Muslim:
The Book of Sacrifices
(Chapter: The time for sacrifice)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1960.
ابوخثیمہ زہیر( بن معاویہ) نے اسود بن قیس سے حدیث بیان کی، کہا: مجھے حضرت جندب بن سفیان (بجلی) رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا، کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عید الاضحیٰ منائی، آپ نے نماز پڑھی اور آپ اس (نماز کے بعد خطبہ، دعا وغیرہ) سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ آپ نے قربانی کے جانوروں کا گوشت دیکھا جو نماز پڑھے جانے سے پہلے ذبح کردیے گئے تھے، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے نماز پڑھنے سے۔ یا (فرمایا:) ہمارے نماز پڑھنے سے۔ پہلے اپنا قربانی کا جانور ذبح کرلیا وہ اس کی جگہ دوسرا ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا، وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔‘‘
شکار اور ذبح کیے جانے والے عام جانوروں کے بعد امام مسلم نے قربانی کے احکام و مسائل بیان کیے ہیں جو بطور خاص اللہ کی رضا کے لیےذبح کی جاتی ہے ۔سب سے پہلے انہوں نے قربانی کے وقت کے بارے میں احادیث بیان کی ہیں کہ قربانی کا وقت نماز ،خطبے اور اجتماعی دعا کے بعد شروع ہوتا ہے۔اگر اس سے پہلے جانور ذبح کر دیا جائے تو وہ قربانی نہیں ، عام ذبیحہ ہے ۔اس کی مثال اس طرح ہے جیسے وضو سے پہلے نماز پڑھنے کی وہ اٹھک بیٹھک ہے ،تلاوت، تسبیح اور دعا بھی ہے مگر نماز نہیں ۔جن صحابہ نے لوگوں کو جلد گوشت تقسیم کرنے کی اچھی نیت سے نماز اور خطبے سے پہلے قربانیاں کر لیں تو انھیں دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا گیا۔یہ فقر کا زمانہ تھا دوبارہ قربانی کرنا انتہائی مشکل تھا مشکلات کے حل کے لیے قربان کیے جانے والے جانوروں کی عمر وں میں کچھ سہولت اور رعایت دے دی گئی، لیکن قربانی دوبارہ کرنی پڑی۔پھر قربانی کے جانوورں کی کم از کم عمر کے بارے میں شریعت کے اصل حکم کا بیان ہے ، اس بعد پھر جن جانوروں کو اللہ کی رضا کے لیے ذبح کیا جا رہا ہے ان کو اچھے طریقے سے ذبح کرنے کی وضاحت ہے،پھر آلہ ذبح کا بیان ہے ۔اس میں وضاحت کی گئی ہے کہ ہڈی یا کسی جانور کے دانت سے ذبح نہیں کیا جا سکتا تیز دھار والی کسی چیز سے ذبح کیا جا سکتا ہے؟جس سے تیزی کے ساتھ اچھی طرح خون بہ جائے۔
قربانی کا گوشت کتنے دن تک کھایا جا سکتا ہے ؟اس حوالے سے احکام میں جو تدریج ملحوظ رکھی گئی ہے اس کو واضح کیا گیا ہے۔اس حوالے سے بھی یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بعض صحابہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کے بعد بھی حکم سے نا واقف رہ گئے تھے اور ابتدائی حکم کی پابندی کرتے رہے انسانی معاشرے میں یہ ایک فطری بات ہے ۔ ہر کسی کو ایک بات کا علم ہو جانا ممکن نہیں۔معتبر انھی کی بات ہے جنھیں علم ہے ۔قربانیوں کے ساتھ کسی مادہ جانور کے پہلوٹھی کے بچے کو بڑا ہونے کے بعد اللہ کی رضا کے لیے ذبح کرنے (العتیرہ) اور ریوڑ کے جانوروں کی ایک خاص تعداد کے بعد کسی ایک جانور کو اللہ کی راہ میں قربانی کرنے کا بیان بھی ہے ۔اس کے بعد قربانی کرنے والوں کے لیے ناخن اور بال نہ کٹوانے (حرام کی جیسی کچھ پابندیوں کو اپنانے) کا بیان ہے اور آخر میں اس بات کی وضاحت ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی رضا کے لیے (یا اس کے نام پر)ذبح کرنے والا اللہ کی لعنت کا مستوجب ہے۔ العیاذ باللہ
ابوخثیمہ زہیر( بن معاویہ) نے اسود بن قیس سے حدیث بیان کی، کہا: مجھے حضرت جندب بن سفیان (بجلی) رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا، کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عید الاضحیٰ منائی، آپ نے نماز پڑھی اور آپ اس (نماز کے بعد خطبہ، دعا وغیرہ) سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ آپ نے قربانی کے جانوروں کا گوشت دیکھا جو نماز پڑھے جانے سے پہلے ذبح کردیے گئے تھے، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے نماز پڑھنے سے۔ یا (فرمایا:) ہمارے نماز پڑھنے سے۔ پہلے اپنا قربانی کا جانور ذبح کرلیا وہ اس کی جگہ دوسرا ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا، وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جندب بن سفیان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں عید الاضحیٰ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا، جوں ہی آپ نماز پڑھ کر، نماز عید سے فارغ ہوئے سلام پھیرا، تو آپ نے فورا قربانیوں کا گوشت دیکھا، جنہیں آپ کے نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی ذبح کیا جا چکا تھا، تو آپﷺ نے فرمایا: ’’جس نے اپنی قربانی نماز پڑھنے یا ہمارے نماز پڑھنے سے پہلے ذبح کر ڈالی وہ اس کی جگہ اور ذبح کرے اور جس نے ذبح نہیں کیا وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) اضاحي، اضحية يااضحيه کی جمع ہے، اس کوضحية بھی کہ دیتے ہیں، جس کی جمع ضحايا ہے اوراضحاة بھی کہتے ہیں، جس کی جمع اضحي ہے، قربانی کوکہتے ہیں، کیونکہ اس کودن چڑھے کیاجاتا ہے۔ (2) لم يعد ان صلي: ابھی آپ نے نماز ہی پڑھی تھی، اس سے تجاوز نہیں کیا تھا۔
فوائد ومسائل
قربانی بقول امام ابن قدامہ اور امام نووی، اکثر اہل علم کے نزدیک سنت ہے، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا یہی نظریہ تھا، امام شافعی، امام احمد، امام ابو یوسف، امام اسحاق، علقمہ اسود کا ہی قول ہے، امام ابوحنیفہ، ربیعہ، لیث اور اوزاعی کے نزدیک یہ واجب ہے، امام مالک کے نزدیک بقول ابن قدامہ واجب ہے اور بقول نووی سنت ہے، جو واجب کے قائل ہیں، ان کے نزدیک مالدار پر واجب ہے، (المغنی ج 13، ص 360)۔ قربانی کا وقت اہل مصر (شہر) کے لیے، امام کے خطبہ کے بعد ہے، امام ابو حنیفہ، امام احمد مالک، اسحاق اور اوزاعی کا یہی خیال ہے اور جہاں عید کا خطبہ نہیں ہوتا، وہاں امام ابو حنیفہ کے نزدیک طلوع فجر کے بعد اور امام شافعی کے نزدیک، دن چڑھنے کے بعد، جب نماز اور دو خطبوں کا وقت گزر جائے، پھر قربانی کی جا سکتی ہے، امام احمد کے نزدیک یہ ان لوگوں کے لیے جہاں عید نہیں پڑھی جاتی، (المغني ج 13، ص 384-385) صحیح بات یہی ہے کہ قربانی سنت مؤکدہ ہے، امام مالک کے نزدیک بقول نووی، امام کے ذبح کرنے کے بعد ذبح کرنا جائز ہے، قربانی کا آخری وقت امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام احمد اور ثوری کے نزدیک 12 ذوالحجہ ہے، امام شافعی، عطاء اور حسن کے نزدیک تیرہ (13) ذوالحجہ ہے اور ابن سیرین کے نزدیک صرف دس (10) ذوالحجہ، ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور عطاء بن یسار کے نزدیک پورا ذوالحجہ (المغني ج 13، ص 286)۔ بقول امام نووی، علی بن ابی طالب، ابن عباس، عمر بن عبدالعزیز، مکحول اور داود ظاہری وغیرہم کا موقف امام شافعی والا ہے، صحیح بات یہ ہے، دس (10) کو قربانی افضل ہے اور ایام تشریق تک جائز ہے، حافظ ابن قیم نے اس کو ترجیح دی ہے کہ ایام تشریق میں قربانی جائز ہے، (زاد المعاد)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jundab bin Sufyan reported: I was with Allah's Messenger (ﷺ) on the day of 'Id al-Adha. While he had not returned after having offered (the Id prayer) and finished it, he saw the flesh of the sacrificial animals which had been slaughtered before he had completed the prayer. Thereupon he (the Holy Prophet) said: One who slaughtered his sacrificial animal before his prayer or our prayer ('Id), he should slaughter another one in its stead, and he who did not slaughter, he should slaughter by reciting the name of Allah.