باب: اگر میزبان کی رضا مندی پر اعتماد ہو اس بات کا پورا یقین ہو تو کسی اور کو اپنے ساتھ اس (بلانے والے)کے گھر لے جاناجائز ہے ،اور کھانے پر اکھٹا ہونامستحب ہے
)
Muslim:
The Book of Drinks
(Chapter: It is permissible to take someone else to the house of one who you are certain will approve of that and will not mind. It is recommended to gather to eat)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2040.
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے کہا کہ انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: حضرت ابوطلحۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی ہے کمزورتھی۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو بھوک لگی ہے۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، پھر انھوں نے جو کی کچھ روٹیاں نکالیں، پھر اپنی اوڑھنی لی اس کے ایک حصے میں روٹیاں لپیٹیں، پھر ان کو میرے کپڑوں کے نیچے چھپا دیا اور اس (اوڑھنی) کا بقیہ حصہ چادر کی طرح میرے اوپر ڈال دیا، پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں ان روٹیوں کو لے کر گیا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو مسجد میں بیٹھے پایا اور آپﷺ کے ساتھ دوسرے لوگ موجود تھے، میں ان کے پاس کھڑا ہوگیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمھیں ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھیجا ہے؟‘‘ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا کھانے کے لئے؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔ رسول اللہ ﷺ نے ا پنے ساتھیوں سے کہا: ’’چلو‘‘ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: حضور ﷺ روانہ ہوئے اور میں ان کے آگے آگے چل پڑا، یہاں تک کہ میں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور ان کو بتایا۔ حضرت ابوطلحۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے: ام سلیم! رسول اللہ ﷺ (باقی) لوگوں سمیت آگئے ہیں، اور ہمارے پاس اتنا (کھانا) نہیں ہے کہ ان کو کھلا سکیں۔ انھوں نے کہا: اللہ اور اسکا رسول ﷺ زیادہ جاننے والے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: پھر حضرت ابوطلحۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے اور (جاکر) رسول اللہ ﷺ سے ملے۔ رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ آئے اور وہ دونوں گھر میں داخل ہوگئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ لے آؤ۔‘‘ وہ یہی روٹیاں لے آئیں، رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں حکم دیا، ان (روٹیوں) کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کردیئے گئے۔ ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنا گھی کا کپہ (چمڑے کا گول برتن) ان (روٹیوں) پر نچوڑ کر سالن شامل کردیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اس میں جو کچھ اللہ نے چاہا پڑھا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’دس آدمیوں کو آنے کی اجازت دو۔‘‘ انھوں (ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے دس آدمیوں کو اجازت دی، انھوں نے کھانا کھایا حتیٰ کہ سیر ہوگئے اور باہر چلے گئے، آپ ﷺ نے پھر فرمایا: ’’دس آدمیوں کو اجازت دو۔‘‘ انھوں نے اجازت دی، ان سب نے کھایا سیر ہوگئے اور باہر چلے گئے، آپ ﷺ نے پھر فرمایا: ’’دس آدمیوں کو اجازت دو‘‘ یہاں تک کہ سب لوگوں نے کھا لیا اورسیر ہوگئے۔ وہ ستر یا اسی لوگ تھے۔
تشریح:
فائدہ:
حضرت ابوطلحہ اور ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنھما کا مقصد آپﷺ کو کھانا پیش کرنا تھا۔ جو کھانا ان کے پاس موجود تھا وہی انہوں نے کپڑے میں لپیٹ کر رسول اللہ ﷺ کو بھجوا دیا۔ انہوں نے سوچا اسی طرح آپ کی دعوت کرسکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے بکمال شفقت یہ فیصلہ فرمایا کہ یہی کھانا ان کے ہاں جا کر کھایا جائے اور ان کو بھی شامل کیا جائے۔ اس طرح حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے کھانا بھجوانے کا یہ عمل دعوت (کھانے کی طرف بلاوا) بن گیا۔ اگلی حدیث میں اسی بات کو دعوت کی الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
کتاب الاشربہ اپنےمعانی کےاعتبارسےایک وسیع المطالب کتاب ہے۔ مشروبات میں حلال وحرام مشروبات کی تفصیل،شراب کےنقصانات ،وہ حالات جن میں شراب کوحتمی طورپرحرام قراردیاگیا،صحابہ کاجذبہ اطاعت مختلف چیزوں سےبننےوالی شرابوں کی مشرکہ صفت اورمضرت،اس سےمکمل اجتناب کےلیے مشروب سازی اوربرتنوں تک کےحوالےسےاحتیاطی احکام،حلال مشروبات کےحوالےسےصحت کےلیے ضروری احتیاطی تدابیر،پینےاور کھانےدونوں کےمعاشرتی اورروحانی آداب،حلت وحرمت کےحوالےسےاوہام پرمبنی تصورات،شخصی ناپسندیدگی اورحرمت،کھانےپینےمیں موسات اوربرکت،اس کتاب میں ان تمام موضوعات کےحوالےسےرہنمائی کےلیے ارشادات نبویہ پیش کیےگئےہیں۔
کتاب کاآغازاس افسوسناک واقعےسےکیاگیاہےجوحضرت حمزہکی شراب نوشی کی بناپرحضرت علیاورخود رسالت مآبﷺکوپیش آیا۔ حضرت حمزہ شراب نوشی کی ایک مجلس میں شریک ہوئے،گانےوالی نے شراب کےنتیجےمیں پیداہونےوالی خودفریبی اوراپنی عظمت وسخاوت کےانتہائی مبالغہ آمیزاحساس کومزیداجاگرکیا اورباہربیٹھیں حضرت علیکی دواونٹنیوں کے،جوان کی کل متاع تھیں،کباب کھلانےکی تان اڑائی۔شراب اپنےپینےوالوں کےاحساس عظمت کواتنابڑھادیتی ہےکہ عقل ودانش کی جملہ قیودٹوٹ جاتی ہیں۔ حضرت حمزہ نےگانےوالی کےالفاظ کےعین مطابق اپنی تلواراٹھائی اوران اونٹنیوں کی کوہانیں کاٹیں، پیٹ چاک کیے،کلیجےنکالے اورکباب بنانےوالوں کےحوالےکردیے۔ حضرت علیشدیدصدمےکےعالم میں رسول اللہﷺکےپاس آئے، ان کی بات سن کرآپ ﷺچل کرحمزہکےپاس توپتہ چلاکہ حضرت حمزہشراب کےنشےمیں پہچان اورتمیزتک کھوچکےہیں۔ شراب کی حرمت کےتدریجی مراحل کاآغازہوچکاتھا۔ یہ واقعہ پورےمدینہ والوں کی آنکھیں کھول دینےاورشراب کےشدیدنقصان کوپوری طرح واضح کرنےکےلیے کافی تھا۔ اس کےنتیجےمیں شراب کی حتمی حرمت کااعلان کردیاگیا۔ یہ ایمان لانےوالوں کےلیے ایک سخت امتحان تھا۔ یہ رسول اللہﷺکی بےمثال تربیت اوراس کےنتیجےمیں حاصل ہونےوالی ایمان کی مضبوطی تھی کہ شراب کی حرمت کےاعلان کےساتھ ہی شراب چھوڑدی گئی،مٹکےتوڑدیےگئےاورشراب کوگلیوں میں بہادیاگیا۔ یہ اہل ایمان کی عظیم الشان کامیابی تھی۔
اللہ کی رہنمائی کابنیادی مقصدیہ ہےکہ انسان اپنےخالق اورحقیقی مالک کوپہچانے،اپنےبرےبھلےمیں تمیزکرے،اس کےازلی دشمن شیطان نےاس کوتباہ کرنےکےلیےجوفریب کےجال پھیلارکھےہیں ان کےدھوکےمیں نہ آئے، اپنی حقیقی کامیابی کےمقصدسےغافل نہ ہو۔ شراب اس سےپہچان اورتمیزچھین کراسےاپنےسب سےبڑےدشمن کا شکاربننےکےلیے تیارکردیتی ہے۔ یہ شیطان کاسب سےخوفناک پھنداہےجس کےذریعےسےانسان کی تباہی یقینی ہوجاتی ہے،اس لیے شراب چاہےجس چیزکی بنی ہوئی ہواورجس نام سےہواس کوپوری سختی سےحرام کردیاگیااور اس سےاجتناب کویقینی بنانےکےلیے ان ذرائع کوبھی مسدودکیاگیاجوانسان کواس تک لےجاسکتےہیں۔
اس زمانےمیں حجازکےعلاقےمیں شراب’’نخلہ‘‘(کھجورکےدرخت)اور’’کرمہ‘‘(انگورکی بیل)کےپھلوں سے بنتی تھی۔ شراب بنانےکےلیے نیم پختہ کھجوراورتازہ کھجورکویانیم پختہ کھجوراورخشک کھجورکویاکھجوراورکشمش کوملاکرپانی میں اس کارس نکالاجاتاتھا، پھراسےرکھاجاتاحتی کہ اس میں تخمیرکاعمل ہوتااوروہ شراب بن جاتی۔ مختلف قسم کےکچے،پکےتازہ اورخشک پھلوں کارس ملانےسےاس میں تندی آجاتی اورجلدتخمیرکاعمل شروع ہوجاتا۔ یمن میں شہدکےشربت سےشراب بنائی جاتی تھی جسے’’بتع‘‘کہتےتھے۔ جوسےبھی شراب بنائی جاتی تھی،اسے’’مزر‘‘کہتے تھے۔ رسول اللہﷺنےاس سےقطع نظرکہ وہ کسی چیزسےبنی ہوئی ہیں،تمام شرابوں کوحرام قراردیابلکہ صریح الفاظ میں ہرقسم کی نشہ آورچیزکی حرمت کااعلان فرمایادیا۔ قاعدہ کلیہ یہ بیان فرمایا(كُلَّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَكُلَّ مُسْكِرٍحَرَامٌ)’’ہرنشہ آورچیزخمر(شراب)ہےاورہرنشہ آورچیزحرام ہے۔‘‘(حدیث:5218)
کھجورکوپانی میں ملاکراس کابنایاہواشربت’’نبیذ‘‘عربوں کوبہت مرغوب تھالیکن اس شربت پرتھوڑاساوقت گزرجاتا توعمل تخمیرسےیہ نشہ آوربن جاتا۔ اگراسےمسامداربرتنوں میں بنایاجاتاتواستعمال کےبعد،دھونےکےباوجودان برتنوں کےمساموں میں اس کےاجزاءرہ جاتےاوران کاخمیربن جاتا۔ ان برتنوں میں دوبارہ رس ڈالنےکےبعدتخمیر کاعمل عمل فوراشروع ہوجاتااورنبیذنشہ آورہونےلگتی۔ رسول اللہﷺنےاللہ نےحکم سےاپنی امت کواس غلاظت سےمکمل طورپرمحفوظ رکھنےکےلیے یہ حکم دیاکہ ایک ہی قسم کےکچےاورپکےبرتنوں کااستعمال ممنوع قراردیاجن میں شراب بنائی جاتی تھی۔ اگرشراب نہ بنائی گئی ہوتوبھی مسامداربرتنوں میں مشروب بنانےکی ممانعت فرمادی۔ ان برتنوں میں سوکھےکدوکوکھوکھلاکرکےبنائےہوئےبرتن،لکڑی کےبرتن،روغن قارملےہوئےبرتن اورمٹی کےگھڑےوغیرہ شامل تھے۔ مشکیزوں میں نبیذبنانےکی اجازت دی کیونکہ ان میں تخمیرکاعمل جلدشروع نہیں ہوتا۔ برتنوں کےحوالےسےیہ پابندی کچھ عرصہ برقراررہی،جب یقین ہوگیاکہ شراب بنانےوالےپرانے برتن ختم ہوگئےیاان کےاندرسے’’خمیر‘‘کےاجزاءمکمل طورپرزائل ہوگئےتوان کےعام استعمال کی اجازت مرحمت فرمادی۔ یہ تاکیدی حکم باقی رہاکہ کسی حلال مشروب(نبیذ،پھلوں کےرس وغیرہ)کواسی وقت تک استعمال کرناجائزہےجب تک ان میں تخمیرکاعمل شروع ہونےکاامکان ہی پیدانہ ہواہو۔ اورمسامداربرتنوں ،مثلا:روغن قارملےہوئےبرتنوں میں نبیذبنانےکی پابندی بھی برقراررہی۔ (حدیث:5210)
اسلام نےمضرصحت نشہ آورمشروبات کی ممانعت کےساتھ صحت بخش مشروبات خصوصادودھ پینےکی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ صحت کےحوالےسےیہ ہدایت بھی دی کہ کھانےپینےکی تمام اشیاءکی ہرصورت میں ڈھک کررکھاجائے۔ کھانےپینےکی اشیاءاللہ تعالیٰ کی قدرت،رحمت اورلطف وکرم کاخاص کرشمہ ہیں۔ اللہ نےانہیں اس طرح پیدافرمایاہےکہ یہ انسان کےجسم کوصحت اورتوانائی بخشتی ہیں اوراس کےساتھ مزےسےبھرپورہیں۔ یہ انسان کےکام ودہن کولذت بخشتی ہیں اورپھرکےحکم سےاس کےجسم کاحصہ بن جاتی ہیں۔ رسول اللہﷺ نےاپنی امت کواس بات کی تعلیم دی ہےکہ اگریہ اللہ کےحکم کےمطابق،انہیں اس کی نعمت سمجھتےہوئے،پاکیزگی کااہتمام کرتےہوئےاورا س کانام لےکراستعمال کریں تواللہ تعالیٰ ان میں برکت شامل کردیتاہے۔ اس عظیم روحانی پہلوپرصحیح مسلم کےکتاب الاشربۃ میں تفصیل سےروشنی ڈالی گئی ہے۔ بےبرکتی کےاسباب واضح کیےگئےہیں۔ پاکیزگی کےحوالےسےدایاں ہاتھ استعمال کرنے،برتن میں سانس نہ لینے،برتنوں کوگندانہ کرنے،اطمینان اورآرام سےبیٹھ کرکھانےپینےاورپانی وغیرہ پیتےہوئےبارباربرتن سےمنہ ہٹاکرسانس لینےاورکانام لےکرکھانےپینےکی تعلیم دی گئی ہے۔ ا س بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہےکہ کھانےکی ادنیٰ ترین مقداربھی ضائع نہیں کرنی چاہیے،کھانےکابرتن اچھی طرح صاف کرناچاہیےاورانگلیاں چاٹ لینی چاہئیں ،اس میں برکت ہے۔ مغرب زدہ متکبرین انگلیاں چاٹنےکوبراسمجھتےرہے۔ اب جدیدسائنس نےہی،جسےیہ لوگ علم کی انتہاسمجھتےہیں،ان کی سوچ کی غلطی واضح کرتےہوئےیہ شہادت پیش کردی ہےکہ انگلیوں سےکھاناکھاتےہوئےان کی سطح پرایسامادہ پیداہوجاتاہےجوکھانےکےاندرمضرصحت جراثیم کوختم کردیتاہے۔ انگلیاں چاٹ لیناانتہائی صحت بخش طریقہ ہے۔ اس بات کی بھی تعلیم دی گئی کہ صاف دھلےہوئےدائیں ہاتھ سےکھاناچاہیے۔ اوراپنےآگےسےکھاناچاہیے۔ انگوٹھےکےساتھ دوانگلیاں استعمال کرنی چاہئیں ۔کھجوروغیرہ کھاکراس کی گٹھلیاں دوبارہ اسی برتن میں نہیں ڈالنی چاہئیں کسی کھانےمیں عیب جوئی نہیں کرنی چاہیےاورحلال چیزوں میں بھی نفیس ترین اوربوسےپاک اشیاءکوترجیح دینی چاہیے۔
اس سےآگےبڑھ کریہ واضح کیاگیاہےکہ مذکورہ بالاتمام ہدایات کی پابندی کےساتھ اگراللہ کی رضاکےلیے کھانےمیں مواسات،زیادہ سےزیادہ لوگوں کوشریک کرنے،خودپردوسروں کوترجیح دینےکاارادہ اوراس پرعمل کیاجائےتوکھانےمیں ایسی برکت پیداہوجاتی ہےکہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ رسول اللہﷺتومواسات سےبڑھ کرامت کےتمام افرادکےلیے مجسم محبت خیرخواہی اورلطف وکرم کاسرچشمہ تھے۔ آپ کی برکت سےدوچارلوگوں کاکھانایاپیناتوسیکڑوں بلکہ ہزاروں افرادکوسیرکردیتاتھا،پھربھی بچارہتاتھا،عام مسلمان بھی جب دوسرےبھائیوں کواپنےساتھ شریک کریں توایک آدمی کاکھاناکم ازکم دوکواوردوآدمیوں کاکھاناچارکوبہ آسانی کفایت کرےگا۔ مواسات کاجذبہ اوراخلاص جس قدربڑھتاجائےگا، برکت میں اسی قدراضافہ ہوجائےگا۔
حضرت ابوبکرصدیقاس بات پرسخت پریشان ہوئےاورانہیں غصہ آیاکہ ان کی ناگریزغیرحاضری کےدوران میں ان کےمہمان بہت دیرتک بھوکےرہے۔ اس میں اگرچہ مہمانوں کےاپنےاصرارہی کادخل تھالیکن حضرت ابوبکرکی پریشانی اورغصہ اللہ کی رضاکےلیےتھا۔ اپنےمہمانوں کی شدیدخیرخواہی کاجذبہ بھی اللہ کی رضاکےلیے تھا۔ یہ صرف اورصرف اللہ کےلیے خیرخواہی اوراللہ کےلیے غصےکامظاہرہ تھا۔ اس بناپراللہ نےان کےتھوڑےسےکھانےمیں اتنی برکت ڈال دی کہ مہمانوں اورگھروالوں کےعلاوہ وہ اللہ کی راہ میں جہادکےلیے جانےوالوں کےبھی کام آیا۔
اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے کہا کہ انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: حضرت ابوطلحۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کی آواز سنی ہے کمزورتھی۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کو بھوک لگی ہے۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں، پھر انھوں نے جو کی کچھ روٹیاں نکالیں، پھر اپنی اوڑھنی لی اس کے ایک حصے میں روٹیاں لپیٹیں، پھر ان کو میرے کپڑوں کے نیچے چھپا دیا اور اس (اوڑھنی) کا بقیہ حصہ چادر کی طرح میرے اوپر ڈال دیا، پھر مجھے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھیج دیا۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں ان روٹیوں کو لے کر گیا، میں نے رسول اللہ ﷺ کو مسجد میں بیٹھے پایا اور آپﷺ کے ساتھ دوسرے لوگ موجود تھے، میں ان کے پاس کھڑا ہوگیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمھیں ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھیجا ہے؟‘‘ میں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا کھانے کے لئے؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں۔ رسول اللہ ﷺ نے ا پنے ساتھیوں سے کہا: ’’چلو‘‘ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: حضور ﷺ روانہ ہوئے اور میں ان کے آگے آگے چل پڑا، یہاں تک کہ میں حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور ان کو بتایا۔ حضرت ابوطلحۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے: ام سلیم! رسول اللہ ﷺ (باقی) لوگوں سمیت آگئے ہیں، اور ہمارے پاس اتنا (کھانا) نہیں ہے کہ ان کو کھلا سکیں۔ انھوں نے کہا: اللہ اور اسکا رسول ﷺ زیادہ جاننے والے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: پھر حضرت ابوطلحۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے بڑھے اور (جاکر) رسول اللہ ﷺ سے ملے۔ رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ آئے اور وہ دونوں گھر میں داخل ہوگئے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ام سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ لے آؤ۔‘‘ وہ یہی روٹیاں لے آئیں، رسول اللہ ﷺ نے ان کے بارے میں حکم دیا، ان (روٹیوں) کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کردیئے گئے۔ ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اپنا گھی کا کپہ (چمڑے کا گول برتن) ان (روٹیوں) پر نچوڑ کر سالن شامل کردیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے اس میں جو کچھ اللہ نے چاہا پڑھا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’دس آدمیوں کو آنے کی اجازت دو۔‘‘ انھوں (ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے دس آدمیوں کو اجازت دی، انھوں نے کھانا کھایا حتیٰ کہ سیر ہوگئے اور باہر چلے گئے، آپ ﷺ نے پھر فرمایا: ’’دس آدمیوں کو اجازت دو۔‘‘ انھوں نے اجازت دی، ان سب نے کھایا سیر ہوگئے اور باہر چلے گئے، آپ ﷺ نے پھر فرمایا: ’’دس آدمیوں کو اجازت دو‘‘ یہاں تک کہ سب لوگوں نے کھا لیا اورسیر ہوگئے۔ وہ ستر یا اسی لوگ تھے۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
حضرت ابوطلحہ اور ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنھما کا مقصد آپﷺ کو کھانا پیش کرنا تھا۔ جو کھانا ان کے پاس موجود تھا وہی انہوں نے کپڑے میں لپیٹ کر رسول اللہ ﷺ کو بھجوا دیا۔ انہوں نے سوچا اسی طرح آپ کی دعوت کرسکتے ہیں۔ آپ ﷺ نے بکمال شفقت یہ فیصلہ فرمایا کہ یہی کھانا ان کے ہاں جا کر کھایا جائے اور ان کو بھی شامل کیا جائے۔ اس طرح حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے کھانا بھجوانے کا یہ عمل دعوت (کھانے کی طرف بلاوا) بن گیا۔ اگلی حدیث میں اسی بات کو دعوت کی الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمزور آواز سنی ہے، جس سے میں نے بھوک محسوس کی ہے تو کیا تیرے پاس کچھ ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں، تو اس نے جو کی کچھ روٹیاں پیش کیں، پھر اپنی اوڑھنی لی، اور اس کے کچھ حصہ میں روٹیاں لپیٹ دیں، پھر اسے میرے کپڑے کے نیچے چھپا دیا اور اوڑھنی کا باقی حصہ مجھ پر ڈال دیا، پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیج دیا، میں اس کو لے کر چلا گیا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں بیٹھے پایا اور لوگ بھی آپ کے ساتھ تھے، میں جا کر ان کے پاس ٹھہر گیا، (کہ اب کیسے پیش کروں) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا تجھے ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھیجا ہے؟‘‘ میں نے کہا: جی ہاں، آپﷺ نے پوچھا ’’کیا کھانے کے لیے؟‘‘ اس نے کہا: جی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: ’’اٹھو۔‘‘ آپﷺ چل پڑے اور میں ان کے آگے چل پڑا، حتی کہ ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچ گیا اور انہیں صورت حال سے آگاہ کیا، ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہنے لگے، اے ام سلیم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ساتھیوں سمیت آ رہے ہیں اور ہمارے پاس ان کو کھلانے کا انتظام نہیں ہے، ام سلیم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں، حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ چل پڑے حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا ملے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ آگے بڑھے، حتی کہ دونوں گھر میں داخل ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ام سلیم! جو کچھ تیرے پاس ہے لاؤ۔‘‘ تو اس نے وہ روٹیاں پیش کیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا حکم دیا، ایسا کیا گیا، حضرت ام سلیم نے ان ٹکڑوں پر کُپہ (چمرے کا گول برتن) نچوڑا اور ان کو سالن والی بنا دیا، پھر ان پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دعا پڑھی جو اللہ کو منظور تھی، پھر فرمایا: ’’دس کو اجازت دو۔‘‘ انہوں نے انہیں اجازت دی، انہوں نے کھایا، حتی کہ سیر ہو کر نکل گئے، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’دس کو اجازت دو۔‘‘ حتی کہ تمام لوگوں نے کھایا اور سیر ہو گئے، لوگوں کی تعداد ستر (70) یا اَسی (80) تھی۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے بھی صحابہ کرام کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق خاطر معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس طرح آپ ﷺکے چہرے، آپ کی آواز یا بیٹھنے اٹھنے کے انداز سے آپ کی بھوک پہچان لیتے تھے اور پھر اس کو دور کرنے کی کوشش کرتے، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے کہنے پر حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ بحفاظت، چھپا کر روٹیاں بھیجیں اور آپ چونکہ مسجد میں دوسرے ساتھیوں کے ساتھ تشریف فرما تھے، اس لیے حضرت انس رضی اللہ عنہ روٹیاں پیش کرنے سے ہچکچائے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انس رضی اللہ عنہ کی اس طرح آمد سے سمجھ گئے کہ وہ کچھ ہدیہ لائے ہیں اور یہاں بھی آپ نے کھانے میں اضافہ کے معجزہ کے اظہار کے لیے ساتھیوں کو ساتھ چلنے کے لیے کہا اور چونکہ یہ روٹیاں ہی آپ کی حضرت ابوطلحہ کے گھر میں آمد کا باعث بنی تھیں، اس لیے بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ ابوطلحہ اور ام سلیم رضی اللہ عنہا نے آپ کو گھر کھانے کی دعوت دی تھی اور اس واقعہ میں بھی حضرت ام سلیم کی ذہانت و فطانت اور آپ پر یقین و اعتماد کا اظہار ہوتا ہے کہ جب آپ سب ساتھیوں کو لا رہے ہیں تو ان کے کھانے کا بھی انتظام فرمائیں گے، ہمیں پریشانی میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas bin Malik (RA) reported that Abu Talha said to Umm Sulaim: I felt some feebleness in the voice of Allah's Messenger (ﷺ) and perceived that it was due to hunger; so have you anything with you? She said: Yes. She brought out barley loaves, then took out a head-covering of hers, in a part of which she wrapped those loaves and then put them beneath my mantle and covered me with a part of it. She then sent me to Allah's Messenger (ﷺ) . I set forth and found Allah's Messenger (ﷺ) sitting in the mosque in the company of some persons. I stood near them, whereupon Allah's Messenger (ﷺ) said: Has Abu Talha sent you? I said, Yes. He said: Is it for a feast? I said. Yes. Thereupon Allah's messenger (ﷺ) said to those who were with him to get up. He went forth and so I did before them, until I came to Abu Talha and informed him. Abu Talba said: Umm Sulaim, here comes Allah's Messenger (ﷺ) along with people and we do not have enough (food) to feed them. She said: Allah and His Messenger know best. Abu Talha went out (to receive him) until he met Allah's Messenger (ﷺ) and Allah's Apostle (ﷺ) came forward along with him until they both (Allah's Messenger, along with Abu Talha) came in. Then Allah's Messenger (ﷺ) said: Umm Sulaim, bring forth that which you have with you. She brought the bread. Allah's Messenger (ﷺ) commanded that the bread be broken into small pieces, and when Umm Sulaim had squeezed a small waterskin and put seasoning on it, Allah's Messenger (ﷺ) recited something regarding it what Allah wished him to say. He then said: Allow ten (guests to come in and have their meals). He permitted them; they ate until they had their fill. They then went out. He (the Holy Prophet) again said: Permit ten (more) and he (the host gave permission to them. They ate until they had enough. Then they went out. he again said: Permit ten (more) until all the people had eaten to their fill, and they were seventy or eighty persons.