باب: مصنوعی بال لگانے ،لگوانے والی گودنے ،گدوانے والی اور ابروؤں کے بال نوچنے نچوانے والی ،دانتوں کو کشادہ کروانے والی اور اللہ تعا لیٰ کی خلقت کو تبدیل کرنے والی کا (ایسا ہر )عمل حرام ہے
)
Muslim:
The Book of Clothes and Adornment
(Chapter: The Prohibition Adding Hair Extensions, Having Them Added, Tattooing, Being Tattooed, An-Namisah, Al-Mutanamisah, Separating Teeth, And Changing The Creation Of Allah)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2125.
جریر نے منصور سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے علقمہ سے، انھوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے روایت کی، کہا: کہ اللہ تعالیٰ نے لعنت کی گودنے والیوں اور گدوانے والیوں پر اور چہرے کے بال اکھیڑنے والیوں پر اور اکھڑوانے والیوں پر اور دانتوں کو خوبصورتی کے لئے کشادہ کرنے والیوں پر (تاکہ خوبصورت و کمسن معلوم ہوں) اور اللہ تعالیٰ کی خلقت (پیدائش) بدلنے والیوں پر۔ پھر یہ خبر بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچی جسے ام یعقوب کہا جاتا تھا اور وہ قرآن کی قاریہ تھی، تو وہ سیدنا عبداللہ ؓ کے پاس آئی اور بولی کہ مجھے کیا خبر پہنچی ہے کہ تم نے گودنے والیوں اور گدوانے والیوں پر اور منہ کے بال اکھاڑنے والیوں پر اور اکھڑوانے والیوں، اور دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں پر اور اللہ تعالیٰ کی خلقت کو بدلنے والیوں پر لعنت کی ہے؟ تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے لعنت کی اور یہ تو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود ہے؟ وہ عورت بولی کہ میں تو دو جلدوں میں جس قدر قرآن تھا، پڑھ ڈالا لیکن مجھے نہیں ملا، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اگر تو نے پڑھا ہے تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان تجھے ضرور ملا ہو گا کہ ’’جو کچھ رسول اللہ ﷺ تمہیں بتلائے اس کو تھامے رہو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو ‘‘ (الحشر: 7) وہ عورت بولی کہ ان باتوں میں سے تو بعضی باتیں تمہاری عورت بھی کرتی ہے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ جا دیکھ۔ وہ ان کی عورت کے پاس گئی تو کچھ نہ پایا۔ پھر لوٹ کر آئی اور کہنے لگی کہ ان میں سے کوئی بات میں نے نہیں دیکھی، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا تو ہم ان کے ساتھ مل کر نہ رہتے۔
تشریح:
فائدہ:
’’میں ان پر لعنت کیوں نہ کروں جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے اور اللہ عزوجل کی کتاب میں ہے‘‘ سے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد تھا کہ کتاب اللہ کے حکم کے مطبق وہی کرو جو رسول اللہ ﷺ کریں یا جس کا حکم دیں، مگر وہ خاتون اس کے بجائے یہ سمجھیں کہ ایسی عورتوں پر کتاب اللہ میں لعنت کی گئی ہے اس لیے وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پاس حاضر ہوئی۔ انھوں نے قرآنی آیت سے اپنے استدلال کو واضح کیا تو بات خاتون کو سمجھ میں آ گئی۔
لباس شرم وحیا،صحت اورموسم کےحوالےسےانسان کی بنیادی ضرورت ہےاوراس کےلیے زینت کاسبب بھی۔ اللہ تعالیٰ نےعورت اورمردکوالگ الگ اندازسےخوبصورت بنایاہے۔ دونوں کےلیے زینت کےاندازبھی مختلف ہیں۔ مرداگرعورت کی طرح زینت اختیارکرےتوبرالگتاہےاورعورت اگرمردکیطرح زینت اختیارکرےتوبری لگتی ہے۔
اسی طرح زینت اوراستکباربھی دوالگ الگ چیزیں ہیں۔ ان کےدرمیان جولکیرحائل ہےوہ مٹ جائےتوعام انسانوں کےلیے بہت سی مشکلات پیداہوتی ہیں۔ انسان کارہناسہنابھلےآرام دہ ہولیکن امارت کی نمودونمائش کاایساذریعہ نہ ہوجس سےعام لوگ مرعوب ہوں اوران کی دلوں میں اپنی محرومی اوردوسروں کی بےحدوحساب اورغیرمنصفانہ امارت کااذیت ناک احساس پیداہو۔
امام مسلمنےکتاب اللباس والزینۃ میں انسانی رہن سہن ،لباس اورسواری وغیرہ کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین مقدسہ کوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےامارت کی بےجانمائش اورانتہائی مسرفانہ زندگی کےحوالےسےسونےچاندی کےبرتن وغیرہ کےاستعمال کی حرمت بیان کی ہے۔ اس کےبعدصرف عورتوں کےلیے سونےکی زیورات کےجوازکابیان ہے۔ مردوں کےلیے انہیں قطعی طورپرحرام قراردیاگیاہے۔ اسی طرح ریشم کالباس بھی صرف عورتوں کےلیےجائزقراردیاگیاہے، مردوں کےلیے حرام ہے۔اگرغورکیاجائے تواس سےزینت کےحوالےسےعورتوں کووسیع ترمیدان ملتاہے۔ اس میں عورتوں کوایک طرح سےبرتری حاصل ہے۔ یہ چیزیں اگرمرداستعمال کریں تویہ ان کی وجاہت اوروقار کےخلاف ہے۔چونکہ یہ چیزیں عورتوں کےلیے حلال ہیں اس لیے مردان کی خریدوفروخت کرسکتےہیں۔ مردوں کواس حوالےسےاتنی سہولت دی گئی ہےکہ ان کےلباس میں بہت معمولی مقدارمیں ریشم موجودہوتووہ اسےاستعمال کرسکتےہیں، تاہم جلدی بیماری وغیرہ کی صورت میں طبی ضرورت کےتحت ریشم کالباس پہننےکی اجازت ہے۔
مردوں کواس طرح کےشوخےرنگ پہننےکی بھی اجازت نہیں جوصرف عورتوں ہی کواچھےلگتےاورنسوانی جمال کونمایاں کرتےہیں ،البتہ اسراف سےپرہیزکرتےہوئےمردوں کےلیے بھی دھاریوں والےیادوسرےجائز نقش ونگارسےمزین لباس کی اجازت ہے۔لباس کےذریعےسےکبرونخوت کااظہاراورمتکبرانہ لباس پہنناممنوع ہے۔ زمانہ قدیم سےکپڑوں کولٹکانا،مردوں کےلیے اظہارتکبرکی ایک علامت ہے۔ مسلمانوں کواس سےمنع کیاگیاہے۔رسول اللہﷺنےجب اردگردکےبادشاہو اورحاکموں کواسلام کی دعوت دینےکےلیے خط لکھنےکاارادہ فرمایاتوبطورمہراستعمال کرنےکےلیے چاندی کی انگوٹھی تیارکروائی ،ضرورتادیگرمسلمانوں کوبھی اس کی اجازت دی گئی اوریہ بھی بتایاگیاکہ کس انگلی میں پہنناموزوں ہے۔ جوتےپہننےکےحوالےسےآپﷺکن باتوں کوملحوظ رکھتے،اس کی وضاحت ہے۔ کس طرح کالباس استعمال کرتےہوئےکیاکیااحتیاط ملحوظ رکھنی چاہیےتاکہ ستراورحیاکےتقاضےپامال نہ ہوں، اس کی بھی وضاحت ہے۔ بالوں کےرنگنےکےحوالےسےاسلامی آداب بھی اسی کتاب میں بیان ہوئےہیں ۔گھرمیں اورخاص طورپرکپڑوں پرجانداروں کی تصویروں کی ممانعت اسلام کاشعارہے۔ اس کےساتھ ہی امام مسلمنےتصویریں بنانےکےحوالےسےاسلامی تعلیمات کوبیان کیاہے۔
اس کےبعدسواریوں اوردیگرجانوروں کےبارےمیں اورراستےکےحقوق کےحوالےسےرسول اللہﷺ کےفرامین بیان کیےگئےہیں۔ آخرمیں بالوں کی قبیح صورتوں اورتزیین وجمال کی غرض سےدجل وفریب پرمبنی اقدامات کی تددیدہے۔ اس کامقصدیہ ہےکہ انسان ایک دوسرےکومحض ظاہری حسن کےحوالےسےپسندنا پسندکرنےکےبجائےپوری شخصیت کےخالص اورحقیقی جمال کوترجیح دیں تاکہ کوئی بھی انسان،خصوصاعورت نہ محض آرائش کی چیزبن کراپنی شخصیت کوپست کرے،نہ ہی کوئی عورت ظاہری جمال میں کمی کی بناپرکم قدرقراردی جائے۔ سادگی حقیقت پسندی اورظاہری خوبیوں کےساتھ باطنی خوبیوں کوسراہنامعاشرےکی مضبوطی کاباعث بنتاہے۔ ظاہری خوبیوں کےدلدادہ لوگوں کےنزدیک چندبچوں کی پیدائش کےبعدعورت قابل نفرت بن جاتی ہے،جبکہ خاندان کےلیے اس وقت اس کی خدمات اورزیادہ ناگزیراورقابل قدرہوتی ہیں، محض ظاہری جمال ہی کوسراہاجانےلگےتوگھراجڑنےاورنمودونمائش کی دکانیں آبادہونےلگتی ہیں۔
جریر نے منصور سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے علقمہ سے، انھوں نے حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما) سے روایت کی، کہا: کہ اللہ تعالیٰ نے لعنت کی گودنے والیوں اور گدوانے والیوں پر اور چہرے کے بال اکھیڑنے والیوں پر اور اکھڑوانے والیوں پر اور دانتوں کو خوبصورتی کے لئے کشادہ کرنے والیوں پر (تاکہ خوبصورت و کمسن معلوم ہوں) اور اللہ تعالیٰ کی خلقت (پیدائش) بدلنے والیوں پر۔ پھر یہ خبر بنی اسد کی ایک عورت کو پہنچی جسے ام یعقوب کہا جاتا تھا اور وہ قرآن کی قاریہ تھی، تو وہ سیدنا عبداللہ ؓ کے پاس آئی اور بولی کہ مجھے کیا خبر پہنچی ہے کہ تم نے گودنے والیوں اور گدوانے والیوں پر اور منہ کے بال اکھاڑنے والیوں پر اور اکھڑوانے والیوں، اور دانتوں کو کشادہ کرنے والیوں پر اور اللہ تعالیٰ کی خلقت کو بدلنے والیوں پر لعنت کی ہے؟ تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ میں اس پر لعنت کیوں نہ کروں جس پر اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ نے لعنت کی اور یہ تو اللہ تعالیٰ کی کتاب میں موجود ہے؟ وہ عورت بولی کہ میں تو دو جلدوں میں جس قدر قرآن تھا، پڑھ ڈالا لیکن مجھے نہیں ملا، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اگر تو نے پڑھا ہے تو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان تجھے ضرور ملا ہو گا کہ ’’جو کچھ رسول اللہ ﷺ تمہیں بتلائے اس کو تھامے رہو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو ‘‘(الحشر: 7) وہ عورت بولی کہ ان باتوں میں سے تو بعضی باتیں تمہاری عورت بھی کرتی ہے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ جا دیکھ۔ وہ ان کی عورت کے پاس گئی تو کچھ نہ پایا۔ پھر لوٹ کر آئی اور کہنے لگی کہ ان میں سے کوئی بات میں نے نہیں دیکھی، تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا تو ہم ان کے ساتھ مل کر نہ رہتے۔
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
’’میں ان پر لعنت کیوں نہ کروں جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے اور اللہ عزوجل کی کتاب میں ہے‘‘ سے حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد تھا کہ کتاب اللہ کے حکم کے مطبق وہی کرو جو رسول اللہ ﷺ کریں یا جس کا حکم دیں، مگر وہ خاتون اس کے بجائے یہ سمجھیں کہ ایسی عورتوں پر کتاب اللہ میں لعنت کی گئی ہے اس لیے وہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پاس حاضر ہوئی۔ انھوں نے قرآنی آیت سے اپنے استدلال کو واضح کیا تو بات خاتون کو سمجھ میں آ گئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں، گودنے والی اور گدوانے کا مطالبہ یا خواہش کرنے والی، بال اکھیڑنے والی اور اکھڑوانے کا مطالبہ کرنے والی اور خوبصورتی کے لیے دانتوں کو کشادہ کرنے والی، جو اللہ کی تخلیق میں تبدیلی کرتی ہیں، اللہ نے لعنت بھیجی ہے، یہ بات بنو اسد کی ایک عورت ام یعقوب نامی تک پہنچی، جو قرآن کی تلاوت کرتی رہتی تھی تو وہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگی، وہ بات کیا ہے جو مجھے آپ کی طرف سے پہنچی ہے کہ آپ بدن گودنے والیوں، گدوانے والیوں، بال اکھڑوانے والیوں اور خوبصورتی کے لیے دانت کشادہ کروانے والیوں پر لعنت بھیجتے ہیں، جو اللہ کی بناوٹ میں تبدیلی پیدا کرتی ہیں تو حضرت عبداللہ ؓ نے کہا، میں ان عورتوں پر لعنت کیوں نہ بھیجوں، جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے اور اس کا ذکر اللہ کی کتاب میں موجود ہے تو عورت کہنے لگی، میں نے قرآن مکمل طور پر پڑھا ہے تو مجھے تو یہ ذکر نہیں ملا تو انہوں نے فرمایا، اگر تو، توجہ کے ساتھ پڑھتی تو تجھے یہ مل جاتا، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’رسول تمہیں جو دیں لے لو اور جس سے تمہیں روک دیں اس سے رک جاؤ۔‘‘(سورۃ الحشر :7) تو وہ عورت کہنے لگی، میں دیکھ رہی ہوں (خیال کرتی ہوں) ان میں بعض کام تو اب آپ کی بیوی بھی کرتی ہے، انہوں نے کہا، میرے گھر جاؤ اور دیکھ لو تو وہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی کے پاس گئی اور اسے کچھ نظر نہ آیا، وہ ان کے پاس آ کر کہنے لگی، میں نے کچھ نہیں دیکھا تو انہوں نے کہا، ہاں اگر وہ ان امور میں سے کسی کا ارتکاب کرتی، ہمارے ساتھ نہ رہتی وہ اس کو ساتھ نہ رکھتے۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) نامصات: بال اکھیڑنے والی جو چہرے کے بال اکھیڑتی ہےاور متنمصات، جو دوسری عورت سے بال اکھڑواتی ہے،عام طور پر عورتیں یہ کام حسن وزیبائش کے لیے پلکوں اور چہرے کے اطراف میں کرتی ہیں،احناف کے نزدیک عورت کے لیے داڑھی،مونچھیں اور بچہ کے بال زائل کرنا درست ہے اور شوافع کا بھی یہی موقف ہے،لیکن امام طبری، نے اس کو بھی ناجائز قرار دیا ہے،جبکہ امام نووی اس ازالہ کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ (2) متفلجات:رباعی اور ثنایا دانتوں کوریتی کے ذریعہ باریک کرنا تاکہ درمیان میں کشادگی پیدا ہو اور عورت کم عمر نظر آئے۔
فوائد ومسائل
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، اپنے بدن اور جسم میں حسن و جمال کی خاطر کمی و بیشی کر کے، ایسا رد و بدل کرنا جو دائمی اور مسلسل ہو اور تخلیق و بناوٹ محسوس ہو تو یہ دھوکہ دہی اور بعض بناوٹ میں تبدیلی ہے جو ناجائز ہے، لیکن عارضی رنگ و روغن یا سرخی، پوڈر، محض خاوند کی خاطر استعمال کرنا جائز ہے، لیکن بازاری عورتوں کی طرح ہار سنگھار کر کے اور مجسم دعوت نظارہ بن کر، دوسروں کے سامنے اپنے حسن و جمال کا مظاہرہ کرنا تاکہ لوگ دیدے پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھیں اور اس کے حسن و جمال کا شہرہ ہو اور وہ شمع محفل بن جائے، اس کے فوٹو اتریں تو یہ انتہائی شدید جرم اور کبیرہ گناہ ہے اور اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، انسان دوسروں کے سامنے جو کچھ بیان کرتا ہے، لوگ فورا اس کے گھر پر نظر ڈالتے ہیں کہ ان باتوں پر اس کے گھر کہاں تک عمل ہو رہا ہے اور انسان کو اپنے گھر کی صفائی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور بدقسمتی ہے کہ یہ چیز آج مفقود ہے، ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے، جو ہماری تباہی اور بربادی کا باعث ہے اور اس بیماری میں عام و خاص، عالم و جاہل تمام طبقات مبتلا ہیں، لیکن علماء کی ذمہ داری بہرحال دوسروں سے زائد ہے، اس لیے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اگر میری بیوی ان میں سے کسی کا ارتکاب کرتی تو میں اس کو اپنے ساتھ نہ رکھتا، بلکہ طلاق دے کر جدا کر دیتا، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امر و نہی کتاب اللہ کے امر اور نہی کے حکم میں ہے، اس سے راہ فرار اختیار کرنا مسلمان کا شیوہ نہیں ہو سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah reported that Allah had cursed those women who tattooed and who have themselves tattooed, those who pluck hair from their faces and those who make spaces between their teeth for beautification changing what God has created. This news reached a woman of the tribe of Asad who was called Umm Ya'qub and she used to recite the Holy Qur'an. She came to him and said: What is this news that has reached me from you that you curse those women who tattooed and those women who have themselves tattooed, the women who pluck hair from their faces and who make spaces between their teeth for beautification changing what God has created? Thereupon 'Abdullah said: Should I not curse one upon whom Allah's Messenger (ﷺ) has invoked curse and that is in the Book also. Thereupon that woman said: I read the Qur'an from cover to cover, but I did not find that in it. whereupon he said: If you had read (thoroughly) you would have definitely found this in that (as) Allah, the Exalted and Glorious, has said:" What Allah's Messenger brings for you accept that. and what he has forbidden you. refrain from that." That woman said: I find this thing in your wife even now. Thereupon he said: Go and see her. She reported: I went to the wife of 'Abdullah but found nothing of this sort in her. She came back to him and said: I have not seen anything. whereupon he said: Had there been anything like it in her, I would have never slept with her in the bed.