باب: جاندار کی تصویر بنا نے اور جوفرش پر روندی نہ جا رہی ہو ں ان تصویروں کو استعمال کرنے کی ممانعت نیز یہ کہ جس گھر میں تصویر یا کتاہوا ہو اس میں ملا ئیکہ علیہ السلام دا خل نہیں ہو تے
)
Muslim:
The Book of Clothes and Adornment
(Chapter: The Prohibition Of Making Images Of Living Beings, And The Prohibition Of Using Images That Are Not Subjected To Disrespect In Furnishings And The Like; The Angels (Peace Be Upon Them) Do Not Enter A House In Which There Is An Image Or A Dog)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2107.
اسماعیل بن ابراہیم نے داؤد سے، انھوں نے عزرہ سے، انھوں نے حمید بن عبدالرحمان سے، انھوں نے سعد بن ہشام سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، کہا: ہمارے ہاں ایک پردہ تھا جس میں پرندے کی تصویر تھی، جب کوئی شخص اندر آتا یہ تصویر اس کےسامنے آ جاتی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’اس پردے کو ہٹا دو کیونکہ میں جب بھی اندر آتا ہوں۔اور اس پردے کو دیکھتا ہوں تو دنیا کو یاد کرتا ہوں۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: ہمارے پاس ایک چادر تھی، ہم کہتےتھے کہ اس کے کناروں پر سلا ہوا کپڑا ریشم ہے،ہم اس چادر کو پہنتے تھے۔
تشریح:
فائدہ:
پردے کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے جو باتیں کہی تھیں ان میں سے کچھ اور باتوں کی تفصیل ہے۔ آپ ﷺ نے یہ فرمانے کے علاوہ کہ ہمیں پتھروں اور مٹی کو کپڑے پہنانے کا حکم نہیں دیا گیا، یہ فرمایا کہ اندر آتے ہوئے یہ پردہ دنیوی تنعم کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے۔ پھر آپﷺ نے اس کو پھاڑ دیا اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا کہ اس کپڑے کو یہاں سے ہٹا دیں۔ انھوں نے پردہ اتار لیا اور بعد میں کاٹ کر اس کے دو تکیے بنا دیے۔ اسی طرح حضرت عائشہ نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ ساری چادر سوتی یا اونی ہو، صرف اس کنارے پر ریشم لگا ہو تو اسے پہننا ممنوع نہیں۔
لباس شرم وحیا،صحت اورموسم کےحوالےسےانسان کی بنیادی ضرورت ہےاوراس کےلیے زینت کاسبب بھی۔ اللہ تعالیٰ نےعورت اورمردکوالگ الگ اندازسےخوبصورت بنایاہے۔ دونوں کےلیے زینت کےاندازبھی مختلف ہیں۔ مرداگرعورت کی طرح زینت اختیارکرےتوبرالگتاہےاورعورت اگرمردکیطرح زینت اختیارکرےتوبری لگتی ہے۔
اسی طرح زینت اوراستکباربھی دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ ان کےدرمیان جولکیرحائل ہےوہ مٹ جائےتوعام انسانوں کےلیے بہت سی مشکلات پیداہوتی ہیں۔ انسان کارہناسہنابھلےآرام دہ ہولیکن امارت کی نمودونمائش کاایساذریعہ نہ ہوجس سےعام لوگ مرعوب ہوں اوران کی دلوں میں اپنی محرومی اوردوسروں کی بےحدوحساب اورغیرمنصفانہ امارت کااذیت ناک احساس پیداہو۔
امام مسلمنےکتاب اللباس والزینۃ میں انسانی رہن سہن ،لباس اورسواری وغیرہ کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین مقدسہ کوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےامارت کی بےجانمائش اورانتہائی مسرفانہ زندگی کےحوالےسےسونےچاندی کےبرتن وغیرہ کےاستعمال کی حرمت بیان کی ہے۔ اس کےبعدصرف عورتوں کےلیے سونےکی زیورات کےجوازکابیان ہے۔ مردوں کےلیے انہیں قطعی طورپرحرام قراردیاگیاہے۔ اسی طرح ریشم کالباس بھی صرف عورتوں کےلیےجائزقراردیاگیاہے، مردوں کےلیے حرام ہے۔اگرغورکیاجائے تواس سےزینت کےحوالےسےعورتوں کووسیع ترمیدان ملتاہے۔ اس میں عورتوں کوایک طرح سےبرتری حاصل ہے۔ یہ چیزیں اگرمرداستعمال کریں تویہ ان کی وجاہت اوروقار کےخلاف ہے۔چونکہ یہ چیزیں عورتوں کےلیے حلال ہیں اس لیے مردان کی خریدوفروخت کرسکتےہیں۔ مردوں کواس حوالےسےاتنی سہولت دی گئی ہےکہ ان کےلباس میں بہت معمولی مقدارمیں ریشم موجودہوتووہ اسےاستعمال کرسکتےہیں، تاہم جلدی بیماری وغیرہ کی صورت میں طبی ضرورت کےتحت ریشم کالباس پہننےکی اجازت ہے۔
مردوں کواس طرح کےشوخےرنگ پہننےکی بھی اجازت نہیں جوصرف عورتوں ہی کواچھےلگتےاورنسوانی جمال کونمایاں کرتےہیں ،البتہ اسراف سےپرہیزکرتےہوئےمردوں کےلیے بھی دھاریوں والےیادوسرےجائز نقش ونگارسےمزین لباس کی اجازت ہے۔لباس کےذریعےسےکبرونخوت کااظہاراورمتکبرانہ لباس پہنناممنوع ہے۔ زمانہ قدیم سےکپڑوں کولٹکانا،مردوں کےلیے اظہارتکبرکی ایک علامت ہے۔ مسلمانوں کواس سےمنع کیاگیاہے۔رسول اللہﷺنےجب اردگردکےبادشاہو اورحاکموں کواسلام کی دعوت دینےکےلیے خط لکھنےکاارادہ فرمایاتوبطورمہراستعمال کرنےکےلیے چاندی کی انگوٹھی تیارکروائی ،ضرورتادیگرمسلمانوں کوبھی اس کی اجازت دی گئی اوریہ بھی بتایاگیاکہ کس انگلی میں پہنناموزوں ہے۔ جوتےپہننےکےحوالےسےآپﷺکن باتوں کوملحوظ رکھتے،اس کی وضاحت ہے۔ کس طرح کالباس استعمال کرتےہوئےکیاکیااحتیاط ملحوظ رکھنی چاہیےتاکہ ستراورحیاکےتقاضےپامال نہ ہوں، اس کی بھی وضاحت ہے۔ بالوں کےرنگنےکےحوالےسےاسلامی آداب بھی اسی کتاب میں بیان ہوئےہیں ۔گھرمیں اورخاص طورپرکپڑوں پرجانداروں کی تصویروں کی ممانعت اسلام کاشعارہے۔ اس کےساتھ ہی امام مسلمنےتصویریں بنانےکےحوالےسےاسلامی تعلیمات کوبیان کیاہے۔
اس کےبعدسواریوں اوردیگرجانوروں کےبارےمیں اورراستےکےحقوق کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین بیان کیےگئےہیں۔ آخرمیں بالوں کی قبیح صورتوں اورتزیین وجمال کی غرض سےدجل وفریب پرمبنی اقدامات کی تددیدہے۔ اس کامقصدیہ ہےکہ انسان ایک دوسرےکومحض ظاہری حسن کےحوالےسےپسندنا پسندکرنےکےبجائےپوری شخصیت کےخالص اورحقیقی جمال کوترجیح دیں تاکہ کوئی بھی انسان،خصوصاعورت نہ محض آرائش کی چیزبن کراپنی شخصیت کوپست کرے،نہ ہی کوئی عورت ظاہری جمال میں کمی کی بناپرکم قدرقراردی جائے۔ سادگی حقیقت پسندی اورظاہری خوبیوں کےساتھ باطنی خوبیوں کوسراہنامعاشرےکی مضبوطی کاباعث بنتاہے۔ ظاہری خوبیوں کےدلدادہ لوگوں کےنزدیک چندبچوں کی پیدائش کےبعدعورت قابل نفرت بن جاتی ہے،جبکہ خاندان کےلیے اس وقت اس کی خدمات اورزیادہ ناگزیراورقابل قدرہوتی ہیں، محض ظاہری جمال ہی کوسراہاجانےلگےتوگھراجڑنےاورنمودونمائش کی دکانیں آبادہونےلگتی ہیں۔
اسماعیل بن ابراہیم نے داؤد سے، انھوں نے عزرہ سے، انھوں نے حمید بن عبدالرحمان سے، انھوں نے سعد بن ہشام سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، کہا: ہمارے ہاں ایک پردہ تھا جس میں پرندے کی تصویر تھی، جب کوئی شخص اندر آتا یہ تصویر اس کےسامنے آ جاتی تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ’’اس پردے کو ہٹا دو کیونکہ میں جب بھی اندر آتا ہوں۔اور اس پردے کو دیکھتا ہوں تو دنیا کو یاد کرتا ہوں۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: ہمارے پاس ایک چادر تھی، ہم کہتےتھے کہ اس کے کناروں پر سلا ہوا کپڑا ریشم ہے،ہم اس چادر کو پہنتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
پردے کو دیکھ کر رسول اللہ ﷺ نے جو باتیں کہی تھیں ان میں سے کچھ اور باتوں کی تفصیل ہے۔ آپ ﷺ نے یہ فرمانے کے علاوہ کہ ہمیں پتھروں اور مٹی کو کپڑے پہنانے کا حکم نہیں دیا گیا، یہ فرمایا کہ اندر آتے ہوئے یہ پردہ دنیوی تنعم کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے۔ پھر آپﷺ نے اس کو پھاڑ دیا اورحضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا کہ اس کپڑے کو یہاں سے ہٹا دیں۔ انھوں نے پردہ اتار لیا اور بعد میں کاٹ کر اس کے دو تکیے بنا دیے۔ اسی طرح حضرت عائشہ نے یہ وضاحت بھی کر دی کہ ساری چادر سوتی یا اونی ہو، صرف اس کنارے پر ریشم لگا ہو تو اسے پہننا ممنوع نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، ہمارا ایک پردہ تھا، جس میں پرندے کی شبیہ تھی اور داخل ہونے والے کی نظر سب سے پہلے اس پر پڑتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: ’’اس کو یہاں سے ہٹا دو، کیونکہ میں جب داخل ہوتا ہوں اور اس پر میری نظر پڑتی ہے، مجھے دنیا یاد آ جاتی ہے۔‘‘ وہ بیان کرتی ہیں اور ہمارے پاس ایک چادر تھی، ہم کہتے تھے، اس کے نقش و نگار ریشمی ہوں اور ہم اس کو پہنتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
A'isha reported: We had a curtain with us which had portraits of birds upon it. Whenever a visitor came, he found them in front of him. Thereupon Allah's Messenger (may peace be upop him) said to me: Change them, for whenever I enter the room) I see them and it brings to my mind (the pleasures) of worldly life. She said: We had with us a sheet which had silk badges upon it and we used to wear it.