باب: اعضائے طہارت کے تمام حصوں تک پانی پہنچانا ضروری ہے
)
Muslim:
The Book of Purification
(Chapter: The obligation of completely washing all the parts to be washed when purifying oneself)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
243.
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے حضرت عمر بن خطاب ؓ نے بتایا: کہ ایک شخص نے وضو کیا، تو اپنے پاؤں پر ایک ناخن جتنی جگہ چھوڑ دی ،تو نبی ﷺ نے اس کو دیکھ لیا اور فرمایا: ’’واپس جاؤ اور اپنا وضو خوب اچھی طرح کرو-‘‘ وہ واپس گیا، (حکم پر عمل کیا) پھر نماز پڑھی۔
اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت وفضیلت
طہارت کا مطلب ہے صفائی اور پاکیز گی۔ یہ نجاست کی ضد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بعثت کے بعد آغاز کار میں جو احکام ملے اور جن کا مقصود اگلے مشن کے لیے تیاری کرنا اور اس کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا تھا، وہ ان آیات میں ہیں: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7) ”اے موٹا کپڑا لپیٹنے والے! اٹھیے اور ڈرایئے، اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اپنے کپڑے پاک رکھیے، پلیدی (بتوں) سے دور رہے، (اس لیے ) احسان نہ کیجیے کہ زیادہ حاصل کریں اور اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کیجیے‘‘ (المدثر 71
اسلام کے ان بنیادی احکام میں کپڑوں کو پاک رکھنے اور ہر طرح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی ناپاکی سے دور رہنے کا حکم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سے تعلق، ہدایت اور روحانی ارتقا کا سفر طہارت اور پاکیزگی سے شروع ہوتا ہے جبکہ گندگی تعفن اورغلاظت شیطانی صفات ہیں اور ان سے گمراہی ، ضلالت اور روحانی تنزل کا سفر شروع ہوتا ہے۔
وُضُوْ، وَضَائَة سے ہے جس کے معنی نکھار اور حسن و نظافت کے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی کے سامنے حاضری کی تیاری یہی ہے کہ انسان نجس نہ ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور مسنون طریقہ وضو سے اپنی حالت کو درست کرے اور خود کو سنوارے۔ وضوسے جس طرح ظاہری اعضاء صاف اور خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی طور پر بھی انسان صاف ستھرا ہو کر نکھر جاتا ہے۔ ہر عضو کو دھونے سے جس طرح ظاہری کثافت اور میل دور ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ تمام گناہ بھی دھل جاتے ہیں جوان اعضاء کے ذریعے سے سرزد ہوئے ہوں ۔
مومن زندگی بھر اپنے رب کے سامنے حاضری کے لیے وضو کے ذریعے سے جس وَضَائَةَ کا اہتمام کرتا ہے قیامت کے روز وہ مکمل صورت میں سامنے آئے گی اور مومن غَرُّ مُعُجَّلُونَ (چمکتے ہوئے روشن چہروں اور چمکتے ہوئے ہاتھ پاؤں والے) ہوں گے۔
نظافت اور جمال کی یہ صفت تمام امتوں میں مسلمانوں کو ممتاز کرے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ماہرین صحت جسمانی صفائی کے حوالے سے وضو کے طریقے پرتعجب آمیر تحسین کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسلام کی طرح اس کی عبادات بھی بیک وقت دنیا و آخرت اور جسم و روح کی بہتری کی ضامن ہیں۔ الله تعالی کے سامنے حاضری اور مناجات کی تیاری کی یہ صورت ظاہری اور معنوی طور پر انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے لیے آسان بھی ہے۔ جب وضو ممکن نہ ہو تو اس کا قائم مقام تیمم ہے، یعنی ایسی کوئی بھی صورت حال پیش نہیں آتی جس میں انسان اس حاضری کے لیے تیاری نہ کر سکے۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے حضرت عمر بن خطاب ؓ نے بتایا: کہ ایک شخص نے وضو کیا، تو اپنے پاؤں پر ایک ناخن جتنی جگہ چھوڑ دی ،تو نبی ﷺ نے اس کو دیکھ لیا اور فرمایا: ’’واپس جاؤ اور اپنا وضو خوب اچھی طرح کرو-‘‘ وہ واپس گیا، (حکم پر عمل کیا) پھر نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں، کہ مجھے حضرت عمر بن خطاب ؓ نے بتایا: کہ ایک انسان نے وضو کیا، تو اپنے پاؤں سے ایک ناخن کے بقدر جگہ کو چھوڑ دیا، نبی اکرمﷺ نے اس کو دیکھ لیا اور فرمایا: ’’واپس جا کر اچھی طرح وضو کر کے آؤ۔‘‘ تو وہ واپس گیا پھر (آکر) نماز پڑھی۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوا، وضو کے ہر عضو کو پورے طور پر دھویا جائے،کسی عضو کا معمولی سا حصہ بھی خشک نہ رہے، اگر ذرہ برابر جگہ بھی چھوڑ دی گئی، تو وضو نہیں ہوگا اور اگر وضو نہیں ہے، تو ظاہر ہے نماز نہیں ہوگی،کیونکہ وضو نماز کےلیے شرط ہے۔ اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا، پاؤں کا دھونا ضروری ہے، اگر پاؤں کا مسح ہوتا، تو ناخن کے بقدر رہ جانے والی جگہ نظر نہ آتی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Jabir reported: 'Umar bin Khattab said that a person performed ablution and left a small part equal to the space of a nail (unwashed). The Apostle of Allah (ﷺ) saw that and said: Go back and perform ablution well. He then went back (performed ablution well) and offered the prayer.