باب: مہمان کی عزت افزائی اور اسے اپنی ذات پر ترجیح دینا
)
Muslim:
The Book of Drinks
(Chapter: Honoring guests and the virtue of showing preference to one's guest)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2057.
معتمر بن سلیمان کے والد نے کہا: ہمیں ابوعثمان نے حدیث بیان کی کہ انھیں حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حدیث بیان کی کہ اصحاب صفہ فقراء لوگ تھے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تین (تیسرے، صحیح بخاری: 602) کو لے جائے۔ اور جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں، چھٹے کو لے جائے‘‘ یا جس طرح آپ ﷺ نے فرمایا۔ حضرت ابوبکر رضی اللی تعالیٰ عنہ تین آدمیوں کو لے آئے اور رسول اللہ ﷺ دس آدمیوں کو لے گئے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر میں، میں، میرے والد اور میری والدہ تھیں۔ (ابو عثمان نہدی نے کہا) اور مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ انھوں نے یہ بھی کہا تھا اور میری بیوی تھی اور میرے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کا ایک مشترک خادم تھا، انھوں نے کہا: حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے شام کا کھانا رسول اللہ کا ساتھ کھایا، پھر آپ کے پاس ہی رکے رہے حتی کہ عشاء کی نماز پڑھ لی گئی، پھر لوٹے اور آپﷺ کے پاس ٹھہرے، حتی کہ رسول اللہﷺ کو نیند آنے لگی، پھر رات کا اتنا حصہ گزرنے کے بعد، جتنا اللہ کومنظور تھا حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ گھر آئے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے ان کی بیوی نے کہا: آپ اپنے مہمانوں کو یا کہا: مہمان کو چھوڑکرکہاں رک گئے تھے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: کیا تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا؟ بیوی نے کہا: انھوں نے آپ کے بغیر کھانے سے انکار کر دیا، انھوں نے ان کے سامنے کھانا پیش کیا، (مگر) وہ (انکار کر کے) ان پر غالب رہے۔ حضرت حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں (ڈر سے) جا کر چھپ گیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اوجاہل! ناک کٹے! (انھیں شرم دلائی) اور برا بھلا کہا۔ اور مہمانوں سے کہا: کھانا کھاؤ، یہ کھانا کسی مزے کا نہیں (کہ وقت پر نہیں کھایا گیا) اور کہا: (تم میرا انتظار کرتے رہے ہو لیکن) اللہ کی قسم! میں (یہ کھانا) کبھی نہیں کھاؤں گا۔ (حضرت عبدالرحمان نے) کہا: اللہ ک قسم! ہم لوگ جو بھی لقمہ لیتے تھے، نیچے سے اس کی نسبت زیادہ کھانا اوپر آ جاتا۔ کہا: یہاں تک کہ ہم سیر ہو گئے اور کھانا پہلےسے زیادہ ہو گیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے کھانے کو دیکھا تو وہ پہلے جتنا بلکہ اس سے کہیں زیادہ تھا، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی بیوی سے کہا: بنوفراس کی بہن! یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: مجھے میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم! یہ کھانا جتنا پہلےتھا اس سے تین گنا زیادہ (ہوگیا) ہے۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کھانے میں سے کھایا اور کہا: وہ شیطان کی طرف سے تھی، یعنی قسم (کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے) پھر انھوں نے اس میں سے ایک لقمہ اور کھایا۔ پھر اسے اٹھا کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے، وہ کھانا آپ کے پاس صبح تک پڑا رہا، ان دنوں ایک قوم کے ساتھ ہمارا معاہدہ تھا اور اب وہ مدت ختم ہو چکی تھی، ہم (مسلمانوں) نے بارہ آدمی تقسیم کیے (الگ الگ دستوں کے سربراہ مقرر کیے) ان میں سے ہر آدمی کے ساتھ (ماتحت) اور (بہت سے) لوگ تھے، اللہ زیادہ جانتا ہے کہ ہر آدمی کے ساتھ کتنے تھے، آپ نے وہ کھانا ان کے ساتھ روانہ کر دیا اور ان سب نے وہ کھانا کھایا۔ یا جس طرح انھوں نے بیان کیا۔
کتاب الاشربہ اپنےمعانی کےاعتبارسےایک وسیع المطالب کتاب ہے۔ مشروبات میں حلال وحرام مشروبات کی تفصیل،شراب کےنقصانات ،وہ حالات جن میں شراب کوحتمی طورپرحرام قراردیاگیا،صحابہ کاجذبہ اطاعت مختلف چیزوں سےبننےوالی شرابوں کی مشرکہ صفت اورمضرت،اس سےمکمل اجتناب کےلیے مشروب سازی اوربرتنوں تک کےحوالےسےاحتیاطی احکام،حلال مشروبات کےحوالےسےصحت کےلیے ضروری احتیاطی تدابیر،پینےاور کھانےدونوں کےمعاشرتی اورروحانی آداب،حلت وحرمت کےحوالےسےاوہام پرمبنی تصورات،شخصی ناپسندیدگی اورحرمت،کھانےپینےمیں موسات اوربرکت،اس کتاب میں ان تمام موضوعات کےحوالےسےرہنمائی کےلیے ارشادات نبویہ پیش کیےگئےہیں۔
کتاب کاآغازاس افسوسناک واقعےسےکیاگیاہےجوحضرت حمزہکی شراب نوشی کی بناپرحضرت علیاورخود رسالت مآبﷺکوپیش آیا۔ حضرت حمزہ شراب نوشی کی ایک مجلس میں شریک ہوئے،گانےوالی نے شراب کےنتیجےمیں پیداہونےوالی خودفریبی اوراپنی عظمت وسخاوت کےانتہائی مبالغہ آمیزاحساس کومزیداجاگرکیا اورباہربیٹھیں حضرت علیکی دواونٹنیوں کے،جوان کی کل متاع تھیں،کباب کھلانےکی تان اڑائی۔شراب اپنےپینےوالوں کےاحساس عظمت کواتنابڑھادیتی ہےکہ عقل ودانش کی جملہ قیودٹوٹ جاتی ہیں۔ حضرت حمزہ نےگانےوالی کےالفاظ کےعین مطابق اپنی تلواراٹھائی اوران اونٹنیوں کی کوہانیں کاٹیں، پیٹ چاک کیے،کلیجےنکالے اورکباب بنانےوالوں کےحوالےکردیے۔ حضرت علیشدیدصدمےکےعالم میں رسول اللہﷺکےپاس آئے، ان کی بات سن کرآپ ﷺچل کرحمزہکےپاس توپتہ چلاکہ حضرت حمزہشراب کےنشےمیں پہچان اورتمیزتک کھوچکےہیں۔ شراب کی حرمت کےتدریجی مراحل کاآغازہوچکاتھا۔ یہ واقعہ پورےمدینہ والوں کی آنکھیں کھول دینےاورشراب کےشدیدنقصان کوپوری طرح واضح کرنےکےلیے کافی تھا۔ اس کےنتیجےمیں شراب کی حتمی حرمت کااعلان کردیاگیا۔ یہ ایمان لانےوالوں کےلیے ایک سخت امتحان تھا۔ یہ رسول اللہﷺکی بےمثال تربیت اوراس کےنتیجےمیں حاصل ہونےوالی ایمان کی مضبوطی تھی کہ شراب کی حرمت کےاعلان کےساتھ ہی شراب چھوڑدی گئی،مٹکےتوڑدیےگئےاورشراب کوگلیوں میں بہادیاگیا۔ یہ اہل ایمان کی عظیم الشان کامیابی تھی۔
اللہ کی رہنمائی کابنیادی مقصدیہ ہےکہ انسان اپنےخالق اورحقیقی مالک کوپہچانے،اپنےبرےبھلےمیں تمیزکرے،اس کےازلی دشمن شیطان نےاس کوتباہ کرنےکےلیےجوفریب کےجال پھیلارکھےہیں ان کےدھوکےمیں نہ آئے، اپنی حقیقی کامیابی کےمقصدسےغافل نہ ہو۔ شراب اس سےپہچان اورتمیزچھین کراسےاپنےسب سےبڑےدشمن کا شکاربننےکےلیے تیارکردیتی ہے۔ یہ شیطان کاسب سےخوفناک پھنداہےجس کےذریعےسےانسان کی تباہی یقینی ہوجاتی ہے،اس لیے شراب چاہےجس چیزکی بنی ہوئی ہواورجس نام سےہواس کوپوری سختی سےحرام کردیاگیااور اس سےاجتناب کویقینی بنانےکےلیے ان ذرائع کوبھی مسدودکیاگیاجوانسان کواس تک لےجاسکتےہیں۔
اس زمانےمیں حجازکےعلاقےمیں شراب’’نخلہ‘‘(کھجورکےدرخت)اور’’کرمہ‘‘(انگورکی بیل)کےپھلوں سے بنتی تھی۔ شراب بنانےکےلیے نیم پختہ کھجوراورتازہ کھجورکویانیم پختہ کھجوراورخشک کھجورکویاکھجوراورکشمش کوملاکرپانی میں اس کارس نکالاجاتاتھا، پھراسےرکھاجاتاحتی کہ اس میں تخمیرکاعمل ہوتااوروہ شراب بن جاتی۔ مختلف قسم کےکچے،پکےتازہ اورخشک پھلوں کارس ملانےسےاس میں تندی آجاتی اورجلدتخمیرکاعمل شروع ہوجاتا۔ یمن میں شہدکےشربت سےشراب بنائی جاتی تھی جسے’’بتع‘‘کہتےتھے۔ جوسےبھی شراب بنائی جاتی تھی،اسے’’مزر‘‘کہتے تھے۔ رسول اللہﷺنےاس سےقطع نظرکہ وہ کسی چیزسےبنی ہوئی ہیں،تمام شرابوں کوحرام قراردیابلکہ صریح الفاظ میں ہرقسم کی نشہ آورچیزکی حرمت کااعلان فرمایادیا۔ قاعدہ کلیہ یہ بیان فرمایا(كُلَّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَكُلَّ مُسْكِرٍحَرَامٌ)’’ہرنشہ آورچیزخمر(شراب)ہےاورہرنشہ آورچیزحرام ہے۔‘‘(حدیث:5218)
کھجورکوپانی میں ملاکراس کابنایاہواشربت’’نبیذ‘‘عربوں کوبہت مرغوب تھالیکن اس شربت پرتھوڑاساوقت گزرجاتا توعمل تخمیرسےیہ نشہ آوربن جاتا۔ اگراسےمسامداربرتنوں میں بنایاجاتاتواستعمال کےبعد،دھونےکےباوجودان برتنوں کےمساموں میں اس کےاجزاءرہ جاتےاوران کاخمیربن جاتا۔ ان برتنوں میں دوبارہ رس ڈالنےکےبعدتخمیر کاعمل عمل فوراشروع ہوجاتااورنبیذنشہ آورہونےلگتی۔ رسول اللہﷺنےاللہ نےحکم سےاپنی امت کواس غلاظت سےمکمل طورپرمحفوظ رکھنےکےلیے یہ حکم دیاکہ ایک ہی قسم کےکچےاورپکےبرتنوں کااستعمال ممنوع قراردیاجن میں شراب بنائی جاتی تھی۔ اگرشراب نہ بنائی گئی ہوتوبھی مسامداربرتنوں میں مشروب بنانےکی ممانعت فرمادی۔ ان برتنوں میں سوکھےکدوکوکھوکھلاکرکےبنائےہوئےبرتن،لکڑی کےبرتن،روغن قارملےہوئےبرتن اورمٹی کےگھڑےوغیرہ شامل تھے۔ مشکیزوں میں نبیذبنانےکی اجازت دی کیونکہ ان میں تخمیرکاعمل جلدشروع نہیں ہوتا۔ برتنوں کےحوالےسےیہ پابندی کچھ عرصہ برقراررہی،جب یقین ہوگیاکہ شراب بنانےوالےپرانے برتن ختم ہوگئےیاان کےاندرسے’’خمیر‘‘کےاجزاءمکمل طورپرزائل ہوگئےتوان کےعام استعمال کی اجازت مرحمت فرمادی۔ یہ تاکیدی حکم باقی رہاکہ کسی حلال مشروب(نبیذ،پھلوں کےرس وغیرہ)کواسی وقت تک استعمال کرناجائزہےجب تک ان میں تخمیرکاعمل شروع ہونےکاامکان ہی پیدانہ ہواہو۔ اورمسامداربرتنوں ،مثلا:روغن قارملےہوئےبرتنوں میں نبیذبنانےکی پابندی بھی برقراررہی۔ (حدیث:5210)
اسلام نےمضرصحت نشہ آورمشروبات کی ممانعت کےساتھ صحت بخش مشروبات خصوصادودھ پینےکی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ صحت کےحوالےسےیہ ہدایت بھی دی کہ کھانےپینےکی تمام اشیاءکی ہرصورت میں ڈھک کررکھاجائے۔ کھانےپینےکی اشیاءاللہ تعالیٰ کی قدرت،رحمت اورلطف وکرم کاخاص کرشمہ ہیں۔ اللہ نےانہیں اس طرح پیدافرمایاہےکہ یہ انسان کےجسم کوصحت اورتوانائی بخشتی ہیں اوراس کےساتھ مزےسےبھرپورہیں۔ یہ انسان کےکام ودہن کولذت بخشتی ہیں اورپھرکےحکم سےاس کےجسم کاحصہ بن جاتی ہیں۔ رسول اللہﷺ نےاپنی امت کواس بات کی تعلیم دی ہےکہ اگریہ اللہ کےحکم کےمطابق،انہیں اس کی نعمت سمجھتےہوئے،پاکیزگی کااہتمام کرتےہوئےاورا س کانام لےکراستعمال کریں تواللہ تعالیٰ ان میں برکت شامل کردیتاہے۔ اس عظیم روحانی پہلوپرصحیح مسلم کےکتاب الاشربۃ میں تفصیل سےروشنی ڈالی گئی ہے۔ بےبرکتی کےاسباب واضح کیےگئےہیں۔ پاکیزگی کےحوالےسےدایاں ہاتھ استعمال کرنے،برتن میں سانس نہ لینے،برتنوں کوگندانہ کرنے،اطمینان اورآرام سےبیٹھ کرکھانےپینےاورپانی وغیرہ پیتےہوئےبارباربرتن سےمنہ ہٹاکرسانس لینےاورکانام لےکرکھانےپینےکی تعلیم دی گئی ہے۔ ا س بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہےکہ کھانےکی ادنیٰ ترین مقداربھی ضائع نہیں کرنی چاہیے،کھانےکابرتن اچھی طرح صاف کرناچاہیےاورانگلیاں چاٹ لینی چاہئیں ،اس میں برکت ہے۔ مغرب زدہ متکبرین انگلیاں چاٹنےکوبراسمجھتےرہے۔ اب جدیدسائنس نےہی،جسےیہ لوگ علم کی انتہاسمجھتےہیں،ان کی سوچ کی غلطی واضح کرتےہوئےیہ شہادت پیش کردی ہےکہ انگلیوں سےکھاناکھاتےہوئےان کی سطح پرایسامادہ پیداہوجاتاہےجوکھانےکےاندرمضرصحت جراثیم کوختم کردیتاہے۔ انگلیاں چاٹ لیناانتہائی صحت بخش طریقہ ہے۔ اس بات کی بھی تعلیم دی گئی کہ صاف دھلےہوئےدائیں ہاتھ سےکھاناچاہیے۔ اوراپنےآگےسےکھاناچاہیے۔ انگوٹھےکےساتھ دوانگلیاں استعمال کرنی چاہئیں ۔کھجوروغیرہ کھاکراس کی گٹھلیاں دوبارہ اسی برتن میں نہیں ڈالنی چاہئیں کسی کھانےمیں عیب جوئی نہیں کرنی چاہیےاورحلال چیزوں میں بھی نفیس ترین اوربوسےپاک اشیاءکوترجیح دینی چاہیے۔
اس سےآگےبڑھ کریہ واضح کیاگیاہےکہ مذکورہ بالاتمام ہدایات کی پابندی کےساتھ اگراللہ کی رضاکےلیے کھانےمیں مواسات،زیادہ سےزیادہ لوگوں کوشریک کرنے،خودپردوسروں کوترجیح دینےکاارادہ اوراس پرعمل کیاجائےتوکھانےمیں ایسی برکت پیداہوجاتی ہےکہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ رسول اللہﷺتومواسات سےبڑھ کرامت کےتمام افرادکےلیے مجسم محبت خیرخواہی اورلطف وکرم کاسرچشمہ تھے۔ آپ کی برکت سےدوچارلوگوں کاکھانایاپیناتوسیکڑوں بلکہ ہزاروں افرادکوسیرکردیتاتھا،پھربھی بچارہتاتھا،عام مسلمان بھی جب دوسرےبھائیوں کواپنےساتھ شریک کریں توایک آدمی کاکھاناکم ازکم دوکواوردوآدمیوں کاکھاناچارکوبہ آسانی کفایت کرےگا۔ مواسات کاجذبہ اوراخلاص جس قدربڑھتاجائےگا، برکت میں اسی قدراضافہ ہوجائےگا۔
حضرت ابوبکرصدیقاس بات پرسخت پریشان ہوئےاورانہیں غصہ آیاکہ ان کی ناگریزغیرحاضری کےدوران میں ان کےمہمان بہت دیرتک بھوکےرہے۔ اس میں اگرچہ مہمانوں کےاپنےاصرارہی کادخل تھالیکن حضرت ابوبکرکی پریشانی اورغصہ اللہ کی رضاکےلیےتھا۔ اپنےمہمانوں کی شدیدخیرخواہی کاجذبہ بھی اللہ کی رضاکےلیے تھا۔ یہ صرف اورصرف اللہ کےلیے خیرخواہی اوراللہ کےلیے غصےکامظاہرہ تھا۔ اس بناپراللہ نےان کےتھوڑےسےکھانےمیں اتنی برکت ڈال دی کہ مہمانوں اورگھروالوں کےعلاوہ وہ اللہ کی راہ میں جہادکےلیے جانےوالوں کےبھی کام آیا۔
معتمر بن سلیمان کے والد نے کہا: ہمیں ابوعثمان نے حدیث بیان کی کہ انھیں حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے حدیث بیان کی کہ اصحاب صفہ فقراء لوگ تھے ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تین (تیسرے، صحیح بخاری: 602) کو لے جائے۔ اور جس کے پاس چار کا کھانا ہو وہ پانچویں، چھٹے کو لے جائے‘‘ یا جس طرح آپ ﷺ نے فرمایا۔ حضرت ابوبکر رضی اللی تعالیٰ عنہ تین آدمیوں کو لے آئے اور رسول اللہ ﷺ دس آدمیوں کو لے گئے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر میں، میں، میرے والد اور میری والدہ تھیں۔ (ابو عثمان نہدی نے کہا) اور مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ انھوں نے یہ بھی کہا تھا اور میری بیوی تھی اور میرے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کا ایک مشترک خادم تھا، انھوں نے کہا: حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے شام کا کھانا رسول اللہ کا ساتھ کھایا، پھر آپ کے پاس ہی رکے رہے حتی کہ عشاء کی نماز پڑھ لی گئی، پھر لوٹے اور آپﷺ کے پاس ٹھہرے، حتی کہ رسول اللہﷺ کو نیند آنے لگی، پھر رات کا اتنا حصہ گزرنے کے بعد، جتنا اللہ کومنظور تھا حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ گھر آئے تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے ان کی بیوی نے کہا: آپ اپنے مہمانوں کو یا کہا: مہمان کو چھوڑکرکہاں رک گئے تھے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: کیا تم نے ان کو کھانا نہیں کھلایا؟ بیوی نے کہا: انھوں نے آپ کے بغیر کھانے سے انکار کر دیا، انھوں نے ان کے سامنے کھانا پیش کیا، (مگر) وہ (انکار کر کے) ان پر غالب رہے۔ حضرت حضرت عبدالرحمن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں (ڈر سے) جا کر چھپ گیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اوجاہل! ناک کٹے! (انھیں شرم دلائی) اور برا بھلا کہا۔ اور مہمانوں سے کہا: کھانا کھاؤ، یہ کھانا کسی مزے کا نہیں (کہ وقت پر نہیں کھایا گیا) اور کہا: (تم میرا انتظار کرتے رہے ہو لیکن) اللہ کی قسم! میں (یہ کھانا) کبھی نہیں کھاؤں گا۔ (حضرت عبدالرحمان نے) کہا: اللہ ک قسم! ہم لوگ جو بھی لقمہ لیتے تھے، نیچے سے اس کی نسبت زیادہ کھانا اوپر آ جاتا۔ کہا: یہاں تک کہ ہم سیر ہو گئے اور کھانا پہلےسے زیادہ ہو گیا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کے کھانے کو دیکھا تو وہ پہلے جتنا بلکہ اس سے کہیں زیادہ تھا، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی بیوی سے کہا: بنوفراس کی بہن! یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: مجھے میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم! یہ کھانا جتنا پہلےتھا اس سے تین گنا زیادہ (ہوگیا) ہے۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کھانے میں سے کھایا اور کہا: وہ شیطان کی طرف سے تھی، یعنی قسم (کہ وہ کھانا نہیں کھائیں گے) پھر انھوں نے اس میں سے ایک لقمہ اور کھایا۔ پھر اسے اٹھا کر رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے، وہ کھانا آپ کے پاس صبح تک پڑا رہا، ان دنوں ایک قوم کے ساتھ ہمارا معاہدہ تھا اور اب وہ مدت ختم ہو چکی تھی، ہم (مسلمانوں) نے بارہ آدمی تقسیم کیے (الگ الگ دستوں کے سربراہ مقرر کیے) ان میں سے ہر آدمی کے ساتھ (ماتحت) اور (بہت سے) لوگ تھے، اللہ زیادہ جانتا ہے کہ ہر آدمی کے ساتھ کتنے تھے، آپ نے وہ کھانا ان کے ساتھ روانہ کر دیا اور ان سب نے وہ کھانا کھایا۔ یا جس طرح انھوں نے بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اصحاب صفہ محتاج لوگ تھے، ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہے، وہ تین کو لے اور جس کے پاس چار کا کھانا، وہ پانچواں چھٹا لے جائے۔‘‘ یا جو آپﷺ نے فرمایا: اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین افراد کو لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس افراد کو لے گئے اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تین افراد لائے، کیونکہ گھر میں میں، میرا باپ اور میری ماں تھے، (اور عبدالرحمٰن کے شاگرد کہتے ہیں) میں نہیں جانتا، کیا انہوں نے کہا، میری بیوی اور ہمارے دونوں گھروں کا مشترکہ خادم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام کا کھانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کھایا، پھر عشاء کی نماز پڑھنے تک وہیں ٹھہرے رہے، پھر دوبارہ وہیں آئے، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سونے لگے اور جس قدر اللہ کو منظور تھا، اتنی رات گزرنے کے بعد آئے، ان کی بیوی نے ان سے کہا، اپنے مہمانوں یا مہمان سے کیوں رکے رہے؟ انہوں نے پوچھا کہ یا تم نے ان کو شام کا کھانا نہیں کھلایا؟ اس نے کہا: انہوں نے آپ کی آمد تک انکار کیا، گھر والوں نے ان کے سامنے پیش کیا تھا اور وہ اپنی بات پر ڈٹے رہے، عبدالرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں، میں جا کر چھپ گیا، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: اے احمق، نادان، تیری ناک کٹے اور برا بھلا کہا اور مہمانوں کو کہا: کھاؤ، یہ تمہارے لیے خوش گوار نہ ہو اور کہا: اللہ کی قسم! میں کبھی بھی اس کو نہیں کھاؤں گا اور اللہ کی قسم! ہم جو لقمہ اٹھاتے، اس سے زیادہ نیچے سے ابھر آتا، حتی کہ ہم سیر ہو گئے اور وہ پہلے سے زیادہ ہو گیا، ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر نظر دوڑائی تو وہ اتنا ہی یا اس سے زیادہ تھا، انہوں نے اپنی بیوی سے کہا: اے بنو فراس کے فرد! یہ کیا ہوا؟ اس نے کہا: نہیں، میری آنکھوں کی ٹھنڈک کی قسم! یہ اب پہلے سے تین گنا زیادہ ہے اور اس سے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کھایا اور فرمایا: وہ قسم تو شیطانی کام تھا، پھر اس سے لقمہ اٹھایا، پھر اسے اٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے، وہ صبح تک آپ کے پاس رہا، ہمارے اور ایک قوم کے درمیان معاہدہ تھا، مدت گزر گئی اور ہم نے بارہ نگران مقرر کیے، ہر آدمی کے ماتحت لوگ تھے، اللہ ہی جانتا ہے، ہر ایک آدمی کے تحت کتنے لوگ تھے، اتنی بات ہے کہ آپ نے کھانا ان کے ساتھ بھیجا اور ان سب نے اس سے کھایا، یا جو الفاظ استاد نے کہے۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) يا عنثر: اے نادان، جاہل، کمینے، کیونکہ انہوں نے سمجھا عبدالرحمٰن نے مہمانوں کو کھانا کھلانے میں کوتاہی کی ہے، اس لیے، انہیں برا بھلا کہا اور ناک کٹنے کی بات کی۔
(2) لاهنئيا: تم نے گھر والوں کو پریشان کیا اور بیٹے کی بجائے باپ کی حاضری پر اصرار کیا، اس لیے کھانا تمہارے لیے خوش گوار نہ ہو، یا کھانا پڑے پڑے ٹھنڈا ہوگیا، اس لیے خوش گوار نہیں ہے۔
فوائد ومسائل
اصحاب صفہ، طالب علم تھے، جو گھر بار چھوڑ کر تعلیم کے لیے آپ کے پاس آتے تھے اور مسجد کے چھپر میں ہی رہتے تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کھانے کا انتظام فرماتے اور وہ خود بھی اس کے لیے کوشش کرتے اور آپ نے لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے ہمدردی اور خیرخواہی کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے ایک دن ساتھیوں سے فرمایا، ہر آدمی اپنی وسعت و گنجائش کے مطابق ان میں سے ایک یا دو کو لے جائے اور دوسروں کو ترغیب دینے کے لیے خود اپنے گھر کے افراد کی تعداد کے مطابق دس آدمیوں کو لے گئے، اس طرح آپ نے آغاز اپنے گھر سے کیا اور سب سے زیادہ جودوسخا کا مظاہرہ فرمایا اور یہ اسوہ حسنہ ہی دراصل لوگوں کو حوصلہ دلاتا ہے اور ان کے اندر کام کرنے کی رغبت پیدا کرتا ہے، جو بدقسمتی سے آج مفقود ہے، کوئی دینی و دنیوی لیڈر دوسروں کے لیے نمونہ نہیں بنتا صرف زبانی کلامی نعروں سے لوگوں کا پیٹ بھرتا ہے، آج یہ لوگ اپنی تجوریوں کا منہ کھول دیں تو لوگ بھی یقینا ان کی اقتدا میں اپنا مال فقراء اور مساکین کو دینے کے لیے تیار ہو جائیں اور غربت کا علاج ہو جائے اور اس حدیث سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قلبی تعلق اور ربط بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنے مہمان اپنے بیٹے کے سپرد کر کے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے گئے اور رات گئے تک، جب تک آپ سونے نہیں گئے، گھر واپس نہیں آئے اور پھر مہمانوں کی خدمت میں کوتاہی کا مرتکب خیال کر کے اپنے شادی شدہ بیٹے کو بھی برا بھلا کہا اور وہ ڈر کے مارے چھپ گیا، جس سے معلوم ہوا وہ دوسروں کے لیے تو بہت نرم اور شفیق تھے، لیکن بیٹوں کا سخت محاسبہ کرتے تھے اور انہوں نے مہمانوں کے بیجا اصرار پر غصہ کا اظہار فرماتے ہوئے، کھانا کھانے سے انکار کیا اور قسم اٹھا دی، لیکن جب مہمانوں نے بھی قسم اٹھا دی تو اپنی قسم کو توڑ ڈالا تاکہ مہمان بھوکے نہ رہیں اور اس کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے ان کی کرامت ظاہر کر دی کہ کھانے میں برکت ڈال دی، جس کو دیکھ کر انہوں نے دوبارہ لقمہ لیا اور پھر کھانا آپ کو پیش کر دیا، جس میں آپ کی کرامت کا ظہور ہوا کہ وہ کھانا بارہ افراد کے ماتحت افراد کے لیے کافی ہو گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdul Rabman bin Abu Bakr (RA) reported that the people of Suffa were very poor. Once the Messenger of Allah (ﷺ) said (to his Companions): He who amongst you has food for two persons should take three (guests with him), and he who has with him food for four persons should take five or six (guests with him for entertaining them). It was (in accordance with these instructions of the Holy Prophet) that Abu Bakr (RA) brought three persons, and the Apostle of Allah (ﷺ) brought ten persons (as guests to their respective houses). Abu Bakr (RA) had brought three persons (he himself, and myself), my father and my mother (along with therm). He (the narrator) said: I do not know whether he also said: My wife and one servant who was common between our house and that of Abu Bakr. Abu Bakr (RA) had had his evening meal with Allah's Apostle (ﷺ) . He stayed here until night prayer had been offered. He then came back (to the house of Allah's Apostle) (ﷺ) and stayed there until Allah's Messenger (ﷺ) felt drowsy and (Abu Bakr) then came (back to his own house) when (a considerable) part of the night had been over, as Allah had desired. His wife said to him: What held you back from your guests? He said: Oh! have you not served them the evening meal (by this time)? She said: It was in fact served to them. but they refused to eat until you came. He ('Abdul Rahman) said: I slunk away and bid myself. He (Abu Bakr) said: O, you stupid fellow, and he reprimanded me, and said to the guests: Eat, though it may not be pleasant now. He said: By Allah. I will never eat it. He ('Abdul Rahman) said: By Allah! we did not take a morsel when from beneath that (there appeared) more until they had eaten to their fill, and lo! it was more than what it was before. Abu Bakr (RA) saw that and found that it was so or more than that. He said to his wife: Sister of Band Firis, what is this? She said: By the coolness of my eyes. it is in excess by three times over the previous one. Then Abu Bakr (RA) ate saying: That was from the Satan (viz. his vow for not eating the food). He then took a morsel out of that and then took it (the rest) to the Messenger of Allah (ﷺ) , and it was kept there until morning, and during (those days) there was a covenant between us and some other people, and the period of covenant was over, and we had appointed twelve officials with every person amongst them. It is Allah only Who knows as to how many people were there with each of them. He sent (this food to them) and all of them ate out of it.