باب: سلام کا جواب دینا ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے
)
Muslim:
The Book of Greetings
(Chapter: One Of The Rights Of One Muslim Over Another Is (The Greeting Of) Salam)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2162.
یونس نے ابن شہاب (زہری) سے انھوں نے ابن مسیب سے روایت کی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں۔‘‘
اسلامی سلامتی کادین ہے۔ صرف انسان کےلیے نہیں بلکہ تمام مخلوقات کی سلامتی سکھاتاہے۔ ہرمسلمان کوسکھایاگیاہےکہ دنیاکاہروہ انسان جواللہ کاباغی نہیں اوردوسرےانسان کی سلامتی کاقائل ہےوہ صرف اسےسلامتی کایقین ہی نہ دلائےبلکہ سلامتی کی دعابھی دے۔ پہلافقرہ جوکوئی مسلمان کوکہتاہےوہ السلام علیکم ہے۔ وہ صرف اپنےمخاطب کوسلامتی کاپیغام اورسلامتی کی دعانہیں دیتابلکہ اس کےتمام ساتھیوں کوبھی اس میں شامل کرتاہے۔ قرآن مجیدنےمسلمانوں کےدرمیان سلامتی کی خواہش کےاظہاراوردعاکولازمی قراردیاہے۔ اسلام کونہ ماننےوالوں کوبھی سلام کہاجاتاتھالیکن جب انہوں نےثابت کردیاکہ وہ مسلمان بلکہ خوداللہ کےرسول اللہﷺکےلیے بھی سلامتی کےبجائےچالاکی سےہلاکت کی بددعادیتےہیں تویہ طریقہ اپنانےکاحکم دیاگیاکہ غیرمسلم اگرسلام کہیں توجواب میں سلام کہاجائےاوروہ اگروہ سام علیکم (آپ پرموت ہو،یااس جیسےاورجملے)کہیں توبھی ترکی بہ ترکی جواب دینےکےبجائےصرف علیکم کہنےپراکتفاکیاجائے۔ غیرمسلموں کےساتھ پرامن بقائےباہمی مسلمانوں کاوتیرہ ہے۔ جوسلامتی کےباہمی عہدکوتوڑدےاوردرپےآزادہوجائے تواس کی چیرہ دستیوں سےدفاع ضروری ہے۔
زمین پربسنےوالی اللہ کی دوسری مخلوقات کی سلامتی کوبھی یقینی بنانےکاحکم دیاگیاہے،البتہ جوموذی جانورانسانی آبادیوں میں گھس کرانسانوں اورانسان کےزیرحفاظت دوسرےچوپایوں کےلیے ضررسانی یاہلاکت کاباعث بنیں ان سےنجات حاصل کرنےکی اجازت دی گئی۔ ایسےموذی جانوروں میں بڑےاورچھوٹےسب طرح کےجانورشامل ہیں۔ اگرکوئی جانورموذی سمجھاجاتاہےلیکن وہ بھی عرصہ درازسےانسانی آبادی میں بس رہاہےتواپنےعمل سےاسےبھی سلامتی کےساتھ وہاں سےجانےکاپیغام دیناچاہیے،اگرپھربھی نہ جائےتواس سےچھٹکاراپانےکی اجازت ہے،ورنہ انسانی آبادی میں اپنی موجودگی سےغلط فائدہ اٹھاکروہ کل کلاں ہلاکت کاموجب بنےگا۔
سلامتی کےحوالےسےمسلمانوں کونہایت عمدہ آداب سکھائےگئےہیں۔ اجازت کےبغیرکسی کےگھرمیں داخل نہ ہونا،عورتیں ضروری کاموں سےباہرجائیں توان کےلیے راستوں کومحفوظ بنانااوربوقت ضرورت ان کی مددکرنا،معاشرےخاندانوں،خصوصاخواتین کی سلامتی کےتحفظ کےلیے کسی اجنبی خاتون کےساتھ خلوت میں نہ رہنااوراگرمحرم خاتون ساتھ ہےتوضرورت محسوس ہونےپراس کےساتھ اپنےرشتےکی وضاحت کردینا ضروری ہے۔ سلامتی کےلیے گھروں اورمجلسوں کی سلامتی ضروری ہے۔ مجلسوں میں مساوات،ایک دوسرےکےحقوق کےتحفظ اوراہل مجلس میں سےہرایک کےآرام کاخیال رکھنےسےمجلسوں کی سلامتی کویقینی بنایاجاسکتاہے،گھروں میں وہ لوگ داخل نہ ہوں جوفتنہ انگیزی کرسکتےہیں۔ دوآمیوں کی سرگوشی تک سےپرہیز اورضرورت کےوقت دوسروں کی مدداوران کےمسائل حل کرنےسےسب لوگوں کےدل میں سلامتی کااحساس مضبوط ہوتاہے۔
سلامتی کےمتعلق ان تمام امورکےبارےمیں رسول اللہﷺکےفرامین بیان کرنےکےبعدامام مسلم نےصحت سےمتعلق امورکوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےان بیماریوں کےحوالےسےاحادیث لائی گئی ہیں جن کےاسباب کاکھوج لگاناعام طبیب کےلیےناممکن یاکم ازکم مشکل ہوتاہے۔ ان میں جادو،نظربداورزہرخورانی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کےعلاج کےلیے مختلف تدابیربتائی گئی ہیں جن میں دم کرنااوردعاکرناشامل ہیں، پھرمختلف بیماریوں کےعلاج کےلیے ان مناسب طریقوں کاذکرہےجورسول اللہﷺکےزمانےمیں رائج تھے۔ ان میں سےکچھ طریقوں کورسول اللہﷺنےپسندفرمایا،کچھ کوناپسندکیا۔ یہ بھی بتایاگیاکہ آپ پسندفرماتےہیں کہ بیمارکودی جانےوالی دوائیں اورطریقہ علاج تکلیف دہ نہ ہواورغذاپسندیدہ اورعمدہ ہونی چاہیے۔ اس کےبعدمختلف وباؤں کےحوالےسےرسول اللہﷺکی ہدایات بیان کی گئی ہیں جن کےذریعےسےزیادہ سےزیادہ جانوں کاتحفظ کیاجاسکتاہے،بیمارہونےوالوں کی تیمارداری کویقینی بنانےکی ہدایات ہیں، اس کےبعدسلامتی کےحوالے سےمختلف اوہام کاذکرہےاورآخرمیں موذی جانوروں کےبارےمیں ہدایات ہیں اورعمومی طورپرہرجاندارکے ساتھ رحم دلی کاسلوک کرنےکی تلقین ہے۔
یونس نے ابن شہاب (زہری) سے انھوں نے ابن مسیب سے روایت کی کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
(1) رد السلام: سلام کا جواب دینا فرض ہے اور سلام میں رحمة الله وبركاته کے اضافہ کی دلیل، فرشتوں کا رحمة الله وبركاته عليكم اهل البيت اور تشہد میں السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته ہے، اس طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کے سامنے جبریل علیہ السلام کے جواب میں کہا تھا، وعليه السلام ورحمة الله وبركاته اور یہ روایت صحیحین کی ہے اور بقول نووی رحمہ اللہ، سلام کا جواب فورا دینا چاہیے، خواہ سلام کسی کے ہاتھ آئے یا خط کے ذریعہ اور سلام اتنی آواز سے کہنا چاہیے کہ دوسرے کو سن جائے، اگر دور ہو تو اشارہ کر دے۔ (2) تشميت العاطس، تشميت دراصل تسميت ہے اور سمت راستہ کو کہتے ہیں اور اس کا معنی ہے، راستہ کی ہدایت و راہنمائی کی دعا کرنا اور یہاں مقصد ہے، خیر و بھلائی کی دعا دینا یعنی يرحمك الله کہنا۔ (3) امام نووی اور عبدالوہاب مالکی کے نزدیک تشميت سنة علی الكفاية، یعنی کسی ایک کا دعا دینا کافی ہے۔ (4) جمہور اہل ظاہر، بعض شوافع، ابن مزین مالکی، ابن دقیق العید اور امام ابن قیم کے نزدیک تشميت، فرض عین ہے، ہر ایک کو دعا دینا پڑے گی۔ (5) یہ فرض کفایہ ہے، کسی ایک کا يرحمك الله کہہ دینا کافی ہے، احناف، جمہور حنابلہ، ابن رشد اور ابن العربی کا یہی نظریہ ہے اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے، جس طرح ایک کا سلام کا جواب دینا فرض کی ادائیگی کے لیے بالاتفاق کافی ہے، یہی صورت یہاں ہونی چاہیے اور چھینکنے والے کو چھینک کی آواز ہاتھ رکھ کر آہستہ کرنے کی کوشش کرنا چاہیے اور دوسروں کو ریزش سے بچانا چاہیے اور بلند آواز سے الحمدللہ کہنا چاہیے، تاکہ اس کو يرحمك الله کی دعا دی جائے اور تین چھینکوں تک دعا دینا سنت ہے، کافر کی چھینک پر يهديكم الله ويصلح بالكم کہنا چاہیے، اگر چھینکنے والا الحمدلله نہیں کہتا تو اس کو دعا دینا ضروری نہیں ہے۔ اجابة الدعوه: اگر دعوت قبول کرنے میں کوئی مانع یا رکاوٹ نہ ہو تو پھر اس کو قبول کرنا کم از کم سنت ہے، کیونکہ امر کے صیغہ کی رو سے اس کو فرض قرار دیا جا سکتا ہے، اگر دعوت میں کوئی کام خلاف شریعت ہو تو اس سے روکنا چاہیے، یہ ممکن نہ ہو تو پھر اس میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ عيادة المرض: بیمار کی بیمار پرسی، بقول امام نووی بالاتفاق سنت ہے، بیمار اجنبی ہو یا واقف کار اور امام بخاری اس کے فرض ہونے کے قائل ہیں اور بقول ابن بطال یہ فرض علی الکفایہ ہے۔ اتباع الجنائز: جنازوں کے ساتھ جانا بالاتفاق سنت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: Five are the rights of a Muslim over his brother: