Muslim:
The Book of Purification
(Chapter: The virtue of isbaghil-wudu’ (performing wudu’ properly) during times when it is difficult to do so)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
251.
اسماعیل نے بیان کیا: کہ انہیں علاء نے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت کی، کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں ایسی جیز سے آگاہ نہ کروں جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا ہے او ر درجات بلند فرماتا ہے ؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کی: اے اللہ کےر سول کیوں نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ناگواریوں کے باوجود اچھی طرح وضوکرنا، مساجد تک زیادہ قدم چلنا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، سو یہی رِباط (شیطان کے خلاف جنگ کی چھاؤنی) ہے۔‘‘
اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت وفضیلت
طہارت کا مطلب ہے صفائی اور پاکیز گی۔ یہ نجاست کی ضد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بعثت کے بعد آغاز کار میں جو احکام ملے اور جن کا مقصود اگلے مشن کے لیے تیاری کرنا اور اس کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا تھا، وہ ان آیات میں ہیں: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7) ”اے موٹا کپڑا لپیٹنے والے! اٹھیے اور ڈرایئے، اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اپنے کپڑے پاک رکھیے، پلیدی (بتوں) سے دور رہے، (اس لیے ) احسان نہ کیجیے کہ زیادہ حاصل کریں اور اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کیجیے‘‘ (المدثر 71
اسلام کے ان بنیادی احکام میں کپڑوں کو پاک رکھنے اور ہر طرح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی ناپاکی سے دور رہنے کا حکم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سے تعلق، ہدایت اور روحانی ارتقا کا سفر طہارت اور پاکیزگی سے شروع ہوتا ہے جبکہ گندگی تعفن اورغلاظت شیطانی صفات ہیں اور ان سے گمراہی ، ضلالت اور روحانی تنزل کا سفر شروع ہوتا ہے۔
وُضُوْ، وَضَائَة سے ہے جس کے معنی نکھار اور حسن و نظافت کے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی کے سامنے حاضری کی تیاری یہی ہے کہ انسان نجس نہ ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور مسنون طریقہ وضو سے اپنی حالت کو درست کرے اور خود کو سنوارے۔ وضوسے جس طرح ظاہری اعضاء صاف اور خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی طور پر بھی انسان صاف ستھرا ہو کر نکھر جاتا ہے۔ ہر عضو کو دھونے سے جس طرح ظاہری کثافت اور میل دور ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ تمام گناہ بھی دھل جاتے ہیں جوان اعضاء کے ذریعے سے سرزد ہوئے ہوں ۔
مومن زندگی بھر اپنے رب کے سامنے حاضری کے لیے وضو کے ذریعے سے جس وَضَائَةَ کا اہتمام کرتا ہے قیامت کے روز وہ مکمل صورت میں سامنے آئے گی اور مومن غَرُّ مُعُجَّلُونَ (چمکتے ہوئے روشن چہروں اور چمکتے ہوئے ہاتھ پاؤں والے) ہوں گے۔
نظافت اور جمال کی یہ صفت تمام امتوں میں مسلمانوں کو ممتاز کرے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ماہرین صحت جسمانی صفائی کے حوالے سے وضو کے طریقے پرتعجب آمیر تحسین کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسلام کی طرح اس کی عبادات بھی بیک وقت دنیا و آخرت اور جسم و روح کی بہتری کی ضامن ہیں۔ الله تعالی کے سامنے حاضری اور مناجات کی تیاری کی یہ صورت ظاہری اور معنوی طور پر انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے لیے آسان بھی ہے۔ جب وضو ممکن نہ ہو تو اس کا قائم مقام تیمم ہے، یعنی ایسی کوئی بھی صورت حال پیش نہیں آتی جس میں انسان اس حاضری کے لیے تیاری نہ کر سکے۔
اسماعیل نے بیان کیا: کہ انہیں علاء نے خبر دی، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت کی، کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں ایسی جیز سے آگاہ نہ کروں جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ گناہ مٹا دیتا ہے او ر درجات بلند فرماتا ہے ؟‘‘ صحابہؓ نے عرض کی: اے اللہ کےر سول کیوں نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ناگواریوں کے باوجود اچھی طرح وضوکرنا، مساجد تک زیادہ قدم چلنا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا، سو یہی رِباط (شیطان کے خلاف جنگ کی چھاؤنی) ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں تمھیں ایسی چیز سے آگاہ نہ کروں جس سے اللہ تعالیٰ تمھارے گناہ مٹا دے، اور اس سے درجات بلند فرمائے ؟‘‘ صحابہ ؓ نے عرض کیا: کیوں نہیں ا ے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: ’’تکالیف کے باوجود مکمل وضو کرنا، زیادہ قدم چل کر مساجد میں پہنچنا، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا اور یہی اپنے آپ کو پابند بنانا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1) الْمَكَارِه:مكره کی جمع ہے، ناپسندیدہ اور ناگوار چیز۔ (2) رِباطٌ: اپنے آپ کو کسی کام کے لیے روکنا، گویا انسان نے اپنے آپ کو اطاعت کے لیے روک لیا، اس سے معلوم ہوا "رِباط" کا ایک مفہوم: اپنے آپ کو نماز کا پابند بنانا ہے۔
فوائد ومسائل:
رِبَاطٌ:رباط کا معروف معنی: ’’سرحدوں کی پہرے داری ہے‘‘ جو انسان سرحدوں پر پہرا دیتا ہے اس کی جان کو ہر وقت دشمن سے خطرہ لاحق رہتا ہے، اور ظاہر ہے یہ بہت عظیم الشان کام ہے، اور نماز کا اہتمام شیطان کی غارت گری سے تحفظ کا بہت محکم ہتھیار ہے اور شیطانی حملوں سے اپنے ایمان کی حفاظت اپنی اہمیت اورمقصدیت کے لحاظ سے ملکی سرحدوں کی حفاظت سے بھی زیادہ اہم ہے۔ اور "ذَلِكُمُ" کا مرجع، حدیث میں بیان کردہ تینوں اعمال بھی ہوسکتے ہیں،کیونکہ یہ کام نفس پر حملہ کے شیطانی راستے سے روکتے ہیں، انسان کے اندرضبطِ نفس اور خواہشات پر کنڑول کا ملکہ پیدا کرتے ہیں، اس لیے اصلی رباط نفس کو ان کا پابند بنانا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported: The Messenger of Allah (ﷺ) said: Should I not suggest to you that by which Allah obliterates the sins and elevates the ranks (of a man). They (the hearers) said: Yes, Messenger of Allah. He said: Performing the ablution thoroughly despite odds, tranverside of more paces towards the mosque, and waiting for the next prayer after observing a prayer, and that is mindfulness.