قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: شمائل

صحيح مسلم: كِتَابُ الْأَشْرِبَةِ (بَابُ جَوَازِ اسْتِتْبَاعِهِ غَيْرَهُ إِلَى دَارِ مَنْ يَثِقُ بِرِضَاهُ بِذَلِكَ، وَبِتَحَقُّقِهِ تَحَقُّقًا تَامًّا، وَاسْتِحْبَابِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى الطَّعَامِ)

حکم : صحیح

ترجمة الباب:

2040 .   و حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى قَالَ قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ قَالَ أَبُو طَلْحَةَ لِأُمِّ سُلَيْمٍ قَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَعِيفًا أَعْرِفُ فِيهِ الْجُوعَ فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ فَقَالَتْ نَعَمْ فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِيرٍ ثُمَّ أَخَذَتْ خِمَارًا لَهَا فَلَفَّتْ الْخُبْزَ بِبَعْضِهِ ثُمَّ دَسَّتْهُ تَحْتَ ثَوْبِي وَرَدَّتْنِي بِبَعْضِهِ ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَذَهَبْتُ بِهِ فَوَجَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ النَّاسُ فَقُمْتُ عَلَيْهِمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَكَ أَبُو طَلْحَةَ قَالَ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ أَلِطَعَامٍ فَقُلْتُ نَعَمْ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ مَعَهُ قُومُوا قَالَ فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ حَتَّى جِئْتُ أَبَا طَلْحَةَ فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ قَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ وَلَيْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُهُمْ فَقَالَتْ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَانْطَلَقَ أَبُو طَلْحَةَ حَتَّى لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ حَتَّى دَخَلَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلُمِّي مَا عِنْدَكِ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ فَأَتَتْ بِذَلِكَ الْخُبْزِ فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفُتَّ وَعَصَرَتْ عَلَيْهِ أُمُّ سُلَيْمٍ عُكَّةً لَهَا فَأَدَمَتْهُ ثُمَّ قَالَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ فَأَذِنَ لَهُمْ فَأَكَلُوا حَتَّى شَبِعُوا ثُمَّ خَرَجُوا ثُمَّ قَالَ ائْذَنْ لِعَشَرَةٍ حَتَّى أَكَلَ الْقَوْمُ كُلُّهُمْ وَشَبِعُوا وَالْقَوْمُ سَبْعُونَ رَجُلًا أَوْ ثَمَانُونَ

صحیح مسلم:

کتاب: مشروبات کا بیان

 

تمہید کتاب  (

باب: اگر میزبان کی رضا مندی پر اعتماد ہو اس بات کا پورا یقین ہو تو کسی اور کو اپنے ساتھ اس (بلانے والے)کے گھر لے جاناجائز ہے ،اور کھانے پر اکھٹا ہونامستحب ہے

)
 

مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)

2040.   اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے کہا کہ انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: حضرت ابوطلحۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی ہے کمزورتھی۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو بھوک لگی ہے۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، پھر انھوں نے جو کی کچھ روٹیاں نکالیں، پھر اپنی اوڑھنی لی اس کے ایک حصے میں روٹیاں لپیٹیں، پھر ان کو میرے کپڑوں کے نیچے چھپا دیا اور اس (اوڑھنی) کا بقیہ حصہ چادر کی طرح میرے اوپر ڈال دیا، پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں ان روٹیوں کو لے کر گیا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو مسجد میں بیٹھے پایا اور آپﷺ کے ساتھ دوسرے لوگ موجود تھے، میں ان کے پاس  کھڑا ہوگیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمھیں ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھیجا ہے؟‘‘ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا کھانے کے لئے؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔ رسول اللہ ﷺ نے ا پنے ساتھیوں سے کہا: ’’چلو‘‘ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: حضور ﷺ روانہ ہوئے اور میں ان کے آگے آگے چل پڑا، یہاں تک کہ میں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور ان کو بتایا۔ حضرت ابوطلحۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے: ام سلیم! رسول اللہ ﷺ (باقی) لوگوں سمیت آگئے ہیں، اور ہمارے پاس اتنا (کھانا) نہیں ہے کہ ان کو کھلا سکیں۔ انھوں نے کہا: اللہ اور اسکا رسول ﷺ زیادہ جاننے والے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: پھر حضرت ابوطلحۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے اور (جاکر) رسول اللہ ﷺ سے ملے۔ رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ آئے اور وہ دونوں گھر میں داخل ہوگئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:  ’’ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ لے آؤ۔‘‘ وہ یہی روٹیاں لے آئیں، رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں حکم دیا، ان (روٹیوں) کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کردیئے گئے۔ ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنا گھی کا کپہ (چمڑے کا گول برتن) ان (روٹیوں) پر نچوڑ کر سالن شامل کردیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اس میں جو کچھ اللہ نے چاہا پڑھا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’دس آدمیوں کو آنے کی اجازت دو۔‘‘ انھوں (ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے دس آدمیوں کو اجازت دی، انھوں نے کھانا کھایا حتیٰ کہ سیر ہوگئے اور باہر چلے گئے، آپ ﷺ نے پھر فرمایا: ’’دس آدمیوں کو اجازت دو۔‘‘ انھوں نے اجازت دی، ان سب نے کھایا سیر ہوگئے اور باہر چلے گئے، آپ ﷺ نے پھر فرمایا: ’’دس آدمیوں کو اجازت دو‘‘ یہاں تک کہ سب لوگوں نے کھا لیا اورسیر ہوگئے۔ وہ ستر یا اسی لوگ تھے۔