باب: آپ ﷺ کا گناہوں سے دور رہنا،جائز کاموں میں آسان ترین کام کا انتخاب فرمانا اور محرمات کی خلاف ورزی پر اللہ کی خاطر انتقام لینا(حدود نافذ کرنا)
)
Muslim:
The Book of Virtues
(Chapter: His Avoidance Of Sin, His Choosing The Easier Of Permissible Things, And His Vengeance For The Sake Of Allah If His Sacred Limits Were Transgressed)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2327.
امام مالک نے ابن شہاب سے، انھوں نے عروہ بن زبیر سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: جب بھی رسول اللہ ﷺ کو دو کاموں میں سے (ایک کا) انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ان دونوں میں سے زیادہ آسان کو منتخب فرماتے۔ بشرط یہ کہ وہ گناہ نہ ہوتا اگر وہ گناہ کا کام ہوتا تو آپ سب لوگوں سے بڑھ کر اس سے دور ہوتے۔ آپ ﷺ نے اپنی خاطر کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا، سوائے اس صورت کے کہ اللہ کی حد کو توڑا جاتا۔
صحیح مسلم میں کتاب الفضائل خاص اہمیت کی حامل ہے۔ امام مسلم نےاس میں ترتیب ،تبویب اورانتخاب مضامین کےذریعےسےجومثال پیش کی ہےامت محمدیہ کےچوٹی کےسیرت نگاروں نےاس سےخوب استفادہ کیاہے۔ سیرومغازی کےساتھ ساتھ دلائل نبوت اورفضائل وشمائل،جواس کتاب میں نمایاں ہیں، بتدریج سیرت طیبہ میں نہ صرف شامل ہوئےبلکہ سیرت کالازمی حصہ بن گئے۔
اس کتاب کےابتدائی ابواب کوایک طرح کےمقدمےکی حیثیت حاصل ہے۔آغازآپﷺکےاعلیٰ حسب ونسب اورمخلوقات میں آپ کےبلندترین مقام سےہوتاہےحتی کہ بعثت سےپہلےہی جمادات کی طرف سےآپ کوسلام کیاجاتاتھا۔ اس کےفورابعداس بات کاتذکرہ ہےکہ اخروی زندگی میں بھی ساری مخلوقات پرآپ ہی کوفضیلت حاصل ہوگی۔
اس کےبعددلائل نبوت کولیاگیاہے۔آپ کےعظیم معجزات جوبیک وقت آپ کی نبوت کےدلائل اورایمان لانےوالےکےلیےاضافہ ایمان کاسبب ہیں، وہ رسول اللہﷺکےساتھیوں کی ایسی ضرورتوں کی تکمیل کاذریعہ بنےجن کی تکمیل کی کوئی صورت نکلتی نظرنہ آتی تھی۔ پانی کی شدیدقلت کےوقت جس سےانسانی زندگی کےضائع ہوجانےکاخدشہ پیداہوجائے،آپﷺکےجسداطہرکےذریعےسےاس کی فراوانی اسی قسم کاایک معجزہ ہ۔حضرت موسیکی قوم کوچٹانوں کےاندرسےچشمےنکال کرسیراب کیاگیاجبکہ نبیﷺکےساتھیوں کےلیے آپ کی مبارک انگلیوں سےچشمےپھوٹےیاآپ کےوضوکےلیےاستعمال کیےہوئےپانی کوقطرہ قطرہ بہتےہوئےچشمےمیں ڈالنےسےاایسی آب رسانی کاانتظام ہواکہ اس سارےبنجرعلاقےکوباغ وبہارمیں تبدیل کردیاگیا(يُوشِكُ، يَا مُعَاذُ إِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ، أَنْ تَرَى مَا هَاهُنَا قَدْ مُلِئَ جِنَانًا)’’معاذ!اگرتمہاری زندگی لمبی ہوئی توتم دیکھوگےکہ یہاں جوجگہ ہےوہ گھنےباغات سےلہلہااٹھےگی۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:5947)غزوہ تبوک کےسفرکےدوران میں آتےجاتےہوئےجن معجزات کاظہورہوا،ان کامطالعہ ایمان افروزہے۔ اس کےبعداس ہدایت اورشریعت کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں جوآپ لائے۔ اس پرصحیح طورپرعمل کرنےوالابھی دنیااورآخرت میں کامیاب ہےاورپوری طرح عمل نہ کرسکنےکےباوجوداس شریعت کوآگےپہنچانےوالااوراپنی نسلوں تک لےجانےوالابھی رحمت الہیٰ سےسرفرازہوا۔ اورجس نےنہ اپنایا،نہ آگےپہنچایاوہ ایسی بنجرزمین کےمانندہےجس پرکاونٹوں جھاڑجھنکارکےسواکچھ نہیں ہوتا۔ آپﷺبشیرکےساتھ ساتھ نذیربھی ہیں۔ آپ نےاللہ کےعذاب سے،جواس کی رضاکےانعام،جنت کیطرح برحق ہے،ڈرایا،جہنم میں لےجانےوالےاعمال کی نشاندہی فرمائی۔ جن لوگوں نےآپ کی بات مانی وہ جہنم سےبچ گئے۔ جنہوں نےانکارکیااوربعض وعنادکی شدت کی بناپرآگ میں گھسنےکی کوشش کی ،آپ نےان کوبھی بچانےکےلیےانتہائی کوششیں فرمائیں۔ آپ کی لائی ہوئی ہدایت کاعمل نمونہ آپﷺکااسوہ حسنہ ہے۔ آپ مکمل ترین پیکرجمال ہیں،اس جمال کی دلبربائی اوردلکشی ایسی ہےکہ ہرسلیم الفطرت انسان بےاختیاراس کی طرف کھچاچلاآتاہے۔ آپ ﷺکےاخلاق حسنہ،آپ کی بےکنارجودوسخا،آپ کی رحمت وعطا،آپ کی شفقت اورآپ کی حیااللہ کی ہدایت سےکنارہ کشی کرنےوالوں کوبھی زیادہ دورنہیں جانےدیتی ۔دنیاکےسب سےبڑےخوش نصیب تووہ لوگ تھےجنہوں نےآپ کی صفات حسنہ اوراخلاق عالیہ کےساتھ ساتھ آپ کےشخصی جمال کابھی اپنی آنکھوں سےمشاہدہ کیا۔ اوراحسان یہ کیاکہ وجوبہترین لفظ انہیں ملےان کےذریعےسےاسی جمال بےمثال کی تصویرکشی کی۔ آپ کےحلیہ مبارک سےلےکرآپ کے جسم مبارک سےنکلنےوالےمعطرپسینےکی خوشبوتک کوبیان کرنےکی سعادت حاصل کی ۔وہی خوشبوجس کےبارےمیں ام سلیمؓ نےکہاتھا:( عَرَقُكَ أَدُوفُ بِهِ طِيبِي)’’یہ آپ کاپسینہ اکٹھاکررہی ہوں کہ اس سےاپنےمشک وعنرکومعطرکرلوں۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:6057)امام مسلم نےاس تذکرےکےساتھ ہی وہ احادیث بیان کردیں کہ آپ کوسب سےزیادہ پسینہ اس وقت تھاجب آپ پروحی الہیٰ نازل ہوتی تھی۔ اس طرح انہوں نےسمجھادیاکہ اس خوشبوکاسرچشمہ کیاتھا۔ مشک وعنرکاچشمہ تووہ جاندارہیں جواللہ کی مخلوق ہیں اورآپ کےپیکراطہرکی خوشبوکاسلسلہ اللہ کےکلام سےجڑاہواتھا۔ آپ کاقلب اطہرمہبط وحی الہیٰ تھاجوآنکھوں کی نیندکےدوران میں بھی اللہ سےرابطےکےلیےمسلسل بیداررہتاتھا، پھرآپ کےجسم اطہرکی خوشبومشک وعنرکوبھی معطرکرنےوالی کیوں نہ ہوتی!
آپﷺکےجمال بےپایاں کوبیان کرنےکےلیے دنیاکےفصیح ترین لوگوں نےبہترین الفاظ کاانتخاب کیا،لیکن ان کےبیان کاایک ایک لفظ اس بات کی گواہی دےرہاہےکہ الفاظ اس جمال بےمثال کوبیان کرنےسےعاجزہیں۔ جوجمال حقیقت میں موجودتھااس کےلیے زبان میں الفاظ ہی موجودنہیں تھے۔ حضرت انسکےالفاظ پرغورتو کریں(لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ، وَلَا بِالْقَصِيرِ، وَلَيْسَ بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ وَلَا بِالْآدَمِ وَلَا بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبِطِ)’’آپﷺبہت درازقدتھےنہ پستہ قامت،بالکل سفیدرنگ والےتھےنہ بالکل گندمی،بال چھوٹےگھنگرالےتھےنہ بالکل سیدھے۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:6089)حضرت انسکےعلاوہ بیان کرنےوالےدوسرےصحابہ کےالفاظ بھی یہی اسلوب لیےہوئےہیں۔ کہاجاتاہےکہ بڑےمصوروں کی بعض تصویریں ایسی ہیں جن کی خوبصورتی کےمشاہدےاوران پرغوروخوض کرنےمیں بعض لوگوں نےاپنی عمریں بسرکردیں بعض عقل وخردسےبیگانہ بھی ہوگئے۔ آپ کےشمائل وخصائل اورآپ کی شریعت کی بعض خصوصیات بیان کرنےکےبعدامام مسلمنےکتاب فضائل النبیﷺکااختتام جس حدیث پرکیاہےوہ ایک انوکھی سمت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس پیکرجمال کےساتھ بےپناہ محبت کی طرف جس سےبڑھ کرکوئی اورجذبہ عظیم نہیں۔(وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ فِي يَدِهِ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أَحَدِكُمْ يَوْمٌ وَلَا يَرَانِي، ثُمَّ لَأَنْ يَرَانِي أَحَبُّ إِلَيْهِ مَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ مَعَهُمْ)’’اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں محمدکی جان ہے!تم لوگوں میں سےکسی پروہ دن ضرورآئےگاکہ وہ مجھےنہیں دیکھ سکےگا۔ اورمیری زیارت کرنااس کےلیے اپنےاس سارےاہل اورمال سےزیادہ محبوب ہوگاجوان کےپاس ہوگا۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:6129)
امام مسلمنےآخری حدیث سےپہلے،اس کتاب کےآخری حصےمیں وہ احادیث بیان کیں جن میں رسول اللہﷺ کےاسمائےگرامی بیان کئےگئےہیں۔ اسمائےمبارکہ آپ کی ان صفات کی نشاندہی کرتےہیں جوآپ کےمشن کی عظمتوں اورآپ کی لائی ہوئیں ہدایت کی خصوصیات کی آئینہ دارہیں۔ آپ محمدہیں،احمدہیں،ماحی ہیں جن کےذریعےسےکفرختم ہوگا،حاشرہیں جن کےپیچھےلوگ اللہ کےسامنےحاضرہوں گے،عاقب ہیں کہ آپ کےذریعےسےہدایت کی تکمیل کےبعدکسی نبی کی بعثت کی ضرورت نہیں، آپ کواللہ نےرؤف ورحیم قراردیاہے،آپ کےاسمائےگرامی میں نبی التوبہ ہے،کیونکہ آپ نےتوبہ کےدروازےکےکواڑپورےکےپورے کھول دیےاورزندگی کےآخری لمحےتک توبہ کی قبولیت کی نویدسنائی ،اورآپﷺنبی الرحمۃ ہیں کہ دنیااورآخرت دونوں میں انسان آپ کی رحمت سےفیض یاب ہوں گے۔
اس کےبعدامام مسلمنےوہ احادیث ذکرکی ہیں جن میں آپﷺ کی شریعت کی بعض امتیازی خصوصیات کابیان ہے۔آپ کی شریعت کی اہم ترین خصوصیت یہ ہےکہ یہ آسان ترین شریعت ہے۔ آپ نےانسانی کمزوریوں کاخیال رکھتےہوئےاپنی امت کوجن آسانیوں اوررخصتوں کی خوشخبری سنائی،بعض لوگوں نےاپنےمزاج کی بناپران کوقبول کرناتقویٰ اورخشیت الہیٰ کےخلاف جانا،ان کےنزدیک اللہ کےقرب کےلیے شدیدمشقتیں اٹھاناضروری تھا۔ آپ نےانہیں یاددلایاکہ بنی نوع انسان میں آپ سےبڑھ کراللہ اوراس کےدین کوجاننےوالااورآپ سےبڑھ کرخشیت الہیٰ رکھنےوالااورکوئی نہیں۔ آپ نےواضح کیاکہ دین جتنےاحکام کی ضرورت تھی وہ آپ کےذریعےسےعطا کردیےگئےاورآنےدنوں اورآخرت کےبارےمیں جن باتوں کاعلم ہوناضروری تھاآپ نےوہ سب باتیں بتادی ہیں، اس لیے اطاعت کابہترین طریقہ یہی ہےکہ پورےاخلاص سےان باتوں کوسیکھاجائے،ان کوسمجھاجائےاورخلوص نیت کےساتھ ان پرعمل کیاجائے۔ خواہ مخواہ بال کی کھال نکالنےاوراحکام شریعت کےحوالےسےجوباتیں پہنچادی گئی ہیں ان کومزیدکریدنےسےمکمل اجتناب کیاجائے۔ یہ احکام قیامت تک کےلیےہیں۔ ہردورمیں علم واخلاص کےساتھ ان پرغوروخوض سےصحیح راہ واضح ہوتی رہےگی۔ جوشخص سمجھنےکےلیے نہیں، غیرضروری طورپرکریدنے کےلیے سوال کرےاوراس کےسوال کی بناپرکسی حلال چیزکےحوالےسےحرمت کاحکم سامنےآجائےتواس سےبڑاظالم کوئی نہیں۔ ہرزمانےمیں غوروفکرکرنےوالوں کےلیے ہدایت میسرہونااس شریعت کی عظیم ترین خصوصیت ہے۔ وقت سےپہلےمفروضوں کی بنیادپرسوال کھڑےکرنااوراپنی طرف سےان کےجوابات گھڑکرووقع پذیرہونےوالےاصل حالات میں غورکرنےوالوں کےلیے مشکلات کھڑی کرنایاغوروخوض اوراجتہادکےدروازے بندکرنایاکتاب وسنت کےبجائےدوسروں کی آراءکواجتہادکامحورقراردینا اس امت پرظلم ہےجس سےاجتناب ضروری ہے۔
نبیﷺکےفضائل کےبعدامام مسلمنےبعض دسرےانبیاءکےفضائل کےبارےمیں احادیث بیان کیں اورسب سےپہلےیہ حدیث لائےکہ انبیاءمختلف ماؤں کی اولادکی طرح ہیں جواہم ترین رشتےکےحوالےسےایک ہوتےہیں۔ یہ سب انبیاءاللہ کی طرف سےمعبوث ہیں۔ ان کادین ایک ہے۔ہرعہداورہرقوم کی ضرورت کےمطابق شریعتوں میں تھوڑاسااختلاف ہے۔ رسول اللہﷺکےذریعےسےدین کی تکمیل ہوئی ہےاورقیامت تک کےلیے ایسی عالمگیراوردائمی شریعت عطاکی گئی ہےجوفطرت انسانی کےعین مطابق ہے۔ حدیث کایہ ٹکڑااس بڑی حدیث کاحصہ ہےکہ حضرت عیسیکےساتھ میراخصوصی تعلق ہے۔
دین کی وحدت کےعلاوہ یہ تعلق بھی ہےکہ ان کےاوررسول اللہﷺکےدرمیان کوئی اورنبی نہیں۔ نہ حضرت عیسیکی بعثت کےبعدنہ ان کےدوبارہ دنیامیں آنےسےپہلے۔ حضرت عیسیٰکی والدہ حضرت مریمؑ کی والدہ کی دعاکی بناپرشیطان سےتحفظ حاصل ہوااوررسول اللہﷺنےاپنی امت کواسی دعاکی تلقین فرمائی۔ پھروہ حدیث بیان کی گئی کہ ایک چورنے،جسےحضرت عیسینےاپنی آنکھوں سےچوری کرتےدیکھاتھا، جب جھوٹ بولتےہوئےاللہ کی قسم کھالی توحضرت عیسیٰنےاللہ تعالیٰ کی عزت وجلال کےسامنےخوداپنی نفی کرتےہوئےیہ فرمایا:میں اللہ پرایمان لایااورجس چیزکےبارےمیں تم نےاللہ کی قسم کھائی، اس میں اپنےآپ کوغلط کہتاہوں۔ جس نبی کی عبودیت اورجلال الہٰی کےسامنےخشوع وخضوع کایہ عالم ہووہ خودکواللہ کابیٹاکیسےقراردےسکتاہے۔ یہ بہت بڑابہتان ہےجس سےحضرت عیسیٰبالکل پاک ہیں۔
پھراختصارسےحضرت ابراہیم،جوآپ کےمجدامجدہیں، کےفضائل بیان ہوئےہیں۔ اس لیےجب آپ کو’’خیرالبریہ‘‘کہاگیاتوآپ ﷺنےفرمایا: یہ لقب حضرت ابراہیمکےشایان شان ہےجن کامیں بیٹابھی ہوں اوران کی ملت کامتبع بھی۔ پھرحضرت ابراہیمکی فضیلت میں وہ معروف حدیث بیان کی گئی جس کابعض حضرات نےمفہوم سمجھےبغیرانکارکیاہے۔ حضرت ابراہیمنےتوحیدباری تعالیٰ کی وضاحت کےلیے دواوراپنی ذات کےلیے ایک جومفہوم مرادلیاہےاس کےحوالےسےوہ خلاف واقعہ تھیں۔ ایک نبی کےاردگردجب ہرطرف شرک ہی شرک کاتعفن پھیلاہواتواس فضامیں سانس لیتےہوئےاللہ جل وتعالیٰ کی شان میں اتنی بڑی گستاخی کےوقت ان کی روح اوران کاجسم جس طرح کی تکلیف محسوس کرےگا،اس سےبڑی تکلیف اورکیاہوسکتی ہے!اسی طرح آپ کایہ فرمان کہ اگریہ بت بولتےہیں توپھران میں سےسب سےبڑےنےباقیوں کےٹکڑےکیےہیں، حقیقت کےاعتبارسےصریح سچائی ہے۔ نہ یہ بولتےہیں،نہ بڑےبت نےکچھ کیاہے۔ یہ سب بےبس ہیں اوران کےشرک کرنےوالےاللہ پربہتان تراشی کررہےہیں۔ حضرت سارہکوجب اپنےساتھ بہن بھائی کارشتہ بتانےکوکہاتووضاحت فرمادی کہ عبادللہ سب کےسب آپس میں اخوت کےرشتےمیں پروئےہوئےہیں، فرمان نبوی ہے(وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا)’’اوراللہ کےبندےبھائی بھائی ہوجاؤ۔‘‘(صحیح مسلم ،حدیث:6536)اوراس سرزمین پریہی دوافرادایک اللہ کی بندگی کرنےوالےتھے۔ اس حقیقت کی بناپردونوں کےدرمیان یہ رشتہ بالکل سچ تھا، لیکن اس علاقےمیں حکمرانی کرنےوالےجابرنےاسےنسبی طورپربہن بھائی کارشتہ سمجھا۔ حضرت ابراہیمکاتقویٰ ایساتھاکہ ان تینوں باتوں کوجوان کےمرادلیےگئےمفہوم کےحوالے سےعین سچ تھیں، محض اللہ کےدشمنوں کےفہم کےحوالےسےکذب قراردیااورقیامت کےروزان کےحوالےسےاللہ کےسامنےپیش ہوکرشفاعت کرنےسےمعذرت فرمائی۔ کاش!اپنی بات کےحوالےسےلفظ کذب کےاستعمال میں ایک عظیم پیغمبرکی طرف سےجس تقویٰ اورتواضع،جس خشیت اورعبودیت کامظاہرہ کیاگیا،اس کی طرف نظرکی جاتی۔ ایساہوتاتوحدیث کےراویوں پرجھوٹ کابہتان باندھنےکی نوبت ہی نہ آتی۔
ان کےبعدحضرت موسیٰکےفضائل ہیں۔ بنی اسرائیل نےآپ کی شان کم کرنےکےلیے آپ کی طرف جوجسمانی عیب منسوب کیاتھا، اللہ نےانہیں اس سےبری ثابت کیا۔ حضرت موسیٰ اس قدرقوی تھےکہ کپڑےلےکربھاگنےوالےپتھرپرجوضربیں لگائیں وہ اس پرثبت ہوگئیں۔ جب ملک الموت انسان کی شکل میں آپ کےپاس آیااورکہاکہ اب آپ کی اللہ کےسامنےحاضری کاوقت آگیاہےتوکلیم اللہ نےاسےدشمن سمجھتےہوئےتھپڑ مارااوراس کی آنکھ پھوڑدی،پھرجب پتہ کہ یہ واقعی اللہ سےملاقات کاوقت تھاتومہلت کی پیش کش کےباوجوداسی وقت حاضری کوترجیح دی۔ رسول اللہﷺنےانبیاءکی شان اوران کی فضیلت کےمطابق ان کےاحترام کی تعلیم دینےکےلیےاس بات پرناراضی کااظہارفرمایاکہ دوسرےانبیاءکےماننےوالوں کےسامنےرسول اللہﷺکو ان سےافضل قراردیاجائے۔ آپﷺنےفرمایاکہ میں تویہ بھی گوارانہیں کرتاکہ کوئی مجھےحضرت یونس بن متّیٰ سےافضل قراردےجن کےبارےمیں قرآن مجیدنےواضح کیاہےکہ وہ اللہ کی طرف سےاجازت کےبغیربستی سےنکل آئےتھےاوراس وجہ سےانہیں مچھلی کےپیٹ میں جاناپڑا،پھراللہ کی رحمت کےطفیل وہاں سےنجات حاصل ہوئی۔ جب آپﷺ کےسامنےحسب ونسب میں عزت مندی کےحوالےسےآپ کےبلندمرتبےکاذکر ہواتوآپﷺ نےحضرت یوسف کوبہ کمال تواضع سب سےزیادہ عزت مندقراردیاجونبی ابن نبی ابن نبی ابن نبی تھے۔ آپﷺنےاس حوالےسےبھی حضرت یوسفکی فضیلت بیان فرمائی کہ بہت لمباعرصہ بےگناہ قیدخانےمیں گزارنےکےباوجودآپ نےبادشاہ کی طرف سےبلاواآتےہی فوراجیل سےباہرآنےکےبجائےاپنے اوپرلگنےوالےالزام پرمبنی مقدمےکافیصلہ مانگا۔
آخرمیں حضرت خضرکےفضائل ہیں۔ حضرت موسیٰ اورخضرکےواقعےسےبڑاسبق یہ ملتاہےکہ کسی جلیل القدراوراولوالعزم پیغمبرکوبھی یہ نہیں سمجھناچاہیےکہ اس کاعلم سب سےبڑھ کرہے۔ فضائل نبی میں یہ حدیث بیان ہوچکی کہ آپ نےعام لوگوں سےیہ کہاکہ دنیاکےمعاملات میں اپنےمیدان کےبارےمیں جن چیزوں کوان میں تم زیادہ جانتےہو،اپنی معلومات پرچلولیکن میں جب اللہ کاحکم پہنچاؤں تواس پرضرورعمل کرو۔ غورکیاجائےتواتواضع اورانکسارکےحوالےسےبھی ،جوعبودیت کالازمی حصہ ہیں، آپﷺ کی فضیلت ارفع واعلیٰ ہے۔
امام مالک نے ابن شہاب سے، انھوں نے عروہ بن زبیر سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کی، انھوں نے کہا: جب بھی رسول اللہ ﷺ کو دو کاموں میں سے (ایک کا) انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ان دونوں میں سے زیادہ آسان کو منتخب فرماتے۔ بشرط یہ کہ وہ گناہ نہ ہوتا اگر وہ گناہ کا کام ہوتا تو آپ سب لوگوں سے بڑھ کر اس سے دور ہوتے۔ آپ ﷺ نے اپنی خاطر کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا، سوائے اس صورت کے کہ اللہ کی حد کو توڑا جاتا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کاموں میں سے ایک کے انتخاب اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار کیا۔ بشرطیکہ گناہ کا باعث نہ ہوتا، اگر وہ گناہ کا کام ہوتا تو آپ سب لوگوں سے بڑھ کر اس سے دور ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کی خاطر بدلہ نہیں لیا۔ الا یہ کہ کوئی اللہ عزوجل کی حرام کردہ چیز کا مرتکب ہوتا (اس کی حرمت کوپامال کرتا۔)
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، اگر دو کام ایسے ہوں کہ شرعی رو سے دونوں کے کرنے کی گنجائش اور سہولت موجود ہو تو پھر اپنی عزیمت اور قوت پر اعتماد کرتے ہوئے مشکل کام کو اختیار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ آسان اور سہل کام کو اختیار کرنا چاہیے، کیونکہ اسلام سہولت اور آسانی پر مبنی ضابطہ حیات ہے، لیکن اگر ان میں سے ایک کام گناہ کا پیش خیمہ بن سکتا ہو اور انسان سہولت پسندی اور سہل نگاری کی بنا پر کسی فتنہ میں مبتلا ہو سکتا ہو تو پھر اس کام سے بچنا چاہیے اور اختلافی مسائل میں، دلیل و برہان کو نظر انداز کر کے محض سہل اور آسان کو اپنانا درست نہیں ہے، ہاں دلائل کی یکسانیت کی صورت میں یا محض اجتہادی مسائل میں امت کی سہولت اور آسانی کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور آپ شخصی اور ذاتی امور میں چشم پوشی سے کام لیتے، جیسا کہ آپ نے پتھر کھا کر دعا فرمائی، اے اللہ! میری قوم کو ہدایت دے، وہ میرے مقام و مرتبہ اور میری دعوت سے آگاہ نہیں ہے۔ اس طرح گستاخانہ رویہ اختیار کرنے والوں کو معاف فرمایا، بعض دفعہ اللہ کی ناراضی سے بچنے اور دوبارہ اس کام سے روکنے کی خاطر تادیب و سرزنش کے طور پر بدلہ لیا، جیسا کہ لدود کرنے والوں روکنے کے باوجود نہ رکنے پر لدود کروایا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha, the wife of Allah's Apostle (ﷺ) , said that whenever he had to choose between two things he adopted the easier one, provided it was not sin, but if it was any sin he was the one who was the farthest from it of the people; and Allah's Messenger (ﷺ) never took revenge from anyone because of his personal grievance, unless what Allah, the Exalted and Glorious, had made inviolable had been violated.