Muslim:
The Book of Virtue, Enjoining Good Manners, and Joining of the Ties of Kinship
(Chapter: The Prohibition Of Oppression)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2577.
مروان بن محمد دمشقی نے کہا: ہمیں سعید بن عبدالعزیز نے ربیعہ بن یزید سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابو ادریس خولانی سے، انہوں نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے ایک ایسی روایت بیان کی جو آپ نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے بیان کی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’میرے بندو! میں نے ظلم کرنا اپنے اوپر حرام کیا ہے اور تمہارے درمیان بھی اسے حرام قرار دیا ہے، اس لیے تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ میرے بندو! تم سب کے سب گمراہ ہو، سوائے اس کے جسے میں ہدایت دے دوں، اس لیے مجھ سے ہدایت مانگو، میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ میرے بندو! تم سب کے سب بھوکے ہو، سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں، اس لیے مجھ سے کھانا مانگو، میں تمہیں کھلاؤں گا۔ میرے بندو! تم سب کے سب ننگے ہو، سوائے اس کے جسے میں لباس پہناؤں، لہذا مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں لباس پہناؤں گا۔ میرے بندو! تم دن رات گناہ کرتے ہو اور میں ہی سب کے سب گناہ معاف کرتا ہوں، سو مجھ سے مغفرت مانگو میں تمہارے گناہ معاف کروں گا۔ میرے بندو! تم کبھی مجھے نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھو گے کہ مجھے نقصان پہنچا سکو، نہ کبھی مجھے فائدہ پہنچانے کے قابل ہو گے کہ مجھے فائدہ پہنچا سکو۔ میرے بندو! اگر تمہارے پہلے والے اور تمہارے بعد والے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن سب مل کر تم میں سے ایک انتہائی متقی انسان کے دل کے مطابق ہو جائیں تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا۔ میرے بندو! اگر تمہارے پہلے والے اور تمہارے بعد والے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن سب مل کر تم میں سے سب سے فاجر آدمی کے دل کے مطابق ہو جائیں تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن سب مل کر ایک کھلے میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کو اس کی مانگی ہوئی چیز عطا کر دوں تو اس سے جو میرے پاس ہے، اس میں اتنا بھی کم نہیں ہو گا جو اس سوئی سے (کم ہو گا) جو سمندر میں ڈالی (اور نکال لی) جائے۔‘‘ سعید نے کہا: ابوادریس خولانی جب یہ حدیث بیان کرتے تو اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے۔
رسالت مآبﷺ نے’’برّ‘‘کےبارےمیں فرمایا کہ یہ حسن سلوک کانام ہے ۔حسن کادائرہ والدین سےشروع ہوکر عام مسلمانوں بلکہ جانوروں تک وسیع ہے ۔حسن سلوک کےسب سےزیادہ مستحق والدین ہیں، اس لیے جب خالی برکانام لیا جائے تواس سے عموما والدین کےساتھ حسن سلوک مراد لیا جاتا ہے ، اگرچہ حقیقت میں اس صفت سےمتصف انسان درجہ بدرجہ سب کے ساتھ حسن سلوک کرنےوالا ہوتاہے ۔
’’صلہ‘‘سےمراد صلہ رحمی ہے ۔ بِرّکےساتھ صلہ کاذکر رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت اجاگر کرنے کےلیے کیا جاتا ہے ۔بعض حضرات نے اس کتاب کاعنوان ’’کتاب الادب ‘‘بھی تجویز کیاہے ۔ اس کاسبب یہ ہےکہ اس کتاب میں حسن معاشرت ہی کےآداب بیان ہوئے ہیں ۔
امام مسلم نےکتاب کا آغاز والدہ کے ساتھ حسن سلوک سےکیا ہے کیونکہ اسلام میں وہ حسن سلوک کی سب سےزیادہ حقدار ہے ۔ اس کےبعد والد ہے ۔والدین کے ساتھ حسن سلوک جہاد سے بھی مقدم ہے بلکہ رسول اللہﷺ کے الفاظ ’’ففيهمافجاهد ‘‘’’ان دونوں (کی خدمت بجالانے ) میں جہاد کرو ‘‘(حدیث :6504) سےواضح ہوتاہے کہ خدمت والدین جہاد سےبھی مقدم ہے ۔
والدین کےساتھ حسن سلوک کی اہمیت اس قدر ہے کہ ان کے بلانے پر نفل نماز تک توڑدینا ضروری ہے ۔ اللہ کی رضا کےلیے والدین کو راضی رکھنے کا اجر اتنا ہے کہ رسول اللہﷺ نے اس سےمحروم رہ جانے والے کو سب سےزیادہ بد قسمت اورعزت سے محروم انسان قرار دیا ہے ۔ والدین کےبعد ان کےدوستوں کے ساتھ حسن سلوک بھی ’’أبرالبر‘‘(سب سےاونچے درجے کاحسن سلوک )قرار دیا گیا ہے ۔
اس کے بعد رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک آتا ہے۔قطع رحمی تباہ کرنے والا جرم ہے۔ اس کی بنا پر انسان کا اپنے رب سے بھی تعلق قطع ہوجاتا ہے ۔صلہ رحمی رزق میں کشادگی کاذریعہ بھی ہے۔ عام طورپر انسان یہ سمجھتا ہے کہ اگروہ قطع رحمی کر رہا ہے تو اب وہ بھی جواباقطع تعلق پرمعذور ہوگا لیکن رسول اللہﷺ نےواضح فرمایا ہے کہ قطع رحمی کامقابلہ صلہ رحمی ہی کےذریعے سےہو سکتا ہے۔ جوشخص قطع رحمی کے جواب میں صلہ رحمی کرتا ہے وہ دوسرے فریق کو تپتی ہوئی راکھ کاسفوف کھلا کر ان کاعلاج کر رہا ہے اورجب تک یہ صلہ رحمی کرتا رہتا ہے اسے اللہ کی طرف سے ایک مدد گار میسر رہتا ہے جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا، اس کے ہوتے ہوئے کوئی اس شخص کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
اس کے بعد عام مسلمانوں کے ساتھ حسن سلوک کابیان ہے ۔ اس کی بنیاد اس پر ہے کہ مسلمان باہمی حسد،بغض ،اعراض اورقطع تعلق سے پرہیز کرتے ہوئے اللہ کےساتھ بندگی کےرشتے کی بنا پر ایک دوسرے کے بھائی بن کر رہیں ۔ رسول اللہﷺ تین دن سےزیادہ ایک مسلمان کی دوسرے سےناراضی کو حرام قراردیتے ہیں۔ آپ کے فرمان کےمطابق افضل وہی ہے جوصلح میں ابتداء کرتاہے ۔آپ نے اس رشتے کو مضبوط بنانے کے لیے اس بات کی تعلیم دی ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کی برائیاں نہ ڈھونڈھیں ، تجسس سےکام نہ لیں ،نہ دوسرے مسلمان پرظلم کریں، نہ اسے ظلم کےسپرد کریں اورنہ اسے خود سےکم تر سمجھیں۔ ہر مسلمان کاخون انتہائی قابل احترام ہے ۔ آپﷺ نے ا سی کو تقویٰ قرار دیا ہے اورواضح فرمایا ہے کہ تقویٰ کاتعلق دل سے ہے ۔ دل کی نیک جذبات سےمعمور ہے توانسان متقی ہے ۔ اللہ تعالیٰ انسان کی شکل وصورت اوراس کے مال کو نہیں دیکھتا جس پرعموما اتراتے ہیں وہ دلوں اوراعمال کو دیکھتا ہے اورپاکیزہ دل رکھنے والوں اورنیک اعمال کرنےوالوں کو محبوب رکھتا ہے ۔
مسلمان کی باہمی عداوت بخشش میں رکاوٹ بن جاتی ہے ،اوراللہ کے لیے باہم محبت عظیم ترین انعام کامستحق بنا دیتی ہے ۔ اس سےدنیا میں بھی عزت اورآرام میسر آتا ہے اورآخرت میں بھی اللہ کےعرش کاسایہ نصیب ہوتا ہے ۔
دل کے اچھے جذبات کاتقاضا ہے کہ مسلمان دوسرے مسلمان کی عافیت اورصحت وسلامتی کاطلب گار ہو۔ بیماری اور دوسری تکالیف انہی مومنوں کے حصے میں آتی ہیں جو اللہ کےبہت قریب ہوتے ہیں ۔ ہرمشکل پرمومن کو اجر ملتا ہے ۔ ایک بیماری مسلمان کی عیادت بھی اللہ کے قریب کاذریعہ بن جاتی ہے ۔
دوسری طرف کسی مسلمان پر ظلم انسان کےمقدرکو تاریک کردیتا ہے ۔ظلم ظلمات (اندھیروں )کےمترادف ہے ۔ ایک مسلمان جانتا ہےکہ اسےکسی پرظلم کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے اپنے رب کے خزانوں سےحاصل کرسکتا ہے ۔ مال یادنیا کی کسی نعمت کےحوالے سے اسے خوف اورعدم اطمینان کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ۔ اگر وہ بہت زیادہ برکات چاہتاہے تو مسلمان بھائیوں پر خرچ کرے، عافیت چاہتا ہے تومسلمان بھائیوں کی تکلیفیں دور کرے ۔ ان کو دکھ دینے سے بچے کیونکہ ظلم وزیادتی کرنے سے اس کی اپنی نیکیاں دوسروں کو ملنے لگیں گی اور اس کا دامن خالی رہ جائے گا ۔ مسلمان دوسرے مسلمان کی ہر صورت میں مدد کرے ، اسے ظلم سے بچائے ،اگر وہ ظالم ہے تو اسے ظلم سے روکے ۔
رحم دلی بہت بڑی نعمت ہے ۔ اللہ بے پناہ رحم کرنے والا ہے ۔ نرمی اوررحم دلی کو پسند فرماتا ہے ۔رحم دلی پر اتنا کچھ عطا کرتا ہے کہ کسی اور بات پر اتنا عطا نہیں کرتا ۔ مسلمان کی رحم دلی کادائرہ انسانوں سے آگے تمام جانداروں تک وسیع ہوتا ہے ۔ وہ غصے میں کسی جانور پر بھی لعنت نہیں کرتا۔ مخلوقات میں سب سےزیادہ رحمدل رسولﷺ ہیں ۔ آپ نے اپنی بددعا اورکسی مسلمان کے حق میں استعمال کیے جانے والے سخت الفاظ کو بھی اللہ سے ان کے حق میں دعا بنا دینے کی التجا کی ہے ۔
مسلمانوں کے ساتھ نرمی اورباہمی مودت کو فروغ دینا اتنا اہم ہے کہ اس کےلیے جوباتیں بظاہرخلاف واقع نظرآتی ہیں لیکن دومسلمانوں کو ایک دوسرے کےقریب کرسکتی ہیں، ان کی اجازت ہے ۔ اوربرترین شخص اسےقراردیاگیا جومختلف چہروں کے ساتھ مختلف لوگوں کو ملتا ہے اور ان کے درمیان نفرت کابیج بوتا ہے ۔ اگر کسی مسلمان میں کوئی کمزوری موجود ہے تو اس کاتذکرہ زبان پر لانا بھی ممنوع ہے ،یہی غیبت ہے ۔ سچائی باہمی محبت کو فروغ دیتی ہے اورجھوٹ نفرت پھیلاتا ہے ۔ا گرمسلمانوں کےعیب چھپاتے ہوئے ان کی اچھائیوں کےبارےمیں سچ بولا جائے تومعاشرہ امن کاگہوارہ بن سکتا ہے ۔ رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو غصہ قابو میں رکھنے کی تعلیم دی ہے کیونکہ غصہ باہمی تعلقات کو تباہ کرتا ہے ۔ غصے پر قابو پانا اگرچہ مشکل ہوتاہے کیونکہ یہ انسان کےمزاج میں موجود ہے ،لیکن اس کو قابو میں رکھنا انسان کوطاقت وربناتا ہے ،اسے مخلوق کامحبوب بناتا ہے ۔ اگرتادیب کےلیے سزا دینانا گزیر ہو جائے تو بھی دوسرے کی عزت نفس کو بچانا ضروری ہے ۔ کسی کو منہ پر مارنا ممنوع ہے ۔ کسی کو غیر ضروری طور پر اذیت میں مبتلا کرنا اللہ کےعذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ کسی مسلمان کی طرف ہتھیار سے اشارہ تک کرنے کی اجازت نہیں ۔ ہتھیار ہاتھ میں ہوتو اس طرح کہ اس کانشانہ بنانے والاحصہ اپنے ہاتھ میں ہو، کسی دوسرے کی طرف اٹھا ہوانہ ہو۔ اذیت پہنچانےوالی چیز کو راستے سےدور کرنا بھی نجات کاسبب بن سکتا ہے۔
کبر،اپنی نیکی پرعجب دوسروں کےبارےمیں ایسے تبصرے جودوسروں کو نجات سےمحروم کرنے کے حوالے سےکیےجائیں یاایسے معمولی الفاظ بھی ،جن میں تمام انسانوں کی ہلاکت کاتذکرہ ہو،ممنوع ہیں۔
ہمسایے کے ساتھ خصوصی حسن سلوک سب سے بشاشت کے ساتھ ملنا، دوسروں کاحق دلانے یاجائز ضرورت پوری کرنے کےلیے سفارش کرنا، سب مسلمانوں کی صفات میں شامل ہیں ۔ اوراولاد میں سے نسبتا کمزور خصوصا بیٹیوں سےحسن سلوک بہت بڑی نیکی ہے ۔ والدین کےدلوں میں اللہ نے اولاد کے لیے جومحبت اورشفقت رکھی ہے وہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ اس حوالے سے کسی مومن کو صدمہ پہنچتا ہے ، اس کےبچے اس سے لے لیے جاتے ہیں تو اسے اس پر صبر کرنے کے بدلے میں جنت عطا کی جاتی ہے ۔
یہ حسن معاشرت کےآداب ہیں ۔ جوان کو اپنا لیتا ہے وہ اللہ کامحبوب بن جاتا ہے ۔جواللہ کامحبوب بن جائے وہ فرشتوں اورتمام کائنات کو پیارا ہوتاہے ، اچھے لوگوں کی روحیں بھی اچھائی کی بناپر ایک دوسرے سےمحبت کرتی ہیں ۔ اللہ اور اس کی مخلوق سے محبت رکھنے میں اتنی قوت ہے کہ انسان کو آخرت میں بھی اچھے لوگوں سے دلی محبت کی بنا پر انہی کا ساتھ نصیب ہوگا ۔ جس کے حسن اخلاق کی لوگ دنیا میں تعریف کریں، اللہ اس تعریف کو اس کے لیے آخرت کے انعامات کی پیشگی خوش خبری قرار دیتا ہے ۔
مروان بن محمد دمشقی نے کہا: ہمیں سعید بن عبدالعزیز نے ربیعہ بن یزید سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابو ادریس خولانی سے، انہوں نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے ایک ایسی روایت بیان کی جو آپ نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے بیان کی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’میرے بندو! میں نے ظلم کرنا اپنے اوپر حرام کیا ہے اور تمہارے درمیان بھی اسے حرام قرار دیا ہے، اس لیے تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ میرے بندو! تم سب کے سب گمراہ ہو، سوائے اس کے جسے میں ہدایت دے دوں، اس لیے مجھ سے ہدایت مانگو، میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ میرے بندو! تم سب کے سب بھوکے ہو، سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں، اس لیے مجھ سے کھانا مانگو، میں تمہیں کھلاؤں گا۔ میرے بندو! تم سب کے سب ننگے ہو، سوائے اس کے جسے میں لباس پہناؤں، لہذا مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں لباس پہناؤں گا۔ میرے بندو! تم دن رات گناہ کرتے ہو اور میں ہی سب کے سب گناہ معاف کرتا ہوں، سو مجھ سے مغفرت مانگو میں تمہارے گناہ معاف کروں گا۔ میرے بندو! تم کبھی مجھے نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھو گے کہ مجھے نقصان پہنچا سکو، نہ کبھی مجھے فائدہ پہنچانے کے قابل ہو گے کہ مجھے فائدہ پہنچا سکو۔ میرے بندو! اگر تمہارے پہلے والے اور تمہارے بعد والے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن سب مل کر تم میں سے ایک انتہائی متقی انسان کے دل کے مطابق ہو جائیں تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا۔ میرے بندو! اگر تمہارے پہلے والے اور تمہارے بعد والے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن سب مل کر تم میں سے سب سے فاجر آدمی کے دل کے مطابق ہو جائیں تو اس سے میری بادشاہت میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔ میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور تمہارے پچھلے اور تمہارے انسان اور تمہارے جن سب مل کر ایک کھلے میدان میں کھڑے ہو جائیں اور مجھ سے مانگیں اور میں ہر ایک کو اس کی مانگی ہوئی چیز عطا کر دوں تو اس سے جو میرے پاس ہے، اس میں اتنا بھی کم نہیں ہو گا جو اس سوئی سے (کم ہو گا) جو سمندر میں ڈالی (اور نکال لی) جائے۔‘‘ سعید نے کہا: ابوادریس خولانی جب یہ حدیث بیان کرتے تو اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ نے نبی اکرم ﷺ سے روایت کی ہے اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’اے میرے بندو! میں نے ظلم اپنے اوپر حرام کیا ہے اور میں نے اسے تمہارے درمیان بھی حرام ٹھہرایا ہے لہٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو، اے میرے بندو! تم تمام راہ راست سے ہٹے ہوئے ہو، مگر جس کو میں راہ یاب کروں، اس لیے مجھ سے ہدایت طلب کرو میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو مگر جس کو میں کھلادوں، ا س لیےمجھ سے کھانا مانگو، میں تمہیں کھانا کھلاوں گا، اےمیرےبندو! تم سب دن رات گناہ، قصور کرتے ہو اور میں سب گناہ معاف کرتا ہوں، لہٰذا سب مجھ سے بخشش طلب کرو،میں تمہیں معاف کروں گا۔ اے میرے بندو! تم سب مجھےنقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے کہ مجھے نقصان پہنچا سکواورنہ مجھے نفع پہنچانے کی سکت تک پہنچ سکو گے کہ مجھے نفع پہنچاؤ۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور پچھلے تم میں سے انسان اور جن تم میں سے سب سے متقی آدمی کے دل والے ہو جائیں اس سے میرے اقتدار میں کچھ اضافہ نہیں ہو گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور پچھلے تم میں سے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ بدکار دل کے آدمی جیسے ہو جائیں، ا س سے میرے اقتدار میں کچھ کمی واقع نہیں ہو گی۔ اے میرے بندو! اگر تم میں سے پہلے اور پچھلے تم میں سے انسان اور جن، ایک میدان میں کھڑے ہو کر مجھ سے مانگنے لگیں، چنانچہ میں ہر فرد کا مطالبہ پورا کر دوں تومیرے خزانوں میں صرف اتنی کمی ہو کی، جتنی سوئی کوسمندر میں ڈالنے سے کمی ہو، اےمیرے بندو! یہ تو تمہارے اعمال ہی ہیں جن کومیں تمہارے لیے محفوظ کر رہا ہوں۔ پھر وہ پورے پورے تمہیں دے دوں گا۔ پس جس کوخیر ملے وہ اللہ کا شکر ادا کرے۔ اور جس کو اس کے سوا ملے وہ اپنے آپ ہی کوملامت کرے۔‘‘ سعید کہتے ہیں حضرت ابوادریس خولانی رحمۃ اللہ جب یہ روایت بیان کرتے تو گھٹنوں کے بل کھڑے ہو جاتے۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي: میں نے اپنے لیے یہ اصول اور ضابطہ بنا رکھا ہے کہ میں کسی پر ظلم (حق تلفی) نہیں کروں گا۔ کیونکہ میں ظلم کرنے سے بہت بلند و بالا ہوں اور میں نے تمہیں بھی اس کا حکم دیا ہے، کیونکہ تم مامور (حکم کے پابند) ہو۔ (2) يَنْقُصُ الْمِخْيَطُ: جتنا سوئی کم کرتی ہے، یعنی جس طرح سوئی سمندر کے پانی میں کوئی کمی نہیں کرتی اسی طرح میں ہر انسان کا مطالبہ پورا کر دوں تو میرے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور یہ بات محض تفہیم (سمجھانے) کے لیے ہے، وگرنہ سمندر کا پانی محدود ہے، اس لیے اس میں کمی کا امکان ہے اور اللہ تعالیٰ کے خزانے لامحدود ہیں، اس لیے ان میں کمی کا امکان نہیں ہے۔ (3) الْمِخْيَطُ: سوئی۔
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہے، انسان کو جو کچھ بھی ملتا ہے، وہ اللہ کی توفیق اور عنایت سے ملتا ہے، اپنی قوت و طاقت یا فہم و فراست کے بل بوتہ پر وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتا، اس لیے ہر چیز کی توفیق و عنایت کی درخواست یا اپیل اللہ ہی سے کرنا چاہیے، اسباب و وسائل سے بالاتر ہو کر کسی اور سے درخواست کرنا اور مانگنا جائز نہیں ہے اور انسان کی نیکی و بدی، یا خیروشر سے اللہ کے اقتدار میں کوئی کمی و بیشی نہیں ہوتی ہے اور نہ اس کو نفع یا نقصان پہنچتا ہے، انسان کی نیکی اور بدی کا اثر، نفع یا نقصان اسی کو پہنچتا ہے اور اس کی کامیابی و ناکامی کا مدار اس کے اپنے ہی اعمال ہیں، اگر نیک عمل قبول ہو گئے تو یہ اس کا فضل و کرم ہے اور اگر بداعمالیوں پر مواخذہ ہوا تو یہ اس کا عدل و انصاف ہے، اس لیے انسان کو اپنے رویہ کا ہر وقت محاسبہ کرتے رہنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Dharr (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying that Allah, the Exalted and Glorious, said: My servants, I have made oppression unlawful for Me and unlawful for you, so do not commit oppression against one another. My servants, all of you are liable to err except one whom I guide on the right path, so seek right guidance from Me so that I should direct you to the right path. O My servants, all of you are hungry (needy) except one whom I feed, so beg food from Me, so that I may give that to you. O My servants, all of you are naked (need clothes) except one whom I provide garments, so beg clothes from Me, so that I should clothe you. O My servants, you commit error night and day and I am there to pardon your sins, so beg pardon from Me so that I should grant you pardon. O My servants, you can neither do Me any harm nor can you do Me any good. O My servants, even if the first amongst you and the last amongst you and even the whole of human race of yours, and that of jinns even, become (equal in) God-conscious like the heart of a single person amongst you, nothing would add to My Power. O My servants, even if the first amongst you and the last amongst you and the whole human race of yours and that of the Jinns too in unison become the most wicked (all beating) like the heart of a single person, it would cause no loss to My Power. O My servants, even if the first amongst you and the last amongst you and the whole human race of yours and that of jinns also all stand in one plain ground and you ask Me and I confer upon every person what he asks for, it would not. in any way, cause any loss to Me (even less) than that which is caused to the ocean by dipping the needle in it. My servants, these for you I shall reward you for thern, so he who deeds of yours which I am recording finds good should praise Allah and he who does not find that should not blame anyone but his ownself. Sa'id said that when Abu Idris Khaulini narrated this hadith he knelt upon his knees.