Muslim:
The Book of Virtues
(Chapter: The Virtues Of Al-Khadir, Peace Be Upon Him)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2380.
عمرو بن محمد ناقد، اسحاق بن ابراہیم حنظلی، عبیداللہ بن سعید اور محمد بن ابی عمر مکی، ان سب نے ہمیں ابن عیینہ سے حدیث بیان کی۔ الفاظ ابن ابی عمر کے ہیں۔ سفیان بن عیینہ نے کہا: ہمیں عمرو بن دینار نے سعید بن جبیر سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: کہ میں نے حضرت ابن عباس سے کہا: نوف (بن فضالہ) بکالی کا یہ خیال ہے کہ بنواسرائیل کے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی موسیٰ نہیں تھے تو انہوں نے کہا، اللہ کا دشمن غلط کہتا ہے، میں نے حضرت ابی بن کعب علیہ السلام سے سنا وہ کہتے تھے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا، موسیٰ بنی اسرائیل کوخطاب کرنے کےلیے کھڑے ہوئے تو ان سے سوال کیا گیا، سب لوگوں سے زیادہ علم والا کون ہے؟ توانہوں نے کہا، میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: اللہ تعالی ان سے ناراض ہو گیے کیونکہ انہوں نے اس کا علم اللہ کی طرف نہیں لوٹایا، سو اللہ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ، دو سمندروں کے سنگم پر ہے، جو تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے، موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا، اے میرے رب میں اس تک کیسے رسائی حاصل کروں؟ تو انہیں کہا گیا ایک ٹوکری میں ایک مچھلی رکھ لو تو جہاں تم مچھلی کو گم پاؤ گے، وہ وہیں ہوں گے تو وہ چل پڑے اور ان کے ساتھ ان کے خادم یوشع بن نون بھی روانہ ہو گئے۔ سو موسیٰ علیہ السلام نے ایک ٹوکر ی میں مچھلی اٹھائی اور چل دئیے اور ان کے ساتھ ان کے خادم بھی تھے، دونوں چلتے چلتے ایک چٹان پر پہنچ گئے تو موسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی سو گئے اور مچھلی ٹوکری میں پھڑ پھڑائی، حتی کہ ٹوکری سے نکل گئی اور سمندر میں گر گئی، آپ نے فرمایا: اللہ نے اس کے لیے پانی کے بہاؤ کو روک دیا، حتی کہ وہ ایک طاق کی طرح ہو گیا اور مچھلی کےلیے سرنگ بن گیا اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لیے تعجب انگیز ٹھہرا اور وہ باقی دن اور رات چلتے رہے اور موسیٰ علیہ السلام کا ساتھی، انہیں اس کی خبر دینا بھول گیا تو جب صبح ہوئی، موسی ٰعلیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کہا، صبح کا کھانا لاؤ، ہمیں اپنے سفر سے بہت تکان لاحق ہو گئی ہے۔ آپ نے فرمایا جب اس مکان سے جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا، گزر نہیں گئے، انہیں تکان لاحق نہیں ہوئی، ساتھی نے کہا، آپ کو معلوم ہے جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے، (مچھلی سمندر میں چلی گئی) تومیں آپ کو بتانا بھول گیا، اور اس کا تذکرہ کرنا مجھے شیطان ہی نہیں بھلایا ہے اور اس نے سمندر میں اپنا عجیب طریقہ سے راستہ بنا لیا، موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، ا س جگہ کے ہم متلاشی تھے، پھر وہ دونوں اپنے نقش قدم کا پیچھا کرتے ہوئے لوٹ آئے، حتی کہ اس چٹان کے پاس پہنچ گئے تو موسیٰ علیہ السلام نے ایک آدمی دیکھا، جو اپنے آپ کو کپڑے سے ڈھانپے ہوئے تھا، موسیٰ علیہ السلام نے اسے سلام کہا تو خضر نے ان سے پوچھا اس علاقے میں سلام کہتے والا کہاں سے آ گیا، انہوں نے کہا، میں موسی ہوں، پوچھا، بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ کہا: ہاں، خضر نے کہا، اللہ کے علوم میں ایک علم تمہیں حاصل ہے، جو اللہ نے تجھے ہی سکھایا ہے، میں اس سے آگاہ نہیں ہوں اور اللہ کا علوم میں سے مجھے ایک علم حاصل ہے، جو اس نے مجھے سکھایا ہے، آپ اسے نہیں جانتے، موسیٰ علیہ السلام نے اس سے پوچھا، کیا، میں آپ کے ساتھ اس شرط پر رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے وہ رشد و ہدایت سکھائیں، جو آپ کو سکھائی گئی ہے تو خضر علیہ السلام نے کہا، آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے اور آپ ایسی چیز پر صبر کیسے کر سکیں گے، جس سے آپ واقف نہیں ہوں گے، موسی علیہ السلام نے کہا، ان شاء اللہ! آپ مجھے صابر پائیں گے، اور میں آپ کی کسی معاملے میں مخالفت نہیں کروں گا، خضر علیہ السلام نے ان سے کہا، اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو میں آپ مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کریں گے، حتی کہ خود میں تمہارے سامنے اس کا ذکر چھیڑ وں، انہوں نے کہا، ٹھیک ہے تو خضر اور موسی علیہ السلام ساحل سمندر پر چل پڑے اور ان کے پاس سے ایک کشتی گزری تو انہوں نے کشتی والوں سے کہا، ان دونوں کو بھی سوار کر لیں، انہوں نے خضر کو پہچان کر، ان دونوں کو بغیر کرائے کے سوار کر لیا، حضرت خضر نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختی کا رخ کر کے اس کو اکھاڑ دیا تو موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا، ان لوگوں نے ہمیں کرائے کے بغیر سوار کر لیا اور تو نے ان کی کشتی کا رخ کر کے اس میں سوراخ کر ڈالا۔ نتیجہ یہ نکلے کہ کشتی والے غرق ہو جائیں تو نے بہت ناگوار کام کیا، اس نے کہا: کیا میں نےکہا نہیں صبر نہیں کر سکیں گے؟ موسی ٰ علیہ السلام نے کہا: میری بھول پر میرا مواخذہ نہ کیجئیے- اور مجھ پر میرے معاملے میں سختی نہ کریں، پھر کشتی سے نکلے اور وہ سمندر کے کنارے کنارےچل رہے تھے کہ انہوں نے ایک بچہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا دیکھا، سو خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑا اور اپنے ہاتھ سے اسے الگ کر دیا، اور اسے قتل کر ڈالا تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا آپ نے ایک بے گناہ لڑکے کو مار ڈالا، جس نے کسی کا خون نہ کیاتھا۔ آپ نے بہت ناپسندیدہ کام کیا، خضر علیہ السلام نےکہا کیا میں نے آپ سے کہا نہیں تھا، آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے؟ آپ نے فرمایا، یہ انکار پہلے سے شدید تھا، موسی علیہ السلام نے کہا، اگر اب میں کسی چیز کے بارے میں آپ سے سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں، آپ میری طرف سےمعذور ہوں گے۔ تووہ دونوں چل پڑے حتی کہ ایک بستی والوں کے پاس پہنچ گئے، بستی والوں کے باشندوں سے کھانا طلب کیا، انہوں نے ان کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کر دیا، تو وہاں انہوں نے ایک دیوار پائی جوگرا چاہتی تھی، تو خضر علیہ السلام نے اسے شارے سے سیدھا کردیا، یعنی وہ ایک طرف جھکی ہوئی تھی، خضر علیہ السلام نے اسے اپنے ہاتھ سے سیدھا کر دیا، موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا، یہ لوگ ہم ان کا پاس آئےتو انہوں نے ہماری مہمان نوازی نہ کی اور ہمیں کھانا نہ کھلایا، اگر آپ چاہتے تو آپ اس کام کی مزدوری لےلیتے، خضر علیہ السلام نے کہا، یہ میرے اور تیرےدومیان جدائی کا وقت ہے، میں ابھی آپ کو ان چیزوں کی حقیقت بتاتا ہوں، جن پر آپ صبر نہیں کر سکے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالی موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے، میں چاہتا ہوں موسی علیہ السلام نے صبر کیا ہوتا تا کہ ہمیں ان کی باتیں سنائی جاتیں اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’پہلی بار موسی علیہ السلام بھول گئے،‘‘ اور آپ نے فرمایا، ’’ایک چڑیا آئی اورکشتی کے کنارے بیٹھ گئی۔ پھر سمندر میں ٹھونگ ماری تو خضر علیہ السلام نے انہیں کہا، میرے اور تیرے علم نے اللہ کی معلومات میں اتنی ہی کمی کی ہے جتنا اس چڑیا نے سمندر میں کمی کی ہے‘‘ سعید بن جبیر کہتے ہیں، حضرت ابن عباس کی قرأت اس کرح تھی۔ ’’ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر صحیح اور سالم کشتی کو چھین لیتا تھا اور پڑھتے تھے، رہا غلام تو وہ کافر تھا۔‘‘
صحیح مسلم میں کتاب الفضائل خاص اہمیت کی حامل ہے۔ امام مسلم نےاس میں ترتیب ،تبویب اورانتخاب مضامین کےذریعےسےجومثال پیش کی ہےامت محمدیہ کےچوٹی کےسیرت نگاروں نےاس سےخوب استفادہ کیاہے۔ سیرومغازی کےساتھ ساتھ دلائل نبوت اورفضائل وشمائل،جواس کتاب میں نمایاں ہیں، بتدریج سیرت طیبہ میں نہ صرف شامل ہوئےبلکہ سیرت کالازمی حصہ بن گئے۔
اس کتاب کےابتدائی ابواب کوایک طرح کےمقدمےکی حیثیت حاصل ہے۔آغازآپﷺکےاعلیٰ حسب ونسب اورمخلوقات میں آپ کےبلندترین مقام سےہوتاہےحتی کہ بعثت سےپہلےہی جمادات کی طرف سےآپ کوسلام کیاجاتاتھا۔ اس کےفورابعداس بات کاتذکرہ ہےکہ اخروی زندگی میں بھی ساری مخلوقات پرآپ ہی کوفضیلت حاصل ہوگی۔
اس کےبعددلائل نبوت کولیاگیاہے۔آپ کےعظیم معجزات جوبیک وقت آپ کی نبوت کےدلائل اورایمان لانےوالےکےلیےاضافہ ایمان کاسبب ہیں، وہ رسول اللہﷺکےساتھیوں کی ایسی ضرورتوں کی تکمیل کاذریعہ بنےجن کی تکمیل کی کوئی صورت نکلتی نظرنہ آتی تھی۔ پانی کی شدیدقلت کےوقت جس سےانسانی زندگی کےضائع ہوجانےکاخدشہ پیداہوجائے،آپﷺکےجسداطہرکےذریعےسےاس کی فراوانی اسی قسم کاایک معجزہ ہ۔حضرت موسیکی قوم کوچٹانوں کےاندرسےچشمےنکال کرسیراب کیاگیاجبکہ نبیﷺکےساتھیوں کےلیے آپ کی مبارک انگلیوں سےچشمےپھوٹےیاآپ کےوضوکےلیےاستعمال کیےہوئےپانی کوقطرہ قطرہ بہتےہوئےچشمےمیں ڈالنےسےاایسی آب رسانی کاانتظام ہواکہ اس سارےبنجرعلاقےکوباغ وبہارمیں تبدیل کردیاگیا(يُوشِكُ، يَا مُعَاذُ إِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ، أَنْ تَرَى مَا هَاهُنَا قَدْ مُلِئَ جِنَانًا)’’معاذ!اگرتمہاری زندگی لمبی ہوئی توتم دیکھوگےکہ یہاں جوجگہ ہےوہ گھنےباغات سےلہلہااٹھےگی۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:5947)غزوہ تبوک کےسفرکےدوران میں آتےجاتےہوئےجن معجزات کاظہورہوا،ان کامطالعہ ایمان افروزہے۔ اس کےبعداس ہدایت اورشریعت کی خصوصیات بیان ہوئی ہیں جوآپ لائے۔ اس پرصحیح طورپرعمل کرنےوالابھی دنیااورآخرت میں کامیاب ہےاورپوری طرح عمل نہ کرسکنےکےباوجوداس شریعت کوآگےپہنچانےوالااوراپنی نسلوں تک لےجانےوالابھی رحمت الہیٰ سےسرفرازہوا۔ اورجس نےنہ اپنایا،نہ آگےپہنچایاوہ ایسی بنجرزمین کےمانندہےجس پرکاونٹوں جھاڑجھنکارکےسواکچھ نہیں ہوتا۔ آپﷺبشیرکےساتھ ساتھ نذیربھی ہیں۔ آپ نےاللہ کےعذاب سے،جواس کی رضاکےانعام،جنت کیطرح برحق ہے،ڈرایا،جہنم میں لےجانےوالےاعمال کی نشاندہی فرمائی۔ جن لوگوں نےآپ کی بات مانی وہ جہنم سےبچ گئے۔ جنہوں نےانکارکیااوربعض وعنادکی شدت کی بناپرآگ میں گھسنےکی کوشش کی ،آپ نےان کوبھی بچانےکےلیےانتہائی کوششیں فرمائیں۔ آپ کی لائی ہوئی ہدایت کاعمل نمونہ آپﷺکااسوہ حسنہ ہے۔ آپ مکمل ترین پیکرجمال ہیں،اس جمال کی دلبربائی اوردلکشی ایسی ہےکہ ہرسلیم الفطرت انسان بےاختیاراس کی طرف کھچاچلاآتاہے۔ آپ ﷺکےاخلاق حسنہ،آپ کی بےکنارجودوسخا،آپ کی رحمت وعطا،آپ کی شفقت اورآپ کی حیااللہ کی ہدایت سےکنارہ کشی کرنےوالوں کوبھی زیادہ دورنہیں جانےدیتی ۔دنیاکےسب سےبڑےخوش نصیب تووہ لوگ تھےجنہوں نےآپ کی صفات حسنہ اوراخلاق عالیہ کےساتھ ساتھ آپ کےشخصی جمال کابھی اپنی آنکھوں سےمشاہدہ کیا۔ اوراحسان یہ کیاکہ وجوبہترین لفظ انہیں ملےان کےذریعےسےاسی جمال بےمثال کی تصویرکشی کی۔ آپ کےحلیہ مبارک سےلےکرآپ کے جسم مبارک سےنکلنےوالےمعطرپسینےکی خوشبوتک کوبیان کرنےکی سعادت حاصل کی ۔وہی خوشبوجس کےبارےمیں ام سلیمؓ نےکہاتھا:( عَرَقُكَ أَدُوفُ بِهِ طِيبِي)’’یہ آپ کاپسینہ اکٹھاکررہی ہوں کہ اس سےاپنےمشک وعنرکومعطرکرلوں۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:6057)امام مسلم نےاس تذکرےکےساتھ ہی وہ احادیث بیان کردیں کہ آپ کوسب سےزیادہ پسینہ اس وقت تھاجب آپ پروحی الہیٰ نازل ہوتی تھی۔ اس طرح انہوں نےسمجھادیاکہ اس خوشبوکاسرچشمہ کیاتھا۔ مشک وعنرکاچشمہ تووہ جاندارہیں جواللہ کی مخلوق ہیں اورآپ کےپیکراطہرکی خوشبوکاسلسلہ اللہ کےکلام سےجڑاہواتھا۔ آپ کاقلب اطہرمہبط وحی الہیٰ تھاجوآنکھوں کی نیندکےدوران میں بھی اللہ سےرابطےکےلیےمسلسل بیداررہتاتھا، پھرآپ کےجسم اطہرکی خوشبومشک وعنرکوبھی معطرکرنےوالی کیوں نہ ہوتی!
آپﷺکےجمال بےپایاں کوبیان کرنےکےلیے دنیاکےفصیح ترین لوگوں نےبہترین الفاظ کاانتخاب کیا،لیکن ان کےبیان کاایک ایک لفظ اس بات کی گواہی دےرہاہےکہ الفاظ اس جمال بےمثال کوبیان کرنےسےعاجزہیں۔ جوجمال حقیقت میں موجودتھااس کےلیے زبان میں الفاظ ہی موجودنہیں تھے۔ حضرت انسکےالفاظ پرغورتو کریں(لَيْسَ بِالطَّوِيلِ الْبَائِنِ، وَلَا بِالْقَصِيرِ، وَلَيْسَ بِالْأَبْيَضِ الْأَمْهَقِ وَلَا بِالْآدَمِ وَلَا بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ وَلَا بِالسَّبِطِ)’’آپﷺبہت درازقدتھےنہ پستہ قامت،بالکل سفیدرنگ والےتھےنہ بالکل گندمی،بال چھوٹےگھنگرالےتھےنہ بالکل سیدھے۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:6089)حضرت انسکےعلاوہ بیان کرنےوالےدوسرےصحابہ کےالفاظ بھی یہی اسلوب لیےہوئےہیں۔ کہاجاتاہےکہ بڑےمصوروں کی بعض تصویریں ایسی ہیں جن کی خوبصورتی کےمشاہدےاوران پرغوروخوض کرنےمیں بعض لوگوں نےاپنی عمریں بسرکردیں بعض عقل وخردسےبیگانہ بھی ہوگئے۔ آپ کےشمائل وخصائل اورآپ کی شریعت کی بعض خصوصیات بیان کرنےکےبعدامام مسلمنےکتاب فضائل النبیﷺکااختتام جس حدیث پرکیاہےوہ ایک انوکھی سمت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس پیکرجمال کےساتھ بےپناہ محبت کی طرف جس سےبڑھ کرکوئی اورجذبہ عظیم نہیں۔(وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ فِي يَدِهِ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أَحَدِكُمْ يَوْمٌ وَلَا يَرَانِي، ثُمَّ لَأَنْ يَرَانِي أَحَبُّ إِلَيْهِ مَنْ أَهْلِهِ وَمَالِهِ مَعَهُمْ)’’اس ذات کی قسم جس کےہاتھ میں محمدکی جان ہے!تم لوگوں میں سےکسی پروہ دن ضرورآئےگاکہ وہ مجھےنہیں دیکھ سکےگا۔ اورمیری زیارت کرنااس کےلیے اپنےاس سارےاہل اورمال سےزیادہ محبوب ہوگاجوان کےپاس ہوگا۔‘‘(صحیح مسلم،حدیث:6129)
امام مسلمنےآخری حدیث سےپہلے،اس کتاب کےآخری حصےمیں وہ احادیث بیان کیں جن میں رسول اللہﷺ کےاسمائےگرامی بیان کئےگئےہیں۔ اسمائےمبارکہ آپ کی ان صفات کی نشاندہی کرتےہیں جوآپ کےمشن کی عظمتوں اورآپ کی لائی ہوئیں ہدایت کی خصوصیات کی آئینہ دارہیں۔ آپ محمدہیں،احمدہیں،ماحی ہیں جن کےذریعےسےکفرختم ہوگا،حاشرہیں جن کےپیچھےلوگ اللہ کےسامنےحاضرہوں گے،عاقب ہیں کہ آپ کےذریعےسےہدایت کی تکمیل کےبعدکسی نبی کی بعثت کی ضرورت نہیں، آپ کواللہ نےرؤف ورحیم قراردیاہے،آپ کےاسمائےگرامی میں نبی التوبہ ہے،کیونکہ آپ نےتوبہ کےدروازےکےکواڑپورےکےپورے کھول دیےاورزندگی کےآخری لمحےتک توبہ کی قبولیت کی نویدسنائی ،اورآپﷺنبی الرحمۃ ہیں کہ دنیااورآخرت دونوں میں انسان آپ کی رحمت سےفیض یاب ہوں گے۔
اس کےبعدامام مسلمنےوہ احادیث ذکرکی ہیں جن میں آپﷺ کی شریعت کی بعض امتیازی خصوصیات کابیان ہے۔آپ کی شریعت کی اہم ترین خصوصیت یہ ہےکہ یہ آسان ترین شریعت ہے۔ آپ نےانسانی کمزوریوں کاخیال رکھتےہوئےاپنی امت کوجن آسانیوں اوررخصتوں کی خوشخبری سنائی،بعض لوگوں نےاپنےمزاج کی بناپران کوقبول کرناتقویٰ اورخشیت الہیٰ کےخلاف جانا،ان کےنزدیک اللہ کےقرب کےلیے شدیدمشقتیں اٹھاناضروری تھا۔ آپ نےانہیں یاددلایاکہ بنی نوع انسان میں آپ سےبڑھ کراللہ اوراس کےدین کوجاننےوالااورآپ سےبڑھ کرخشیت الہیٰ رکھنےوالااورکوئی نہیں۔ آپ نےواضح کیاکہ دین جتنےاحکام کی ضرورت تھی وہ آپ کےذریعےسےعطا کردیےگئےاورآنےدنوں اورآخرت کےبارےمیں جن باتوں کاعلم ہوناضروری تھاآپ نےوہ سب باتیں بتادی ہیں، اس لیے اطاعت کابہترین طریقہ یہی ہےکہ پورےاخلاص سےان باتوں کوسیکھاجائے،ان کوسمجھاجائےاورخلوص نیت کےساتھ ان پرعمل کیاجائے۔ خواہ مخواہ بال کی کھال نکالنےاوراحکام شریعت کےحوالےسےجوباتیں پہنچادی گئی ہیں ان کومزیدکریدنےسےمکمل اجتناب کیاجائے۔ یہ احکام قیامت تک کےلیےہیں۔ ہردورمیں علم واخلاص کےساتھ ان پرغوروخوض سےصحیح راہ واضح ہوتی رہےگی۔ جوشخص سمجھنےکےلیے نہیں، غیرضروری طورپرکریدنے کےلیے سوال کرےاوراس کےسوال کی بناپرکسی حلال چیزکےحوالےسےحرمت کاحکم سامنےآجائےتواس سےبڑاظالم کوئی نہیں۔ ہرزمانےمیں غوروفکرکرنےوالوں کےلیے ہدایت میسرہونااس شریعت کی عظیم ترین خصوصیت ہے۔ وقت سےپہلےمفروضوں کی بنیادپرسوال کھڑےکرنااوراپنی طرف سےان کےجوابات گھڑکرووقع پذیرہونےوالےاصل حالات میں غورکرنےوالوں کےلیے مشکلات کھڑی کرنایاغوروخوض اوراجتہادکےدروازے بندکرنایاکتاب وسنت کےبجائےدوسروں کی آراءکواجتہادکامحورقراردینا اس امت پرظلم ہےجس سےاجتناب ضروری ہے۔
نبیﷺکےفضائل کےبعدامام مسلمنےبعض دسرےانبیاءکےفضائل کےبارےمیں احادیث بیان کیں اورسب سےپہلےیہ حدیث لائےکہ انبیاءمختلف ماؤں کی اولادکی طرح ہیں جواہم ترین رشتےکےحوالےسےایک ہوتےہیں۔ یہ سب انبیاءاللہ کی طرف سےمعبوث ہیں۔ ان کادین ایک ہے۔ہرعہداورہرقوم کی ضرورت کےمطابق شریعتوں میں تھوڑاسااختلاف ہے۔ رسول اللہﷺکےذریعےسےدین کی تکمیل ہوئی ہےاورقیامت تک کےلیے ایسی عالمگیراوردائمی شریعت عطاکی گئی ہےجوفطرت انسانی کےعین مطابق ہے۔ حدیث کایہ ٹکڑااس بڑی حدیث کاحصہ ہےکہ حضرت عیسیکےساتھ میراخصوصی تعلق ہے۔
دین کی وحدت کےعلاوہ یہ تعلق بھی ہےکہ ان کےاوررسول اللہﷺکےدرمیان کوئی اورنبی نہیں۔ نہ حضرت عیسیکی بعثت کےبعدنہ ان کےدوبارہ دنیامیں آنےسےپہلے۔ حضرت عیسیٰکی والدہ حضرت مریمؑ کی والدہ کی دعاکی بناپرشیطان سےتحفظ حاصل ہوااوررسول اللہﷺنےاپنی امت کواسی دعاکی تلقین فرمائی۔ پھروہ حدیث بیان کی گئی کہ ایک چورنے،جسےحضرت عیسینےاپنی آنکھوں سےچوری کرتےدیکھاتھا، جب جھوٹ بولتےہوئےاللہ کی قسم کھالی توحضرت عیسیٰنےاللہ تعالیٰ کی عزت وجلال کےسامنےخوداپنی نفی کرتےہوئےیہ فرمایا:میں اللہ پرایمان لایااورجس چیزکےبارےمیں تم نےاللہ کی قسم کھائی، اس میں اپنےآپ کوغلط کہتاہوں۔ جس نبی کی عبودیت اورجلال الہٰی کےسامنےخشوع وخضوع کایہ عالم ہووہ خودکواللہ کابیٹاکیسےقراردےسکتاہے۔ یہ بہت بڑابہتان ہےجس سےحضرت عیسیٰبالکل پاک ہیں۔
پھراختصارسےحضرت ابراہیم،جوآپ کےمجدامجدہیں، کےفضائل بیان ہوئےہیں۔ اس لیےجب آپ کو’’خیرالبریہ‘‘کہاگیاتوآپ ﷺنےفرمایا: یہ لقب حضرت ابراہیمکےشایان شان ہےجن کامیں بیٹابھی ہوں اوران کی ملت کامتبع بھی۔ پھرحضرت ابراہیمکی فضیلت میں وہ معروف حدیث بیان کی گئی جس کابعض حضرات نےمفہوم سمجھےبغیرانکارکیاہے۔ حضرت ابراہیمنےتوحیدباری تعالیٰ کی وضاحت کےلیے دواوراپنی ذات کےلیے ایک جومفہوم مرادلیاہےاس کےحوالےسےوہ خلاف واقعہ تھیں۔ ایک نبی کےاردگردجب ہرطرف شرک ہی شرک کاتعفن پھیلاہواتواس فضامیں سانس لیتےہوئےاللہ جل وتعالیٰ کی شان میں اتنی بڑی گستاخی کےوقت ان کی روح اوران کاجسم جس طرح کی تکلیف محسوس کرےگا،اس سےبڑی تکلیف اورکیاہوسکتی ہے!اسی طرح آپ کایہ فرمان کہ اگریہ بت بولتےہیں توپھران میں سےسب سےبڑےنےباقیوں کےٹکڑےکیےہیں، حقیقت کےاعتبارسےصریح سچائی ہے۔ نہ یہ بولتےہیں،نہ بڑےبت نےکچھ کیاہے۔ یہ سب بےبس ہیں اوران کےشرک کرنےوالےاللہ پربہتان تراشی کررہےہیں۔ حضرت سارہکوجب اپنےساتھ بہن بھائی کارشتہ بتانےکوکہاتووضاحت فرمادی کہ عبادللہ سب کےسب آپس میں اخوت کےرشتےمیں پروئےہوئےہیں، فرمان نبوی ہے(وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا)’’اوراللہ کےبندےبھائی بھائی ہوجاؤ۔‘‘(صحیح مسلم ،حدیث:6536)اوراس سرزمین پریہی دوافرادایک اللہ کی بندگی کرنےوالےتھے۔ اس حقیقت کی بناپردونوں کےدرمیان یہ رشتہ بالکل سچ تھا، لیکن اس علاقےمیں حکمرانی کرنےوالےجابرنےاسےنسبی طورپربہن بھائی کارشتہ سمجھا۔ حضرت ابراہیمکاتقویٰ ایساتھاکہ ان تینوں باتوں کوجوان کےمرادلیےگئےمفہوم کےحوالے سےعین سچ تھیں، محض اللہ کےدشمنوں کےفہم کےحوالےسےکذب قراردیااورقیامت کےروزان کےحوالےسےاللہ کےسامنےپیش ہوکرشفاعت کرنےسےمعذرت فرمائی۔ کاش!اپنی بات کےحوالےسےلفظ کذب کےاستعمال میں ایک عظیم پیغمبرکی طرف سےجس تقویٰ اورتواضع،جس خشیت اورعبودیت کامظاہرہ کیاگیا،اس کی طرف نظرکی جاتی۔ ایساہوتاتوحدیث کےراویوں پرجھوٹ کابہتان باندھنےکی نوبت ہی نہ آتی۔
ان کےبعدحضرت موسیٰکےفضائل ہیں۔ بنی اسرائیل نےآپ کی شان کم کرنےکےلیے آپ کی طرف جوجسمانی عیب منسوب کیاتھا، اللہ نےانہیں اس سےبری ثابت کیا۔ حضرت موسیٰ اس قدرقوی تھےکہ کپڑےلےکربھاگنےوالےپتھرپرجوضربیں لگائیں وہ اس پرثبت ہوگئیں۔ جب ملک الموت انسان کی شکل میں آپ کےپاس آیااورکہاکہ اب آپ کی اللہ کےسامنےحاضری کاوقت آگیاہےتوکلیم اللہ نےاسےدشمن سمجھتےہوئےتھپڑ مارااوراس کی آنکھ پھوڑدی،پھرجب پتہ کہ یہ واقعی اللہ سےملاقات کاوقت تھاتومہلت کی پیش کش کےباوجوداسی وقت حاضری کوترجیح دی۔ رسول اللہﷺنےانبیاءکی شان اوران کی فضیلت کےمطابق ان کےاحترام کی تعلیم دینےکےلیےاس بات پرناراضی کااظہارفرمایاکہ دوسرےانبیاءکےماننےوالوں کےسامنےرسول اللہﷺکو ان سےافضل قراردیاجائے۔ آپﷺنےفرمایاکہ میں تویہ بھی گوارانہیں کرتاکہ کوئی مجھےحضرت یونس بن متّیٰ سےافضل قراردےجن کےبارےمیں قرآن مجیدنےواضح کیاہےکہ وہ اللہ کی طرف سےاجازت کےبغیربستی سےنکل آئےتھےاوراس وجہ سےانہیں مچھلی کےپیٹ میں جاناپڑا،پھراللہ کی رحمت کےطفیل وہاں سےنجات حاصل ہوئی۔ جب آپﷺ کےسامنےحسب ونسب میں عزت مندی کےحوالےسےآپ کےبلندمرتبےکاذکر ہواتوآپﷺ نےحضرت یوسف کوبہ کمال تواضع سب سےزیادہ عزت مندقراردیاجونبی ابن نبی ابن نبی ابن نبی تھے۔ آپﷺنےاس حوالےسےبھی حضرت یوسفکی فضیلت بیان فرمائی کہ بہت لمباعرصہ بےگناہ قیدخانےمیں گزارنےکےباوجودآپ نےبادشاہ کی طرف سےبلاواآتےہی فوراجیل سےباہرآنےکےبجائےاپنے اوپرلگنےوالےالزام پرمبنی مقدمےکافیصلہ مانگا۔
آخرمیں حضرت خضرکےفضائل ہیں۔ حضرت موسیٰ اورخضرکےواقعےسےبڑاسبق یہ ملتاہےکہ کسی جلیل القدراوراولوالعزم پیغمبرکوبھی یہ نہیں سمجھناچاہیےکہ اس کاعلم سب سےبڑھ کرہے۔ فضائل نبی میں یہ حدیث بیان ہوچکی کہ آپ نےعام لوگوں سےیہ کہاکہ دنیاکےمعاملات میں اپنےمیدان کےبارےمیں جن چیزوں کوان میں تم زیادہ جانتےہو،اپنی معلومات پرچلولیکن میں جب اللہ کاحکم پہنچاؤں تواس پرضرورعمل کرو۔ غورکیاجائےتواتواضع اورانکسارکےحوالےسےبھی ،جوعبودیت کالازمی حصہ ہیں، آپﷺ کی فضیلت ارفع واعلیٰ ہے۔
عمرو بن محمد ناقد، اسحاق بن ابراہیم حنظلی، عبیداللہ بن سعید اور محمد بن ابی عمر مکی، ان سب نے ہمیں ابن عیینہ سے حدیث بیان کی۔ الفاظ ابن ابی عمر کے ہیں۔ سفیان بن عیینہ نے کہا: ہمیں عمرو بن دینار نے سعید بن جبیر سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: کہ میں نے حضرت ابن عباس سے کہا: نوف (بن فضالہ) بکالی کا یہ خیال ہے کہ بنواسرائیل کے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی موسیٰ نہیں تھے تو انہوں نے کہا، اللہ کا دشمن غلط کہتا ہے، میں نے حضرت ابی بن کعب علیہ السلام سے سنا وہ کہتے تھے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا، موسیٰ بنی اسرائیل کوخطاب کرنے کےلیے کھڑے ہوئے تو ان سے سوال کیا گیا، سب لوگوں سے زیادہ علم والا کون ہے؟ توانہوں نے کہا، میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: اللہ تعالی ان سے ناراض ہو گیے کیونکہ انہوں نے اس کا علم اللہ کی طرف نہیں لوٹایا، سو اللہ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ، دو سمندروں کے سنگم پر ہے، جو تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے، موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا، اے میرے رب میں اس تک کیسے رسائی حاصل کروں؟ تو انہیں کہا گیا ایک ٹوکری میں ایک مچھلی رکھ لو تو جہاں تم مچھلی کو گم پاؤ گے، وہ وہیں ہوں گے تو وہ چل پڑے اور ان کے ساتھ ان کے خادم یوشع بن نون بھی روانہ ہو گئے۔ سو موسیٰ علیہ السلام نے ایک ٹوکر ی میں مچھلی اٹھائی اور چل دئیے اور ان کے ساتھ ان کے خادم بھی تھے، دونوں چلتے چلتے ایک چٹان پر پہنچ گئے تو موسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی سو گئے اور مچھلی ٹوکری میں پھڑ پھڑائی، حتی کہ ٹوکری سے نکل گئی اور سمندر میں گر گئی، آپ نے فرمایا: اللہ نے اس کے لیے پانی کے بہاؤ کو روک دیا، حتی کہ وہ ایک طاق کی طرح ہو گیا اور مچھلی کےلیے سرنگ بن گیا اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لیے تعجب انگیز ٹھہرا اور وہ باقی دن اور رات چلتے رہے اور موسیٰ علیہ السلام کا ساتھی، انہیں اس کی خبر دینا بھول گیا تو جب صبح ہوئی، موسی ٰعلیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کہا، صبح کا کھانا لاؤ، ہمیں اپنے سفر سے بہت تکان لاحق ہو گئی ہے۔ آپ نے فرمایا جب اس مکان سے جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا، گزر نہیں گئے، انہیں تکان لاحق نہیں ہوئی، ساتھی نے کہا، آپ کو معلوم ہے جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے، (مچھلی سمندر میں چلی گئی) تومیں آپ کو بتانا بھول گیا، اور اس کا تذکرہ کرنا مجھے شیطان ہی نہیں بھلایا ہے اور اس نے سمندر میں اپنا عجیب طریقہ سے راستہ بنا لیا، موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، ا س جگہ کے ہم متلاشی تھے، پھر وہ دونوں اپنے نقش قدم کا پیچھا کرتے ہوئے لوٹ آئے، حتی کہ اس چٹان کے پاس پہنچ گئے تو موسیٰ علیہ السلام نے ایک آدمی دیکھا، جو اپنے آپ کو کپڑے سے ڈھانپے ہوئے تھا، موسیٰ علیہ السلام نے اسے سلام کہا تو خضر نے ان سے پوچھا اس علاقے میں سلام کہتے والا کہاں سے آ گیا، انہوں نے کہا، میں موسی ہوں، پوچھا، بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ کہا: ہاں، خضر نے کہا، اللہ کے علوم میں ایک علم تمہیں حاصل ہے، جو اللہ نے تجھے ہی سکھایا ہے، میں اس سے آگاہ نہیں ہوں اور اللہ کا علوم میں سے مجھے ایک علم حاصل ہے، جو اس نے مجھے سکھایا ہے، آپ اسے نہیں جانتے، موسیٰ علیہ السلام نے اس سے پوچھا، کیا، میں آپ کے ساتھ اس شرط پر رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے وہ رشد و ہدایت سکھائیں، جو آپ کو سکھائی گئی ہے تو خضر علیہ السلام نے کہا، آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے اور آپ ایسی چیز پر صبر کیسے کر سکیں گے، جس سے آپ واقف نہیں ہوں گے، موسی علیہ السلام نے کہا، ان شاء اللہ! آپ مجھے صابر پائیں گے، اور میں آپ کی کسی معاملے میں مخالفت نہیں کروں گا، خضر علیہ السلام نے ان سے کہا، اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو میں آپ مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کریں گے، حتی کہ خود میں تمہارے سامنے اس کا ذکر چھیڑ وں، انہوں نے کہا، ٹھیک ہے تو خضر اور موسی علیہ السلام ساحل سمندر پر چل پڑے اور ان کے پاس سے ایک کشتی گزری تو انہوں نے کشتی والوں سے کہا، ان دونوں کو بھی سوار کر لیں، انہوں نے خضر کو پہچان کر، ان دونوں کو بغیر کرائے کے سوار کر لیا، حضرت خضر نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختی کا رخ کر کے اس کو اکھاڑ دیا تو موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا، ان لوگوں نے ہمیں کرائے کے بغیر سوار کر لیا اور تو نے ان کی کشتی کا رخ کر کے اس میں سوراخ کر ڈالا۔ نتیجہ یہ نکلے کہ کشتی والے غرق ہو جائیں تو نے بہت ناگوار کام کیا، اس نے کہا: کیا میں نےکہا نہیں صبر نہیں کر سکیں گے؟ موسی ٰ علیہ السلام نے کہا: میری بھول پر میرا مواخذہ نہ کیجئیے- اور مجھ پر میرے معاملے میں سختی نہ کریں، پھر کشتی سے نکلے اور وہ سمندر کے کنارے کنارےچل رہے تھے کہ انہوں نے ایک بچہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا دیکھا، سو خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑا اور اپنے ہاتھ سے اسے الگ کر دیا، اور اسے قتل کر ڈالا تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا آپ نے ایک بے گناہ لڑکے کو مار ڈالا، جس نے کسی کا خون نہ کیاتھا۔ آپ نے بہت ناپسندیدہ کام کیا، خضر علیہ السلام نےکہا کیا میں نے آپ سے کہا نہیں تھا، آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے؟ آپ نے فرمایا، یہ انکار پہلے سے شدید تھا، موسی علیہ السلام نے کہا، اگر اب میں کسی چیز کے بارے میں آپ سے سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں، آپ میری طرف سےمعذور ہوں گے۔ تووہ دونوں چل پڑے حتی کہ ایک بستی والوں کے پاس پہنچ گئے، بستی والوں کے باشندوں سے کھانا طلب کیا، انہوں نے ان کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کر دیا، تو وہاں انہوں نے ایک دیوار پائی جوگرا چاہتی تھی، تو خضر علیہ السلام نے اسے شارے سے سیدھا کردیا، یعنی وہ ایک طرف جھکی ہوئی تھی، خضر علیہ السلام نے اسے اپنے ہاتھ سے سیدھا کر دیا، موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا، یہ لوگ ہم ان کا پاس آئےتو انہوں نے ہماری مہمان نوازی نہ کی اور ہمیں کھانا نہ کھلایا، اگر آپ چاہتے تو آپ اس کام کی مزدوری لےلیتے، خضر علیہ السلام نے کہا، یہ میرے اور تیرےدومیان جدائی کا وقت ہے، میں ابھی آپ کو ان چیزوں کی حقیقت بتاتا ہوں، جن پر آپ صبر نہیں کر سکے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالی موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے، میں چاہتا ہوں موسی علیہ السلام نے صبر کیا ہوتا تا کہ ہمیں ان کی باتیں سنائی جاتیں اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’پہلی بار موسی علیہ السلام بھول گئے،‘‘ اور آپ نے فرمایا، ’’ایک چڑیا آئی اورکشتی کے کنارے بیٹھ گئی۔ پھر سمندر میں ٹھونگ ماری تو خضر علیہ السلام نے انہیں کہا، میرے اور تیرے علم نے اللہ کی معلومات میں اتنی ہی کمی کی ہے جتنا اس چڑیا نے سمندر میں کمی کی ہے‘‘ سعید بن جبیر کہتے ہیں، حضرت ابن عباس کی قرأت اس کرح تھی۔ ’’ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر صحیح اور سالم کشتی کو چھین لیتا تھا اور پڑھتے تھے، رہا غلام تو وہ کافر تھا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے کہا، نوف بکالی کا خیال ہے کہ بنواسرائیل کے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی موسیٰ نہیں تھے تو انہوں نے کہا، اللہ کا دشمن غلط کہتا ہے، میں نے حضرت ابی بن کعب علیہ السلام سے سنا وہ کہتے تھے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا، موسیٰ بنی اسرائیل کوخطاب کرنے کےلیے کھڑے ہوئے تو ان سے سوال کیا گیا، سب لوگوں سے زیادہ علم والا کون ہے؟ توانہوں نے کہا، میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں، آپ نے فرمایا: اللہ تعالی ان سے ناراض ہو گیے کیونکہ انہوں نے اس کا علم اللہ کی طرف نہیں لوٹایا، سو اللہ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ، دو سمندروں کے سنگم پر ہے، جو تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے، موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا، اے میرے رب میں اس تک کیسے رسائی حاصل کروں؟ تو انہیں کہا گیا ایک ٹوکری میں ایک مچھلی رکھ لو تو جہاں تم مچھلی کو گم پاؤ گے، وہ وہیں ہوں گے تو وہ چل پڑے اور ان کے ساتھ ان کے خادم یوشع بن نون بھی روانہ ہو گئے۔ سو موسیٰ علیہ السلام نے ایک ٹوکر ی میں مچھلی اٹھائی اور چل دئیے اور ان کے ساتھ ان کے خادم بھی تھے، دونوں چلتے چلتے ایک چٹان پر پہنچ گئے تو موسی علیہ السلام اور ان کے ساتھی سو گئے اور مچھلی ٹوکری میں پھڑ پھڑائی، حتی کہ ٹوکری سے نکل گئی اور سمندر میں گر گئی، آپ نے فرمایا: اللہ نے اس کے لیے پانی کے بہاؤ کو روک دیا، حتی کہ وہ ایک طاق کی طرح ہو گیا اور مچھلی کےلیے سرنگ بن گیا اور موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھی کے لیے تعجب انگیز ٹھہرا اور وہ باقی دن اور رات چلتے رہے اور موسیٰ علیہ السلام کا ساتھی، انہیں اس کی خبر دینا بھول گیا تو جب صبح ہوئی، موسی ٰعلیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کہا، صبح کا کھانا لاؤ، ہمیں اپنے سفر سے بہت تکان لاحق ہو گئی ہے۔ آپ نے فرمایا جب اس مکان سے جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا، گزر نہیں گئے، انہیں تکان لاحق نہیں ہوئی، ساتھی نے کہا، آپ کو معلوم ہے جب ہم چٹان کے پاس ٹھہرے، (مچھلی سمندر میں چلی گئی) تومیں آپ کو بتانا بھول گیا، اور اس کا تذکرہ کرنا مجھے شیطان ہی نہیں بھلایا ہے اور اس نے سمندر میں اپنا عجیب طریقہ سے راستہ بنا لیا، موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا، ا س جگہ کے ہم متلاشی تھے، پھر وہ دونوں اپنے نقش قدم کا پیچھا کرتے ہوئے لوٹ آئے، حتی کہ اس چٹان کے پاس پہنچ گئے تو موسیٰ علیہ السلام نے ایک آدمی دیکھا، جو اپنے آپ کو کپڑے سے ڈھانپے ہوئے تھا، موسیٰ علیہ السلام نے اسے سلام کہا تو خضر نے ان سے پوچھا اس علاقے میں سلام کہتے والا کہاں سے آ گیا، انہوں نے کہا، میں موسی ہوں، پوچھا، بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ کہا: ہاں، خضر نے کہا، اللہ کے علوم میں ایک علم تمہیں حاصل ہے، جو اللہ نے تجھے ہی سکھایا ہے، میں اس سے آگاہ نہیں ہوں اور اللہ کا علوم میں سے مجھے ایک علم حاصل ہے، جو اس نے مجھے سکھایا ہے، آپ اسے نہیں جانتے، موسیٰ علیہ السلام نے اس سے پوچھا، کیا، میں آپ کے ساتھ اس شرط پر رہ سکتا ہوں کہ آپ مجھے وہ رشد و ہدایت سکھائیں، جو آپ کو سکھائی گئی ہے تو خضر علیہ السلام نے کہا، آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے اور آپ ایسی چیز پر صبر کیسے کر سکیں گے، جس سے آپ واقف نہیں ہوں گے، موسی علیہ السلام نے کہا، ان شاء اللہ! آپ مجھے صابر پائیں گے، اور میں آپ کی کسی معاملے میں مخالفت نہیں کروں گا، خضر علیہ السلام نے ان سے کہا، اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو میں آپ مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کریں گے، حتی کہ خود میں تمہارے سامنے اس کا ذکر چھیڑ وں، انہوں نے کہا، ٹھیک ہے تو خضر اور موسی علیہ السلام ساحل سمندر پر چل پڑے اور ان کے پاس سے ایک کشتی گزری تو انہوں نے کشتی والوں سے کہا، ان دونوں کو بھی سوار کر لیں، انہوں نے خضر کو پہچان کر، ان دونوں کو بغیر کرائے کے سوار کر لیا، حضرت خضر نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختی کا رخ کر کے اس کو اکھاڑ دیا تو موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا، ان لوگوں نے ہمیں کرائے کے بغیر سوار کر لیا اور تو نے ان کی کشتی کا رخ کر کے اس میں سوراخ کر ڈالا۔ نتیجہ یہ نکلے کہ کشتی والے غرق ہو جائیں تو نے بہت ناگوار کام کیا، اس نے کہا: کیا میں نےکہا نہیں صبر نہیں کر سکیں گے؟ موسی ٰ علیہ السلام نے کہا: میری بھول پر میرا مواخذہ نہ کیجئیے- اور مجھ پر میرے معاملے میں سختی نہ کریں، پھر کشتی سے نکلے اور وہ سمندر کے کنارے کنارےچل رہے تھے کہ انہوں نے ایک بچہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا دیکھا، سو خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑا اور اپنے ہاتھ سے اسے الگ کر دیا، اور اسے قتل کر ڈالا تو موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا آپ نے ایک بے گناہ لڑکے کو مار ڈالا، جس نے کسی کا خون نہ کیاتھا۔ آپ نے بہت ناپسندیدہ کام کیا، خضر علیہ السلام نےکہا کیا میں نے آپ سے کہا نہیں تھا، آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے؟ آپ نے فرمایا، یہ انکار پہلے سے شدید تھا، موسی علیہ السلام نے کہا، اگر اب میں کسی چیز کے بارے میں آپ سے سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں، آپ میری طرف سےمعذور ہوں گے۔ تووہ دونوں چل پڑے حتی کہ ایک بستی والوں کے پاس پہنچ گئے، بستی والوں کے باشندوں سے کھانا طلب کیا، انہوں نے ان کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کر دیا، تو وہاں انہوں نے ایک دیوار پائی جوگرا چاہتی تھی، تو خضر علیہ السلام نے اسے شارے سے سیدھا کردیا، یعنی وہ ایک طرف جھکی ہوئی تھی، خضر علیہ السلام نے اسے اپنے ہاتھ سے سیدھا کر دیا، موسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا، یہ لوگ ہم ان کا پاس آئےتو انہوں نے ہماری مہمان نوازی نہ کی اور ہمیں کھانا نہ کھلایا، اگر آپ چاہتے تو آپ اس کام کی مزدوری لےلیتے، خضر علیہ السلام نے کہا، یہ میرے اور تیرےدومیان جدائی کا وقت ہے، میں ابھی آپ کو ان چیزوں کی حقیقت بتاتا ہوں، جن پر آپ صبر نہیں کر سکے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اللہ تعالی موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے، میں چاہتا ہوں موسی علیہ السلام نے صبر کیا ہوتا تا کہ ہمیں ان کی باتیں سنائی جاتیں اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’پہلی بار موسی علیہ السلام بھول گئے،‘‘ اور آپ نے فرمایا، ’’ایک چڑیا آئی اورکشتی کے کنارے بیٹھ گئی۔ پھر سمندر میں ٹھونگ ماری تو خضر علیہ السلام نے انہیں کہا، میرے اور تیرے علم نے اللہ کی معلومات میں اتنی ہی کمی کی ہے جتنا اس چڑیا نے سمندر میں کمی کی ہے‘‘ سعید بن جبیر کہتے ہیں، حضرت ابن عباس کی قرأت اس کرح تھی۔ ’’ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر صحیح اور سالم کشتی کو چھین لیتا تھا اور پڑھتے تھے، رہا غلام تو وہ کافر تھا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
نوف بكالی: یہ کوفہ کا ایک قصہ گو شخص تھا، جو کعب احبار کی بیوی کا بیٹا یا کعب کا بھتیجا تھا، جس نے کہا، جس موسیٰ کا خضر کے ساتھ واقعہ بیان کیا گیا ہے، وہ موسیٰ بن لیث بن افرائیم بن یوسف علیہ السلام تھا، معروف جلیل القدر نبی موسیٰ بن عمران نہ تھا۔ بعض نام موسیٰ بن میشا بیان کیا ہے۔خِضِر: جو ایک سفید، خالی زمین پر بیٹھے تو وہ سبزہ سے لہلہانے لگی، ان کے نسب و خاندان کے بارے میں بہت اختلاف ہے، یہی صورت حال نام کی ہے، کوئی قابل اعتماد بات نہیں کہی جا سکتی، اس میں بھی اختلاف ہے، وہ فرشتہ ہیں یا انسان، نبی ہیں یا ولی، اگر وہ فرشتہ نہیں ہیں تو نبی ہیں، جمہور کا موقف یہ ہے کہ وہ نبی ہیں لیکن وہ تکوینی امور کے بارے میں علم رکھتے تھے، جس کا تعلق عموما فرشتوں سے ہے اور موسیٰ علیہ السلام کی نبوت تشریعی تھی، ان کی زندگی کے بارے میں بھی اختلاف ہے، علامہ آلوسی نے اس پر طویل بحث کی ہے اور علامہ سعیدی کے بقول حرف آخر یہی ہے، "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ اور دلائل نقلیہ سے ان علماء کے نظریہ کی تائید ہوتی ہے، جو حضرت خضر کی وفات کے قائل ہیں، (شرح صحیح مسلم ج 6 ص 859)۔ تفصیلی بحث کے لیے دیکھئے، روح المعانی سورہ کہف اور بقول علامہ تقی قرآن و سنت کی منطقی دلیل سے موت یا حیات ثابت نہیں ہے، اس لیے اس میں بحث و تمحیص کی بجائے توقف اور سکوت بہتر ہے۔ (تکملہ ج 5 ص 41)۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے ’’تفسیر القرآن الکریم‘‘ سورہ کہف از حافظ عبدالسلام بھٹوی رحمہ اللہ، فتح الباری حافظ ابن حجر شرح صحیح مسلم از مولانا سعیدی ج 6 ص 853 تا 859 كذب عدو الله: چونکہ نوف نے ایک بالکل بے بنیاد اور غلط بات کہی تھی، اس حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے غصہ میں آ کر زجروتوبیخ کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے۔ عتب الله عليه: موسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر کی شان کے مطابق، تواضع اور ادب کے لحاظ مناسب یہ تھا کہ وہ انا اعلم کی بجائے، الله اعلم فرماتے اور اللہ اپنے بلند اور اعلیٰ مراتب کے حامل بندوں کی معمولی بات پر بھی گرفت فرماتا ہے، اس لیے ان کا لفظی مواخذہ ہوا۔ مجمع البحرين: دو سمندروں کا سنگھم، اس کے بارے میں اختلاف ہے، وہ کون سے دو سمندر تھے، لیکن اس کی تعیین کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے، سنگھم تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔یوشع بن نون: یہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد نبی بنے اور بطور خدمت گزار ان کے شریک سفر تھے، جب موسیٰ علیہ السلام سو گئے تو یہ جاگ رہے تھے اور مچھلی جب زندہ ہو کر حرکت کر کے سمندر میں گری تو یہ دیکھ رہے تھے، لیکن انہوں نے موسیٰ علیہ السلام کو بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا اور سوچا جب بیدار ہو جائیں گے تو میں انہیں آگاہ کروں گا، کیونکہ موسیٰ علیہ السلام نے انہیں پابند کیا تھا، جب مچھلی گم ہو جائے تو مجھے بتانا، لیکن وہ بھول گئے اور جب موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو جلدی میں ان کے ساتھ چل پڑے، جب موسیٰ علیہ السلام نے آگے چل کر کھانا طلب کیا، تب یاد آیا اور معذرت کے ساتھ صورت حال بیان کر دی، انی بارضك السلام: یہاں پر سلام کہنے والا کہاں سے آ گیا، یہاں تو لوگ سلام نہیں کہتے، انا علی علم من علم الله علمنيه لا تعلمه موسیٰ علیہ السلام کا علم تشریعی تھا اور خضر علیہ السلام کا تکوینی تھا، یعنی دنیا میں اس کائنات کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے اور ہماری آنکھوں سے اوجھل ہے، ہم اس کے مکلف یا پابند نہیں ہیں، ان امور غیبیہ سے تعلق رکھتا تھا اور موسیٰ علیہ السلام کو تکوینات سے کوئی واسطہ نہ تھا اور حضرت موسیٰ کا علم تشریعی تھا، جس کے مطابق انسان زندگی گزارنے کا پابند ہے اور اس کا مکلف ہے اور خضر، ایک انسان ہونے کے ناطے اس پر عمل پیرا ہونے کا پابند تھا، اس لیے وہ شرعی امور سے آگاہ تھا، اگرچہ وہ علم موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں بہت کم تھا، اس لیے خضر علیہ السلام نے موسیٰ علیہ السلام کے علم کے بارے میں بھی کہا، لا اعلمه ، میں اس سے آگاہ نہیں ہوں، یعنی آپ کے علم کے اعتبار سے، اس طرح خضر علم تکوینی کے ساتھ کچھ تشریعی علم سے بھی آگاہ تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا، هو أعلم منك: وہ آپ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ لا أعصی لك أمرا: موسیٰ علیہ السلام یہ سمجھتے تھے، یہ اللہ کا بندہ ہے، اس لیے کسی شرعی حکم اور ضابطہ کی مخالفت نہیں کرے گا، اس لیے انہوں نے کہہ دیا، آپ مجھے ان شاءاللہ صابر پائیں گے اور میں آپ کے کسی حکم کی مخالفت نہیں کروں گا، لیکن جب انہوں نے ایسے کام دیکھے جو شرعی رو سے یا حالات کے لحاظ سے درست نہ تھے اور انہیں پتہ چل گیا، میرا ان کے ساتھ چلنا مشکل ہے تو انہوں نے جدائی اور فراق چاہا، اس لیے تیسرے واقعہ پر بھی اعتراض کر ڈالا،نول: اجرت و مزدوری یہاں کرایہ مراد ہے۔عمد الخضر الی نوح: حضرت خضر کا کشتی کا تختہ اکھاڑنا، کشتی والوں میں سے کسی کو بھی نظر نہ آ سکا، اس لیے ملاحوں اور سواریوں میں سے کسی نے اعتراض نہ کیا اور نہ کشتی ڈوبی۔ شيئا امرأ، بہت ناگوار کام۔ لا ترهقنی: مجھے نہ ڈھانپ یعنی مکلف اور ذمہ دار نہ ٹھہرا۔ما نقض علمی و علمك من علم الله: اور میرے اور تیرے علم نے اللہ کی معلومات میں کمی نہیں کی، یہ الفاظ انسانی محاورہ کے اعتبار سے ہیں، وگرنہ اللہ کا علم لامحدود ہے، اس لیے اس میں کمی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، صرف اتنا سمجھانا مقصود تھا کہ مخلوقات کے علم کی اللہ کے علم کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ہے۔ نوٹ: وَرَأهُم مَلِك کی جگہ، اَمَامُهُم مَلِك اور اما الغَلام کے بعد وَكَانَ كافِرا، یہ قراءت تفسیر و توضیح کے لیے ہے، یہ قرآن نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Sa'id bin jubair reported: I said to Ibn Abbas (RA) that Nauf al-Bikali was of the opinion that Moses (ؑ) (peace be upon him), the Apostle (ﷺ) of Bani Isra'il, was not the same who accompanied Khadir, whereupon he said: The enemy of Allah tells a lie. I heard Ubayy bin Ka'b say: Moses (ؑ) (peace be upon him) stood up to give sermon to the people of Isra'il. He was asked as to who amongst the people has the best knowledge, whereupon he said: I have the best knowledge. Thereupon Allah was annoyed with him that he did not attribute (the best knowledge) to Him. He revealed to him: A servant amongst My servants is at the junction of two rivers who has more knowledge than yours. Moses (ؑ) said: How can I meet him? It was said to him: Carry a fish in the large basket and the place where you find it missing there you will find him. Thereupon Moses (ؑ) proceeded forth along with a young man (Yusha'). Joshua bin Nun and Moses (ؑ) (peace be upon him) put the fish in the basket and there went along with him the young man (Yusha') until they came to a certain rock and Moses (ؑ) and his companion went to sleep and the fish stirred in that basket and fell into the ocean and Allah stopped the current of water like a vault until the way was made for the fish. Moses (ؑ) and his young companion were astonished and they walked for the rest of the day and the night and the friend of Moses (ؑ) forgot to inform him of this incident. When it was morning, Moses (ؑ) (peace be upon him) said to the young man: Bring for us the breakfast for we are dead tired because of this journey, and they did not feel exhausted until they had passed that place where they had been commanded (to stay). He said: Don't you know that when we reached the Sakhra (rock) I forgot the fisii and noth ng made me forget it but the satan that I. could nit remember it? How strange is it that the fish found a way in the river? Moses (ؑ) said: That was what we had been aiming at. Then both of them retraced their steps until they reached Sakhra; there they saw a man covered with a cloth. Moses (ؑ) greeted him. Khadir said to him: Where is as-Salam in our country? He said: I am Moses (ؑ), whereupon he (Khadir) said: You mean the Moses (ؑ) of Bani Isra'il? He said: Yes. He (Khadir) said: You have a knowledge out of the knowledge of Allah which in fact Allah imparted to you and about that I know nothing and I have knowledge out of Allah's knowledge which He imparted to me and about that you do not know. Moses (ؑ) (peace be upon him) said to him: May I follow you so that you may teach me that with which you have been taught righteousness. He said: You will not be able to bear with me; how you will be able to bear that about which you do not know? Moses (ؑ) said: Thou will find me patient, nor shalt I disobey you in aught. Khadir said to him: If you were to follow me, then do not ask me about anything until I myself speak to you about it. He said: Yes. So Khadir and Moses (ؑ) set forth on the bank of the river that there came before them a boat. Both of them talked to them (the owners of the boat) so that they might carry both of them. They had recognised Khadir and they carried them free. Khadir thereupon took hold of a plank in the boat and broke it away. Moses (ؑ) said: These people have carried us without any charge and you attempt to break their boat so that the people sailing in the boat may drown. This is (something) grievous that you have done. He said: Did I not say that you would not bear with me? He said: Blame me not for what I forgot and be not hard upon what I did. Then both of them got down from the boat and began to walk along the coastline that they saw a boy who had been playing with other boys. Khadir pulled up his head and killed him. Moses (ؑ) said: Have you killed an innocent person who is in no way guilty of slaying another? You have done something horrible. Thereupon he said: Did I not say to you that you will not be able to bear with me? He ( Moses (ؑ)) said: This (act) is more grievous than the first one. He ( Moses (ؑ)) further said. If I ask you about anything after this, keep not company with me, then you would no doubt find (a plausible) excuse for this. Then they both walked on until they reached the inhabitants of a village. They asked its inhabitants for food but they refused to entertain them as their guests. They found in it a wall which had been bent on one side and was about to fall. Khadir set it right with his own hand. Moses (ؑ), said to him: It is the people to whom we came but they showed us no hospitality and they did not serve us food. If you wish you can get wages for it. He (Khadir) said: This is the parting of ways between me and you. Now I wish to reveal to you the significance of that for which you could not bear with me. Allah's Messenger (ﷺ) said. May Allah have mercy upon Moses (ؑ)! I wish if Moses (ؑ) could show patience and a (fuller) story of both of them could have been told. Allah's Messenger (ﷺ) said that the first thing which Moses (ؑ) said was out of forgetfulness. Then there came a sparrow until it perched on the wall of the boat and took water from the ocean. Thereupon, Khadir said: My knowledge and your knowledge in comparison with the knowledge of Allah is even less than the water taken by the sparrow in its beak in comparison to the water of the ocean, and Sa'id bin jubair used to recite (verses 79 and 8O of Sura Kahf) in this way: There was before them a king who used to seize every boat by force which was in order, the boy was an unbeliever.