صحیح مسلم
35. کتاب: امور حکومت کا بیان
13. باب: فتنے نمودار ہونے کے وقت اور ہر حال میں مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنے کا حکم‘اطاعت سے نکل جانے اور مسلمانوں کی جمیعت کو چھوڑنے کی حرمت
صحيح مسلم
35. كتاب الإمارة
13. بَابُ الْأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وتحذير الدعاة إلى الكفر
Muslim
35. The Book on Government
13. Chapter: The obligation of staying with the Jama'ah (main body) of the muslims when Fitn (tribulations) appear, and in all circumstances. The prohibition of refusing to obey and on splitting away from the Jama'ah
باب: فتنے نمودار ہونے کے وقت اور ہر حال میں مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنے کا حکم‘اطاعت سے نکل جانے اور مسلمانوں کی جمیعت کو چھوڑنے کی حرمت
)
Muslim:
The Book on Government
(Chapter: The obligation of staying with the Jama'ah (main body) of the muslims when Fitn (tribulations) appear, and in all circumstances. The prohibition of refusing to obey and on splitting away from the Jama'ah)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1847.
ابو ادریس خولانی نے کہا: میں نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں اس خوف سے کہیں میں اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں، آپﷺ سے شر کے متعلق پوچھا کرتا تھا، میں نے عرض کی: اللہ کے رسولﷺ! ہم جاہلیت اور شر میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر (اسلام) عطا کی، تو کیا اس خیر کے بعد پھر سے شر ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گی؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، لیکن اس (خیر) میں کچھ دھندلاہٹ ہو گی۔‘‘ میں نے عرض کی: اس کی دھندلاہٹ کیا ہو گی؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت کے بجائے دوسرا طرزِ عمل اختیار کریں گے اور میرے نمونہ عمل کے بجائے دوسرے طریقوں پر چلیں گے، تم ان میں اچھائی بھی دیکھو گے اور برائی بھی دیکھو گے۔‘‘ میں نے عرض کی: کیا اس خیر کے بعد، پھر کوئی شر ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہو کر بلانے والے، جو ان کی بات مان لے گا وہ اس کو جہنم میں پھینک دیں گے۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسولﷺ! ہمارے سامنے ان کی (بری) صفات بیان کیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، وہ لوگ بظاہر ہماری طرح کے ہوں گے اور ہماری ہی طرح گفتگو کریں گے۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسولﷺ! اگر وہ زمانہ میری زندگی میں آ جائے تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم مسلمانوں کی جماعت اور مسلمانوں کے امام کے ساتھ وابستہ رہنا۔‘‘ میں نے عرض کی: اگر اس وقت مسلمانوں کی جماعت ہو نہ امام؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم ان تمام فرقوں (بٹے ہوئے گروہوں) سے الگ رہنا، چاہے تمہیں درخت کی جڑیں چبانی پڑیں یہاں تک کہ تمہیں موت آئے تو تم اسی حال میں ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نےاپنی افضل ترین مخلوق (انسان)کی تخلیق اس طرح فرمائی ہےکہ مختلف اعضاءمختلف خدمات سرانجام دیتےہیں۔ ان کوسب کوسمجھنے،ان سےخدمات حاصل کرنےاورپورےجسم کی بہبوداوراس کی حفاظت کےلیے فیصلےکرنےکاکام سرکےاندررکھےہوئےدماغ کےسپردہے۔ اسلام سےپہلےعرب کےمختلف قبائل اپنےاپنےطورپرفیصلےکرتےتھے۔ رسول اللہﷺ نےایک منظم معاشرہ تشکیل دےکرسارےمعاشرےکی حفاظت ونگہداشت ، اس کےافرادکی انفرادی اوراجتماعی ضروریات کی تکمیل ،ہررکن کی فلاح وغیرہ کی ذمہ داری سربراہ کےسپردکردی۔ امیر،ان تمام امورکاذمہ دارٹھہرایاگیا۔ امارت انہی ذمہ داریوں کی ادائیگی کانام ہے۔ بعض اوقات ان ذمہ داریوں کی ادائیگی کےبغیرہی کوئی شخص سربراہ کےمنصب پرقابض ہوجاتاہے،وہ حقیقی معنی میں امیرنہیں ہوتا۔ نظام امارت کےحوالےسےاہم ترین بات یہ ہےکہ امیرایساہوکہ لوگوں کی بڑی اکثریت اس کی اطاعت کرنےپرآمادہ ہو،بلکہ وہ ایسےلوگوں میں سےہوکہ عامۃ الناس ان کی اطاعت کےعادی ہوں۔ قرآن یک روسےمومنوں کی امارت مومنوں کےمشورےپرمنحصرہے(وَأَمْرُهُمْ شُورَى)’’اوران کاکام آپس میں مشورہ کرناہے۔‘‘(الشوریٰ 38:42)اورحدیث کی روسےامیران لوگوں میں سےمنتخب ہوناچاہیےجن کی اطاعت فطری ہو۔ رسول اللہﷺ نےشوریٰ کےذریعےسےاپناامیرمنتخب کرنےکی پوری ذمہ داری امت پرڈالی ،کسی کواپناجانشین مقررنہیں کیا۔ مختلف احادیث سےپتہ چلتاہےکہ آپﷺ کےبعدکیاہوگا،اس کےحوالےسےاللہ تعالیٰ نےبہت سی تفصیلات سےآپﷺ کوآگاہ کردیاتھا۔ آپ نےخبردینےکےانداز میں امت کی رہنمائی کرنےوالی قوم ،یعنی عرب قریش کےپیچھےچلتےہیں مسلمان بھی اورکافربھی،دونوں کےرہنماقریشی ہی ہیں، اس لیے ان حالات میں امام (رہنمااورحکمران)قریش ہی میں سےہوں گے۔ یہ خبربھی ہےاورہنمائی بھی۔ ’’الناس‘‘کالفظ عربی میں سیاق وسباق کےمطابق بہت وسیع(پوری انسانیت کے)معنی میں بھی استعمال ہوااورنسبتا محدودبلکہ مخصوص معنیٰ میں ان لوگوں کےلیے بھی جنہوں نےخاص تربیت حاصل کی ،ہم مقصدہوئے،بڑی ذمہ داریوں کےامین اوربڑی خوبیوں کےمالک ہوئے۔ قرآن میں یہ لفظ رسول اللہﷺ پرایمان لانےوالوں ،یعنی صحابہ کےلیے استعمال ہوا:( وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ)’’اورجب کہاگیاان سےکہ ایمان لاؤجیسےصحابہ ایمان لائے۔ ‘‘ (البقرۃ 13:2)یہ رسول اللہﷺ کےساتھی ،جاں نثار،آپ کےمشن کےامانت دار،آپ کی تربیت کانمونہ اورآدم کی اولادمیں سےبہترین امت تھے۔ مستقبل کےحوالےسےآپ کوجوکچھ دکھایاگیااس میں مثبت اورمنفی دونوں طرح واقعات تھے۔ ان کےساتھ ہی ،آپ کی تسلی کےلیے آپ کودکھایاگیاکہ ان مخصوص لوگوں میں سے جب تک دواشخاص بھی موجودہوں گےتوامارت کےنظام کابنیادی عنصر،یعنی’’سمع وطاعت‘‘کاسلسلہ محفوظ ہوگا۔ مشکلات کےباوجودحکمران انہی میں ہوں گےجن کی لوگ اطاعت کرتےہیں۔ اسی بات کوبارہ حکمرانوں کےحوالےسےبھی بیان کیاگیا۔ بعدمیں بتدریج انتظامی معاملات ،عملادوسروں کےہاتھ میں جانےشروع ہوگئے۔
خلافت راشدہ کےدوران میں ایک حکمران کےبعددوسرےکی جانشینی کاطریق کارحالات کےمطابق مختلف رہا،لیکن بنیادشوریٰ پررہی۔ کبھی اس شوریٰ میں جانےوالاامام شریک بھی ہوا۔ جس طرح ابوبکرکوشریک کیاگیااوریہ بھی ہواکہ جانےوالےنےشوریٰ میں شرکت کےبجائےساری ذمہ داری بعدوالوں پرڈال دی۔ اس کی مثال حضرت عمر کاطریقہ ہے۔ حضرت عثمان کےبعدحضرت علینےبھی اسی طریقےپرعمل کیااوریہی خودرسالت مآبﷺ کاطریقہ تھاکہ ایک امام کےبعداگلےکاانتخاب وہی لوگ باہمی مشاورت سےکریں جوموجودہوں۔
امارت کی صلاحیت کےساتھ ساتھ عدم صلاحیت کی وضاحت بھی ضروری ہے۔امام مسلم نےاس حوالےسےوہ احادیث بیان کیں جن میں یہ صراحت ہےکہ جوشخص عہدےکاطلبگارہووہی اصلااس صلاحیت سےمحرومم قرارپاتاہے۔ یہ بھی وضاحت ہےکہ یہ ذمہ داری ہے،اس کی خواہش کرناغلط ہے۔یہ ذمہ داری بغیرخواہش کےجس کےکندھےپرڈالی گئی ،اللہ کی طرف سےاس کی اعانت ہوگی اورجسےخواہش پرملی وہ تنہااس کواٹھائےگا۔ جب کسی پرذمہ داری پڑجائےاوروہ اس کاحق اداکرنےکی کوشش کرے،عدل سےکام لے،لوگوں کومشکلات سےبچائےاورانہیں اآسانیاں فراہم کرنےکی کوشش کرےتوآخرت میں بھی اس اجربہت بڑاہوگا۔
امیرچونکہ لوگوں کےاجتماعی اموال کاامین ہوتاہےاس لیے اس کی خیانت،بہت سنگین جرم ہےاوراس کےلیے سخت ترین عذاب کی وعیدہے۔ کھلی خیانت کےعلاوہ بہت سےدوسرےمعاملات بھی مخدوش ہیں۔ اس کی مثال لوگوں کی طرف سےملنےوالے’’ہدیے‘‘ہیں۔ رسول اللہﷺنےاس معاملےمیں انتہائی احتیاط کاحکم دیا۔ پھرامام مسلم نےایسی احادیث بیان کیں جن میں امیرکی اطاعت کی حدودمتعین کی گئی ہیں۔بنیادی اصول یہ ہےکہ اچھےکاموں میں اطاعت کی جائےاورگناہوں میں عدم اطاعت سےکام لیاجائےکیونکہ امیرکی اطاعت اللہ کی اطاعت کی وجہ سےاوراسی کےحکم پرہے۔ اللہ کی نافرمانی میں کسی اطاعت جائزنہیں۔
اس کےبعدامام کی ذمہ داریوں میں سےاہم ترین ذمہ داری ،یعنی مسلمانوں کےتحفظ دفاع اوراس غرض سےقتال وجہادکےحوالےسےامیرکےبنیادی اورمرکزی کردارکاتذکرہ ہے،پھرخلافت کےحوالےسےپیداہونےوالےجھگڑوں سےنپٹنےکےبارےمیں رہنمائی ہے، پھراس بات کابیان ہےکہ اگرحکمران مکمل طورپراللہ سےبغاوت نہیں کرتے،نمازقائم کرتےرہتےہوتونظام کی حفاظت کےعظیم مقصدکےلیےان کےظلم پربھی صبرکرنادانائی ہے، اس کےبعدملت کےاتحاد کےتحفظ کےبارےمیں رہنمائی ہے،اس طرح جوکوئی انتشارکاسبب بنےاس سےچھٹکاراحاصل کرناضروری ہے،پھرحکمرانوں کی رہنمائی کےلیے مختلف ابواب ہیں۔ اچھےاوربرےحکمرانوں کی صفات کیاہیں؟ اہم مراحل میں لوگوں کوساتھ رکھنےکےلیے ان کی مشاورت اورخصوصی مشن کےلیے ان کی بیعت کےحوالےسےرہنمائی مہیاکی گئی ہے۔ یہ بھی وضاحت کی گئی کہ رسول اللہﷺ نےکن مراحل میں کن امورپربیعت کی ۔ اس کتاب کےآخری آدھےحصےمیں مختلف ابواب کےتحت امیرکی اہم ترین ذمہ داری مسلمانوں کےتحفظ اوردفاع کی اہمیت اوراس کی کماحقہ تیاری کےحوالےسےاحادیث بیان کی گئی ہیں۔ کتاب الامارہ انتہائی جامع کتابوں میں سےایک ہے۔
ابو ادریس خولانی نے کہا: میں نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق سوال کرتے تھے اور میں اس خوف سے کہیں میں اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں، آپﷺ سے شر کے متعلق پوچھا کرتا تھا، میں نے عرض کی: اللہ کے رسولﷺ! ہم جاہلیت اور شر میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ خیر (اسلام) عطا کی، تو کیا اس خیر کے بعد پھر سے شر ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ میں نے کہا: کیا اس شر کے بعد پھر خیر ہو گی؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، لیکن اس (خیر) میں کچھ دھندلاہٹ ہو گی۔‘‘ میں نے عرض کی: اس کی دھندلاہٹ کیا ہو گی؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت کے بجائے دوسرا طرزِ عمل اختیار کریں گے اور میرے نمونہ عمل کے بجائے دوسرے طریقوں پر چلیں گے، تم ان میں اچھائی بھی دیکھو گے اور برائی بھی دیکھو گے۔‘‘ میں نے عرض کی: کیا اس خیر کے بعد، پھر کوئی شر ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہو کر بلانے والے، جو ان کی بات مان لے گا وہ اس کو جہنم میں پھینک دیں گے۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسولﷺ! ہمارے سامنے ان کی (بری) صفات بیان کیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں، وہ لوگ بظاہر ہماری طرح کے ہوں گے اور ہماری ہی طرح گفتگو کریں گے۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسولﷺ! اگر وہ زمانہ میری زندگی میں آ جائے تو میرے لیے کیا حکم ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم مسلمانوں کی جماعت اور مسلمانوں کے امام کے ساتھ وابستہ رہنا۔‘‘ میں نے عرض کی: اگر اس وقت مسلمانوں کی جماعت ہو نہ امام؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم ان تمام فرقوں (بٹے ہوئے گروہوں) سے الگ رہنا، چاہے تمہیں درخت کی جڑیں چبانی پڑیں یہاں تک کہ تمہیں موت آئے تو تم اسی حال میں ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے بارے میں سوال کرتے تھے اور میں آپ سے شر کے بارے میں اس خوف سے سوال کرتا تھا کہ کہیں میں اس میں مبتلا نہ ہو جاؤں، تو میں نے آپ سے پوچھا، یا رسول اللہﷺ! ہم جاہلیت اور شر میں تھے تو اللہ ہمارے پاس (اسلام کی صورت میں) یہ خیر لے آیا، تو کیا اس خیر کے بعد شر (بے دینی) ہو گی؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ تو میں نے پوچھا، کیا اس شر (بے دینی) کے بعد خیر ہو گی؟ آپﷺ نے فرمایا ’’ہاں، اس میں کدورت ہو گی‘‘ پھر میں نے پوچھا: اس میں کدورت کیا ہو گی؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت (طریقہ) کے سوا راہ اختیار کریں گے اور میری سیرت کے سوا طرز عمل اپنائیں گے، ان میں معروف و منکر دونوں پاؤ گے۔‘‘ میں نے پوچھا، کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہو گا؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔ جہنم کے دروازے پر بلانے والے ہوں گے جو ان کی اس دعوت کو قبول کر لیں گے تو وہ انہیں اس جہنم میں پھینک دیں گے۔‘‘ تو میں نے کہا، یا رسول اللہﷺ! ہمیں ان کی صفت بتائیے، آپﷺ نے فرمایا: ’’وہ لوگ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری بولی بولیں گے۔‘‘ میں نے کہا، یا رسول اللہ! اگر یہ دور مجھے پا لے تو آپ کے خیال میں میں کیا کروں، آپﷺ نے فرمایا: ’’تو مسلمانوں کی جمعیت اور ان کے امام کے ساتھ وابستہ رہنا۔‘‘ میں نے عرض کیا، اگر ان کی جمعیت اور امام نہ ہو؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ان تمام فرقوں سے الگ رہو، اگرچہ تمہیں کسی درخت کے تنے کو چبانا پڑے، حتیٰ کہ تمہیں موت آئے اور تم اسی حالت پر ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1)فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ :کیا اسلام کی صورت میں جو خیر اور امن وسلامتی ہوئی ہے، اس کے بعد شر فتنہ وفساد ہو گا، اس سے مراد وہ فتنہ وفساد ہے،جو حضرت عثمان کی شہادت کے بعد رونما ہوا اور مسلمانوں میں خانہ جنگی شروع ہوگئی اور شر کے بعد خیر،حضرت علی اور معاویہ اور حسن ومعاویہ کی صلح اور حضرت معاویہ پر اتفاق ہے اور اس میں دخن کدورت یہ تھی کہ پہلے جیسا باہمی اتحاد واتفاق اور پیارومحبت نہ رہا تھا،جیسا کہ حدیث میں ہے”لاترجع قلوب قوم علي ماكانت عليه“لوگوں کے دل پہلی حالت کی طرف نہیں آئیں گے اور بعض بدعتی فرقوں شیعہ اور خوارج کا ظہور ہوگیا تھا اور بعض امراء ایسے تھے، جن میں بعض قابل اعتراض اور منکر باتیں پیدا ہوگئی تھیں، اس آمیزش والی خیر کے بعد، بدعتی فرقوں کی بدعتوں کو فروغ ملا اور بعض سلاطین وخلفاء نے ان کی سرپرستی کی، تویہ لوگ جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہوکر لوگوں کو ان بدعتوں کی دعوت دیتے تھے، اور ان کا پرچار کرتے تھے، لیکن وہ تھے، من جلدتنا: وہ اسلام کے نام لیوا اور مسلمانوں میں سے تھے اور مسلمانوں والی بولی بولتے تھے،اپنے آپ کو اسلام کے داعی قرار دیتے تھے۔ (2) تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ :جس امیر اور امام کی امارت وامامت پر مسلمانوں کی اکثریت جمع ہوگئی ہے،اس کی امارت اور امامت کو مان کر مسلمانوں کی جمعیت سے وابستہ رہنا،اس کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کرنا یا تحریک نہ چلانا اور اگر مسلمان کسی کی امامت یا امارت پر جمع نہ ہوں،ہر ایک اپنا اپنا الگ راگ الاپے اور الگ الگ ڈفلی بجائے اور طوائف الملوکی ہو،تو پھر کسی گروہ کا ساتھ نہ دینا،سب سے الگ تھلگ ہوجانا۔ (3)وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ عَلَى أَصْلِ شَجَرَةٍ:
اگر امام بیضادی کے بقول، زمین میں کوئی ایسا خلیفہ نہ رہے،جس پر لوگ جمع ہوں تو پھر الگ تھلگ رہنا اور اس کی خاطر جنگل میں رہنا پڑے،تو اس سے بھی گریز نہ کرنا،بلکہ ہر قسم کے مصائب ومشکلات برداشت کرنا،اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،جماعت المسلمین کے نام سے جو ڈرامہ رچایا گیا ہے،اس کا اس حدیث سے کوئی تعلق نہیں ہے،کیونکہ اس حدیث میں وہ امام مراد ہے،جس کو اختیار واقتدار حاصل ہو،اس لیے حافظ ابن حجر نے معنی کیا،ہے،هوكناية عن لزوم جماعة المسلمين وطاعة سلاطينهم ولو عصوا،اس حدیث سے مراد مسلمانوں کی جمعیت سے وابستہ رہنا اور ان کے سلاطین کی اطاعت کرنا ہے،اگرچہ وہ معصیت کے بھی مرتکب ہوں اور امام بیضادی نے وامام کا معنی کیا ہے،اذالم يكن في الارض خليفه،اگر زمین میں کوئی خلیفہ نہ ہو،تکملہ ج3ص343، صحیح مسلم،ج 2،مع نووی،ص 127۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
It has been narrated on the authority of Hudhaifa bin al-Yaman who said: People used to ask the Messenger of Allah (ﷺ) about the good times, but I used to ask him about bad times fearing lest they overtake me. I said: Messenger of Allah, we were in the midst of ignorance and evil, and then God brought us this good (time through Islam). Is there any bad time after this good one? He said: Yes. I asked: Will there be a good time again after that bad time? He said: Yes, but therein will be a hidden evil. I asked: What will be the evil hidden therein? He said: (That time will witness the rise of) the people who will adopt ways other than mine and seek guidance other than mine. You will know good points as well as bad points. I asked: Will there be a bad time after this good one? He said: Yes. (A time will come) when there will be people standing and inviting at the gates of Hell. Whoso responds to their call they will throw them into the fire. I said: Messenger of Allah, describe them for us. He said: All right. They will be a people having the same complexion as ours and speaking our language. I said: Messenger of Allah, what do you suggest if I happen to live in that time? He said: You should stick to the main body of the Muslims and their leader. I said: If they have no (such thing as the) main body and have no leader? He said: Separate yourself from all these factions, though you may have to eat the roots of trees (in a jungle) until death comes to you and you are in this state.