باب: بد شگونی،(نیک )فال اور ان چیزوں کا بیان جن میں نحوست ہے
)
Muslim:
The Book of Greetings
(Chapter: (Evil) Omens And Al-Fa'l, And That Which May Be Regarded As Inauspicious)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2225.
امام مالک نے ابن شہاب سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے دو بیٹوں حمزہ اور سالم سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عدم موافقت (ناسزاداری) گھر،عورت اور گھوڑے میں ہو سکتی ہے۔‘‘
تشریح:
فائدہ:
کسی جگہ یا انسان یا سواری کا راس نہ آنا بد شگونی سے الگ چیز ہے انسان کی اپنی طبعیت، عادت، خصائل اور ان اشیاء کی خصوصیات ایسی ہو سکتی ہیں جن میں باہم مطابقت نہ ہوسکے۔ اس صورتِ حال سے جن انسانوں کو سابقہ پڑتا ہے وہ زیادہ تر ان چیزوںکے حوالے سے پڑتا ہے۔ عدمِ مواقفت کا یہ احساس توہم پرستی پر مبنی نہیں، اس کا انحصار استعمال کرنے والے کی سوچ، اس کی عادات، اعمال اور طریقۂ استعمال پر ہے۔ اگر یہ صورت حال پیش آ جائے تو ان چیزوں کو بدل لینا چاہیے۔ یہ بات بدشگونی کی ممانعت کے ضمن میں نہیں آتی۔ اس طرح کا گھوڑا اور مکان کسی اور کے ہاتھ بیچ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ عین ممکن ہے کہ ان کی ہم آہنگی ہو جائے۔
اسلامی سلامتی کادین ہے۔ صرف انسان کےلیے نہیں بلکہ تمام مخلوقات کی سلامتی سکھاتاہے۔ ہرمسلمان کوسکھایاگیاہےکہ دنیاکاہروہ انسان جواللہ کاباغی نہیں اوردوسرےانسان کی سلامتی کاقائل ہےوہ صرف اسےسلامتی کایقین ہی نہ دلائےبلکہ سلامتی کی دعابھی دے۔ پہلافقرہ جوکوئی مسلمان کوکہتاہےوہ السلام علیکم ہے۔ وہ صرف اپنےمخاطب کوسلامتی کاپیغام اورسلامتی کی دعانہیں دیتابلکہ اس کےتمام ساتھیوں کوبھی اس میں شامل کرتاہے۔ قرآن مجیدنےمسلمانوں کےدرمیان سلامتی کی خواہش کےاظہاراوردعاکولازمی قراردیاہے۔ اسلام کونہ ماننےوالوں کوبھی سلام کہاجاتاتھالیکن جب انہوں نےثابت کردیاکہ وہ مسلمان بلکہ خوداللہ کےرسول اللہﷺکےلیے بھی سلامتی کےبجائےچالاکی سےہلاکت کی بددعادیتےہیں تویہ طریقہ اپنانےکاحکم دیاگیاکہ غیرمسلم اگرسلام کہیں توجواب میں سلام کہاجائےاوروہ اگروہ سام علیکم (آپ پرموت ہو،یااس جیسےاورجملے)کہیں توبھی ترکی بہ ترکی جواب دینےکےبجائےصرف علیکم کہنےپراکتفاکیاجائے۔ غیرمسلموں کےساتھ پرامن بقائےباہمی مسلمانوں کاوتیرہ ہے۔ جوسلامتی کےباہمی عہدکوتوڑدےاوردرپےآزادہوجائے تواس کی چیرہ دستیوں سےدفاع ضروری ہے۔
زمین پربسنےوالی اللہ کی دوسری مخلوقات کی سلامتی کوبھی یقینی بنانےکاحکم دیاگیاہے،البتہ جوموذی جانورانسانی آبادیوں میں گھس کرانسانوں اورانسان کےزیرحفاظت دوسرےچوپایوں کےلیے ضررسانی یاہلاکت کاباعث بنیں ان سےنجات حاصل کرنےکی اجازت دی گئی۔ ایسےموذی جانوروں میں بڑےاورچھوٹےسب طرح کےجانورشامل ہیں۔ اگرکوئی جانورموذی سمجھاجاتاہےلیکن وہ بھی عرصہ درازسےانسانی آبادی میں بس رہاہےتواپنےعمل سےاسےبھی سلامتی کےساتھ وہاں سےجانےکاپیغام دیناچاہیے،اگرپھربھی نہ جائےتواس سےچھٹکاراپانےکی اجازت ہے،ورنہ انسانی آبادی میں اپنی موجودگی سےغلط فائدہ اٹھاکروہ کل کلاں ہلاکت کاموجب بنےگا۔
سلامتی کےحوالےسےمسلمانوں کونہایت عمدہ آداب سکھائےگئےہیں۔ اجازت کےبغیرکسی کےگھرمیں داخل نہ ہونا،عورتیں ضروری کاموں سےباہرجائیں توان کےلیے راستوں کومحفوظ بنانااوربوقت ضرورت ان کی مددکرنا،معاشرےخاندانوں،خصوصاخواتین کی سلامتی کےتحفظ کےلیے کسی اجنبی خاتون کےساتھ خلوت میں نہ رہنااوراگرمحرم خاتون ساتھ ہےتوضرورت محسوس ہونےپراس کےساتھ اپنےرشتےکی وضاحت کردینا ضروری ہے۔ سلامتی کےلیے گھروں اورمجلسوں کی سلامتی ضروری ہے۔ مجلسوں میں مساوات،ایک دوسرےکےحقوق کےتحفظ اوراہل مجلس میں سےہرایک کےآرام کاخیال رکھنےسےمجلسوں کی سلامتی کویقینی بنایاجاسکتاہے،گھروں میں وہ لوگ داخل نہ ہوں جوفتنہ انگیزی کرسکتےہیں۔ دوآمیوں کی سرگوشی تک سےپرہیز اورضرورت کےوقت دوسروں کی مدداوران کےمسائل حل کرنےسےسب لوگوں کےدل میں سلامتی کااحساس مضبوط ہوتاہے۔
سلامتی کےمتعلق ان تمام امورکےبارےمیں رسول اللہﷺکےفرامین بیان کرنےکےبعدامام مسلم نےصحت سےمتعلق امورکوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےان بیماریوں کےحوالےسےاحادیث لائی گئی ہیں جن کےاسباب کاکھوج لگاناعام طبیب کےلیےناممکن یاکم ازکم مشکل ہوتاہے۔ ان میں جادو،نظربداورزہرخورانی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کےعلاج کےلیے مختلف تدابیربتائی گئی ہیں جن میں دم کرنااوردعاکرناشامل ہیں، پھرمختلف بیماریوں کےعلاج کےلیے ان مناسب طریقوں کاذکرہےجورسول اللہﷺکےزمانےمیں رائج تھے۔ ان میں سےکچھ طریقوں کورسول اللہﷺنےپسندفرمایا،کچھ کوناپسندکیا۔ یہ بھی بتایاگیاکہ آپ پسندفرماتےہیں کہ بیمارکودی جانےوالی دوائیں اورطریقہ علاج تکلیف دہ نہ ہواورغذاپسندیدہ اورعمدہ ہونی چاہیے۔ اس کےبعدمختلف وباؤں کےحوالےسےرسول اللہﷺکی ہدایات بیان کی گئی ہیں جن کےذریعےسےزیادہ سےزیادہ جانوں کاتحفظ کیاجاسکتاہے،بیمارہونےوالوں کی تیمارداری کویقینی بنانےکی ہدایات ہیں، اس کےبعدسلامتی کےحوالے سےمختلف اوہام کاذکرہےاورآخرمیں موذی جانوروں کےبارےمیں ہدایات ہیں اورعمومی طورپرہرجاندارکے ساتھ رحم دلی کاسلوک کرنےکی تلقین ہے۔
امام مالک نے ابن شہاب سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے دو بیٹوں حمزہ اور سالم سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عدم موافقت (ناسزاداری) گھر،عورت اور گھوڑے میں ہو سکتی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
کسی جگہ یا انسان یا سواری کا راس نہ آنا بد شگونی سے الگ چیز ہے انسان کی اپنی طبعیت، عادت، خصائل اور ان اشیاء کی خصوصیات ایسی ہو سکتی ہیں جن میں باہم مطابقت نہ ہوسکے۔ اس صورتِ حال سے جن انسانوں کو سابقہ پڑتا ہے وہ زیادہ تر ان چیزوںکے حوالے سے پڑتا ہے۔ عدمِ مواقفت کا یہ احساس توہم پرستی پر مبنی نہیں، اس کا انحصار استعمال کرنے والے کی سوچ، اس کی عادات، اعمال اور طریقۂ استعمال پر ہے۔ اگر یہ صورت حال پیش آ جائے تو ان چیزوں کو بدل لینا چاہیے۔ یہ بات بدشگونی کی ممانعت کے ضمن میں نہیں آتی۔ اس طرح کا گھوڑا اور مکان کسی اور کے ہاتھ بیچ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ عین ممکن ہے کہ ان کی ہم آہنگی ہو جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نحوست گھر میں اور عورت میں اور گھوڑے میں ہوتی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdullah bin 'Umar reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: If there be bad luck, it is in the house, and the wife, and the horse.