باب: سر کے کچھ حصے کے بال مونڈ نے اور کچھ کے باقی رکھنے کی ممانعت
)
Muslim:
The Book of Clothes and Adornment
(Chapter: It Is Disliked To Shave Part Of The Head And Leave Part)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2120.
یحییٰ بن سعید نے عبید اللہ سے روایت کی کہا: مجھے عمر بن نافع نے اپنے والد سے خبردی۔ انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ’’قزع‘‘ سے منع فرمایا، میں نے نافع سے پوچھا: قزع کیا ہے؟ انھوں نے کہا: بچے کے سر کے کچھ حصے کے بال مونڈ دیے جا ئیں اور کچھ حصے کو چھوڑ دیا جا ئے۔
لباس شرم وحیا،صحت اورموسم کےحوالےسےانسان کی بنیادی ضرورت ہےاوراس کےلیے زینت کاسبب بھی۔ اللہ تعالیٰ نےعورت اورمردکوالگ الگ اندازسےخوبصورت بنایاہے۔ دونوں کےلیے زینت کےاندازبھی مختلف ہیں۔ مرداگرعورت کی طرح زینت اختیارکرےتوبرالگتاہےاورعورت اگرمردکیطرح زینت اختیارکرےتوبری لگتی ہے۔
اسی طرح زینت اوراستکباربھی دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ ان کےدرمیان جولکیرحائل ہےوہ مٹ جائےتوعام انسانوں کےلیے بہت سی مشکلات پیداہوتی ہیں۔ انسان کارہناسہنابھلےآرام دہ ہولیکن امارت کی نمودونمائش کاایساذریعہ نہ ہوجس سےعام لوگ مرعوب ہوں اوران کی دلوں میں اپنی محرومی اوردوسروں کی بےحدوحساب اورغیرمنصفانہ امارت کااذیت ناک احساس پیداہو۔
امام مسلمنےکتاب اللباس والزینۃ میں انسانی رہن سہن ،لباس اورسواری وغیرہ کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین مقدسہ کوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےامارت کی بےجانمائش اورانتہائی مسرفانہ زندگی کےحوالےسےسونےچاندی کےبرتن وغیرہ کےاستعمال کی حرمت بیان کی ہے۔ اس کےبعدصرف عورتوں کےلیے سونےکی زیورات کےجوازکابیان ہے۔ مردوں کےلیے انہیں قطعی طورپرحرام قراردیاگیاہے۔ اسی طرح ریشم کالباس بھی صرف عورتوں کےلیےجائزقراردیاگیاہے، مردوں کےلیے حرام ہے۔اگرغورکیاجائے تواس سےزینت کےحوالےسےعورتوں کووسیع ترمیدان ملتاہے۔ اس میں عورتوں کوایک طرح سےبرتری حاصل ہے۔ یہ چیزیں اگرمرداستعمال کریں تویہ ان کی وجاہت اوروقار کےخلاف ہے۔چونکہ یہ چیزیں عورتوں کےلیے حلال ہیں اس لیے مردان کی خریدوفروخت کرسکتےہیں۔ مردوں کواس حوالےسےاتنی سہولت دی گئی ہےکہ ان کےلباس میں بہت معمولی مقدارمیں ریشم موجودہوتووہ اسےاستعمال کرسکتےہیں، تاہم جلدی بیماری وغیرہ کی صورت میں طبی ضرورت کےتحت ریشم کالباس پہننےکی اجازت ہے۔
مردوں کواس طرح کےشوخےرنگ پہننےکی بھی اجازت نہیں جوصرف عورتوں ہی کواچھےلگتےاورنسوانی جمال کونمایاں کرتےہیں ،البتہ اسراف سےپرہیزکرتےہوئےمردوں کےلیے بھی دھاریوں والےیادوسرےجائز نقش ونگارسےمزین لباس کی اجازت ہے۔لباس کےذریعےسےکبرونخوت کااظہاراورمتکبرانہ لباس پہنناممنوع ہے۔ زمانہ قدیم سےکپڑوں کولٹکانا،مردوں کےلیے اظہارتکبرکی ایک علامت ہے۔ مسلمانوں کواس سےمنع کیاگیاہے۔رسول اللہﷺنےجب اردگردکےبادشاہو اورحاکموں کواسلام کی دعوت دینےکےلیے خط لکھنےکاارادہ فرمایاتوبطورمہراستعمال کرنےکےلیے چاندی کی انگوٹھی تیارکروائی ،ضرورتادیگرمسلمانوں کوبھی اس کی اجازت دی گئی اوریہ بھی بتایاگیاکہ کس انگلی میں پہنناموزوں ہے۔ جوتےپہننےکےحوالےسےآپﷺکن باتوں کوملحوظ رکھتے،اس کی وضاحت ہے۔ کس طرح کالباس استعمال کرتےہوئےکیاکیااحتیاط ملحوظ رکھنی چاہیےتاکہ ستراورحیاکےتقاضےپامال نہ ہوں، اس کی بھی وضاحت ہے۔ بالوں کےرنگنےکےحوالےسےاسلامی آداب بھی اسی کتاب میں بیان ہوئےہیں ۔گھرمیں اورخاص طورپرکپڑوں پرجانداروں کی تصویروں کی ممانعت اسلام کاشعارہے۔ اس کےساتھ ہی امام مسلمنےتصویریں بنانےکےحوالےسےاسلامی تعلیمات کوبیان کیاہے۔
اس کےبعدسواریوں اوردیگرجانوروں کےبارےمیں اورراستےکےحقوق کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین بیان کیےگئےہیں۔ آخرمیں بالوں کی قبیح صورتوں اورتزیین وجمال کی غرض سےدجل وفریب پرمبنی اقدامات کی تددیدہے۔ اس کامقصدیہ ہےکہ انسان ایک دوسرےکومحض ظاہری حسن کےحوالےسےپسندنا پسندکرنےکےبجائےپوری شخصیت کےخالص اورحقیقی جمال کوترجیح دیں تاکہ کوئی بھی انسان،خصوصاعورت نہ محض آرائش کی چیزبن کراپنی شخصیت کوپست کرے،نہ ہی کوئی عورت ظاہری جمال میں کمی کی بناپرکم قدرقراردی جائے۔ سادگی حقیقت پسندی اورظاہری خوبیوں کےساتھ باطنی خوبیوں کوسراہنامعاشرےکی مضبوطی کاباعث بنتاہے۔ ظاہری خوبیوں کےدلدادہ لوگوں کےنزدیک چندبچوں کی پیدائش کےبعدعورت قابل نفرت بن جاتی ہے،جبکہ خاندان کےلیے اس وقت اس کی خدمات اورزیادہ ناگزیراورقابل قدرہوتی ہیں، محض ظاہری جمال ہی کوسراہاجانےلگےتوگھراجڑنےاورنمودونمائش کی دکانیں آبادہونےلگتی ہیں۔
یحییٰ بن سعید نے عبید اللہ سے روایت کی کہا: مجھے عمر بن نافع نے اپنے والد سے خبردی۔ انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ’’قزع‘‘ سے منع فرمایا، میں نے نافع سے پوچھا: قزع کیا ہے؟ انھوں نے کہا: بچے کے سر کے کچھ حصے کے بال مونڈ دیے جا ئیں اور کچھ حصے کو چھوڑ دیا جا ئے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قزع سے منع فرمایا، عبیداللہ نے نافع سے دریافت کیا، قزع کسے کہتے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا، بچے کے سر کا بعض حصہ مونڈ دیا جائے اور بعض کو چھوڑ دیا جائے۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
امام نووی نے لکھا ہے، قَزَعِ کی صحیح تعریف یہی ہے، جو نافع نے کی ہے، اگرچہ بعض نے یہ کہا ہے کہ قزع متفرق مقامات سے بال مونڈنے کا نام ہے، لیکن عبیداللہ سے بخاری شریف میں جو تعریف منقول ہے، وہ یہی ہے کہ إذا حلق الصبي وترك ههنا شعرة وههنا وههنا، جس کا معنی ہے پیشانی اور سر کے دونوں جوانب سے بال مونڈنا اور درمیان میں بال چھوڑ دینا، نیز عبیداللہ نے نافع سے نقل کیا ہے، لڑکے کے لیے کنپٹی اور گدی کے بال منڈوانے میں کوئی حرج نہیں ہے، امام نووی نے لکھا ہے، علماء کا اس پر اجماع ہے، قزع اگر مختلف مقامات سے ہو تو مکروہ تنزیہی ہے، الا یہ کہ علاج وغیرہ کے لیے ہو، شوافع کے نزدیک مرد اور عورت دونوں کے لیے بلا قید مکروہ ہے اور امام مالک کے نزدیک لڑکے اور لڑکی کے لیے بھی بلا قید مکروہ ہے، جبکہ بعض مالکیوں کا خیال ہے، کنپٹی اور گدی کے بال لڑکے کے لیے منڈوانا مکروہ نہیں ہے، اور قزع کے مکروہ ہونے کی وجہ خلقت کو بگاڑنا اور برے لوگوں کی روش اختیار کرنا ہے اور سنن ابی داود کی ایک روایت کی رو سے یہ یہودیوں کی شکل اور ہئیت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Umar (RA) reported that Allah's Messenger (ﷺ) forbade Qaza. I said to Nafi (RA) : What is Qaza'? He said: This means having a part of a boy's head shaved and leaving a part unshaven.