کتاب: ادب اور دوسری باتوں(عقیدے اورانسانی رویوں)سے متعلق الفاظ
(
باب: عنب (انگور اور اس کی بیل ) کو کرم کہنا مکروہ ہے
)
Muslim:
The Book Concerning the Use of Correct Words
(Chapter: It Is Disliked To Call Grapes Karm)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2247.
ایوب نے ابن سیرین سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص زمانے کو برا نہ کہے، کیونکہ اللہ تعا لیٰ ہی زمانے (کا مالک) ہے اور تم میں سے کو ئی شخص عنب (انگور اور اس کی بیل) کو کرم نہ کہے، کیونکہ کرم (اصل) میں مسلمان آدمی ہوتا ہے۔‘‘
تشریح:
فائدہ:
عرب اسلام سے پہلے شراب نوشی کے دلدادہ تھے انھوں نے اسی مناسبت سے انگور، کشمش اور انگور کی بیل تک کے خوبصورت نام رکھے ہوئے تھے وہ کہتے تھے کہ شراب نوشی کے بعد انسان جودوکرم کی طرف مائل ہو جاتا ہے، اس لیے انگور کی بیل اور انگور کا نام انھوں نے کرمہ بھی رکھا ہوا تھا۔ حقیقت میں شراب نوشی اور سخاوت کا آپس میں کوئی تعلق نہیں، البتہ مفت خورے، خوشامدی اور تملق پیشہ لوگ شراب پینے والوں کو بے وقوف بنا کر گل چھرے اڑانے اور مال اینٹھنے میں آسانی سے کامیاب ہو جاتے تھے اور اب بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وہ شراب پینے والے کو سخی، کریم، عطا کا دلدادہ وغیرہ کہہ کر ان سے مال اینٹھتے ہیں یہ حقیقت میں سخاوت نہیں حماقت ہوتی ہے اور فائدے کے بجائے نقصان کا سبب ہوتی ہے کیونکہ خوشامد پیشہ لوگ مال لے اڑتے ہیں اور حقیقی مستحقین محروم رہ جاتے ہی۔ کتاب الاشربہ کے پہلے باب میں شراب کی حرمت سے پہلے حضرت حمزہ کی شراب نوشی کی مجلس کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ گانے والی نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو نشے کے عالم میں اس بات پر اکسایا کہ وہ سخاوت کرتے ہوئے باہر موجود اونٹنیوں کے گوشت سے محفل کے شرکاء کی تواضع کریں اور انھوں نے فوراً چھری اٹھا کر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ان اونٹنیوں کے جگر اور گردے نکال لیے جن کی مدد سے محنت مزدوری کر کے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اپنا گھر بنانا اور بسانا چاہتے تھے۔ اس حماقت کو سخاوت کا نام دینا فریب دہی کی بد ترین مثال ہے شراب، پینے والوں کو اس تباہ کن حماقت پر اکساتی ہے حقیقی سخاوت پر نہیں۔ حقیقی سخاوت کا مرکز تو مومن کا دل ہے۔ مومن اس جذبے کے تحت فقرو فاقہ میں مبتلا ان حیا دار غیرت مندوں کو خود تلاش کرتا ہے جو دستِ سوال دراز نہیں کر سکتے اور انتہائی راز داری سے ان کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک مومن اس عالم میں بھی ان کی ضرورتیں پوری کرتا ہے جب وہ انتہائی ضرورت مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید انھی لوگوں کے بارے میں کہتا ہے ﴿ وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾’’اور وہ (دوسروں کو) خود پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود ضرورت مند ہوتے ہیں۔‘‘(الحشر:9)
پچھلےابواب میں زندگی کےتمام مراحل کےحوالےسےوسیع ترمعنی میں آداب پراحادیث مبارکہ سےرہنمائی پیش کی گئی۔ اس کاآغازدنیامیں جنم لینےوالےبچےکانام رکھنےکےآداب سےہوا،پھرپرورش گاہ،یعنی گھروں کی خلوت اورسلامتی کےتحفظ کےآداب بیان ہوئے،پھرانسانی سلامتی کویقینی بنانے،اٹھنےبیٹھنے،چلنےپھرنے،گھریلوزندگی، عیادت اورتیمارداری ،انسانی سلامتی کےلیے خطرناک جانوروں سےتحفظ کےطورپرطریقوں اورآداب کاذکرہوا۔ اس کےبعدابواب پرمشتمل کتاب میں حسن ذوق کےساتھ الفاظ کےصحیح اورخوبصورت استعمال کےادب پرروشنی ڈالی گئی ہے۔
ادب کالفظ جب لٹریچرکےمعنی میں استعمال کیاجائےتووہاں شائستگی اورحسن ذوق کےساتھ الفاظ کےخوبصورت اورصحیح استعمال سےابلاغ کوبنیادی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ اس کتاب میں اسی پرروشنی ڈالی گئی ہے۔
جوشخص اپنی طبیعت بگڑجانےکی تعبیر’’خبثت نفسی‘‘(میرےمزاج میں خبث پیداہوگیاہے)کےالفاظ سےکررہاہے وہ نفس انسانی کی طرف جسےاللہ نےتکریم دی ہےتوہین آمیزبات کی نسبت کررہاہے۔ جویہ باورکرتےہوئےکہ اس کی زندگی کی مشکلات اسکےاپنےفکروعمل کی بنابرنہیں ایک اورقوت کی بناپرپیداہورہی ہیں، اس وقت کودہریازمانےکانام دےکراس کوبرابھلاکہہ رہاہے،وہ دراصل اس حقیقی قوت کوبرابھلاکہہ رہاہےجس کےحکم پرزندگی کاسارانظام چل رہاہے۔
یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیےکہ سیاق وسباق اورمعنی کی مطلوبہ جہت کےبدلنےسےالفاظ کااستعمال مناسب یانامناسب قرارپاتاہے،مثلا:اگرکوئی انسان کفر،سرکشی اورظلم وستم میں حدسےآگےگزرگیاہےتووہ حقیقتااللہ کی دی ہوئی عزت وکرامت کوکھوکرخبثت النفس کاشکارہوگیاہے۔ایسےآدمی کےبارےمیں یہ ترکیب استعمال کرناغیرمناسب نہیں ہوگا۔
رب اورعبدکےالفاظ کئی معانی میں استعمال ہوئےہیں۔ حقیقی طورپررب صرف اللہ ہےاورہرانسان اسی کاعبدہے،لیکن عربی زبان میں عبدکالفظ کسی انسان کےمملوکہ غلام اورب کالفظ اس کےآقاکےلیے بھی مستعمل ہے۔ رسول اللہﷺنےعام حالات میں غلام اوراس کےمالک کےلیے مناسب ترین متبادل الفاظ کی طرف رہنمائی کی ہے،لیکن سورہ یوسف میں غلام کےسامنےاس کےبادشاہ کےلیےرب کالفظ استعمال کرناضروری تھاکیونکہ وہ بادشاہ کےلیے ،جواسکاآقابھی تھا،اس کےعلاوہ کوئی دوسرالفظ استعمال ہی نہیں کرتاتھا۔ وہ اس کےبجائےکسی دوسرےلفظ کےذریعےسےیہ بات سمجھ ہی نہیں سکتاتھاکہ اس کےسامنے بادشاہ کاذکرکیاجارہاہے۔ متبادل الفاظ اس ماحول میں دوسروں کےلیے استعمال ہوتےتھےاوربادشاہ کےلیے جودوسرےالفاظ استعمال ہوتےتھےان کامفہوم اس لفظ کی نسبت بھی زیادہ قابل اعتراض تھا۔
آخرمیں الفاظ کےخوبصورت استعمال کی طرح خوشبواستعمال کرنے،اس کاتحفہ پیش کرنےاورقبول کرنےکی بات کی گئی ہےکہ اس سےبھی خودکواوردوسرےانسانوں کوفرحت اورمسرت نصیب ہوتی ہے۔
ایوب نے ابن سیرین سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص زمانے کو برا نہ کہے، کیونکہ اللہ تعا لیٰ ہی زمانے (کا مالک) ہے اور تم میں سے کو ئی شخص عنب (انگور اور اس کی بیل) کو کرم نہ کہے، کیونکہ کرم (اصل) میں مسلمان آدمی ہوتا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فائدہ:
عرب اسلام سے پہلے شراب نوشی کے دلدادہ تھے انھوں نے اسی مناسبت سے انگور، کشمش اور انگور کی بیل تک کے خوبصورت نام رکھے ہوئے تھے وہ کہتے تھے کہ شراب نوشی کے بعد انسان جودوکرم کی طرف مائل ہو جاتا ہے، اس لیے انگور کی بیل اور انگور کا نام انھوں نے کرمہ بھی رکھا ہوا تھا۔ حقیقت میں شراب نوشی اور سخاوت کا آپس میں کوئی تعلق نہیں، البتہ مفت خورے، خوشامدی اور تملق پیشہ لوگ شراب پینے والوں کو بے وقوف بنا کر گل چھرے اڑانے اور مال اینٹھنے میں آسانی سے کامیاب ہو جاتے تھے اور اب بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وہ شراب پینے والے کو سخی، کریم، عطا کا دلدادہ وغیرہ کہہ کر ان سے مال اینٹھتے ہیں یہ حقیقت میں سخاوت نہیں حماقت ہوتی ہے اور فائدے کے بجائے نقصان کا سبب ہوتی ہے کیونکہ خوشامد پیشہ لوگ مال لے اڑتے ہیں اور حقیقی مستحقین محروم رہ جاتے ہی۔ کتاب الاشربہ کے پہلے باب میں شراب کی حرمت سے پہلے حضرت حمزہ کی شراب نوشی کی مجلس کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ گانے والی نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کو نشے کے عالم میں اس بات پر اکسایا کہ وہ سخاوت کرتے ہوئے باہر موجود اونٹنیوں کے گوشت سے محفل کے شرکاء کی تواضع کریں اور انھوں نے فوراً چھری اٹھا کر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ان اونٹنیوں کے جگر اور گردے نکال لیے جن کی مدد سے محنت مزدوری کر کے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اپنا گھر بنانا اور بسانا چاہتے تھے۔ اس حماقت کو سخاوت کا نام دینا فریب دہی کی بد ترین مثال ہے شراب، پینے والوں کو اس تباہ کن حماقت پر اکساتی ہے حقیقی سخاوت پر نہیں۔ حقیقی سخاوت کا مرکز تو مومن کا دل ہے۔ مومن اس جذبے کے تحت فقرو فاقہ میں مبتلا ان حیا دار غیرت مندوں کو خود تلاش کرتا ہے جو دستِ سوال دراز نہیں کر سکتے اور انتہائی راز داری سے ان کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ایک مومن اس عالم میں بھی ان کی ضرورتیں پوری کرتا ہے جب وہ انتہائی ضرورت مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید انھی لوگوں کے بارے میں کہتا ہے ﴿ وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ﴾’’اور وہ (دوسروں کو) خود پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود ضرورت مند ہوتے ہیں۔‘‘(الحشر:9)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی زمانے کو برا بھلا نہ کہے، کیونکہ اللہ ہی زمانہ کو گردش دیتا ہے اور نہ تم میں سے کوئی انگور کو کرم کہے، کیونکہ مجسمہ کرم تو مسلمان آدمی ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
کرم کا معنی جودوسخا اور اخلاق کریمانہ کا اظہار ہے، جاہلیت کے دور میں لوگ شراب پی کر جودوسخا اور فیاضی کا اظہار کرتے تھے، اس لیے انگور جس سے شراب بنتی تھی، کو وہ کرم کا نام دیتے تھے، لیکن اللہ کے ہاں عزت و تکریم کا حقدار مسلمان انسان ہے، جس کے دل میں ایمان و تقویٰ موجزن ہے، اس لیے انگور، جو ایک حرام چیز شراب کو یاد دلاتا ہے، اس کو کرم کا نام دینا مناسب نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: None of you should abuse Time for it is Allah Who is the Time, and none of you should call 'Inab (grape) as al-karm, for karm is a Muslim person.