باب: ماں باپ کے دوستوں اور ان جیسی حیثیت رکھنے والوں کے ساتھ نیک سلوک کی فضیلت
)
Muslim:
The Book of Virtue, Enjoining Good Manners, and Joining of the Ties of Kinship
(Chapter: The Virtue Of Maintaining Ties With The Friends Of One's Father And Mother, Etc.)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2552.
ولید بن ولید نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ ان کو مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک بدوی شخص ملا، حضرت عبداللہ ؓ نے ان کو سلام کیا اور جس گدھے پر خود سوار ہوتے تھے اس پر اسے بھی سوار کر لیا اور اپنے سر پر جو عمامہ تھا وہ اتار کر اس کے حوالے کر دیا۔ ابن دینار نے کہا: ہم نے ان سے عرض کی: اللہ تعالیٰ آپ کو ہر نیکی کی توفیق عطا فرمائے! یہ بدو لوگ تھوڑے دیے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ تو حضرت عبداللہ (بن عمر) رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: اس شخص کا والد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا محبوب دوست تھا اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپﷺ فرما رہے تھے: ’’والدین کے ساتھ بہترین سلوک ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک ہے جن کے ساتھ اس کے والد کو محبت تھی۔‘‘
رسالت مآبﷺ نے’’برّ‘‘کےبارےمیں فرمایا کہ یہ حسن سلوک کانام ہے ۔حسن کادائرہ والدین سےشروع ہوکر عام مسلمانوں بلکہ جانوروں تک وسیع ہے ۔حسن سلوک کےسب سےزیادہ مستحق والدین ہیں، اس لیے جب خالی برکانام لیا جائے تواس سے عموما والدین کےساتھ حسن سلوک مراد لیا جاتا ہے ، اگرچہ حقیقت میں اس صفت سےمتصف انسان درجہ بدرجہ سب کے ساتھ حسن سلوک کرنےوالا ہوتاہے ۔
’’صلہ‘‘سےمراد صلہ رحمی ہے ۔ بِرّکےساتھ صلہ کاذکر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت اجاگر کرنے کےلیے کیا جاتا ہے ۔بعض حضرات نے اس کتاب کاعنوان ’’کتاب الادب ‘‘بھی تجویز کیاہے ۔ اس کاسبب یہ ہےکہ اس کتاب میں حسن معاشرت ہی کےآداب بیان ہوئے ہیں ۔
امام مسلم نےکتاب کا آغاز والدہ کے ساتھ حسن سلوک سےکیا ہے کیونکہ اسلام میں وہ حسن سلوک کی سب سےزیادہ حقدار ہے ۔ اس کےبعد والد ہے ۔والدین کے ساتھ حسن سلوک جہاد سے بھی مقدم ہے بلکہ رسول اللہﷺ کے الفاظ ’’ففيهمافجاهد ‘‘’’ان دونوں (کی خدمت بجالانے ) میں جہاد کرو ‘‘(حدیث :6504) سےواضح ہوتاہے کہ خدمت والدین جہاد سےبھی مقدم ہے ۔
والدین کےساتھ حسن سلوک کی اہمیت اس قدر ہے کہ ان کے بلانے پر نفل نماز تک توڑدینا ضروری ہے ۔ اللہ کی رضا کےلیے والدین کو راضی رکھنے کا اجر اتنا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس سےمحروم رہ جانے والے کو سب سےزیادہ بد قسمت اورعزت سے محروم انسان قرار دیا ہے ۔ والدین کےبعد ان کےدوستوں کے ساتھ حسن سلوک بھی ’’أبرالبر‘‘(سب سےاونچے درجے کاحسن سلوک )قرار دیا گیا ہے ۔
اس کے بعد رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک آتا ہے۔قطع رحمی تباہ کرنے والا جرم ہے۔ اس کی بنا پر انسان کا اپنے رب سے بھی تعلق قطع ہوجاتا ہے ۔صلہ رحمی رزق میں کشادگی کاذریعہ بھی ہے۔ عام طورپر انسان یہ سمجھتا ہے کہ اگروہ قطع رحمی کر رہا ہے تو اب وہ بھی جواباقطع تعلق پرمعذور ہوگا لیکن رسول اللہﷺ نےواضح فرمایا ہے کہ قطع رحمی کامقابلہ صلہ رحمی ہی کےذریعے سےہو سکتا ہے۔ جوشخص قطع رحمی کے جواب میں صلہ رحمی کرتا ہے وہ دوسرے فریق کو تپتی ہوئی راکھ کاسفوف کھلا کر ان کاعلاج کر رہا ہے اورجب تک یہ صلہ رحمی کرتا رہتا ہے اسے اللہ کی طرف سے ایک مدد گار میسر رہتا ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا، اس کے ہوتے ہوئے کوئی اس شخص کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
اس کے بعد عام مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کابیان ہے ۔ اس کی بنیاد اس پر ہے کہ مسلمان باہمی حسد،بغض ،اعراض اورقطع تعلق سے پرہیز کرتے ہوئے اللہ کےساتھ بندگی کےرشتے کی بنا پر ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہیں ۔ رسول اللہﷺ تین دن سےزیادہ ایک مسلمان کی دوسرے سےناراضی کو حرام قراردیتے ہیں۔ آپ کے فرمان کےمطابق افضل وہی ہے جوصلح میں ابتداء کرتاہے ۔آپ نے اس رشتے کو مضبوط بنانے کے لیے اس بات کی تعلیم دی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کی برائیاں نہ ڈھونڈھیں ، تجسس سےکام نہ لیں ،نہ دوسرے مسلمان پرظلم کریں، نہ اسے ظلم کےسپرد کریں اورنہ اسے خود سےکم تر سمجھیں۔ ہر مسلمان کاخون انتہائی قابل احترام ہے ۔ آپﷺ نے ا سی کو تقویٰ قرار دیا ہے اورواضح فرمایا ہے کہ تقویٰ کاتعلق دل سے ہے ۔ دل کی نیک جذبات سےمعمور ہے توانسان متقی ہے ۔ اللہ تعالیٰ انسان کی شکل وصورت اوراس کے مال کو نہیں دیکھتا جس پرعموما اتراتے ہیں وہ دلوں اوراعمال کو دیکھتا ہے اورپاکیزہ دل رکھنے والوں اورنیک اعمال کرنےوالوں کو محبوب رکھتا ہے ۔
مسلمان کی باہمی عداوت بخشش میں رکاوٹ بن جاتی ہے ،اوراللہ کے لیے باہم محبت عظیم ترین انعام کامستحق بنا دیتی ہے ۔ اس سےدنیا میں بھی عزت اورآرام میسر آتا ہے اورآخرت میں بھی اللہ کےعرش کاسایہ نصیب ہوتا ہے ۔
دل کے اچھے جذبات کاتقاضا ہے کہ مسلمان دوسرے مسلمان کی عافیت اورصحت وسلامتی کاطلب گار ہو۔ بیماری اور دوسری تکالیف انہی مومنوں کے حصے میں آتی ہیں جو اللہ کےبہت قریب ہوتے ہیں ۔ ہرمشکل پرمومن کو اجر ملتا ہے ۔ ایک بیماری مسلمان کی عیادت بھی اللہ کے قریب کاذریعہ بن جاتی ہے ۔
دوسری طرف کسی مسلمان پر ظلم انسان کےمقدرکو تاریک کردیتا ہے ۔ظلم ظلمات (اندھیروں )کےمترادف ہے ۔ ایک مسلمان جانتا ہےکہ اسےکسی پرظلم کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے اپنے رب کے خزانوں سےحاصل کرسکتا ہے ۔ مال یادنیا کی کسی نعمت کےحوالے سے اسے خوف اورعدم اطمینان کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اگر وہ بہت زیادہ برکات چاہتاہے تو مسلمان بھائیوں پر خرچ کرے، عافیت چاہتا ہے تومسلمان بھائیوں کی تکلیفیں دور کرے ۔ ان کو دکھ دینے سے بچے کیونکہ ظلم وزیادتی کرنے سے اس کی اپنی نیکیاں دوسروں کو ملنے لگیں گی اور اس کا دامن خالی رہ جائے گا ۔ مسلمان دوسرے مسلمان کی ہر صورت میں مدد کرے ، اسے ظلم سے بچائے ،اگر وہ ظالم ہے تو اسے ظلم سے روکے ۔
رحم دلی بہت بڑی نعمت ہے ۔ اللہ بے پناہ رحم کرنے والا ہے ۔ نرمی اوررحم دلی کو پسند فرماتا ہے ۔رحم دلی پر اتنا کچھ عطا کرتا ہے کہ کسی اور بات پر اتنا عطا نہیں کرتا ۔ مسلمان کی رحم دلی کادائرہ انسانوں سے آگے تمام جانداروں تک وسیع ہوتا ہے ۔ وہ غصے میں کسی جانور پر بھی لعنت نہیں کرتا۔ مخلوقات میں سب سےزیادہ رحمدل رسولﷺ ہیں ۔ آپ نے اپنی بددعا اورکسی مسلمان کے حق میں استعمال کیے جانے والے سخت الفاظ کو بھی اللہ سے ان کے حق میں دعا بنا دینے کی التجا کی ہے ۔
مسلمانوں کے ساتھ نرمی اورباہمی مودت کو فروغ دینا اتنا اہم ہے کہ اس کےلیے جوباتیں بظاہرخلاف واقع نظرآتی ہیں لیکن دومسلمانوں کو ایک دوسرے کےقریب کرسکتی ہیں، ان کی اجازت ہے ۔ اوربرترین شخص اسےقراردیاگیا جومختلف چہروں کے ساتھ مختلف لوگوں کو ملتا ہے اور ان کے درمیان نفرت کابیج بوتا ہے ۔ اگر کسی مسلمان میں کوئی کمزوری موجود ہے تو اس کاتذکرہ زبان پر لانا بھی ممنوع ہے ،یہی غیبت ہے ۔ سچائی باہمی محبت کو فروغ دیتی ہے اورجھوٹ نفرت پھیلاتا ہے ۔ا گرمسلمانوں کےعیب چھپاتے ہوئے ان کی اچھائیوں کےبارےمیں سچ بولا جائے تومعاشرہ امن کاگہوارہ بن سکتا ہے ۔ رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو غصہ قابو میں رکھنے کی تعلیم دی ہے کیونکہ غصہ باہمی تعلقات کو تباہ کرتا ہے ۔ غصے پر قابو پانا اگرچہ مشکل ہوتاہے کیونکہ یہ انسان کےمزاج میں موجود ہے ،لیکن اس کو قابو میں رکھنا انسان کوطاقت وربناتا ہے ،اسے مخلوق کامحبوب بناتا ہے ۔ اگرتادیب کےلیے سزا دینانا گزیر ہو جائے تو بھی دوسرے کی عزت نفس کو بچانا ضروری ہے ۔ کسی کو منہ پر مارنا ممنوع ہے ۔ کسی کو غیر ضروری طور پر اذیت میں مبتلا کرنا اللہ کےعذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ کسی مسلمان کی طرف ہتھیار سے اشارہ تک کرنے کی اجازت نہیں ۔ ہتھیار ہاتھ میں ہوتو اس طرح کہ اس کانشانہ بنانے والاحصہ اپنے ہاتھ میں ہو، کسی دوسرے کی طرف اٹھا ہوانہ ہو۔ اذیت پہنچانےوالی چیز کو راستے سےدور کرنا بھی نجات کاسبب بن سکتا ہے۔
کبر،اپنی نیکی پرعجب دوسروں کےبارےمیں ایسے تبصرے جودوسروں کو نجات سےمحروم کرنے کے حوالے سےکیےجائیں یاایسے معمولی الفاظ بھی ،جن میں تمام انسانوں کی ہلاکت کاتذکرہ ہو،ممنوع ہیں۔
ہمسایے کے ساتھ خصوصی حسن سلوک سب سے بشاشت کے ساتھ ملنا، دوسروں کاحق دلانے یاجائز ضرورت پوری کرنے کےلیے سفارش کرنا، سب مسلمانوں کی صفات میں شامل ہیں ۔ اوراولاد میں سے نسبتا کمزور خصوصا بیٹیوں سےحسن سلوک بہت بڑی نیکی ہے ۔ والدین کےدلوں میں اللہ نے اولاد کے لیے جومحبت اورشفقت رکھی ہے وہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ اس حوالے سے کسی مومن کو صدمہ پہنچتا ہے ، اس کےبچے اس سے لے لیے جاتے ہیں تو اسے اس پر صبر کرنے کے بدلے میں جنت عطا کی جاتی ہے ۔
یہ حسن معاشرت کےآداب ہیں ۔ جوان کو اپنا لیتا ہے وہ اللہ کامحبوب بن جاتا ہے ۔جواللہ کامحبوب بن جائے وہ فرشتوں اورتمام کائنات کو پیارا ہوتاہے ، اچھے لوگوں کی روحیں بھی اچھائی کی بناپر ایک دوسرے سےمحبت کرتی ہیں ۔ اللہ اور اس کی مخلوق سے محبت رکھنے میں اتنی قوت ہے کہ انسان کو آخرت میں بھی اچھے لوگوں سے دلی محبت کی بنا پر انہی کا ساتھ نصیب ہوگا ۔ جس کے حسن اخلاق کی لوگ دنیا میں تعریف کریں، اللہ اس تعریف کو اس کے لیے آخرت کے انعامات کی پیشگی خوش خبری قرار دیتا ہے ۔
ولید بن ولید نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کی کہ ان کو مکہ مکرمہ کے راستے میں ایک بدوی شخص ملا، حضرت عبداللہ ؓ نے ان کو سلام کیا اور جس گدھے پر خود سوار ہوتے تھے اس پر اسے بھی سوار کر لیا اور اپنے سر پر جو عمامہ تھا وہ اتار کر اس کے حوالے کر دیا۔ ابن دینار نے کہا: ہم نے ان سے عرض کی: اللہ تعالیٰ آپ کو ہر نیکی کی توفیق عطا فرمائے! یہ بدو لوگ تھوڑے دیے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ تو حضرت عبداللہ (بن عمر) رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: اس شخص کا والد حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کا محبوب دوست تھا اور میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپﷺ فرما رہے تھے: ’’والدین کے ساتھ بہترین سلوک ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک ہے جن کے ساتھ اس کے والد کو محبت تھی۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن دینار رحمۃ اللہ علیہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ایک اعرابی انہیں مکہ کے راستہ میں ملا تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے سلام کہا اور گدھے پرسوارتھے، وہ اسے سواری کے لیے دے دیا اور اسے اپنے سر والی پگڑی عنایت کی، ابن دینار رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، چنانچہ میں نے ان سے کہا، اللہ تعالیٰ آپ کےحالات درست رکھے، یہ جنگلی لوگ ہیں اور یہ لوگ معمولی چیز پر بھی خوش ہوجاتے ہیں تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا، اس کا باپ، عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دوست تھا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے، ’’سب سے بڑی وفاداری اور نیکی یہ ہے کہ اولاد اپنے باپ سے محبت کرنے والوں سے تعلق رکھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
ودياود: محبت و مودت کو کہتے ہیں اور یہاں مراد، محبت کرنے والا دوست ہے۔
فوائد ومسائل
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، باپ کی خدمت اور حسن سلوک کی ایک اعلیٰ قسم یہ ہے کہ اس کی وفات کے بعد اس کے دوستوں کے ساتھ احترام و اکرام اور محبت و مودت کا تعلق رکھا جائے اور باپ کی دوستی و محبت کا حق ادا کیا جائے اور اس میں انسان کی ماں بھی داخل ہے، کیونکہ سنن کی روایت میں ماں باپ دونوں کے اہل قرابت کے ساتھ حسن سلوک اور اہل محبت کے اکرام و احترام کو اولاد پر ماں باپ کے مرنے کے بعد ان کا حق بتایا گیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn Dinar reported that a desert Arab met 'Abdullah bin 'Umar on the way to Makkah. 'Abdullah greeted him and mounted him upon the donkey on which he had been riding and gave him the turban that he had on his head. Ibn Dinar (further) reported: We said to him ('Abdullah bin 'Umar): May Allah do good to you, these are desert Arabs and they are satisfied even with meagre (things). Thereupon 'Abdullah said: His father was loved dearly by 'Umar bin Khattib and I heard Allah's Messenger (ﷺ) as saying: The finest act of goodness on the part of a son is to treat kindly the loved ones of his father.