تشریح:
فائدہ:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ پہلے رسول اللہ ﷺ کے دونوں فرمان ساتھ ساتھ بیان کرتے تھے۔ دونوں کو ساتھ ساتھ بیان کرنے سے یہ واضح ہو جاتی تھی کہ بیماری کسی بیمار سے خود بخود لازمی طور پر دوسرے کو نہیں لگتی۔ ایسا سمجھ لینے سے اندیشہ یہ تھا کہ لوگ خوف کے مارے بیماروں کو تنہا چھوڑ دیا کریں گے۔ نہ علاج کے لیے قریب آئیں گے، نہ تیمار داری اور کھانا وغیرہ کھلانے کی ذمہ داری ہی پوری کریں گے۔ مختلف معاشروں میں یہ بے رحمانہ دستور رائج تھا بلکہ کچھ عرصہ پہلے تک رائج تھا۔ اسلامی تعلیمات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ بیماریوں کے جراثیم، وائرس وغیرہ ہر طرف پھیلتے ہیں لیکن جب تک جسم کے اندر اور اللہ کی حفاظت کا حصار قائم رہتا ہے کوئی جاندار بیماری کا شکار نہیں بنتا۔ بیمار اسی وقت بیمار ہوتا ہے جب اللہ کا فیصلہ یہی ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے دوسرے فرمان سے پہلی بات کا حقیقی مفہوم بھی متعین ہو جاتا ہے اور یہ وضاحت بھی ہو جاتی ہے کہ بیماری کے جراثیم دوسروں پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ بیماری کے خطرے کے ایک جگہ سے دوسری جگہ بہنچانے کا سبب نہیں بننا چاہیے۔ جب اللہ کا حکم ہو گا تو وہ بیماری یا ہوا دوسرے جانداروں وغیرہ کے ذریعے وہاں پہنچ بھی جائے گی، اسے کوئی روک نہیں سکے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے حکم ’’نفر من قدر الله الي قدر الله‘‘ سے یہی مراد ہے۔ انسان کو عافیت کے اسباب ضرور اختیار کرنے چاہئیں لیکن یہ پختہ یقین رکھنا چاہئیے کہ بیماری لگنا یا اس سے محفوظ رہنا اصل میں اللہ کے حکم سے ہے۔ بیماروں کے ساتھ رہنے کے باوجود بہت سے لوگ محفوظ رہتے ہیں اور حددرجہ احتیاط کرنے والے بہت سے لوگ بیمار ہو جاتے ہیں۔ اگر اس بات کا یقین ہو کہ یہ سب اللہ کے حکم کے تابع ہے تو انسان دوسروں کو بیماری کے عالم میں بے یارومدد گار نہیں چھوڑیں گے، نہ وبا کر خبر آتے ہی شدید اضطراب کا شکار ہوتے ہوئے گھروں سے نکل کر ہر طرف پھیل جائیں گے۔