باب: جاندار کی تصویر بنا نے اور جوفرش پر روندی نہ جا رہی ہو ں ان تصویروں کو استعمال کرنے کی ممانعت نیز یہ کہ جس گھر میں تصویر یا کتاہوا ہو اس میں ملا ئیکہ علیہ السلام دا خل نہیں ہو تے
)
Muslim:
The Book of Clothes and Adornment
(Chapter: The Prohibition Of Making Images Of Living Beings, And The Prohibition Of Using Images That Are Not Subjected To Disrespect In Furnishings And The Like; The Angels (Peace Be Upon Them) Do Not Enter A House In Which There Is An Image Or A Dog)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2105.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا: حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے بتایا کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے فکر مندی کی حالت میں صبح کی۔ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں آج دن (کے آغاز )سے آپ کی حالت معمول کے خلا ف دیکھ رہی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آج رات مجھ سے ملیں گے لیکن وہ نہیں ملے۔ بات یہ ہے کہ انھوں نے کبھی مجھ سے وعدہ خلا فی نہیں کی،‘‘ کہا: تو اس روز پورا دن رسول اللہ ﷺ کی کیفیت یہی رہی پھر ان کے دل میں کتے کے ایک پلے کا خیال بیٹھ گیا۔ جو ہمارے (ایک بستر کے نیچے بن جانے والے) ایک خیمہ (نما حصے) میں تھا۔ آپﷺ نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اسے نکا ل دیا گیا، پھر آپﷺ نے اپنے دست مبارک سے پانی لیا اور اس جگہ پر چھڑک دیا۔ جب شام ہو ئی تو جبرائیل علیہ السلام آ کر آپ سے ملے۔ آپ ﷺ نے ان سے کہا: آپﷺ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھے کل رات ملیں گے؟ انھوں نے کہا ہاں بالکل لیکن ہم ایسے گھر میں دا خل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔ پھر جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے (آوارہ یا بے کا ر) کتوں کو مارنے دینے کا حکم دیا، یہاں تک کہ آپ باغ یا کھیت کے چھوٹے کتے کو بھی (جو رکھوالی نہیں کر سکتا) مارنے کا حکم دے رہے تھے اور باغ کھیت کے بڑے کتے کو چھوڑ رہے تھے۔ (ایسے کتے گھروں سے باہر ہی رہتے ہیں اور واقعی رکھوالی کی ضرورت پو ری کرتے ہیں۔)
لباس شرم وحیا،صحت اورموسم کےحوالےسےانسان کی بنیادی ضرورت ہےاوراس کےلیے زینت کاسبب بھی۔ اللہ تعالیٰ نےعورت اورمردکوالگ الگ اندازسےخوبصورت بنایاہے۔ دونوں کےلیے زینت کےاندازبھی مختلف ہیں۔ مرداگرعورت کی طرح زینت اختیارکرےتوبرالگتاہےاورعورت اگرمردکیطرح زینت اختیارکرےتوبری لگتی ہے۔
اسی طرح زینت اوراستکباربھی دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ ان کےدرمیان جولکیرحائل ہےوہ مٹ جائےتوعام انسانوں کےلیے بہت سی مشکلات پیداہوتی ہیں۔ انسان کارہناسہنابھلےآرام دہ ہولیکن امارت کی نمودونمائش کاایساذریعہ نہ ہوجس سےعام لوگ مرعوب ہوں اوران کی دلوں میں اپنی محرومی اوردوسروں کی بےحدوحساب اورغیرمنصفانہ امارت کااذیت ناک احساس پیداہو۔
امام مسلمنےکتاب اللباس والزینۃ میں انسانی رہن سہن ،لباس اورسواری وغیرہ کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین مقدسہ کوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےامارت کی بےجانمائش اورانتہائی مسرفانہ زندگی کےحوالےسےسونےچاندی کےبرتن وغیرہ کےاستعمال کی حرمت بیان کی ہے۔ اس کےبعدصرف عورتوں کےلیے سونےکی زیورات کےجوازکابیان ہے۔ مردوں کےلیے انہیں قطعی طورپرحرام قراردیاگیاہے۔ اسی طرح ریشم کالباس بھی صرف عورتوں کےلیےجائزقراردیاگیاہے، مردوں کےلیے حرام ہے۔اگرغورکیاجائے تواس سےزینت کےحوالےسےعورتوں کووسیع ترمیدان ملتاہے۔ اس میں عورتوں کوایک طرح سےبرتری حاصل ہے۔ یہ چیزیں اگرمرداستعمال کریں تویہ ان کی وجاہت اوروقار کےخلاف ہے۔چونکہ یہ چیزیں عورتوں کےلیے حلال ہیں اس لیے مردان کی خریدوفروخت کرسکتےہیں۔ مردوں کواس حوالےسےاتنی سہولت دی گئی ہےکہ ان کےلباس میں بہت معمولی مقدارمیں ریشم موجودہوتووہ اسےاستعمال کرسکتےہیں، تاہم جلدی بیماری وغیرہ کی صورت میں طبی ضرورت کےتحت ریشم کالباس پہننےکی اجازت ہے۔
مردوں کواس طرح کےشوخےرنگ پہننےکی بھی اجازت نہیں جوصرف عورتوں ہی کواچھےلگتےاورنسوانی جمال کونمایاں کرتےہیں ،البتہ اسراف سےپرہیزکرتےہوئےمردوں کےلیے بھی دھاریوں والےیادوسرےجائز نقش ونگارسےمزین لباس کی اجازت ہے۔لباس کےذریعےسےکبرونخوت کااظہاراورمتکبرانہ لباس پہنناممنوع ہے۔ زمانہ قدیم سےکپڑوں کولٹکانا،مردوں کےلیے اظہارتکبرکی ایک علامت ہے۔ مسلمانوں کواس سےمنع کیاگیاہے۔رسول اللہﷺنےجب اردگردکےبادشاہو اورحاکموں کواسلام کی دعوت دینےکےلیے خط لکھنےکاارادہ فرمایاتوبطورمہراستعمال کرنےکےلیے چاندی کی انگوٹھی تیارکروائی ،ضرورتادیگرمسلمانوں کوبھی اس کی اجازت دی گئی اوریہ بھی بتایاگیاکہ کس انگلی میں پہنناموزوں ہے۔ جوتےپہننےکےحوالےسےآپﷺکن باتوں کوملحوظ رکھتے،اس کی وضاحت ہے۔ کس طرح کالباس استعمال کرتےہوئےکیاکیااحتیاط ملحوظ رکھنی چاہیےتاکہ ستراورحیاکےتقاضےپامال نہ ہوں، اس کی بھی وضاحت ہے۔ بالوں کےرنگنےکےحوالےسےاسلامی آداب بھی اسی کتاب میں بیان ہوئےہیں ۔گھرمیں اورخاص طورپرکپڑوں پرجانداروں کی تصویروں کی ممانعت اسلام کاشعارہے۔ اس کےساتھ ہی امام مسلمنےتصویریں بنانےکےحوالےسےاسلامی تعلیمات کوبیان کیاہے۔
اس کےبعدسواریوں اوردیگرجانوروں کےبارےمیں اورراستےکےحقوق کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین بیان کیےگئےہیں۔ آخرمیں بالوں کی قبیح صورتوں اورتزیین وجمال کی غرض سےدجل وفریب پرمبنی اقدامات کی تددیدہے۔ اس کامقصدیہ ہےکہ انسان ایک دوسرےکومحض ظاہری حسن کےحوالےسےپسندنا پسندکرنےکےبجائےپوری شخصیت کےخالص اورحقیقی جمال کوترجیح دیں تاکہ کوئی بھی انسان،خصوصاعورت نہ محض آرائش کی چیزبن کراپنی شخصیت کوپست کرے،نہ ہی کوئی عورت ظاہری جمال میں کمی کی بناپرکم قدرقراردی جائے۔ سادگی حقیقت پسندی اورظاہری خوبیوں کےساتھ باطنی خوبیوں کوسراہنامعاشرےکی مضبوطی کاباعث بنتاہے۔ ظاہری خوبیوں کےدلدادہ لوگوں کےنزدیک چندبچوں کی پیدائش کےبعدعورت قابل نفرت بن جاتی ہے،جبکہ خاندان کےلیے اس وقت اس کی خدمات اورزیادہ ناگزیراورقابل قدرہوتی ہیں، محض ظاہری جمال ہی کوسراہاجانےلگےتوگھراجڑنےاورنمودونمائش کی دکانیں آبادہونےلگتی ہیں۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا: حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مجھے بتایا کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ نے فکر مندی کی حالت میں صبح کی۔ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! میں آج دن (کے آغاز )سے آپ کی حالت معمول کے خلا ف دیکھ رہی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جبرائیل علیہ السلام نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آج رات مجھ سے ملیں گے لیکن وہ نہیں ملے۔ بات یہ ہے کہ انھوں نے کبھی مجھ سے وعدہ خلا فی نہیں کی،‘‘ کہا: تو اس روز پورا دن رسول اللہ ﷺ کی کیفیت یہی رہی پھر ان کے دل میں کتے کے ایک پلے کا خیال بیٹھ گیا۔ جو ہمارے (ایک بستر کے نیچے بن جانے والے) ایک خیمہ (نما حصے) میں تھا۔ آپﷺ نے اس کے بارے میں حکم دیا تو اسے نکا ل دیا گیا، پھر آپﷺ نے اپنے دست مبارک سے پانی لیا اور اس جگہ پر چھڑک دیا۔ جب شام ہو ئی تو جبرائیل علیہ السلام آ کر آپ سے ملے۔ آپ ﷺ نے ان سے کہا: آپﷺ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھے کل رات ملیں گے؟ انھوں نے کہا ہاں بالکل لیکن ہم ایسے گھر میں دا خل نہیں ہوتے جس میں کتا یا تصویر ہو۔ پھر جب صبح ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے (آوارہ یا بے کا ر) کتوں کو مارنے دینے کا حکم دیا، یہاں تک کہ آپ باغ یا کھیت کے چھوٹے کتے کو بھی (جو رکھوالی نہیں کر سکتا) مارنے کا حکم دے رہے تھے اور باغ کھیت کے بڑے کتے کو چھوڑ رہے تھے۔ (ایسے کتے گھروں سے باہر ہی رہتے ہیں اور واقعی رکھوالی کی ضرورت پو ری کرتے ہیں۔)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صبح کے وقت غمزدہ تھے، حضرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کہتی ہیں، میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میں صبح سے آپ کی ہئیت اوپری انوکھی دیکھ رہی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جبریل علیہ السلام نے آج رات میرے ساتھ ملاقات کا وعدہ کیا تھا، لیکن ملا نہیں ہے، ہاں اللہ کی قسم! اس نے میرے ساتھ کبھی وعدہ خلافی نہیں کی۔‘‘ تو دن بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں رہے، پھر آپ کے جی میں آیا، ہمارے خیمے کے نیچے کتے کا پلا ہے تو آپ کے حکم سے اسے نکال دیا، پھر آپ نے بذات خود پانی لے کر اس کی جگہ پر چھڑکا تو جب شام ہوئی، جبریل علیہ السلام آپﷺ سے ملے، آپ نے ان سے پوچھا ’’آپ نے کل شام ملنے کا وعدہ کیا تھا۔‘‘ انہوں نے کہا، ہاں، لیکن ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے، جس میں کتا یا تصویر ہو تو اس دن صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا، حتی کہ آپﷺ چھوٹے باغ کے کتے کو بھی قتل کرنے کا حکم دیتے اور بڑے باغ کے کتے کو چھوڑ دیتے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا آپ کی رنجیدہ حالت دیکھ کر پریشان ہو گئیں اور آپ سے رنجیدگی کا سبب پوچھا، تاکہ اگر ان کے لیے اس کو مدد کرنا ممکن ہو، اس کو دور کر سکیں، یا آپ کے غم کو ہلکا کرنے کی کوشش کریں، انسان کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہی طرز عمل اختیار کرنا چاہیے، حضرت عائشہ اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا واقعہ اگر ایک ہی ہے تو اس کا معنی یہ ہے کہ آپ نے شام کے وقت کتا دیکھا اور اس کو نکالنے کا حکم دیا، جس کے بعد جبریل علیہ السلام آ گئے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Maimuna reported that one morning Allah's Messenger (ﷺ) was silent with grief. Maimuna said: Allah's Messenger, I find a change in your mood today. Allah's Messenger (ﷺ) said: Gabriel (ؑ) had promised me that he would meet me tonight, but he did not meet me. By Allah, he never broke his promises, and Allah's Messenger (ﷺ) spent the day in this sad (mood). Then it occurred to him that there had been a puppy under their cot. He commanded and it was turned out. He then took some water in his hand and sprinkled it at that place. When it was evening Gabriel (ؑ) met him and he said to him: you promised me that you would meet me the previous night. He said: Yes, but we do not enter a house in which there is a dog or a picture. Then on that very morning he commanded the killing of the dogs until he announced that the dog kept for the orchards should also be killed, but he spared the dog meant for the protection of extensive fields (or big gardens).