Muslim:
The Book of Clothes and Adornment
(Chapter: It Is Disliked To Hang Garlands On The Necks Of Camels)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2115.
امام مالک نے عبد اللہ بن ابی بکر سے، انھوں نے عباد بن تمیم سے روایت کی کہ حضرت ابو بشیر انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں بتایا کہ وہ ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے رسول اللہ ﷺ نے ایک قاصد کو بھیجا۔ عبداللہ ابو بکر نے کہا: میرا گمان ہے کہ انھوں نے کہا: لوگ اپنی اپنی سونے کی جگہ میں پہنچ چکے تھے۔ (اور حکم دیا): ’’کسی اونٹ کی گردن میں تانت (کمان کے دونوں سرے جوڑے نے والی مضبوط باریک چمڑے کی ڈوری) کا ہار۔ یا کوئی بھی ہار نہ چھوڑا جائے مگر اسے کاٹ دیا جائے۔‘‘ امام مالک نے فرمایا: ’’میرا خیال ہے کہ یہ (ہار) نظر بد سے بچانے کے لیے (گلے میں ڈالے جا تے ) تھے۔‘‘
تشریح:
فائدہ:
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا نقطۂ نظر یہی ہے کہ آپﷺ نے تانتیں کاٹنے اور آئندہ اونٹوں کی گردنوں میں ہار وغیرہ نہ ڈالنے کا حکم اسی لیے دیا تھا کہ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ ہار اونٹوں کو نظر بد سے محفوظ رکھتے ہیں، جبکہ نظر بد سے اور ہر طرح کی تکلیف سے تحفظ صرف اللہ دیتا ہے۔ بعض دوسرے آئمہ نے اس حکم کی اور بھی حکمتیں بیان کی ہیں۔ امام محمد بن حسن کی رائے ہے کہ ایسے ہار کسی موٹی ٹہنی کے ساتھ اٹک کر اونٹ کا گلا گھونٹے کا سبب بن سکتے ہیں ابو عبیدہ کہتے ہیں: اس صورت میں جانور مرنے سے بچ جائے تو بھی اس طرح اسے شدید اذیت پہنچتی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمۃ الباب (عنوان) سے یہ حکمت سامنے آتی ہے کہ اس قسم کی چیزوں کے ساتھ گھنٹیاں لٹکائی جاتی تھیں جن سے رسول اللہ ﷺ نے بالصراحت منع فرمایا ہے۔ یہ سب یا ان میں سے کوئی سی حکمت بھی ملحوظ ہو سکتی ہے۔ بہرحال جانوروں کو اس طرح کے ہار پہنانا ممنوع ہے۔ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اگر محض زینت مقصود ہو، گھنٹیاں بندھی ہوئی نہ ہوں اور ڈوریاں کچی ہوں، یعنی ممانعت کی اسباب میں سے کوئی سبب موجود نہ ہو تو ممانعت ختم ہو جاتی ہے۔ والله علم بالصواب-
لباس شرم وحیا،صحت اورموسم کےحوالےسےانسان کی بنیادی ضرورت ہےاوراس کےلیے زینت کاسبب بھی۔ اللہ تعالیٰ نےعورت اورمردکوالگ الگ اندازسےخوبصورت بنایاہے۔ دونوں کےلیے زینت کےاندازبھی مختلف ہیں۔ مرداگرعورت کی طرح زینت اختیارکرےتوبرالگتاہےاورعورت اگرمردکیطرح زینت اختیارکرےتوبری لگتی ہے۔
اسی طرح زینت اوراستکباربھی دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ ان کےدرمیان جولکیرحائل ہےوہ مٹ جائےتوعام انسانوں کےلیے بہت سی مشکلات پیداہوتی ہیں۔ انسان کارہناسہنابھلےآرام دہ ہولیکن امارت کی نمودونمائش کاایساذریعہ نہ ہوجس سےعام لوگ مرعوب ہوں اوران کی دلوں میں اپنی محرومی اوردوسروں کی بےحدوحساب اورغیرمنصفانہ امارت کااذیت ناک احساس پیداہو۔
امام مسلمنےکتاب اللباس والزینۃ میں انسانی رہن سہن ،لباس اورسواری وغیرہ کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین مقدسہ کوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےامارت کی بےجانمائش اورانتہائی مسرفانہ زندگی کےحوالےسےسونےچاندی کےبرتن وغیرہ کےاستعمال کی حرمت بیان کی ہے۔ اس کےبعدصرف عورتوں کےلیے سونےکی زیورات کےجوازکابیان ہے۔ مردوں کےلیے انہیں قطعی طورپرحرام قراردیاگیاہے۔ اسی طرح ریشم کالباس بھی صرف عورتوں کےلیےجائزقراردیاگیاہے، مردوں کےلیے حرام ہے۔اگرغورکیاجائے تواس سےزینت کےحوالےسےعورتوں کووسیع ترمیدان ملتاہے۔ اس میں عورتوں کوایک طرح سےبرتری حاصل ہے۔ یہ چیزیں اگرمرداستعمال کریں تویہ ان کی وجاہت اوروقار کےخلاف ہے۔چونکہ یہ چیزیں عورتوں کےلیے حلال ہیں اس لیے مردان کی خریدوفروخت کرسکتےہیں۔ مردوں کواس حوالےسےاتنی سہولت دی گئی ہےکہ ان کےلباس میں بہت معمولی مقدارمیں ریشم موجودہوتووہ اسےاستعمال کرسکتےہیں، تاہم جلدی بیماری وغیرہ کی صورت میں طبی ضرورت کےتحت ریشم کالباس پہننےکی اجازت ہے۔
مردوں کواس طرح کےشوخےرنگ پہننےکی بھی اجازت نہیں جوصرف عورتوں ہی کواچھےلگتےاورنسوانی جمال کونمایاں کرتےہیں ،البتہ اسراف سےپرہیزکرتےہوئےمردوں کےلیے بھی دھاریوں والےیادوسرےجائز نقش ونگارسےمزین لباس کی اجازت ہے۔لباس کےذریعےسےکبرونخوت کااظہاراورمتکبرانہ لباس پہنناممنوع ہے۔ زمانہ قدیم سےکپڑوں کولٹکانا،مردوں کےلیے اظہارتکبرکی ایک علامت ہے۔ مسلمانوں کواس سےمنع کیاگیاہے۔رسول اللہﷺنےجب اردگردکےبادشاہو اورحاکموں کواسلام کی دعوت دینےکےلیے خط لکھنےکاارادہ فرمایاتوبطورمہراستعمال کرنےکےلیے چاندی کی انگوٹھی تیارکروائی ،ضرورتادیگرمسلمانوں کوبھی اس کی اجازت دی گئی اوریہ بھی بتایاگیاکہ کس انگلی میں پہنناموزوں ہے۔ جوتےپہننےکےحوالےسےآپﷺکن باتوں کوملحوظ رکھتے،اس کی وضاحت ہے۔ کس طرح کالباس استعمال کرتےہوئےکیاکیااحتیاط ملحوظ رکھنی چاہیےتاکہ ستراورحیاکےتقاضےپامال نہ ہوں، اس کی بھی وضاحت ہے۔ بالوں کےرنگنےکےحوالےسےاسلامی آداب بھی اسی کتاب میں بیان ہوئےہیں ۔گھرمیں اورخاص طورپرکپڑوں پرجانداروں کی تصویروں کی ممانعت اسلام کاشعارہے۔ اس کےساتھ ہی امام مسلمنےتصویریں بنانےکےحوالےسےاسلامی تعلیمات کوبیان کیاہے۔
اس کےبعدسواریوں اوردیگرجانوروں کےبارےمیں اورراستےکےحقوق کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین بیان کیےگئےہیں۔ آخرمیں بالوں کی قبیح صورتوں اورتزیین وجمال کی غرض سےدجل وفریب پرمبنی اقدامات کی تددیدہے۔ اس کامقصدیہ ہےکہ انسان ایک دوسرےکومحض ظاہری حسن کےحوالےسےپسندنا پسندکرنےکےبجائےپوری شخصیت کےخالص اورحقیقی جمال کوترجیح دیں تاکہ کوئی بھی انسان،خصوصاعورت نہ محض آرائش کی چیزبن کراپنی شخصیت کوپست کرے،نہ ہی کوئی عورت ظاہری جمال میں کمی کی بناپرکم قدرقراردی جائے۔ سادگی حقیقت پسندی اورظاہری خوبیوں کےساتھ باطنی خوبیوں کوسراہنامعاشرےکی مضبوطی کاباعث بنتاہے۔ ظاہری خوبیوں کےدلدادہ لوگوں کےنزدیک چندبچوں کی پیدائش کےبعدعورت قابل نفرت بن جاتی ہے،جبکہ خاندان کےلیے اس وقت اس کی خدمات اورزیادہ ناگزیراورقابل قدرہوتی ہیں، محض ظاہری جمال ہی کوسراہاجانےلگےتوگھراجڑنےاورنمودونمائش کی دکانیں آبادہونےلگتی ہیں۔
امام مالک نے عبد اللہ بن ابی بکر سے، انھوں نے عباد بن تمیم سے روایت کی کہ حضرت ابو بشیر انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انھیں بتایا کہ وہ ایک سفر میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے رسول اللہ ﷺ نے ایک قاصد کو بھیجا۔ عبداللہ ابو بکر نے کہا: میرا گمان ہے کہ انھوں نے کہا: لوگ اپنی اپنی سونے کی جگہ میں پہنچ چکے تھے۔ (اور حکم دیا): ’’کسی اونٹ کی گردن میں تانت (کمان کے دونوں سرے جوڑے نے والی مضبوط باریک چمڑے کی ڈوری) کا ہار۔ یا کوئی بھی ہار نہ چھوڑا جائے مگر اسے کاٹ دیا جائے۔‘‘ امام مالک نے فرمایا: ’’میرا خیال ہے کہ یہ (ہار) نظر بد سے بچانے کے لیے (گلے میں ڈالے جا تے ) تھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا نقطۂ نظر یہی ہے کہ آپﷺ نے تانتیں کاٹنے اور آئندہ اونٹوں کی گردنوں میں ہار وغیرہ نہ ڈالنے کا حکم اسی لیے دیا تھا کہ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ ہار اونٹوں کو نظر بد سے محفوظ رکھتے ہیں، جبکہ نظر بد سے اور ہر طرح کی تکلیف سے تحفظ صرف اللہ دیتا ہے۔ بعض دوسرے آئمہ نے اس حکم کی اور بھی حکمتیں بیان کی ہیں۔ امام محمد بن حسن کی رائے ہے کہ ایسے ہار کسی موٹی ٹہنی کے ساتھ اٹک کر اونٹ کا گلا گھونٹے کا سبب بن سکتے ہیں ابو عبیدہ کہتے ہیں: اس صورت میں جانور مرنے سے بچ جائے تو بھی اس طرح اسے شدید اذیت پہنچتی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمۃ الباب (عنوان) سے یہ حکمت سامنے آتی ہے کہ اس قسم کی چیزوں کے ساتھ گھنٹیاں لٹکائی جاتی تھیں جن سے رسول اللہ ﷺ نے بالصراحت منع فرمایا ہے۔ یہ سب یا ان میں سے کوئی سی حکمت بھی ملحوظ ہو سکتی ہے۔ بہرحال جانوروں کو اس طرح کے ہار پہنانا ممنوع ہے۔ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اگر محض زینت مقصود ہو، گھنٹیاں بندھی ہوئی نہ ہوں اور ڈوریاں کچی ہوں، یعنی ممانعت کی اسباب میں سے کوئی سبب موجود نہ ہو تو ممانعت ختم ہو جاتی ہے۔ والله علم بالصواب-
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو بشیر انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے کسی سفر میں شریک تھے تو آپ نے ایک ایلچی روانہ کیا، عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، میرے خیال میں انہوں نے کہا، جبکہ لوگ اپنی آرام گاہ میں تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی اونٹ کی گردن میں تانت کا ہار یا کوئی ہار باقی نہ رہے، مگر اسے کاٹ دیا جائے۔‘‘ امام مالک کہتے ہیں، میرا خیال ہے، لوگ اس کو بدنظری کا علاج سمجھتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
جاہلیت کے دور میں لوگ حیوانات خاص کر اونٹ کی گردن میں تانت کا ہار ڈالتے تھے اور سمجھتے تھے، اس میں نظر بد سے بچانے کا خاصہ ہے، اس لیے آپﷺ نے اس کو کاٹنے کا حکم دیا کہ اس کا نظر بد سے بچانے میں کوئی دخل نہیں، بعض حضرات کا خیال ہے، یہ حیوان کے لیے تکلیف کا باعث ہے، اس سے چرنے اور سانس لینے میں دقت پیدا ہوتی ہے، کسی درخت میں پھنس کر گھٹنے کا بھی اندیشہ ہے اور بعض کا خیال ہے، اس میں گھنٹی باندھتے تھے، اگر ہار کھلا ہو، کسی قسم کا اندیشہ نہ ہو، محض زیب و زینت کے لیے ہو تو بقول امام نووی جائز ہے اور بقول علامہ عینی اگر یہ تعویذ کے لیے ہو اور اس میں قرآن کی آیت ہو، یا اللہ کا نام ہو، جس کا مقصد برکت حاصل کرنا یا اللہ کے اسماء اور اس کے ذکر کی پناہ لینا ہو تو ممنوع نہیں ہے، اس طرح اگر تکسیر اور اسراف سے بچ کر زینت کے لیے ہو تو پھر بھی ممنوع نہیں۔ (عمدۃ القاری ج 7 ص 43) مگر ظاہر ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآنی آیات یا اسماء الٰہی کو جانوروں کے گلے میں نہیں ڈالا تو ہمیں بھی اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Bashir Ansari reported that he had had (the opportunity of accompanying Allah's Messenger (ﷺ) in some of his journeys. Allah's Messenger (ﷺ) sent one of his messengers 'Abdullah b Abi Bakr said: I think he said (these words) when the people were at the places of rest: No necklace of strings be left on the necks of the camels or the necklace kept unbroken. Imam Malik said: To my mind (this practice) of wearing necklace round the necks of camels or animals was because of the fact that they (wanted to save them) from the influence of the evil eye.