باب: مردوں کے لیے ریشم وغیرہ (کی مختلف اقسام )پہننا حرا م ہے
)
Muslim:
The Book of Clothes and Adornment
(Chapter: The Prohibition Of Wearling Silk Etc. For Men)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2068.
مالک نے نافع سے، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد کے دروازے کے قریب (بازار میں) ایک ریشمی حُلَہ (ایک جیسی ریشمی چادروں کا جوڑا بکتے ہوئے) دیکھا۔ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! کتنا اچھا ہو اگر آپ یہ حلہ خرید لیں اور جمعہ کے دن لوگوں کے سامنے (خطبہ دینے کے لیے) اور جب کوئی وفد آپ کے پاس آئے تو اسے زیب تن فرمائیں! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کو (دنیا میں) صرف وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس ان میں سے کچھ ریشمی حلے آئے، آپ ﷺ نے ان میں سے ایک حلہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے مجھے یہ حلہ پہننے کے لیے دیا ہے، حالانکہ آپﷺ نے عطارد (بن حاجب بن ز رارہ، جو مسجد کے دروازے کے باہر حلے بیچ رہے تھے) کے حلے کے بارے میں جو فرمایا تھا سو فرمایا تھا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے یہ حلہ تم کو پہننے کے لیے نہیں دیا۔‘‘ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ حلہ مکہ میں اپنے ایک بھائی کو دے دیا جو مشرک تھا۔
تشریح:
فوائد:
حلہ سے مراد ایک جیسے دو کپڑوں کا جوڑا ہے، جسے ایک ساتھ پہنا جاتا ہے۔ یہ دونوں چادریں بھی ہو سکتی ہیں اور سلے ہوئے کپڑے بھی۔ محکم لابن سیدہ میں ہے: برد ا وغیرہ سیراء ’’سیرا‘‘ خالص ریشم کے کپڑے کو بھی کہتے ہیں، ایسے کپڑے کو بھی جس میں محض تانا ریشم کا ہو یا محض بانا ریشم کا ہو، ایسے کپڑے کو بھی سیراء کہتے ہیں جس کی بنتی میں ریشم کی دھاریاں دی گئی ہوں اور اسے بھی جس میں ریشم کی پٹیاں لگائی گئی ہوں۔ ریشم کی کڑھائی والے کپڑے کو بھی ’’سیراء‘‘ کہا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر نے مختلف اھل لغت کے حوالے سے یہ سب اقوال فتح الباری میں نقل کیے ہیں۔ (فتح الباري: 5840)سیراء کا لفظ ان میں سے کسی بھی قسم کے کپڑے پر بولا جا سکتا ہے۔ اسی طرح حریر، استبرق، دیباج، سندس بھی ریشم کے کپڑے کی اقسام ہیں۔ دیباج ریشم کا باریک کپڑا ہے اور استبرق موٹا۔ مختلف راویوں نے ان لفظوں کو مجازا ایک دوسرے کے مدلول کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ کسی کپڑے میں ریشم کی کم یا زیادہ مقدار اور اس کی باریکی اور موٹائی کی بنا پر اس کے ریشم کا کپڑا ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں غلط فہمی کا امکان موجود ہوتا ہے۔ اگلی احادیث کو صحیح طرح سمجھنے کے لیے یہ باتیں ذہن میں رہنی ضروری ہیں۔ (2) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یا آپ کے پدری بھائی زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مادری بھائی عثمان بن حکیم مکہ میں مقیم تھا، اس کے مسلمان ہونے کے بارے میں اختلاف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کپڑے کو بیچ کر اس کی قیمت بھجوا دی یا قیمت لگائی اور اس امید پر اس کی مکہ میں اور زیادہ قیمت مل جائے گی کپڑا ہی اس کو بھیج دیا۔ دونوں امکان موجود ہیں، پہلا قرین قیاس ہے۔ (حدیث: 5419) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور کافروں کو ہدیہ وغیرہ دینا جائز ہے، خصوصا اگر مقصود انہیں اسلام کی طرف مائل کرنا یا ان کے ذریعے سے کوئی اسلامی مقصد حاصل کرنا ہو۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ریشم کا کپڑا مسلمان مرد کو بھی ہدیتا دیا جا سکتا ہے، اس لیے نہیں کہ وہ اسے پہن لے بلکہ اس لیے کہ اس سے جائز فائدہ حاصل کرے۔ ان فوائد میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ کپڑا گھر کی خواتین کو استعمال کے لیے دے دے۔
لباس شرم وحیا،صحت اورموسم کےحوالےسےانسان کی بنیادی ضرورت ہےاوراس کےلیے زینت کاسبب بھی۔ اللہ تعالیٰ نےعورت اورمردکوالگ الگ اندازسےخوبصورت بنایاہے۔ دونوں کےلیے زینت کےاندازبھی مختلف ہیں۔ مرداگرعورت کی طرح زینت اختیارکرےتوبرالگتاہےاورعورت اگرمردکیطرح زینت اختیارکرےتوبری لگتی ہے۔
اسی طرح زینت اوراستکباربھی دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ ان کےدرمیان جولکیرحائل ہےوہ مٹ جائےتوعام انسانوں کےلیے بہت سی مشکلات پیداہوتی ہیں۔ انسان کارہناسہنابھلےآرام دہ ہولیکن امارت کی نمودونمائش کاایساذریعہ نہ ہوجس سےعام لوگ مرعوب ہوں اوران کی دلوں میں اپنی محرومی اوردوسروں کی بےحدوحساب اورغیرمنصفانہ امارت کااذیت ناک احساس پیداہو۔
امام مسلمنےکتاب اللباس والزینۃ میں انسانی رہن سہن ،لباس اورسواری وغیرہ کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین مقدسہ کوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےامارت کی بےجانمائش اورانتہائی مسرفانہ زندگی کےحوالےسےسونےچاندی کےبرتن وغیرہ کےاستعمال کی حرمت بیان کی ہے۔ اس کےبعدصرف عورتوں کےلیے سونےکی زیورات کےجوازکابیان ہے۔ مردوں کےلیے انہیں قطعی طورپرحرام قراردیاگیاہے۔ اسی طرح ریشم کالباس بھی صرف عورتوں کےلیےجائزقراردیاگیاہے، مردوں کےلیے حرام ہے۔اگرغورکیاجائے تواس سےزینت کےحوالےسےعورتوں کووسیع ترمیدان ملتاہے۔ اس میں عورتوں کوایک طرح سےبرتری حاصل ہے۔ یہ چیزیں اگرمرداستعمال کریں تویہ ان کی وجاہت اوروقار کےخلاف ہے۔چونکہ یہ چیزیں عورتوں کےلیے حلال ہیں اس لیے مردان کی خریدوفروخت کرسکتےہیں۔ مردوں کواس حوالےسےاتنی سہولت دی گئی ہےکہ ان کےلباس میں بہت معمولی مقدارمیں ریشم موجودہوتووہ اسےاستعمال کرسکتےہیں، تاہم جلدی بیماری وغیرہ کی صورت میں طبی ضرورت کےتحت ریشم کالباس پہننےکی اجازت ہے۔
مردوں کواس طرح کےشوخےرنگ پہننےکی بھی اجازت نہیں جوصرف عورتوں ہی کواچھےلگتےاورنسوانی جمال کونمایاں کرتےہیں ،البتہ اسراف سےپرہیزکرتےہوئےمردوں کےلیے بھی دھاریوں والےیادوسرےجائز نقش ونگارسےمزین لباس کی اجازت ہے۔لباس کےذریعےسےکبرونخوت کااظہاراورمتکبرانہ لباس پہنناممنوع ہے۔ زمانہ قدیم سےکپڑوں کولٹکانا،مردوں کےلیے اظہارتکبرکی ایک علامت ہے۔ مسلمانوں کواس سےمنع کیاگیاہے۔رسول اللہﷺنےجب اردگردکےبادشاہو اورحاکموں کواسلام کی دعوت دینےکےلیے خط لکھنےکاارادہ فرمایاتوبطورمہراستعمال کرنےکےلیے چاندی کی انگوٹھی تیارکروائی ،ضرورتادیگرمسلمانوں کوبھی اس کی اجازت دی گئی اوریہ بھی بتایاگیاکہ کس انگلی میں پہنناموزوں ہے۔ جوتےپہننےکےحوالےسےآپﷺکن باتوں کوملحوظ رکھتے،اس کی وضاحت ہے۔ کس طرح کالباس استعمال کرتےہوئےکیاکیااحتیاط ملحوظ رکھنی چاہیےتاکہ ستراورحیاکےتقاضےپامال نہ ہوں، اس کی بھی وضاحت ہے۔ بالوں کےرنگنےکےحوالےسےاسلامی آداب بھی اسی کتاب میں بیان ہوئےہیں ۔گھرمیں اورخاص طورپرکپڑوں پرجانداروں کی تصویروں کی ممانعت اسلام کاشعارہے۔ اس کےساتھ ہی امام مسلمنےتصویریں بنانےکےحوالےسےاسلامی تعلیمات کوبیان کیاہے۔
اس کےبعدسواریوں اوردیگرجانوروں کےبارےمیں اورراستےکےحقوق کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین بیان کیےگئےہیں۔ آخرمیں بالوں کی قبیح صورتوں اورتزیین وجمال کی غرض سےدجل وفریب پرمبنی اقدامات کی تددیدہے۔ اس کامقصدیہ ہےکہ انسان ایک دوسرےکومحض ظاہری حسن کےحوالےسےپسندنا پسندکرنےکےبجائےپوری شخصیت کےخالص اورحقیقی جمال کوترجیح دیں تاکہ کوئی بھی انسان،خصوصاعورت نہ محض آرائش کی چیزبن کراپنی شخصیت کوپست کرے،نہ ہی کوئی عورت ظاہری جمال میں کمی کی بناپرکم قدرقراردی جائے۔ سادگی حقیقت پسندی اورظاہری خوبیوں کےساتھ باطنی خوبیوں کوسراہنامعاشرےکی مضبوطی کاباعث بنتاہے۔ ظاہری خوبیوں کےدلدادہ لوگوں کےنزدیک چندبچوں کی پیدائش کےبعدعورت قابل نفرت بن جاتی ہے،جبکہ خاندان کےلیے اس وقت اس کی خدمات اورزیادہ ناگزیراورقابل قدرہوتی ہیں، محض ظاہری جمال ہی کوسراہاجانےلگےتوگھراجڑنےاورنمودونمائش کی دکانیں آبادہونےلگتی ہیں۔
مالک نے نافع سے، انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد کے دروازے کے قریب (بازار میں) ایک ریشمی حُلَہ (ایک جیسی ریشمی چادروں کا جوڑا بکتے ہوئے) دیکھا۔ انھوں نے کہا: اللہ کے رسول ﷺ! کتنا اچھا ہو اگر آپ یہ حلہ خرید لیں اور جمعہ کے دن لوگوں کے سامنے (خطبہ دینے کے لیے) اور جب کوئی وفد آپ کے پاس آئے تو اسے زیب تن فرمائیں! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اس کو (دنیا میں) صرف وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس ان میں سے کچھ ریشمی حلے آئے، آپ ﷺ نے ان میں سے ایک حلہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے مجھے یہ حلہ پہننے کے لیے دیا ہے، حالانکہ آپﷺ نے عطارد (بن حاجب بن ز رارہ، جو مسجد کے دروازے کے باہر حلے بیچ رہے تھے) کے حلے کے بارے میں جو فرمایا تھا سو فرمایا تھا؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے یہ حلہ تم کو پہننے کے لیے نہیں دیا۔‘‘ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ حلہ مکہ میں اپنے ایک بھائی کو دے دیا جو مشرک تھا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد:
حلہ سے مراد ایک جیسے دو کپڑوں کا جوڑا ہے، جسے ایک ساتھ پہنا جاتا ہے۔ یہ دونوں چادریں بھی ہو سکتی ہیں اور سلے ہوئے کپڑے بھی۔ محکم لابن سیدہ میں ہے: برد ا وغیرہ سیراء ’’سیرا‘‘ خالص ریشم کے کپڑے کو بھی کہتے ہیں، ایسے کپڑے کو بھی جس میں محض تانا ریشم کا ہو یا محض بانا ریشم کا ہو، ایسے کپڑے کو بھی سیراء کہتے ہیں جس کی بنتی میں ریشم کی دھاریاں دی گئی ہوں اور اسے بھی جس میں ریشم کی پٹیاں لگائی گئی ہوں۔ ریشم کی کڑھائی والے کپڑے کو بھی ’’سیراء‘‘ کہا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر نے مختلف اھل لغت کے حوالے سے یہ سب اقوال فتح الباری میں نقل کیے ہیں۔ (فتح الباري: 5840)سیراء کا لفظ ان میں سے کسی بھی قسم کے کپڑے پر بولا جا سکتا ہے۔ اسی طرح حریر، استبرق، دیباج، سندس بھی ریشم کے کپڑے کی اقسام ہیں۔ دیباج ریشم کا باریک کپڑا ہے اور استبرق موٹا۔ مختلف راویوں نے ان لفظوں کو مجازا ایک دوسرے کے مدلول کے لیے استعمال کیا ہے۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ کسی کپڑے میں ریشم کی کم یا زیادہ مقدار اور اس کی باریکی اور موٹائی کی بنا پر اس کے ریشم کا کپڑا ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں غلط فہمی کا امکان موجود ہوتا ہے۔ اگلی احادیث کو صحیح طرح سمجھنے کے لیے یہ باتیں ذہن میں رہنی ضروری ہیں۔ (2) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یا آپ کے پدری بھائی زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مادری بھائی عثمان بن حکیم مکہ میں مقیم تھا، اس کے مسلمان ہونے کے بارے میں اختلاف ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کپڑے کو بیچ کر اس کی قیمت بھجوا دی یا قیمت لگائی اور اس امید پر اس کی مکہ میں اور زیادہ قیمت مل جائے گی کپڑا ہی اس کو بھیج دیا۔ دونوں امکان موجود ہیں، پہلا قرین قیاس ہے۔ (حدیث: 5419) اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور کافروں کو ہدیہ وغیرہ دینا جائز ہے، خصوصا اگر مقصود انہیں اسلام کی طرف مائل کرنا یا ان کے ذریعے سے کوئی اسلامی مقصد حاصل کرنا ہو۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ریشم کا کپڑا مسلمان مرد کو بھی ہدیتا دیا جا سکتا ہے، اس لیے نہیں کہ وہ اسے پہن لے بلکہ اس لیے کہ اس سے جائز فائدہ حاصل کرے۔ ان فوائد میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ کپڑا گھر کی خواتین کو استعمال کے لیے دے دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد کے دروازہ کے پاس ایک ریشمی دھاری دار جوڑا دیکھا تو عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! اے کاش، آپ اس کو خرید لیں اور جمعہ کے دن لوگوں کے لیے اور وفد کے لیے جب وہ آپ کے پاس آئیں پہن لیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کو تو بس وہ لوگ پہنتے ہیں، جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے، یعنی کافر‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس قسم کے جوڑے آئے تو آپ نے ان میں سے ایک جوڑا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عنایت فرمایا تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ نے یہ مجھے عنایت کیا ہے، حالانکہ آپ عطارد کے حلہ (جوڑا) کے بارے میں جو کہہ چکے ہیں، آپ کو معلوم ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے تمہیں یہ پہننے کے لیے نہیں دیا ہے‘‘ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ مکہ میں اپنے ایک مشرک بھائی کو دے دیا۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) حلة: جوڑا، تہبند اور چادر جب ایک ہی کپڑے کے ہوں۔ (2) سيراء: ریشمی دھاریوں والا، اہل تحقیق اور ماہر عربی دان حلة سيراء کو مرکب اضافی پڑھتے ہیں، اگرچہ امام قرطبی اور امام خطابی اس کو مرکب توصیغی حلة سيراء قرار دیتے ہیں۔ (3) لا خلاق له: اس کا کوئی حصہ نہیں ہے، یعنی آخرت کو جسے یہ نصیب ہوگا، کفر کی وجہ سے یا مسلمان ہونے کی صورت میں دنیا میں ہمیشہ پہننے کی وجہ سے۔
فوائد ومسائل
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے دن اچھے اور عمدہ کپڑے زیب تن کرنا چاہیے اور وفود کے سامنے خوش پوشی کا اظہار ہو سکتا ہے، نیز مسلمان اپنے کافر عزیز و اقارب کو تحفہ تحائف دے سکتا ہے اور ان سے حسن سلوک کر سکتا ہے اور مردوں کو ریشمی لباس تحفہ میں دیا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ اسے اپنی عورتوں کو پہنا سکتے ہیں، یا بیچ سکتے ہیں، کافر اگرچہ شوافع کے نزدیک احکام شرعیہ کے مکلف ہیں، لیکن وہ اس کی پابندی نہیں کرتے، اور اپنے آپ کو آزاد تصور کرتے ہیں اور احناف کے نزدیک، احکام شرعیہ کے مخاطب نہیں ہیں، لیکن ایک مسلمان غلط کاموں میں ان کا تعاون نہیں کر سکتا، اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ تحفہ خود پہننے کے لیے نہیں دیا تھا، بلکہ اس لیے دیا تھا کہ وہ اپنی عورتوں میں سے کسی کو دے دے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Umar (RA) reported that Umar bin Khattab saw (some one selling) the garments of silk at the door of the mosque, whereupon he said: Allah's Messenger, would that you buy it and wear it for the people on Friday and for (receiving) the delegations when they come to you? Upon this. Allah's Messenger (ﷺ) said: go who wears it has no share (of reward) in the Hereafter. Then these garments were sent to Allah" s Messenger (ﷺ) , and he presented one of these silk garment to Umar. Thereupon Umar said: You make me wear (this silk garment) Whereas you said about the silk garment of Utarid (the person who had been busy selling this garment at the door of the mosque) what you had to say, whereupon Allah's Messenger (ﷺ) said: I have not presented you this for wearing it (but to make use of its price) ; so 'Umar presented it to his polytheist brother in Makkah.