باب: ابتدا ئے اسلام میں تین دن کے بعد قربانی کا گو شت کھانے کی ممانعت تھی پھر اسے منسوخ کر کے جب تک چا ہے اس کو کھا نا جا ئز کر دیا گیا
)
Muslim:
The Book of Sacrifices
(Chapter: The prohibition of eating sacrificial meat for more than three days, which applied at the beginning of Islam but was then abrogated, and now it is permissible to eat it as long as one wants.)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1969.
سفیان نے کہا: ہمیں زہری نے ابوعبید سے روایت کی، کہا: میں عید کے مو قع پر حضرت علی بن ابی طا لب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا، انھوں نے خطبے سے پہلے نماز پڑھائی اور کہا: رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا تھا کہ "ہم تین دن (گزرجانے) کے بعد اپنی قربانیوں کا گوشت کھائیں۔"
شکار اور ذبح کیے جانے والے عام جانوروں کے بعد امام مسلم نے قربانی کے احکام و مسائل بیان کیے ہیں جو بطور خاص اللہ کی رضا کے لیےذبح کی جاتی ہے ۔سب سے پہلے انہوں نے قربانی کے وقت کے بارے میں احادیث بیان کی ہیں کہ قربانی کا وقت نماز ،خطبے اور اجتماعی دعا کے بعد شروع ہوتا ہے۔اگر اس سے پہلے جانور ذبح کر دیا جائے تو وہ قربانی نہیں ، عام ذبیحہ ہے ۔اس کی مثال اس طرح ہے جیسے وضو سے پہلے نماز پڑھنے کی وہ اٹھک بیٹھک ہے ،تلاوت، تسبیح اور دعا بھی ہے مگر نماز نہیں ۔جن صحابہ نے لوگوں کو جلد گوشت تقسیم کرنے کی اچھی نیت سے نماز اور خطبے سے پہلے قربانیاں کر لیں تو انھیں دوبارہ قربانی کرنے کا حکم دیا گیا۔یہ فقر کا زمانہ تھا دوبارہ قربانی کرنا انتہائی مشکل تھا مشکلات کے حل کے لیے قربان کیے جانے والے جانوروں کی عمر وں میں کچھ سہولت اور رعایت دے دی گئی، لیکن قربانی دوبارہ کرنی پڑی۔پھر قربانی کے جانوورں کی کم از کم عمر کے بارے میں شریعت کے اصل حکم کا بیان ہے ، اس بعد پھر جن جانوروں کو اللہ کی رضا کے لیے ذبح کیا جا رہا ہے ان کو اچھے طریقے سے ذبح کرنے کی وضاحت ہے،پھر آلہ ذبح کا بیان ہے ۔اس میں وضاحت کی گئی ہے کہ ہڈی یا کسی جانور کے دانت سے ذبح نہیں کیا جا سکتا تیز دھار والی کسی چیز سے ذبح کیا جا سکتا ہے؟جس سے تیزی کے ساتھ اچھی طرح خون بہ جائے۔
قربانی کا گوشت کتنے دن تک کھایا جا سکتا ہے ؟اس حوالے سے احکام میں جو تدریج ملحوظ رکھی گئی ہے اس کو واضح کیا گیا ہے۔اس حوالے سے بھی یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ بعض صحابہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کے بعد بھی حکم سے نا واقف رہ گئے تھے اور ابتدائی حکم کی پابندی کرتے رہے انسانی معاشرے میں یہ ایک فطری بات ہے ۔ ہر کسی کو ایک بات کا علم ہو جانا ممکن نہیں۔معتبر انھی کی بات ہے جنھیں علم ہے ۔قربانیوں کے ساتھ کسی مادہ جانور کے پہلوٹھی کے بچے کو بڑا ہونے کے بعد اللہ کی رضا کے لیے ذبح کرنے (العتیرہ) اور ریوڑ کے جانوروں کی ایک خاص تعداد کے بعد کسی ایک جانور کو اللہ کی راہ میں قربانی کرنے کا بیان بھی ہے ۔اس کے بعد قربانی کرنے والوں کے لیے ناخن اور بال نہ کٹوانے (حرام کی جیسی کچھ پابندیوں کو اپنانے) کا بیان ہے اور آخر میں اس بات کی وضاحت ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کی رضا کے لیے (یا اس کے نام پر)ذبح کرنے والا اللہ کی لعنت کا مستوجب ہے۔ العیاذ باللہ
سفیان نے کہا: ہمیں زہری نے ابوعبید سے روایت کی، کہا: میں عید کے مو قع پر حضرت علی بن ابی طا لب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا، انھوں نے خطبے سے پہلے نماز پڑھائی اور کہا: رسول اللہ ﷺ نے اس بات سے منع فرمایا تھا کہ "ہم تین دن (گزرجانے) کے بعد اپنی قربانیوں کا گوشت کھائیں۔"
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ابوعبید بیان کرتے ہیں، میں نے عید میں حضرت علی بن ابی طالب کے ساتھ شرکت کی، تو انہوں نے خطبہ سے پہلے نماز پڑھائی اور فرمایا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع فرمایا۔"
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فقراء اور محتاجوں کی ضرورت کے پیش نظر تین دن سے زائد گوشت رکھنے سے منع فرمایا تھا، تاکہ ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جا سکے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے محاصرہ کے دنوں میں، جب پھر اہل البوادی (جنگلی) مدینہ میں آ گئے اور ان کی ضرورت و حاجت پوری کرنے کے لیے گوشت تقسیم کرنے کی ضرورت محسوس کی، تو یہ حدیث سنائی، ویسے علت کے ختم ہونے کی بنا پر یہ حدیث منسوخ ہے، جیسا کہ آگے تصریح آ رہی ہے، اکثر اہل علم کا یہی قول ہے اور بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کیے جائیں، ایک حصہ گھر کے لیے، ایک حصہ دوست احباب اور پڑوسیوں کے لیے اور ایک فقراء و مساکین کے لیے، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے اس طرح منقول ہے، امام احمد کا یہی قول ہے اور دوسرا قول یہ ہے، آدھا گھر کے لیے اور آدھا تقسیم کے لیے اور احناف کے نزدیک جتنا زیادہ صدقہ کرے گا، وہی بہتر ہے، صحیح قول یہی ہے، اس میں کوئی پابندی نہیں ہے، جتنا صدقہ کرے گا، اتنا ہی اجر و ثواب ملے گا، تفصیل کے لیے (المغني، ج 13، ص379۔380)۔ امام احمد کے بقول حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما تک تین دن سے زائد رخصت نہیں پہنچی، اس لیے وہ نص پر قائم رہے۔ (المغني، ج 13،ص 381)۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Ubaid reported: I was with ' Ali Ibn Abi Talib (RA) on the occasion of the 'Id day. He started with the 'Id prayer before delivering the sermon, and said: Allah's Messenger (ﷺ) forbade us to eat the flesh of our sacrificial animals beyond three days.