باب: شراب کی حرمت اور اس بات کا بیان کہ شراب انگور،خشک کھجور ،ادھ کچی اور کشمش وغیرہ کے رس سے بنتی ہے جو نشہ آور ہو تی ہے
)
Muslim:
The Book of Drinks
(Chapter: The prohibition of Khamr, which may be made from the juice of grapes, dried dates, unripe dates, raisins and other things that intoxicate)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1980.
ثابت نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: جس دن شراب حرام کی گئی، میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر (لوگوں کو) شراب پلا رہا تھا ۔ان کی شراب ادھ پکی اور خشک کھجوروں سے تیار شدہ شراب کے سوا اور کوئی نہ تھی، اتنے میں ایک اعلان کرنے والا پکارنے لگا۔ انھوں نے کہا: میں جاؤں اور دیکھوں تو (دیکھا کہ وہاں) ایک منادی اعلا ن کر رہا تھا: (لوگو) سنو! شراب حرام کر دی گئی۔ کہا: پھر مدینہ کی گلیوں میں شراب بہنے لگی۔ ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے کہا: نکلو اور اسے بہادو! میں نے وہ (سب) بہادی۔ تو لو گوں نے کہا ۔۔۔ یا ان میں سے کچھ نے کہا۔۔۔فلا ں شہید ہوا تھا اور فلا ں شہید ہوا تھا تو یہ (شراب) ان کے پیٹ میں موجود تھی ۔۔۔(ایک راوی نے) کہا: مجھے معلوم نہیں یہ (بھی) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں سے ہے (یا نہیں) ۔۔۔اس پر اللہ تعا لیٰ نے ﴿لَيْسَ عَلَى ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا وَعَمِلُوا ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوٓا إِذَا مَا ٱتَّقَوا وَّءَامَنُوا وَعَمِلُوا ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ﴾ نازل فرمائی۔ ’’جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے جب انھوں نے تقوی اختیار کیا ایمان لائے اور نیک عمل کیے (تو) ان پر اس چیز کے سبب کوئی گناہ نہیں جس کو انھوں نے (حرمت سے پہلے) کھایا پیا (تھا۔)‘‘
کتاب الاشربہ اپنےمعانی کےاعتبارسےایک وسیع المطالب کتاب ہے۔ مشروبات میں حلال وحرام مشروبات کی تفصیل،شراب کےنقصانات ،وہ حالات جن میں شراب کوحتمی طورپرحرام قراردیاگیا،صحابہ کاجذبہ اطاعت مختلف چیزوں سےبننےوالی شرابوں کی مشرکہ صفت اورمضرت،اس سےمکمل اجتناب کےلیے مشروب سازی اوربرتنوں تک کےحوالےسےاحتیاطی احکام،حلال مشروبات کےحوالےسےصحت کےلیے ضروری احتیاطی تدابیر،پینےاور کھانےدونوں کےمعاشرتی اورروحانی آداب،حلت وحرمت کےحوالےسےاوہام پرمبنی تصورات،شخصی ناپسندیدگی اورحرمت،کھانےپینےمیں موسات اوربرکت،اس کتاب میں ان تمام موضوعات کےحوالےسےرہنمائی کےلیے ارشادات نبویہ پیش کیےگئےہیں۔
کتاب کاآغازاس افسوسناک واقعےسےکیاگیاہےجوحضرت حمزہکی شراب نوشی کی بناپرحضرت علیاورخود رسالت مآبﷺکوپیش آیا۔ حضرت حمزہ شراب نوشی کی ایک مجلس میں شریک ہوئے،گانےوالی نے شراب کےنتیجےمیں پیداہونےوالی خودفریبی اوراپنی عظمت وسخاوت کےانتہائی مبالغہ آمیزاحساس کومزیداجاگرکیا اورباہربیٹھیں حضرت علیکی دواونٹنیوں کے،جوان کی کل متاع تھیں،کباب کھلانےکی تان اڑائی۔شراب اپنےپینےوالوں کےاحساس عظمت کواتنابڑھادیتی ہےکہ عقل ودانش کی جملہ قیودٹوٹ جاتی ہیں۔ حضرت حمزہ نےگانےوالی کےالفاظ کےعین مطابق اپنی تلواراٹھائی اوران اونٹنیوں کی کوہانیں کاٹیں، پیٹ چاک کیے،کلیجےنکالے اورکباب بنانےوالوں کےحوالےکردیے۔ حضرت علیشدیدصدمےکےعالم میں رسول اللہﷺکےپاس آئے، ان کی بات سن کرآپ ﷺچل کرحمزہکےپاس توپتہ چلاکہ حضرت حمزہشراب کےنشےمیں پہچان اورتمیزتک کھوچکےہیں۔ شراب کی حرمت کےتدریجی مراحل کاآغازہوچکاتھا۔ یہ واقعہ پورےمدینہ والوں کی آنکھیں کھول دینےاورشراب کےشدیدنقصان کوپوری طرح واضح کرنےکےلیے کافی تھا۔ اس کےنتیجےمیں شراب کی حتمی حرمت کااعلان کردیاگیا۔ یہ ایمان لانےوالوں کےلیے ایک سخت امتحان تھا۔ یہ رسول اللہﷺکی بےمثال تربیت اوراس کےنتیجےمیں حاصل ہونےوالی ایمان کی مضبوطی تھی کہ شراب کی حرمت کےاعلان کےساتھ ہی شراب چھوڑدی گئی،مٹکےتوڑدیےگئےاورشراب کوگلیوں میں بہادیاگیا۔ یہ اہل ایمان کی عظیم الشان کامیابی تھی۔
اللہ کی رہنمائی کابنیادی مقصدیہ ہےکہ انسان اپنےخالق اورحقیقی مالک کوپہچانے،اپنےبرےبھلےمیں تمیزکرے،اس کےازلی دشمن شیطان نےاس کوتباہ کرنےکےلیےجوفریب کےجال پھیلارکھےہیں ان کےدھوکےمیں نہ آئے، اپنی حقیقی کامیابی کےمقصدسےغافل نہ ہو۔ شراب اس سےپہچان اورتمیزچھین کراسےاپنےسب سےبڑےدشمن کا شکاربننےکےلیے تیارکردیتی ہے۔ یہ شیطان کاسب سےخوفناک پھنداہےجس کےذریعےسےانسان کی تباہی یقینی ہوجاتی ہے،اس لیے شراب چاہےجس چیزکی بنی ہوئی ہواورجس نام سےہواس کوپوری سختی سےحرام کردیاگیااور اس سےاجتناب کویقینی بنانےکےلیے ان ذرائع کوبھی مسدودکیاگیاجوانسان کواس تک لےجاسکتےہیں۔
اس زمانےمیں حجازکےعلاقےمیں شراب’’نخلہ‘‘(کھجورکےدرخت)اور’’کرمہ‘‘(انگورکی بیل)کےپھلوں سے بنتی تھی۔ شراب بنانےکےلیے نیم پختہ کھجوراورتازہ کھجورکویانیم پختہ کھجوراورخشک کھجورکویاکھجوراورکشمش کوملاکرپانی میں اس کارس نکالاجاتاتھا، پھراسےرکھاجاتاحتی کہ اس میں تخمیرکاعمل ہوتااوروہ شراب بن جاتی۔ مختلف قسم کےکچے،پکےتازہ اورخشک پھلوں کارس ملانےسےاس میں تندی آجاتی اورجلدتخمیرکاعمل شروع ہوجاتا۔ یمن میں شہدکےشربت سےشراب بنائی جاتی تھی جسے’’بتع‘‘کہتےتھے۔ جوسےبھی شراب بنائی جاتی تھی،اسے’’مزر‘‘کہتے تھے۔ رسول اللہﷺنےاس سےقطع نظرکہ وہ کسی چیزسےبنی ہوئی ہیں،تمام شرابوں کوحرام قراردیابلکہ صریح الفاظ میں ہرقسم کی نشہ آورچیزکی حرمت کااعلان فرمایادیا۔ قاعدہ کلیہ یہ بیان فرمایا(كُلَّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَكُلَّ مُسْكِرٍحَرَامٌ)’’ہرنشہ آورچیزخمر(شراب)ہےاورہرنشہ آورچیزحرام ہے۔‘‘(حدیث:5218)
کھجورکوپانی میں ملاکراس کابنایاہواشربت’’نبیذ‘‘عربوں کوبہت مرغوب تھالیکن اس شربت پرتھوڑاساوقت گزرجاتا توعمل تخمیرسےیہ نشہ آوربن جاتا۔ اگراسےمسامداربرتنوں میں بنایاجاتاتواستعمال کےبعد،دھونےکےباوجودان برتنوں کےمساموں میں اس کےاجزاءرہ جاتےاوران کاخمیربن جاتا۔ ان برتنوں میں دوبارہ رس ڈالنےکےبعدتخمیر کاعمل عمل فوراشروع ہوجاتااورنبیذنشہ آورہونےلگتی۔ رسول اللہﷺنےاللہ نےحکم سےاپنی امت کواس غلاظت سےمکمل طورپرمحفوظ رکھنےکےلیے یہ حکم دیاکہ ایک ہی قسم کےکچےاورپکےبرتنوں کااستعمال ممنوع قراردیاجن میں شراب بنائی جاتی تھی۔ اگرشراب نہ بنائی گئی ہوتوبھی مسامداربرتنوں میں مشروب بنانےکی ممانعت فرمادی۔ ان برتنوں میں سوکھےکدوکوکھوکھلاکرکےبنائےہوئےبرتن،لکڑی کےبرتن،روغن قارملےہوئےبرتن اورمٹی کےگھڑےوغیرہ شامل تھے۔ مشکیزوں میں نبیذبنانےکی اجازت دی کیونکہ ان میں تخمیرکاعمل جلدشروع نہیں ہوتا۔ برتنوں کےحوالےسےیہ پابندی کچھ عرصہ برقراررہی،جب یقین ہوگیاکہ شراب بنانےوالےپرانے برتن ختم ہوگئےیاان کےاندرسے’’خمیر‘‘کےاجزاءمکمل طورپرزائل ہوگئےتوان کےعام استعمال کی اجازت مرحمت فرمادی۔ یہ تاکیدی حکم باقی رہاکہ کسی حلال مشروب(نبیذ،پھلوں کےرس وغیرہ)کواسی وقت تک استعمال کرناجائزہےجب تک ان میں تخمیرکاعمل شروع ہونےکاامکان ہی پیدانہ ہواہو۔ اورمسامداربرتنوں ،مثلا:روغن قارملےہوئےبرتنوں میں نبیذبنانےکی پابندی بھی برقراررہی۔ (حدیث:5210)
اسلام نےمضرصحت نشہ آورمشروبات کی ممانعت کےساتھ صحت بخش مشروبات خصوصادودھ پینےکی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ صحت کےحوالےسےیہ ہدایت بھی دی کہ کھانےپینےکی تمام اشیاءکی ہرصورت میں ڈھک کررکھاجائے۔ کھانےپینےکی اشیاءاللہ تعالیٰ کی قدرت،رحمت اورلطف وکرم کاخاص کرشمہ ہیں۔ اللہ نےانہیں اس طرح پیدافرمایاہےکہ یہ انسان کےجسم کوصحت اورتوانائی بخشتی ہیں اوراس کےساتھ مزےسےبھرپورہیں۔ یہ انسان کےکام ودہن کولذت بخشتی ہیں اورپھرکےحکم سےاس کےجسم کاحصہ بن جاتی ہیں۔ رسول اللہﷺ نےاپنی امت کواس بات کی تعلیم دی ہےکہ اگریہ اللہ کےحکم کےمطابق،انہیں اس کی نعمت سمجھتےہوئے،پاکیزگی کااہتمام کرتےہوئےاورا س کانام لےکراستعمال کریں تواللہ تعالیٰ ان میں برکت شامل کردیتاہے۔ اس عظیم روحانی پہلوپرصحیح مسلم کےکتاب الاشربۃ میں تفصیل سےروشنی ڈالی گئی ہے۔ بےبرکتی کےاسباب واضح کیےگئےہیں۔ پاکیزگی کےحوالےسےدایاں ہاتھ استعمال کرنے،برتن میں سانس نہ لینے،برتنوں کوگندانہ کرنے،اطمینان اورآرام سےبیٹھ کرکھانےپینےاورپانی وغیرہ پیتےہوئےبارباربرتن سےمنہ ہٹاکرسانس لینےاورکانام لےکرکھانےپینےکی تعلیم دی گئی ہے۔ ا س بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہےکہ کھانےکی ادنیٰ ترین مقداربھی ضائع نہیں کرنی چاہیے،کھانےکابرتن اچھی طرح صاف کرناچاہیےاورانگلیاں چاٹ لینی چاہئیں ،اس میں برکت ہے۔ مغرب زدہ متکبرین انگلیاں چاٹنےکوبراسمجھتےرہے۔ اب جدیدسائنس نےہی،جسےیہ لوگ علم کی انتہاسمجھتےہیں،ان کی سوچ کی غلطی واضح کرتےہوئےیہ شہادت پیش کردی ہےکہ انگلیوں سےکھاناکھاتےہوئےان کی سطح پرایسامادہ پیداہوجاتاہےجوکھانےکےاندرمضرصحت جراثیم کوختم کردیتاہے۔ انگلیاں چاٹ لیناانتہائی صحت بخش طریقہ ہے۔ اس بات کی بھی تعلیم دی گئی کہ صاف دھلےہوئےدائیں ہاتھ سےکھاناچاہیے۔ اوراپنےآگےسےکھاناچاہیے۔ انگوٹھےکےساتھ دوانگلیاں استعمال کرنی چاہئیں ۔کھجوروغیرہ کھاکراس کی گٹھلیاں دوبارہ اسی برتن میں نہیں ڈالنی چاہئیں کسی کھانےمیں عیب جوئی نہیں کرنی چاہیےاورحلال چیزوں میں بھی نفیس ترین اوربوسےپاک اشیاءکوترجیح دینی چاہیے۔
اس سےآگےبڑھ کریہ واضح کیاگیاہےکہ مذکورہ بالاتمام ہدایات کی پابندی کےساتھ اگراللہ کی رضاکےلیے کھانےمیں مواسات،زیادہ سےزیادہ لوگوں کوشریک کرنے،خودپردوسروں کوترجیح دینےکاارادہ اوراس پرعمل کیاجائےتوکھانےمیں ایسی برکت پیداہوجاتی ہےکہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ رسول اللہﷺتومواسات سےبڑھ کرامت کےتمام افرادکےلیے مجسم محبت خیرخواہی اورلطف وکرم کاسرچشمہ تھے۔ آپ کی برکت سےدوچارلوگوں کاکھانایاپیناتوسیکڑوں بلکہ ہزاروں افرادکوسیرکردیتاتھا،پھربھی بچارہتاتھا،عام مسلمان بھی جب دوسرےبھائیوں کواپنےساتھ شریک کریں توایک آدمی کاکھاناکم ازکم دوکواوردوآدمیوں کاکھاناچارکوبہ آسانی کفایت کرےگا۔ مواسات کاجذبہ اوراخلاص جس قدربڑھتاجائےگا، برکت میں اسی قدراضافہ ہوجائےگا۔
حضرت ابوبکرصدیقاس بات پرسخت پریشان ہوئےاورانہیں غصہ آیاکہ ان کی ناگریزغیرحاضری کےدوران میں ان کےمہمان بہت دیرتک بھوکےرہے۔ اس میں اگرچہ مہمانوں کےاپنےاصرارہی کادخل تھالیکن حضرت ابوبکرکی پریشانی اورغصہ اللہ کی رضاکےلیےتھا۔ اپنےمہمانوں کی شدیدخیرخواہی کاجذبہ بھی اللہ کی رضاکےلیے تھا۔ یہ صرف اورصرف اللہ کےلیے خیرخواہی اوراللہ کےلیے غصےکامظاہرہ تھا۔ اس بناپراللہ نےان کےتھوڑےسےکھانےمیں اتنی برکت ڈال دی کہ مہمانوں اورگھروالوں کےعلاوہ وہ اللہ کی راہ میں جہادکےلیے جانےوالوں کےبھی کام آیا۔
ثابت نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: جس دن شراب حرام کی گئی، میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر (لوگوں کو) شراب پلا رہا تھا ۔ان کی شراب ادھ پکی اور خشک کھجوروں سے تیار شدہ شراب کے سوا اور کوئی نہ تھی، اتنے میں ایک اعلان کرنے والا پکارنے لگا۔ انھوں نے کہا: میں جاؤں اور دیکھوں تو (دیکھا کہ وہاں) ایک منادی اعلا ن کر رہا تھا: (لوگو) سنو! شراب حرام کر دی گئی۔ کہا: پھر مدینہ کی گلیوں میں شراب بہنے لگی۔ ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھ سے کہا: نکلو اور اسے بہادو! میں نے وہ (سب) بہادی۔ تو لو گوں نے کہا ۔۔۔ یا ان میں سے کچھ نے کہا۔۔۔فلا ں شہید ہوا تھا اور فلا ں شہید ہوا تھا تو یہ (شراب) ان کے پیٹ میں موجود تھی ۔۔۔(ایک راوی نے) کہا: مجھے معلوم نہیں یہ (بھی) حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں سے ہے (یا نہیں) ۔۔۔اس پر اللہ تعا لیٰ نے ﴿لَيْسَ عَلَى ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا وَعَمِلُوا ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ جُنَاحٌ فِيمَا طَعِمُوٓا إِذَا مَا ٱتَّقَوا وَّءَامَنُوا وَعَمِلُوا ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ﴾ نازل فرمائی۔ ’’جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے جب انھوں نے تقوی اختیار کیا ایمان لائے اور نیک عمل کیے (تو) ان پر اس چیز کے سبب کوئی گناہ نہیں جس کو انھوں نے (حرمت سے پہلے) کھایا پیا (تھا۔)‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جس دن شراب حرام ہوئی، میں حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں لوگوں کو شراب پلا رہا تھا اور ان کی شراب صرف فضیخ یعنی گدری کھجور اور چھوہارے کا آمیزہ تھی، تو اچانک ایک منادی کرنے والے نے آواز بلند کی، ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، نکل کر دیکھو، (کیا آواز ہے) میں نے نکل کر دیکھا، ایک اعلان کرنے والا اعلان کر رہا ہے، خبردار شراب حرام ہو چکی ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، وہ مدینہ کی گلیوں میں بہنے لگی، مجھے بھی ابوطلحہ ؓ نے کہا، باہر نکل کر اس کو بہا دو، میں نے اسے بہا دیا، لوگوں نے یا بعض نے کہا، فلاں لوگ قتل کئے گئے، جبکہ شراب ان کے پیٹوں میں تھی، راوی کہتے ہیں، مجھے معلوم نہیں، یہ بات حضرت انس کی حدیث میں ہے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری، ’’جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح کیے، انہیں گناہ نہیں ہو گا، جو وہ حرمت شراب سے پہلے پی چکے ہیں، جبکہ وہ تقویٰ، ایمان اور عمل صالح کی روش پر قائم ہوں۔‘‘ (سورۃ المائدہ:93)
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
(1) اس حدیث سے ثابت ہوا، ہر نشہ آور چیز حرام ہے، کیونکہ ابو طلحہ اور ان کے ساتھی جو شراب پی رہے تھے، وہ بسر کچی پکی کھجور اور تمر پختہ کھجور یعنی چوہارہ کی آمیزہ فضیخ نامی تھی اور انہوں نے شراب کی حرمت کا اعلان سنتے ہی فورا بلا پس و پیش بہا دیا، اسی طرح سب لوگوں نے ہر قسم کی شراب گلیوں کی نذر کر دی، اس سے جمہور ائمہ، جن میں امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور محمد بن حسن داخل ہیں نے کہا ہے، تمام نشہ آور مشروبات، خمر ہیں، (المغني، ج 12، ص 495) اور نشہ آور چیز کثیر ہو یا قلیل، حد سکر تک پہنچے یا نہ حرام ہے اور نجس ہے، پینے والے کو حد لگائی جائے گی۔ (2) امام ربیعہ اور دادا کے نزدیک ہر نشہ آور چیز حرام ہے، لیکن نجس نہیں ہے، (شرح المہذب، ج 2، ص 569-570، بحوالہ تکملہ، ج 3، ص 599)۔ نیز امام ابو حنیفہ، ابو یوسف اور نخعی اور بعض اہل بصرہ کے نزدیک مشروبات کی تین اقسام ہیں۔ (1) انگور کا شیرہ جب شدت اختیار کرتے ہوئے جوش مارنے لگے اور اس میں جھاگ اٹھے، امام ابو یوسف کے نزدیک جھاگ اڑانا ضروری نہیں ہے، یہ اصلی خمر ہے، اس کا قلیل و کثیر حرام ہے اور یہ نجس ہے، اس لیے اس کی خرید و فروخت جائز نہیں، اگر کوئی اس کا ایک قطرہ بھی پی لے گا، اس کو حد لگائی جائے گی۔ (2) تین حرام مشروبات (ا) انگور کا شیرہ جب پکایا جائے اور اس کا دو تہائی سے کم حصہ اڑ جائے۔ (ب) نقيع التمر: جو سکر کہتے ہیں، یعنی کھجوروں کو تازہ پانی میں ڈالا جائے، اس میں نشہ پیدا ہو جائے۔ (ج) نقيع الزبيب: وہ کچا پانی یعنی جسے پکایا نہ گیا ہو، اس میں منقہ ڈالا گیا ہو، کئی دن پڑا رہنے سے اس میں شدت اور جوش پیدا ہو جائے، بقول علامہ تقی یہ تینوں بھی امام ابو حنیفہ کے صحیح قول کے مطابق خمر ہیں، اس لیے حرام اور نجس ہیں، قلیل ہو یا کثیر اس کا پینا حرام ہے، لیکن اس کا شراب ہونا اصلی خمر کی طرح قطعی اور یقینی نہیں ہے، اس لیے جب تک نشہ پیدا نہ ہو، حد نہیں لگائی جائے گی، کیونکہ اس کا شراب ہونا قطعی نہیں ہے، بلکہ شراب ہونے میں شبہ موجود ہے، امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کا بیچنا جائز ہے، لیکن صاحبین کے نزدیک بیچنا جائز نہیں ہے۔ (3) ان چار اقسام کے سوا جتنے نشہ آور مشروبات ہیں، وہ امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک پینا جائز ہے، (تکملہ ج 3 ص 599، 600) (ہدایہ) لیکن ظاہر ہے احادیث صحیحہ کی رو سے جمہور کا موقف درست ہے، کیونکہ آپ کا صریح فرمان ہے، ’’ما اسكر كثيره فقليله حرام‘‘ جس شراب کی زیادہ مقدار نشہ آور ہے، اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے، اس لیے بہت سے احناف نے حرام ہونے میں جمہور کا موقف قبول کیا ہے، مگر اصلی خمر کے سوا کی خرید و فروخت کو جائز قرار دیا ہے اور حد اس وقت لگائی ہے، جب نشہ آور مقدار میں پیا جائے، (تکملہ ج 3 ص 608)۔ ابن المنذر کہتے ہیں، اہل کوفہ جن احادیث سے استدلال کرتے ہیں، وہ سب معلول ہیں اور امام اثرم نے ان تمام احادیث اور اقوال صحابہ کا ضعف واضح کیا ہے۔ (المغني: ج 12، ص 497)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas bin Malik (RA) reported: I was the cup-bearer of some people in the house of Abu Talha on the day when liquor was forbidden. Their liquor had been prepared from dry dates or fresh dates when the announcer made the announcement. He (Abu Talha) said to me: Go out and find out (what the announcement is). I got out (and found) an announcer making this announcement: Behold, liquor has been declared unlawful. He said: The liquor (was spilt and) flawed in the lanes of Madinah. Abu Talha said to me: Go out and spill it, and I spilt it. They said or some of them said: Such and such were killed, such and such were killed for (the wine) had been in their stomachs. He (the narrator) said. I do not know whether it is the narration transmitted by Anas, (or by someone else). Then Allah, the Exalted and Majestic, revealed: "There shall be no sin (imputed) unto those who have believed and done good works for what they may have eaten as long as they fear (Allah) and believe and do good works" (v. 93).