Muslim:
The Book of Purification
(Chapter: Cleaning oneself after relieving oneself)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
264.
زہیر بن حرب اور ابن نمیر دونوں نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے حدیث سنائی، نیز یحییٰ بن یحییٰ نے ہمیں حدیث سنائی (الفاظ انہی کے ہیں) کہا: میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا: کیا آپ نے زہری سے سنا، کہ انہوں نے عطاء بن یزید لیثی سے، انہوں نے حضرت ابو ایوب سے روایت کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم قضائے حاجت کی جگہ پر آؤ، تو نہ قبلے کی طرف منہ کرو اور نہ اس کی طرف پشت کرو، پیشاب کرنا ہو یا پاخانہ، بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کیا کرو۔‘‘ ابو ایوب ؓنے کہا: ہم شام گئے، تو ہم نے بیت الخلا قبلہ رخ بنے ہوئے پائے، ہم اس سے رخ بدلتے اور اللہ سے معافی طلب کرتے تھے۔ (سفیان نے) کہا: ہاں۔
اسلام میں طہارت اور پاکیزگی کی اہمیت وفضیلت
طہارت کا مطلب ہے صفائی اور پاکیز گی۔ یہ نجاست کی ضد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بعثت کے بعد آغاز کار میں جو احکام ملے اور جن کا مقصود اگلے مشن کے لیے تیاری کرنا اور اس کے لیے مضبوط بنیادیں فراہم کرنا تھا، وہ ان آیات میں ہیں: يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ (1) قُمْ فَأَنْذِرْ (2) وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ (3) وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (4) وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ (5) وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ (6) وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ (7) ”اے موٹا کپڑا لپیٹنے والے! اٹھیے اور ڈرایئے، اپنے رب کی بڑائی بیان کیجیے، اپنے کپڑے پاک رکھیے، پلیدی (بتوں) سے دور رہے، (اس لیے ) احسان نہ کیجیے کہ زیادہ حاصل کریں اور اپنے رب کی رضا کے لیے صبر کیجیے‘‘ (المدثر 71
اسلام کے ان بنیادی احکام میں کپڑوں کو پاک رکھنے اور ہر طرح کی جسمانی، اخلاقی اور روحانی ناپاکی سے دور رہنے کا حکم ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ سے تعلق، ہدایت اور روحانی ارتقا کا سفر طہارت اور پاکیزگی سے شروع ہوتا ہے جبکہ گندگی تعفن اورغلاظت شیطانی صفات ہیں اور ان سے گمراہی ، ضلالت اور روحانی تنزل کا سفر شروع ہوتا ہے۔
وُضُوْ، وَضَائَة سے ہے جس کے معنی نکھار اور حسن و نظافت کے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالی کے سامنے حاضری کی تیاری یہی ہے کہ انسان نجس نہ ہو، طہارت کی حالت میں ہو اور مسنون طریقہ وضو سے اپنی حالت کو درست کرے اور خود کو سنوارے۔ وضوسے جس طرح ظاہری اعضاء صاف اور خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح روحانی طور پر بھی انسان صاف ستھرا ہو کر نکھر جاتا ہے۔ ہر عضو کو دھونے سے جس طرح ظاہری کثافت اور میل دور ہوتا ہے بالکل اسی طرح وہ تمام گناہ بھی دھل جاتے ہیں جوان اعضاء کے ذریعے سے سرزد ہوئے ہوں ۔
مومن زندگی بھر اپنے رب کے سامنے حاضری کے لیے وضو کے ذریعے سے جس وَضَائَةَ کا اہتمام کرتا ہے قیامت کے روز وہ مکمل صورت میں سامنے آئے گی اور مومن غَرُّ مُعُجَّلُونَ (چمکتے ہوئے روشن چہروں اور چمکتے ہوئے ہاتھ پاؤں والے) ہوں گے۔
نظافت اور جمال کی یہ صفت تمام امتوں میں مسلمانوں کو ممتاز کرے گی۔ ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ ماہرین صحت جسمانی صفائی کے حوالے سے وضو کے طریقے پرتعجب آمیر تحسین کا اظہار کرتے ہیں ۔ اسلام کی طرح اس کی عبادات بھی بیک وقت دنیا و آخرت اور جسم و روح کی بہتری کی ضامن ہیں۔ الله تعالی کے سامنے حاضری اور مناجات کی تیاری کی یہ صورت ظاہری اور معنوی طور پر انتہائی خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ ہر ایک کے لیے آسان بھی ہے۔ جب وضو ممکن نہ ہو تو اس کا قائم مقام تیمم ہے، یعنی ایسی کوئی بھی صورت حال پیش نہیں آتی جس میں انسان اس حاضری کے لیے تیاری نہ کر سکے۔
زہیر بن حرب اور ابن نمیر دونوں نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے حدیث سنائی، نیز یحییٰ بن یحییٰ نے ہمیں حدیث سنائی (الفاظ انہی کے ہیں) کہا: میں نے سفیان بن عیینہ سے پوچھا: کیا آپ نے زہری سے سنا، کہ انہوں نے عطاء بن یزید لیثی سے، انہوں نے حضرت ابو ایوب سے روایت کی کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم قضائے حاجت کی جگہ پر آؤ، تو نہ قبلے کی طرف منہ کرو اور نہ اس کی طرف پشت کرو، پیشاب کرنا ہو یا پاخانہ، بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کیا کرو۔‘‘ ابو ایوب ؓنے کہا: ہم شام گئے، تو ہم نے بیت الخلا قبلہ رخ بنے ہوئے پائے، ہم اس سے رخ بدلتے اور اللہ سے معافی طلب کرتے تھے۔ (سفیان نے) کہا: ہاں۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ایوب ؓ سے روایت ہے، کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم قضائے حاجت کرنے لگو، تو نہ قبلہ کی طرف منہ کرو! اور نہ اس کی طرف پشت کرو، پیشاب کرنا ہو یا پاخانہ، لیکن مشرق یا مغرب کی طرف منہ کیا کرو۔‘‘ ابو ایوب ؓ نے کہا: ہم شام گئے، تو ہم نے بیت الخلاء قبلہ رخ بنے پائے، تو ہم ان سے انحراف کرتے (پہلو بدلتے) اور اللہ سے معافی طلب کرتے تھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1) شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا: کہ مشرق کی طرف رخ کرو، یا مغرب کی طرف، اس کے مخاطب اہل مدینہ ہیں، کیونکہ ان کا قبلہ مشرق یا مغرب کی سمت میں نہیں پڑتا۔ جن کا قبلہ مشرق یا مغرب ہے، وہ اس کے مخاطب نہیں ہیں۔ (2) مَرَاحِيضَ:مرحاض کی جمع ہے۔ بَيْتُ الْخَلَاء: لیٹرین۔ نَنْحَرِفُ عَنْهَا: کے مختلف معانی کیے گئے ہیں: ہم ان کو استعمال نہ کرتے، جہتِ قبلہ سے انحراف کر لیتے، جہاں تک ممکن ہوتا، پہلو بدل لیتے۔ (3) نَسْتَغْفِرُ اللهَ: انحراف کے باوجود کچھ نہ کچھ قبلہ رخ رہ جانے سے معافی طلب کرتے، مادی گندگی سے گناہ یاد آ جاتے، اس لیے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں۔ شام کے لوگ جنہوں نے یہ مراحیض بنائی تھیں وہ کافر تھے، اس لیے ان کے لیے معافی طلب کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ (قبلہ کی طرف رخ یا پشت کرنے کے بارے میں علماء کی آراء آگے آ رہی ہیں)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Ayyub reported: The Apostle of Allah (ﷺ) said: Whenever you go to the desert, neither turn your face nor turn your back towards the Qibla while answering the call of nature, but face towards the east or the west. Abu Ayyub said: When we came to Syria we found that the latrines already built there were facing towards the Qibla. We turned our faces away from them and begged forgiveness of the Lord. He said: Yes.