنی ہو گا: دکھ اور تکلیف پہنچنا اور مضارع مجہول ہو گا، مفاعلہ کی صورت میں معروف ہو گا۔ اور مفاعلہ کی صورت میں (ر) مشدد ہو گی اصل میں ہے تضاررون۔ (2) الطَّوَاغِيتُ:طَاغُوْتٌ کی جمع ہے، اللہ تعالیٰ کے سوا، ہر معبود پر اس کا اطلاق ہوتا ہے، وہ جاندار ہو یا بے جان۔ (2) يُضْرَبُ الصِّرَاطُ: پل بچھا دیا جائے گا۔ (4) أَوَّلَ مَنْ يُجِيزُ:جوز سے ماخوذ ہے، کسی مقام سے آگے بڑھنا، مسافت طے کرنا۔ جَازَ الْمَكَانَ اور أَجَازَ الْمَكَانَ دونوں کا معنی ایک ہے، گزرنا، آگے بڑھنا۔ (5) كَلَالِيبٌ:كلاب کی جمع ہے، لوہے کی مڑے ہوئے سر کی سلاخ، آنکڑا، جس پر گوشت بھونا جاتا ہے۔ (6) شَوْك السَّعْدَانِ:شَوْكٌ کی جمع أَشْوَاكٌ کانٹا، سعدان ایک خاردار جھاڑی ہے جس کے کانٹے بڑے بڑے ہوتے ہیں۔ (7) بَقِيَ بِعَمَلِهِ: اپنے عمل کے سبب بچ گیا، لیکن ہندوستانی و پاکستانی نسخوں میں الموبق بعمله ہے۔ جو وبق (ہلاکت و تباہی) سے ماخوذ ہے، یعنی عملوں کے سبب ہلاک ہو کیا گیا۔ (8) الْمُجَازَى: جزاء سے ماخوذ ہے، بدلہ دیا گیا۔ (9) قَدِ امْتَحَشُوا:مَخُشَ سے ماخوذ ہے، چمڑے کا جل کر ہڈی کا ننگا ہو جانا۔ یعنی وہ جل چکے ہوں گے۔ (10) حَبَّةٌ (ح) پر زیر ہے، جمع حِبَبٌ، قدرتی بیج۔ (11) قَشَبَنِي:قشب سے ماخوذ ہے، کھانے میں زہر ملانا۔ یعنی مجھ میں زہر بھر دی ہے، میرے لیے اذیت و تباہی کا باعث ہے۔ یا بقول بعض میری شکل و صورت کو بدل دیا ہے۔
فوائد ومسائل:
(1) قیامت کو جنت میں جانے سے پہلے ہی مومنوں کو اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا، آغاز میں منافق بھی ساتھ ہوں گے، لیکن پھرمومنوں اور منافقوں کے درمیان آڑ حائل ہوجائے گی، جیسا کہ سورۂ حدید: 13 میں آیا ہے۔ (2) اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی صورت ہے جس میں دیکھ کر مومنوں کو یقین ہوجائے گا کہ یہ اللہ تعالیٰ ہے، اس صورت کے بغیر ان کے دلوں میں اس کا یقین پیدا نہیں ہوگا، اس لیے وہ اس کے اللہ تعالیٰ ہونے پر مطمئن نہیں ہوں گے اور انکار کر دیں گے۔ (3) اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی رؤیت کو چودھویں رات کے چاند، یا صاف سورج کے دیکھنے سے تشبیہ دی گئی؟ اس طرح رؤیت کی رؤیت سے تشبیہ ہے، رؤیت دیدار مرئی دیکھی ہوئی چیزی یعنی اللہ تعالیٰ کی سورج وقمر سے تشبیہ نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کو سورج وچاند کے دیکھنے سے تشبیہ دی ہے، کہ دیکھنے میں کوئی اژدھام اور تکلیف ومشقت نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کو چاند اور سورج سے تشبیہ نہیں دی ہے۔ مقصد یہ ہے جس طرح چاند اور سورج کے دیکھنے کے لیے اژدھام اور دھکم پیل کی صورت پیدا نہیں ہوتی، ہر انسان بغیر کسی وقت وتکلیف کے اپنی اپنی جگہ دیکھ لیتا ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کا دیدار ہر مومن کو اپنی اپنی جگہ ہوجائے گا، بھیڑ اور دھکم پیل نہیں ہوگی، اور کسی کو اذیت وتکلیت سے دوچار نہں ہونا پڑے گا۔ (4) اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ضحك (ہنسی) اتیان (آمد) صورت (شکل ) اور گفتگو (قول وکلام) کا اثبات کیا گیا ہے- اللہ تعالیٰ ان چیزوں سے متصف ہے، لیکن ان کی کیفیت وصفت کو بیان کرنا ممکن ہے، اس لیے تشبیہ وتمثیل یا تاویل وتعطیل درست نہیں ہے۔ خالق کی صفات، اس کے شایا ن شان ہیں۔ اور مخلوق کی صفات ان کی حیثیت اور مقام کے مطابق ہیں، اس لیے صفات کے اثبات سے تشبیہ وتمثیل لازم نہیں آتی۔ (5) اس حدیث میں جہنم کی پشت پر پل لگانے کا تذکرہ ہوا جس سے لوگوں نے گزرنا ہے، اس کو ہولناکی کی بنا پر انبیاءؑ بھی "سَلِّمْ سَلِّمْ" بچا بچا کی صدا بلند کریں گے۔ (پل کی تفصیل اپنی جگہ پر آئے گی) (6) جہنم میں داخلہ کے بعد موحد انجام کار دوزخ سے نکال لیے جائیں گی، اس کی تفصیل احادیث شفاعت میں آئے گی۔ (7) جنت میں داخل ہونے والے آخری فرد کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا مکالمہ واضح طور پر اللہ تعالی کے لیے کلام ثابت کر رہا ہے، اور یہ کلام لفظی ہے، جس کو وہ فرد سنے گا اورجواب دے گا، اس لیے متکلمین کی طرح صفت کلام میں تاویل کرنا درست نہیں ہے، کہ اللہ کا کلام، کلام نفسی ہے جو حروف وصورت سے خالی ہے، کیونکہ کلام نفسی کو تو دوسرا سن نہیں سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Haraira reported: The people said to the Messenger of Allah (ﷺ) : Messenger of Allah, shall we see our Lord on the Day of Resurrection? The Messenger of Allah (ﷺ) said: Do you feel any trouble in seeing the moon on the night when it is full? They said: Messenger of Allah, no. He (the Messenger) further said: Do you feel any trouble in seeing the sun, when there is no cloud over it? They said: Messenger of Allah. no. He (the Holy Prophet) said: Verily you would see Him like this (as you see the sun and the moon). God will gather people on the Day of Resurrection and say: Let every people follow what they worshipped. Those who worshipped the sun would follow the sun, and those who worshipped the moon would follow the moon, and those who worshipped the devils would follow the devils. This Ummah (of Islam) alone would be left behind and there would be hypocrites too amongst it. Allah would then come to them in a form other than His own Form, recognisable to them, and would say: I am your Lord. They would say: We take refuge with Allah from thee. We will stay here till our Lord comes to us. and when our Lord would come we would recognise Him. Subsequently Allah would come to them in His own Form, recognisable to them, and say: I am your Lord. They would say: Thou art our Lord. And they would follow Him, and a bridge would be set over the Hell; and I (the Holy Prophet) and my Ummah would be the first to pass over it; and none but the messengers would speak on that day, and the prayer of the messengers on that day would be: O Allah! grant safety, grant safety. In Hell, there would be long spits like the thorns of Sa'dan He (the Holy Prophet) said: Have you seen Sa'dan? They replied: Yes, Messenger of Allah. He said: Verily those (hooks) would be like the thorns of Sa'dan, but no one knows their size except Allah. These would seize people for their misdeeds. Some of them would escape for their (good) deeds, and some would be rewarded for their deeds till they get salvation. When Allah would finish judging His bondsmen and because of His mercy decide to take out of Hell such people as He pleases. He would command the angels to bring out those who had not associated anything with Allah; to whom Allah decided to show mercy. those who would say: There is no god but Allah. They (the angels) would recognise them in the Fire by the marks of prostration, for Hell-fire will devour everything (limb) of the sons of Adam ؑexcept the marks of prostration. Allah has forbidden the fire to consume the marks of prostration. They will be taken out of the Fire having been burnt, and the water of life would be poured over them, and they will sprout as seed does In the silt carried by flood. Then Allah would finish judging amongst His bondsmen; but a man who will be the last to enter Paradise will remain facing Hell and will say: O my Lord I turn my face away from Hell, for its air has poisoned me ard its blaze has burnt me. He will then call to Allah as long as Allah would wish that he should call to Him. Then Allah, Blessed and Exalted, would say: If I did that, perhaps you would ask for more than that. He would say: I would not ask You more than this, and he would give his Lord covenants and agreements as Allah wished, and so He would turn his face away from the Fire When he turns towards the Paradise and sees it, he will remain silent as long as Allah wishes him to remain so. He will then say: O my Lord I bring me forward to the gate of the Paradise. Allah would say to him: Did you not give covenants and agreements that you would not ask for anything besides what I had given you. Woe to thee! O son of Adam, how treacherous you are! He would say: O my Lord! and would continue calling to Allah till He would say to him: If I grant you that, perhaps you will ask for more. He will reply: No, by Thy greatness, and he will give His Lord promises and covenants as Allah had wished. He would then bring him to the gate of the Paradise, and when he would stand at the gate of the Paradise, it would lay open before him. and he would see the bounty and the joy that there is in it. He would remain quiet as long as Allah would desire him to remain silent. He would then say: O my Lord, admit me to Paradise. Allah. Blessed and Exalted, would say: Did you not give covenants and agreements that you would not ask for anything more than what I had granted you? Woe to you! son of Adam, how treacherous you are! And he would say: O my Lord, I do not wish to be the most miserable of Thy creatures. He would continue calling upon Allah till Allah, Blessed and Exalted, would laugh. When Allah would laugh at him, He would say: Enter the Paradise. When he would enter, Allah would say: State your wish. He would express his wishes till Allah would remind him (the desire of) such and such (things). When his desires would be exhausted Allah would say: That is for thee and, besides it, the like of it also. 'Ata' bin Yazid said: Abu Sa'id al-Khudri was with Abu Hurairah (RA) and be did not reject anything from the hadith narrated by him, but when Abu Hurairah (RA) narrated:" Allah said to that man; ind its like along with it," Abu Sa'id said:" Ten like it along with it," O Abu Hurairah (RA) . Abu Hurairah (RA) said: I do not remember except the words:" That is for you and a similar one along with it." Abu Sa'id said: I bear witness to the fact that I remembered from the Messenger of Allah (ﷺ) his words:" That is for thee and ten like it." Abu Hurairah (RA) said: That man was the last of those deserving of Paradise to enter Paradise.